مقابل ہے آئینہ
تحریر
ناصر علی سید
کوئی اس شہر پشاور سے جدا کیسے ہو
گلی گلی گھر گھر ایک قیامت سی بپا ہے بچھڑنے والوں کا ماتم اس بدقسمت شہر کے روز مرہ کاموں میں شامل ہوگیا ہے ہر حادثے ہر سانحے کے بعد معلوم یہی ہوتا ہے کہ وہ جو شہر ناپرسان کی داستانیں سنی اور پڑھی جاتی تھیں وہ پھر سے زندہ ہوگیا ہے گذشتہ روز ایک میٹرک کی طالبہ سپوگمئی بتا رہی تھی کہ ہماری جونیئر ساتھی اب بریک میں کھیل کود کی بجائے بیٹھ کر ان حادثات پر بات کرتی ہیں بلکہ اب ان کا کھیل یہی رہ گیا کہ وہ ایک دوسرے سے پوچھتی ہیں اگلا دھماکہ کب ہوگا کہاں ہوگا اس کی شدت کیا ہوگی کتنا نقصان ہوگا
کتنے لوگ شہید ہوں گے ‘بچوں میں کچھ تو ان حادثات کے بعد چپ ہوجاتے ہیں کچھ حواس کھوبیٹھتے ہیں اور کچھ اس طرح کے کھیل کھیلنے لگتے ہیں اور ظاہر ہے صدمہ انسانی اعصاب کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے اب تو ان پے بہ پے حادثات نے پشاور کے اعصاب کو بھی مضمحل کردیا ہے اور شہریوں کے بھی کہ اب وہ بات بے بات چیخنے لگے ہیں۔
الجھنے لگے ہیں ‘نفسیاتی مریض بن گئے ہیں مگر کم کم لوگوں کو اتنے بڑے خسارے کا احساس ہے لوگ اسے بھی روزمرہ کے کاموں کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں مگر ایسے حالات میں اس طرح کی الجھنوں کا شکار لوگ پھر حالات کے سدھرنے کے بعد بھی نارمل نہیں ہوتے۔ یہ غصہ یہ دکھ یہ ماتم بچھڑنے والوں کا‘ زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے یوں بھی شکیل بدایونی کی زبان میں کہا جاسکتا ہے کہ
جو جی رہے ہیں انہی کے لئے ہر اک غم ہے
زہے نصیب کہ پھولوں کی زندگی کم ہے
اور دیکھا جائے تو ان حادثات کے شہیدوں میں ایک بہت بڑی تعداد ان پھولوں ہی کی ہے جنہوں نے ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا ابھی ان کی آنکھوں میں مستقبل کے خوابوں کے خدوخال بھی واضح نہیں ہوئے تھے کہ ان سے جینے کا حق چھین لیا گیا جن بچوں کی نگہداشت کیلئے ماں باپ نے اپنی جوانی بڑھانے کے سپرد کردی تھی اور وہ خوش تھے کہ اب یہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوگئے ہیں ان نوجوانوں کو ہاتھ پاؤں ہی سے محروم کرکے پھر سے بوڑھے ماں باپ کی جھولی میں انہیں پھینک دیا گیا۔
ان سارے معصوم شہریوں کے اور ان سارے زندگی بھر کے لئے معذور ہونے والے بے قصور نوجوانوں کے گھروں میں یہ ماتم یہ افسردگی یہ مایوسی کسی ایک دن تک اب محدود نہیں ہے یہ دکھ زندگی بھر چین کا سانس نہیں لینے دے گا اس صدمہ کے دیر پا اثرات ان دنوں گھمبیر صورت اختیار کرچکے ہیں اس حوالے سے سرکاری سطح پر کیا ہورہا ہے۔ سیاسی زعما کیا کررہے ہیں ۔سیاسی منجم اور پنڈت کیا تبصرہ کررہے ہیں ماہرین حرب کے نزدیک اس بھیانک کھیل کا انت کیاہے۔ کون کس کے ایما پر کیا کررہا ہے۔ کس کو نمبر بڑھانے کے لئے آقاؤں کو ان شہادتوں کی تفصیل بتانی ہے کس کو ان کے بدلے اپنے شب و روز کو بہتر بناناہے۔
