شکیب جلالی کوئی دیکھے تو سہی یار طرح دار کا شہر

کوئی دیکھے تو سہی یار طرح دار کا شہر
میری آنکھوں میں سجا ہے لب و رخسار کا شہر

دشت احساس میں شعلہ سا کوئی لپکا تھا
اسی بنیاد پہ تعمیر ہوا پیار کا شہر

اس کی ہر بات میں ہوتا ہے کسی بھید کا رنگ
وہ طلسمات کا پیکر ہے کہ اسرار کا شہر

میری نظروں میں چراغاں کا سماں رہتا ہے
میں کہیں جاؤں مرے ساتھ ہے دلدار کا شہر

یوں تری گرم نگاہی سے پگھلتے دیکھا
جس طرح کانچ کا گھر ہو مرے پندار کا شہر

دل کا آفاق سمٹتا ہی چلا جاتا ہے
اور پھیلے گا کہاں تک در و دیوار کا شہر

مسکراتے رہیں سینے کے دہکتے ہوئے داغ
دائم آباد رہے درد کی سرکار کا شہر
شکیب جلالی
 
Top