انجو، منجو
ثاقبہ رحیم الدین
روشنیوں کے شہر کراچی سے اسی کلو میٹر دور بائیں ہاتھ مڑتے ہی کھیر تھر پارک شروع ہو جاتا ہے۔ وہاں مولٰی بخش نامی ایک محنتی، ایمان دار اور بھلا انسان رہتا تھا۔ بہت دور جا کر چاٹ سینٹر آتا تھا، جہاں مولٰی بخش کام کرتا تھا اور کام بھی کیسا، وہ پارک میں سارا دن صفائی کرتا اور پانی کا چھڑکاؤ کرتا تھا۔ جون کے مہینے میں جب لو چلتی اور سہ پہر میں مولٰی بخش زمیں پر پہلی بار چھڑکاؤ کرتا تو ساری مٹی سے سن سن کی آواز آتی اور گرم بھاپ اٹھتی تھی۔
مولٰی بخش خوش تھا کہ اس کے بھائی (جس کی زمین ضلع دادو میں تھی) نے "حب" کے خاندان میں شادی کی تھی۔ حب کی زمین سے بلوچستان شروع ہوتا ہے۔ مولٰی بخش کا گھر سندھ اور بلوچستان کے بییچوں بیچ پڑتا تھا، اس کے گھر بھائی اور اس کے بچے آتے جاتے رہتے تھے۔ مولٰی بخش کے دو بیٹے انجو اور منجو صحت مند اور ذہین تھے۔
انجو اور منجو کی عمروں میں تقریباً سال بھر کا فرق تھا۔ انجو بڑا اور منجو چھوٹا تھا۔ دونوں میں بڑی محبت تھی۔ دونوں اوپر تلے کے بھائی تھے۔ کھیر تھر کے پارک کے علاقے میں کیسا مدرسہ اور کہاں کا اسکول۔ دور دور تک پھیلی سخت زمین، پتھریلی اور کانٹوں سے بھری جھاڑیاں۔ مولٰی بخش اتنا کما لیتا تھا کہ اس کی بیوی بچے پیٹ بھر کر روٹی کھا لیتے تھے اور رہنے کے لیے ایک کچی پکی حالت میں کوارٹر تھا۔ انجو، منجو اپنے دوستوں کے ساتھ کشتی کشتی، پٹھو گرم، دھوپ چھاؤں، ڈاک ڈاک کس کی ڈاک، پنجو اور گٹے کھیلا کرتے تھے۔ وہاں سارا دن آگ جیسی گرمی رہتی تھی، مگر سورج کے چھپتے ہی ٹھنڈی ہوا چلنے لگتی تھی۔
پیارے منے دوستو! جب سے دنیا بنی ہے۔ بچوں نے ہمیشہ بےزبان جانوروں اور