کس کو محض مذمت کی خبر لگوانی ہے کس کو دھماکے کے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا کلیشے دہرانا ہے۔ کسی کو اتنی توفیق نہیں کہ وہ پشاور کے شہریوں کو دلاسا دینے اونچے ایوان سے نیچے آنے کی زحمت گوارا کرے۔میں نے کہا ناکہ پشاور ہمیشہ ایسے حالات میں اکیلا رہ جاتا ہے۔ اونچے ایوان میں براجمان سب کساروں کو امور مملکت سے بھلا اتنی فرصت کہاں کہ وہ لوگوں کے آنسو پونچھنے اونچے سنگھا سن سے اترآئیں۔ پشاور تو ان کے نزدیک صوبائی مسئلہ ہے وہ تو بھلا ہو میاں افتخار حسین ‘بشیر بلور اور سید عاقل شاہ کا کہ یہ ڈیوٹی انہوں نے نبھائی ہوئی ہے۔
ان کے علاوہ کوئی اور چہرہ یہاں کے باسیوں کو نظر نہیں آیا۔ ان سارے دکھ بھرے حالات میں کوئی بات سوجھتی نہیں کہ اس مسئلہ کا حل ہماری بساط سے باہر کی چیز ہے مگر ہم اپنے اپنے طور پر کیا کرسکتے ہیں یہ سوال ہر درد مند دل میں ضرور اٹھتا ہوگا۔ مگر کسی طور لاؤڈ نہیں ہورہا تھا۔ اس لئے جب سنڈیکیٹ آف رائٹرز کے معمول کے ادبی اجلاس میں پروفیسر ڈاکٹر خالد مفتی نے یہ سوال میز پر رکھا اور چونکہ وہ ذہنی اور نفسیاتی امراض کے حوالے سے ایک عالمی شہرت یافتہ معالج بھی ہیں تو انہوں نے ان صدمات کے نتیجے میں نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا پشاور کے باسیوں اور خصوصاً نئی نسل پر مرتب ہونے والے اثرات کی بات کی اور ساتھ ہی تجویز پیش کی کہ ایک ایسا تھنک ٹینک بنایا جائے جس میں اساتذہ علماء کرام ‘معا لجین ‘ شاعر ادیب‘ وکلاء برادری اور میڈیا کے احباب شامل ہوں جو مقامی ‘ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس مسئلہ کے جلد اور قابل قبول حل کے لئے سرجوڑ کر بیٹھیں اور اپنی تجاویز میز پر رکھیں
احباب نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور گذشتہ روز اس سلسلے کی ایک بھرپور نشست ہوئی جس کے صاحبان صدارت میں شریف فاروق ‘ڈاکٹر محمد اعظم اعظم خواجہ یاور نصیر پیر سجاد شاہ بادشاہ اور ڈاکٹر پروفیسر خالد مفتی شامل تھے اور حاضرین میں سے ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل تھے اس نشست کے آغاز میں جو ابتدائیہ خالد مفتی نے پیش کیا اورساتھ ہی جو ایک مختصر سی ڈاکومنٹری انہوں نے دکھائی اس نے پورے آڈیٹوریم کی آنکھوں میں دھواں بھردیا یہ ان نفسیاتی مریض بچوں کے بارے میں تھی جنہوں نے حالیہ دھماکوں کے صدمات سے اثر لیا تھا۔
وہ بچے جنہوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا اب انہیں مصنوعی طریقوں سے خوراک دی جارہی تھی اور وہ بچے جو سکتے کی کیفیت میں تھے جو چپ ہوگئے تھے اور جو بموں کے ٹکڑے اور لوہے کے اوزار اور ٹکڑے کھلونے کے طور پر مانگ رہے تھے یہ خوبصورت اور معصوم بچے ڈاکٹر خالد مفتی کے ہسپتال ’’عبادت‘‘ میں ان کی کوششوں سے آہستہ آہستہ زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں اس ابتدائیہ کے بعد شہر کے حساس طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں نے اس نئے بننے والے تھنک ٹینک کے حوالے سے اپنی تجاویز دیں اور امن و استحکام کی بحالی کے لئے اپنی خدمات پیش کیں جس کا یک سطر ی ایجنڈا اس پھولوں کے شہر کو پھر سے امن و سکون کا گہوارہ بنانے پر مشتمل تھا
