کوئل زنانہ :: از::اشرف صبوحی

ہیجڑوں، بھانڈوں اور زنانوں کا بھی ہندوستان میں بڑا زور تھا۔ درباروں سرکاروں تک رسائیاں تھیں۔ دنیا میں اور جگہ بھی یہ مخلوق پیدا ہوتی ہوگی، لیکن خدا جانے وہاں انھیں کس نگاہ سےدیکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو انُ کی خوب آؤ بھگت تھی۔ جس محفل میں یہ نہ ہوتے رانڈ سمجھی جاتی۔ان میں بھی بڑے بڑے نامی گرامی گزرے ہیں۔ اچپل، گل زار بھانڈ، شہزادہ، دولھا ہیجڑے، شام گھٹا اور کوئل زنانے اپنے اپنے وقت کے چمکتے ہوئے ستارے تھے۔وہ جو کہتے ہیں جسے پیا چاہے وہی سہاگن۔ کسی نے سچ کہا ہے ؎
خاکسارانِ جہاں رابہ حقارت منگر
توچہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد
دنیا والے انھیں کسی نظر سے کیوں نہ دیکھیں، کیسا ہی حقیرو ذلیل سمجھیں، اللہ میاں کی مہربانیاں خاص نہیں عام ہیں۔ بارش جب ہوتی ہے کوڑی اور باغ پر یکساں۔ سورج جب چمکتا ہےپھول اور کانٹے سب اس کی شعاعوں سے برابر مستفید ہوتے ہیں ؎
سنگ کیوں لعل ہوا؟ نیّر اعظم کی نگاہ
دانہ کیوں سبز ہوا؟ مسکرمتِ ابر سیاہ
ایسی اچھوتی مخلوق میں بعض بعض مائی کے لال صاحب کمال بھی تھے۔ کہتے ہیں آخری وقت میں غدر کے بعد کا ذکر ہے ایک ہیجڑے کو جو حج کی دھن سمائی تو اپنے سارے دھندےچھوڑ اگلے پچھلے گناہوں سے توبہ کر، گہنا پاتا بیچ سفر کی تیاری کرلی۔ سن رکھا تھا کہ گندی کمائی کے
روپے سے حج نہیں ہوتا۔ مولویوں کے پاس پہنچا لیکن سب نے دھتکار دیا۔ بہت پریشان ، دل میں شمع رسالت کی لو لگی ہوئی۔ خیال آیا درویشوں سے پوچھنا چاہیے۔ ان دنوں ایک رند مشرب ملنگ شاہ میر کی بڑی شہرت تھی، ہچکچاتا ہوا ان کے پاس پہنچا۔ شراب کا دور چل رہا تھا دور سے دیکھتے ہی بولے:’’ابے حرام حلال کرنے والوں کے پاس جا، یہاں تو پینی پڑے گی‘‘ بیچارا چپ کھڑا ہوگیا۔شاہ میر: حج کا ارادہ اور مولویوں کی معرفت؟ہیجڑا: حضور سب کہتے ہیں کہ تیرا روپیہ گندا ہے۔شاہؔ میر: پھر وہ اپنی کوثر کا چھینٹا دے کر پاک نہیں کرسکتے؟ہیجڑا غریب کیا جواب دیتا۔ چپ منھ دیکھنے لگا۔شاہ میر:کھڑے کھڑے جائے گا؟ بیٹھتا کیوں نہیں۔ہیجڑا: )بیٹھ کر( حضور!شاہ میرؔ: )شراب کی پیالی بھر کر( لے یہ تو پی۔ہیجڑا: قبلہ توبہ کر چکا ہوں۔شاہ میرؔ: تو حج بھی ہوچکا۔ ابے اسی میں غوطہ مار کر حج ہوگا۔ہیجڑا:ؔ پیرو مرشد۔شاہ میرؔ: جا تو پھر مولویوں سے فتویٰ لے۔ یہاں تو اسی راہ سے حج کو بھیجا کرتے ہیں۔