کوئٹہ: بی این پی کے رہنماء حبیب جالب بلوچ قتل

زین

لائبریرین
کوئٹہ میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کے مرکزی سیکرٹری جنرل حبیب جالب بلوچ ایڈووکیٹ کو قتل کردیا۔

سیکرٹری داخلہ بلوچستان اکبر حسین درانی کے مطابق حبیب جالب بلوچ سریاب روڈ پر موسیٰ کالونی کے علاقے پرکانی آباد میں واقع اپنے گھر کے بھائی کی بھائی کی دکان پر اخبار پڑھ رہے تھے کہ اسی اثناءمیں دو مسلح موٹر سائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کردی جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے ۔انہیں اپنی گاڑی کے ذریعے سول ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے ۔ سیکرٹری داخلہ بلوچستان نے بتایا کہ واقعہ کے بعد ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لئے کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں سیکورٹی فورسز کو الرٹ کردیا گیا ہے ، کوئٹہ میں فرنٹیئر کور پہلے سے تعینات ہے جبکہ پولیس ، بلوچستان کانسٹیبلر ی اور دیگر قانون نافذ کرنےوالے اداروں کی مزید نفری تعینات کی جارہی ہے ۔ڈی آئی جی آپریشنز کوئٹہ حامد شکیل نے بتایا کہ ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تاہم ان کی گرفتاری کے لئے علاقے کی ناکہ بندی کردی گئی ہے ۔

واقعہ کی اطلاع ملتے ہی حبیب جالب کے لواحقین ، بلوچستان نیشنل پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی بڑی تعداد سول ہسپتال پہنچ گئی جہاں انہوں نے واقعہ اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی، مشتعل مظاہرین نے جناح روڈ، پرنس روڈ، زرغون روڈ، سریاب روڈ، سمنگلی روڈ، قمبرانی روڈ، سبزل روڈ اور دیگر علاقوں میں احتجاج کیا اور رکاوٹیں کھڑی کرکے سڑکیں بلاک کردیں ، مظاہرین نے گورنر ہاﺅس اور وزیراعلیٰ ہاﺅس کی طرف بھی جانے کی کوشش کی جس پر پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لئے شیلنگ کی۔ واقعہ کے بعد کوئٹہ میں تمام کاروباری مراکز بند کردیئے گئے ۔ اطلاعات کے مطابق مستونگ، خضدار، قلات، نوشکی، خاران، آواران، لسبیلہ، چاغی ، پنجگور ، تربت ، گوادر اور صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی احتجاج کیا گیا۔امن وامان کی صورتحال کے پیش نظر صوبے بھر کے تعلیمی ادارے دو روز کے لئے بند کردیئے گئے ہیں ۔دریں اثناءبلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے پارٹی کے رہنماءحبیب جالب بلوچ کے قتل پر چالیس روزہ سوگ کے علاوہ صوبے بھر میں تین روز تک ہڑتال کا اعلان کیا ہے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے بی این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل حبیب جالب بلوچ کے قتل پر اظہار افسوس کرتے ہوئے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے تمام وسائل استعمال کرنے کی ہدایت کی ہے۔


سوانح عمری​

حبیب جالب بلوچ ایڈووکیٹ بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل تھے۔ وہ کوئٹہ میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم کوئٹہ اور اعلیٰ تعلیم روس میں حاصل کی ،انہوں نے ماسکو سے فلاسفی میں ایم اے اور عالمی سیاست میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی ، اس کے علاوہ ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی جس کے بعد انہوں نے وکیل کی حیثیت سے پیشہ وارانہ زندگی سے آغاز کیا۔ انہوں نے سیاسی کیریئر کا آغاز بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رکن کی حیثیت سے کیا۔1978ءمیں بی ایس او کے جنرل سیکرٹری اور1979ءمیں چیئرمین منتخب ہوئے ۔حبیب جالب طالب علمی کے دور میں صدر ایوب خان کے خلاف تحریک سے بھی وابستہ رہے ،بھٹو دور حکومت میںمتعدد بار گرفتار ہوئے ،1974سے 1977تک سینٹرل مچھ جیل میں ڈی پی آر کے تحت مقید رہے اور ضیاءالحق کے دور حکومت میں عام معافی کے اعلان کے بعد رہا ہوئے لیکن رہائی کے تیسرے دن دوبارہ گرفتار ہوئے اور تین مہینے تک قید رہے ۔ستر کی دہائی میں شروع ہونےوالی تحریک کے بعد بی ایس او کے رہنماءحمید بلوچ کے ساتھ حبیب جالب کے بھی ڈیتھ وارنٹ جاری ہوئے جس کے بعد وہ روپوش ہوکر افغانستان اور پھر روس چلے گئے ۔بعد میں وہ پروگریسیو نیشنل موومنٹ میں شامل ہوئے اوراسکے مرکزی سیکریٹری جنرل بھی رہے ،بی این ایم اور پروگریسیو نیشنل موومنٹ کے انضمام کے بعد حبیب جالب بلوچ نے سردار اختر جان مینگل کی قیادت میں سیاست کی اور بی این ایم میں بھی مرکزی عہدوں پر فائز رہے ۔ 1996ءمیں بی این ایم سے علیحدگی کے بعد اختر مینگل کیساتھ ملکر بلوچستان نیشنل پارٹی قائم کی اور مسلسل تین مرتبہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ بی این پی مینگل ہی کے پلیٹ فارم سے مارچ 1997ءمیں چھ سال کے لئے سینیٹر منتخب ہوئے ۔ حبیب جالب بلوچ گزشتہ دور حکومت میں بلوچ حقوق کیلئے جدوجہد اور وکلاءتحریک میں بھی پیش پیش رہے جس کی پاداش میں کئی مرتبہ انہیں نظر بندی اور جیل بھی کاٹنی پڑی ۔حبیب جالب تمام تر سخت حالات کے باوجود سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان کے حقوق کیلئے جدوجہد میں پیش پیش رہے ۔حبیب جالب بلوچ زمانہ طالب علمی سے ہی شاعری کا شوق رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کے نام کے ساتھ جالب کا تخلص دوستوں کی جانب سے جوڑا گیا ۔انہوں نے بلوچستان کے حوالے سے تحقیقی مقالے اور کتب بھی لکھیں ۔
 

زین

لائبریرین
حالات تو خیر دو تین تک بگڑے رہیں گے۔ بعض لوگوں کو تو بس موقع چاہیئے ہنگامہ آرائی اور لوٹ مار کے لئے ۔

اتنا بڑا لیڈر بھی نہیں تھا جتنا مرنے کے بعد اسے پیش کیا جارہا ہے ۔ سچ بات کہوں تو مجھے تو ان کے قتل پر کوئی افسوس نہیں ہوا کیونکہ انہیں بے گناہ لوگوں کے قتل پر کوئی افسوس نہیں ہوتا تھا۔
 

طالوت

محفلین
لوگوں کو تقسیم کرنے والا ایک اور گیا ، اور تقسیم ہوؤں کو مزید تقسیم ہونے کا ایک اور بہانہ ہاتھ آ گیا ۔
اللہ اس کے معاملات آسان کرے ۔
 
Top