پشاور کے باسیوں کے حوالے سے سارے احباب خواجہ یاور نصیرکی اس بات سے متفق تھے کہ ناقابل بیان کڑے موسموں کے باوجود پشاور کے رہنے والوں کامورال بلند ہے زندہ دلان پشاور نے ان جان لیوا حادثات کے تکلیف دہ دنوں میں بھی اپنا حوصلہ اور اوسان قائم رکھے ہیں اور جن حالات میں لوگ باگ‘ اپنا شہر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ان حالات سے بدترین حالات میں بھی کسی پشاوری نے شہر چھوڑنے کی بات نہیں کی۔
یہ ان کی اپنے شہر اپنی دھرتی اور جنم بھومی سے وہ وابستگی اور کمٹ منٹ ہے جن پر آنے والے سنہرے دنوں میں خود پشاوری بھی فخر کریں گے اور گذشتہ کل جب یہ کہا گیا تھا کہ خدا رکھے پشاور کو ’’پشاور پھر پشاور ہے‘‘ تو یہ بات آج بھی اتنی یہی معتبر ہے اور آنیوالے کل بھی اتنی ہی سچی رہے گی اس تھنک ٹینک کے قیام سے جس کے کنوینر ڈاکٹرخالد مفتی اور ڈاکٹر طارق مفتی ہیں مگر جن کے اراکین میں صحافی‘ ماہرین تعلیم‘ علمائے کرام ‘ وکلائ‘ شعراء اور ادباء اور معالجین شامل ہیں اور جو سنڈیکیٹ آف رائیٹرز اور سماجی خدمات کے حوالے سے معروف و مشہور غیر سرکاری تنظیم ہورائزن انٹرنیشنل کے بینر تلے کام کرے گی جلد ہی ایک امن واک کا اہتمام کیا جائے گا اور جہاں شہدائے کرام کو پھولوں کے نذررانے پیش کئے جائیں گے وہاں پشاوریوں کے اس حوصلے اور ثابت قدمی کو بھی سلام پیش کریں گے کہ وہ اس شہر افسردہ کو چھوڑ کر نہیں گئے۔
راستے رزق کشادہ کے بہت ہیں ناصرؔ
کوئی اس شہر پشاور سے جدا کیسے ہو
Dated : 2009-11-23 00:00:00
تحریر
ناصر علی سید
کوئی اس شہر پشاور سے جدا کیسے ہو
گلی گلی گھر گھر ایک قیامت سی بپا ہے بچھڑنے والوں کا ماتم اس بدقسمت شہر کے روز مرہ کاموں میں شامل ہوگیا ہے ہر حادثے ہر سانحے کے بعد معلوم یہی ہوتا ہے کہ وہ جو شہر ناپرسان کی داستانیں سنی اور پڑھی جاتی تھیں وہ پھر سے زندہ ہوگیا ہے گذشتہ روز ایک میٹرک کی طالبہ سپوگمئی بتا رہی تھی کہ ہماری جونیئر ساتھی اب بریک میں کھیل کود کی بجائے بیٹھ کر ان حادثات پر بات کرتی ہیں بلکہ اب ان کا کھیل یہی رہ گیا کہ وہ ایک دوسرے سے پوچھتی ہیں اگلا دھماکہ کب ہوگا کہاں ہوگا اس کی شدت کیا ہوگی کتنا نقصان ہوگا
کتنے لوگ شہید ہوں گے ‘بچوں میں کچھ تو ان حادثات کے بعد چپ ہوجاتے ہیں کچھ حواس کھوبیٹھتے ہیں اور کچھ اس طرح کے کھیل کھیلنے لگتے ہیں اور ظاہر ہے صدمہ انسانی اعصاب کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے اب تو ان پے بہ پے حادثات نے پشاور کے اعصاب کو بھی مضمحل کردیا ہے اور شہریوں کے بھی کہ اب وہ بات بے بات چیخنے لگے ہیں۔
الجھنے لگے ہیں ‘نفسیاتی مریض بن گئے ہیں مگر کم کم لوگوں کو اتنے بڑے خسارے کا احساس ہے لوگ اسے بھی روزمرہ کے کاموں کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں مگر ایسے حالات میں اس طرح کی الجھنوں کا شکار لوگ پھر حالات کے سدھرنے کے بعد بھی نارمل نہیں ہوتے۔ یہ غصہ یہ دکھ یہ ماتم بچھڑنے والوں کا‘ زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے یوں بھی شکیل بدایونی کی زبان میں کہا جاسکتا ہے کہ