شاہ صاحب کی لال لال آنکھیں دیکھ کر کچھ تو وہ ڈرا اور کچھ انُ پر اعتقاد ، جھٹ پیالہ اٹھا کر منھ سے لگالیا۔ عجب مزا پایا۔ شراب کیا تھی، دودھ اور شہد کے گھونٹ تھے۔شاہؔ میر: ہاں بھئی حج کو جاؤ گے؟ کتنا روپیہ ہے؟ہیجڑا:ؔ کچھ کم دو ہزار۔شاہ میرؔ: اچھا، کل اسی وقت یہاں لے آنا۔ ہم اسے پاک کردیں گے۔ہیجڑا کچھ دیر بعد وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر آیا۔ دن بھر اور رات بھر سوچتا رہا کہ روپیہ کس طرح پاک ہوسکتا ہے؟ شرابیوں کی باتیں ہیں، کوئی اور فتور نہ پڑ جائے۔ صبح ہوئی دل دھکڑ
پکڑ تھا، مگر حج کی چٹیک بھی لگی ہوئی تھی۔ روپیہ پوٹلی میں باندھ سیدھا تکیے پہنچا۔شاہ میرؔ) ہیجڑے کو دیکھتے ہی پکار کر( آگئی سونے کیچڑیا) اپنے چیلے چانٹوں سے( کیا دیکھتےہو لوٹ لو بھٹی بنائیں گے۔ خدا نے دن پھیر دیے۔وہاں کیا دیر تھی اور ہیجڑے بیچارے کی کیا ہستی۔ جا دبوچا۔ پوٹلی چھین حصے بخرے ہونےلگے۔ اسُ کی س گم ، حواس باختہ، نہ لڑنے کی طاقت نہ واویلا مچانے کا دھرم۔ جنگل بیاباں قبرستان میں کون اس کی فریاد سنتا۔شاہ میر: کیوں بھئی حج کو جانے کا ارادہ ہے؟ہیجڑا آنسو بہا کر میاں، اب میں کیا کروں حرام حلال کی جیسی کمائی تھی وہ بھی تم نے لٹوادی۔شاہ میر: اللہ کو یاد کرو۔ہیجڑا:ؔ ہارے کی فریاد اللہ ہی سننے والا ہے۔شاہ میر: تو بھائی پاؤں پیدل چلے جاؤ۔ہیجڑا:ؔ میاں اتنا دم ہوتا تو اب تک کبھی کا چلا جاتا۔شاہ میرؔپیالہ بھر کر( اچھا لو، اسے پیو اور تمہاری ہم کیا خاطر کریں۔ کُڑھو نہیں حج کوجانے کا بھی انتظام ہوجائے گا۔ہیجڑا دم بہ خودشاہؔ میر: لال لال آنکھیں چمکا کر( پیتا ہے یا نہیں۔ زیادہ نخرے کیے تو یاد رکھ ابھی سونٹاپڑنے لگے گا۔ہیجڑا غریب سہم گیا۔ پینی پڑی۔ اب کے مرشد کے پیالے میں کچھ اور رنگ تھا۔شاہ میرؔ: اپنے چیلوں سے( یارو، ایک غریب حج کو جانا چاہتا ہے۔ حسب توفیق اس کی مددکرو جو جس کے پاس ہو، اسے دے دو۔ اتنا کہنا تھا کہ سب نے اپنی اپنی لوٹ کے روپے نکال کرسامنے رکھ دیے۔ ہیجڑے کو حیرت ہوئی۔ رومال پھیلا جلدی جلدی سمیٹنے لگا۔شاہ میرؔ: بس بھئی، اب تو خوش ہوئے۔ لو سدھارو اور جاکر اپنے مولویوں سے فتویٰ بھی چاہے لے لو۔ اٹھو روانہ۔ پیر مغاں سے ہمارا بھی سلام کہہ دینا۔ چنانچہ اسی سال وہ حج کو گیا اور وہیں کا ہورہا۔ ہر برس حاجی آکر سناتے کہ ہیجڑے کی تو
تقدیر کھل گئی۔ روضہ اقدس پر اپنے سر کے بالوں سے جھاڑو دیا کرتا ہے ؎
کیا شان دکھائی ہے اے سوختہ سامانی
اسُ شمع رسالت کا پروانہ بنا دیکھا
