کوئی سراغ کوئی راستہ نکل آئے

قمرآسی

محفلین
کوئی سراغ کوئی راستہ نکل آئے
مرے ہی ساتھ مرا واسطہ نکل آئے



فقط میں اس لیے تکتا ہوں نازنیوں کو
عجب کیا ان میں کوئی آپ سا نکل آئے



ہمارے قتل میں شامل حبیب ہیں اپنے
سمجھتے کیا تھے انہیں ہم وہ کیا نکل آئے



یہ سوچ کر تری محفل میں آن بیٹھا ہوں
ذرا سی اُن سے سلام و دعا نکل آئے

قصور اس میں برابر ہے تیری آنکھوں کا
اڑا دو سر جو مری ہی خطا نکل آئے



بغیر حرص و ہوس لے چلے جو منزل کو
کوئی تو ایسا بھی اک رہنما نکل آئے

گذار دونگا یہ جیون وہیں قمر آسیؔ
جو اسکے دل میں ذرا سی جگہ نکل آئے
محمدقمرشہزادآسیؔ
 
Top