جو جی رہے ہیں انہی کے لئے ہر اک غم ہے
زہے نصیب کہ پھولوں کی زندگی کم ہے
اور دیکھا جائے تو ان حادثات کے شہیدوں میں ایک بہت بڑی تعداد ان پھولوں ہی کی ہے جنہوں نے ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا ابھی ان کی آنکھوں میں مستقبل کے خوابوں کے خدوخال بھی واضح نہیں ہوئے تھے کہ ان سے جینے کا حق چھین لیا گیا جن بچوں کی نگہداشت کیلئے ماں باپ نے اپنی جوانی بڑھانے کے سپرد کردی تھی اور وہ خوش تھے کہ اب یہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوگئے ہیں ان نوجوانوں کو ہاتھ پاؤں ہی سے محروم کرکے پھر سے بوڑھے ماں باپ کی جھولی میں انہیں پھینک دیا گیا۔
ان سارے معصوم شہریوں کے اور ان سارے زندگی بھر کے لئے معذور ہونے والے بے قصور نوجوانوں کے گھروں میں یہ ماتم یہ افسردگی یہ مایوسی کسی ایک دن تک اب محدود نہیں ہے یہ دکھ زندگی بھر چین کا سانس نہیں لینے دے گا اس صدمہ کے دیر پا اثرات ان دنوں گھمبیر صورت اختیار کرچکے ہیں اس حوالے سے سرکاری سطح پر کیا ہورہا ہے۔ سیاسی زعما کیا کررہے ہیں ۔سیاسی منجم اور پنڈت کیا تبصرہ کررہے ہیں ماہرین حرب کے نزدیک اس بھیانک کھیل کا انت کیاہے۔ کون کس کے ایما پر کیا کررہا ہے۔ کس کو نمبر بڑھانے کے لئے آقاؤں کو ان شہادتوں کی تفصیل بتانی ہے کس کو ان کے بدلے اپنے شب و روز کو بہتر بناناہے۔
کس کو محض مذمت کی خبر لگوانی ہے کس کو دھماکے کے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا کلیشے دہرانا ہے۔ کسی کو اتنی توفیق نہیں کہ وہ پشاور کے شہریوں کو دلاسا دینے اونچے ایوان سے نیچے آنے کی زحمت گوارا کرے۔میں نے کہا ناکہ پشاور ہمیشہ ایسے حالات میں اکیلا رہ جاتا ہے۔ اونچے ایوان میں براجمان سب کساروں کو امور مملکت سے بھلا اتنی فرصت کہاں کہ وہ لوگوں کے آنسو پونچھنے اونچے سنگھا سن سے اترآئیں۔ پشاور تو ان کے نزدیک صوبائی مسئلہ ہے وہ تو بھلا ہو میاں افتخار حسین ‘بشیر بلور اور سید عاقل شاہ کا کہ یہ ڈیوٹی انہوں نے نبھائی ہوئی ہے۔
ان کے علاوہ کوئی اور چہرہ یہاں کے باسیوں کو نظر نہیں آیا۔ ان سارے دکھ بھرے حالات میں کوئی بات سوجھتی نہیں کہ اس مسئلہ کا حل ہماری بساط سے باہر کی چیز ہے مگر ہم اپنے اپنے طور پر کیا کرسکتے ہیں یہ سوال ہر درد مند دل میں ضرور اٹھتا ہوگا۔ مگر کسی طور لاؤڈ نہیں ہورہا تھا۔ اس لئے جب سنڈیکیٹ آف رائٹرز کے معمول کے ادبی اجلاس میں پروفیسر ڈاکٹر خالد مفتی نے یہ سوال میز پر رکھا اور چونکہ وہ ذہنی اور نفسیاتی امراض کے حوالے سے ایک عالمی شہرت یافتہ معالج بھی ہیں تو انہوں نے ان صدمات کے نتیجے میں نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا پشاور کے باسیوں اور خصوصاً نئی نسل پر مرتب ہونے والے اثرات کی بات کی اور ساتھ ہی تجویز پیش کی کہ ایک ایسا تھنک ٹینک بنایا جائے جس میں اساتذہ علماء کرام ‘معا لجین ‘ شاعر ادیب‘ وکلاء برادری اور میڈیا کے احباب شامل ہوں جو مقامی ‘ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس مسئلہ کے جلد اور قابل قبول حل کے لئے سرجوڑ کر بیٹھیں اور اپنی تجاویز میز پر رکھیں
