کوئی ہوگا ہمارے جیسا بھی

تازہ غزل


کوئی ہوگا ہمارے جیسا بھی کیا ضروری ہے ان کو مل جائے
گل تو گل ہے مگر نہیں لازم ان کے گلشن میں آج کھل جائے

یہ تجارت ہے عشق کی اس میں ہم نے سودے کیے ہیں گھاٹے کے
ان کے ہونٹوں پہ لفظ چاہت کے اور بدلے میں اپنا دل جائے

تیرے فن پر نہیں سوال کوئی تو رفو گر ہے اور اچھا ہے
زخم دل کا قصور ہے سارا غیر ممکن ہے اب یہ سل جائے

خانقاہی مزاج ہے میرا میں محبت کے بیج بوتا ہوں
دشمن جاں بھی میری محفل سے ہے عبث اٹھ کے مشتعل جائے

بس " وفا " عشق کی عمارت کا اک اکیلا ستون ہے لوگو
یہ عمارت نہ رہ سکے قائم اپنی جا سے اگر یہ ہل جائے

حسیب احمد حسیب​
 
Top