احباب نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور گذشتہ روز اس سلسلے کی ایک بھرپور نشست ہوئی جس کے صاحبان صدارت میں شریف فاروق ‘ڈاکٹر محمد اعظم اعظم خواجہ یاور نصیر پیر سجاد شاہ بادشاہ اور ڈاکٹر پروفیسر خالد مفتی شامل تھے اور حاضرین میں سے ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل تھے اس نشست کے آغاز میں جو ابتدائیہ خالد مفتی نے پیش کیا اورساتھ ہی جو ایک مختصر سی ڈاکومنٹری انہوں نے دکھائی اس نے پورے آڈیٹوریم کی آنکھوں میں دھواں بھردیا یہ ان نفسیاتی مریض بچوں کے بارے میں تھی جنہوں نے حالیہ دھماکوں کے صدمات سے اثر لیا تھا۔
وہ بچے جنہوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا اب انہیں مصنوعی طریقوں سے خوراک دی جارہی تھی اور وہ بچے جو سکتے کی کیفیت میں تھے جو چپ ہوگئے تھے اور جو بموں کے ٹکڑے اور لوہے کے اوزار اور ٹکڑے کھلونے کے طور پر مانگ رہے تھے یہ خوبصورت اور معصوم بچے ڈاکٹر خالد مفتی کے ہسپتال ’’عبادت‘‘ میں ان کی کوششوں سے آہستہ آہستہ زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں اس ابتدائیہ کے بعد شہر کے حساس طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں نے اس نئے بننے والے تھنک ٹینک کے حوالے سے اپنی تجاویز دیں اور امن و استحکام کی بحالی کے لئے اپنی خدمات پیش کیں جس کا یک سطر ی ایجنڈا اس پھولوں کے شہر کو پھر سے امن و سکون کا گہوارہ بنانے پر مشتمل تھا
پشاور کے باسیوں کے حوالے سے سارے احباب خواجہ یاور نصیرکی اس بات سے متفق تھے کہ ناقابل بیان کڑے موسموں کے باوجود پشاور کے رہنے والوں کامورال بلند ہے زندہ دلان پشاور نے ان جان لیوا حادثات کے تکلیف دہ دنوں میں بھی اپنا حوصلہ اور اوسان قائم رکھے ہیں اور جن حالات میں لوگ باگ‘ اپنا شہر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ان حالات سے بدترین حالات میں بھی کسی پشاوری نے شہر چھوڑنے کی بات نہیں کی۔
یہ ان کی اپنے شہر اپنی دھرتی اور جنم بھومی سے وہ وابستگی اور کمٹ منٹ ہے جن پر آنے والے سنہرے دنوں میں خود پشاوری بھی فخر کریں گے اور گذشتہ کل جب یہ کہا گیا تھا کہ خدا رکھے پشاور کو ’’پشاور پھر پشاور ہے‘‘ تو یہ بات آج بھی اتنی یہی معتبر ہے اور آنیوالے کل بھی اتنی ہی سچی رہے گی اس تھنک ٹینک کے قیام سے جس کے کنوینر ڈاکٹرخالد مفتی اور ڈاکٹر طارق مفتی ہیں مگر جن کے اراکین میں صحافی‘ ماہرین تعلیم‘ علمائے کرام ‘ وکلائ‘ شعراء اور ادباء اور معالجین شامل ہیں اور جو سنڈیکیٹ آف رائیٹرز اور سماجی خدمات کے حوالے سے معروف و مشہور غیر سرکاری تنظیم ہورائزن انٹرنیشنل کے بینر تلے کام کرے گی جلد ہی ایک امن واک کا اہتمام کیا جائے گا اور جہاں شہدائے کرام کو پھولوں کے نذررانے پیش کئے جائیں گے وہاں پشاوریوں کے اس حوصلے اور ثابت قدمی کو بھی سلام پیش کریں گے کہ وہ اس شہر افسردہ کو چھوڑ کر نہیں گئے۔
راستے رزق کشادہ کے بہت ہیں ناصرؔ
کوئی اس شہر پشاور سے جدا کیسے ہو
Dated : 2009-11-23 00:00:00