کوئل زنانہ نام سے ظاہر ہے کہ آبنوسی رنگ کا ہوگا۔ کوئل کو تو مرے ہوئے کم از کم چالیس برس ہوئے ہوں گے۔ شام گھٹا تو ابھی کوئی پندرہ برس ہوئے مرا ہے۔ حج کرکے خاصی صوفیوں مولویوں کی سی وضع اختیار کرلی تھی۔ کوئل کا رنگ اس سے زیادہ وار نشی تھا۔ لڑکپن کےزمانے کا کیا پوچھنا۔ زنانوں کی ٹولی میں جب پہلے پہل گایا ہے تو عاشق مزاجوں کے دلوں کا ستھراؤ کردیا۔ دّلی کے ہیجڑا پرستوں کا اس کے کوٹھے پر رمنا لگ گیا۔ کہتے ہیں گپو کار خانہ دار کے بیٹےسانولیا نے اسی پر افیم کھائی تھی۔ لال کنوئیں پر کئی دفعہ چاقو چلے تھے۔ ہیجڑوں کی وضع قطع، بولی ٹھولی تو دیکھی سنی ہوگی، کوئل کی رسیلی آنکھیں، چمکیلا رنگ، صاف ستھرا ناک نقشہ، پھر پھبن،اس بانکپن پہ کون نہ مرتا۔ اچھے اچھے ثقہ آنکھیں چرا چرا کر دیکھتے۔ صوفیوں کو دھوئیں میں ھّیا بن کر جس وقت وہ بانسری بجاتا، اس کی آواز پر بجلیاں چمکتی نظر آتیں۔ طور کا جلوہ دیکھتے۔ کن ہزاروں برسوں کی بھٹکی ہوئی گوپیوں کی روحیں جمع ہوکر تھرکنے لگتیں۔لیکن رہے نام سائیں کا۔ جوانی کا سایہ کیا اٹھا، روپ کیا ڈھلا کہ کوئل آندھی کا کوّا بن گئی۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چھجو شاہ ایک مجذوب فقیر نے اپنا کرشمہ دکھایا۔ یہ ان کے پاس اکثر
جایا کرتا تھا۔ انہوں نے سر دھنتے دھنتے سونٹا زمین پر مار کر کہا: ’’مانگ کیا مانگتا ہے؟ اس وقت چودہ طبق کھلے ہوئے ہیں۔ بول بادشاہ بنادوں یا اپنا بنالوں؟‘‘ انہیں یہ رٹ لگی ہوئی تھی اور کوئل حیران۔جب چھجو شاہ کا جوش زیادہ بڑھا تو وہ سونٹا زمین پر مارتے مارتے کھڑے ہوگئے اور اس نے دیکھاکہ مجھے نہ پیٹنے لگیں تو دور بھاگ کر بولا، ’’سائیں نہ میں بادشاہ بننا چاہتا ہوں اور نہ تم جیسا۔ دعا کروعمر بھر میاں کور جھایاکروں۔ میاں ریجھ گئے تو بیڑا پار ہے۔‘‘اتنا سنتے ہی چھجو شاہ کا جوش ٹھنڈا ہوگیا۔ سونٹا ہاتھ سے پھینک دیا اور قہقہہ لگا کر بولے ’’جاجنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔ جا میاں کو رجھایا کر۔ انُ کے من میں آگئی تو کسی دن ریجھ بھی جائیں گے۔‘‘اس روز کے بعد سے کوئل کی کایا پلٹ گئی۔ کیسا گانا بجانا، کہاں کا ناچنا تھرکنا، تالیاں پٹخارنا، کوئی ہفتہ بھر نہ گزرا ہوگا کہ کوٹھے پر سے بھی غائب، جتنے مُنھ اتنی باتیں۔ کوئی کہتا کسی کےساتھ بھاگ گیا ۔ کوئی کہتا بھاگنے کی رت میں تو بھاگا نہیں۔ چھجو شاہ کی ہوا لگ گئی۔ دو ہفتے سے رنگ کچھ بدلا ہوا تھا۔ غرض یہ کہ یونہی تذکرے ہو ہو کر رہ گئے۔ شہروں میں ایسے بہتیرے واقعات ہوتے ہیں۔ کون ڈُھنڈیا مچاتا ہے۔ اسُ کے ساتھیوں کو البتہ صدمہ ہوا۔ آخر وہ بھی بیٹھ رہے۔پرانا قلعہ انُ دنوں گوجروں کی بستی تھی اور سڑک کے دونوں طرف دّلی دروازے سےنظام الدین تک جنگل، نہ رات دن لاریاں موٹریں دوڑتی تھیںنہ تانگوں کا تانتا تھا۔ کبھی کبھی اکےبہلیاں یا اونٹ گاڑیاں دکھائی دے جاتیں۔ پیدل جانے والے بھی صبح سے شام تک دس بیس ہی آتے جاتے نظر آتے۔ ہاں سترھویں کے عرس پر خوب چہل پہل ہوجاتی۔ خوانچے والےخوانچے لیے، کھلونے والے اپنی اپنی چیزیں سروں پر رکھے۔ نانبائی، حلوائی، بھٹیارے اپنے اپنےٹنڈیرے ٹھیلوں پر لادے چلے جارہے ہیں۔ مجھولیاں، شکر میں، پالکی گاڑیاں، یّ بیلے سنورےگھڑ دوڑ لگا رہے ہیں۔ تیس چالیس برس پہلے تک ہانڈی شاہ کا مزار تو تھا، مگر نہ یہ ہنڈوں کی نمائش تھی نہ چند اہلِ باطن کے سوا اس مزار پر کوئی فاتحہ پڑھتا، م ن ت یںّ ماننا اور ہنڈیاں چڑھانا تو کیا؟ یہ جگہ تقریباً دّلی اور نظام الدین کے آدھوں آدھ رستے پر ہے۔ گرمی کے موسم میں مسافروں کو پانی کی بڑی تکلیف ہوتی۔ دھوپ کی شدّت ،خاک کا اڑنا، خاص طور پر عرس کے دن لوگ کبھی کبھی پانی کے لیے پھڑک پھڑک جاتے۔ کوئل نے شہر سے نکل یہیں کہیں کسی ٹوٹے پھوٹے مقبرے میں اپنا آشیانہ بنا لیا اور سڑک کے کنارے دوچار مٹکے رکھ کر سبیل لگا دی۔ بدلا ہوا روپ تھا۔ اوّل اوّلتو کسی نے پہچانا نہیں۔ آتے جاتے مسافر درختوں کے سائے میں بیٹھتے، مُنھ ہاتھ دھوتے، ٹھنڈے
ہوگے، پانی پیتے، سستاتے اور اپنا رستہ لیتے۔ سبیل لگانے والے کو کون پوچھتا۔ کسے اتنی پڑی تھی کہ اس کے حال کی کریدتا۔ ڈر ہوتا کہ فقیر یا تکیے دار کچھ سوال نہ کر بیٹھے۔پرانے قلعے کے شریر گوجروں کو اس سے بیر ہوگیا تھا، اس لیے کہ ان کی بٹ ماری میں فرق آگیا۔ سڑک پر ایک قسم کی چوکی لگ گئی تھی۔ بیچارے کے کبھی مٹکے پھوڑ جاتے، کبھی اسکے چبوترے پر لید گوبر ڈال دیتے۔ اپنے کنوئیں سے اسُ کا پانی بھر نا بند کردیا۔ غریب کو دور دورسے پانی لانا پڑتا، دن بھر مٹکوں کی چوکسی کرتا اور شام کو تھوڑی نیند لے کر پہلے پانی بھرتا، پھراندھیری رات ہوتی تو اندھیرے میں، چاند نکلا ہوا ہوتا تو چاندنی میں اکیلا تالیاں بجا بجا کر خوب لہکتا، خوب مٹکتا اور صبح تک یہی سانگ رکھتا۔اس کے چبوترے پر ایک دن عصر کے وقت دو چار نمازی مسافر بھی آگئے اور انہوں نےاذان دے کر نماز پڑھی۔ کسی گوجر نے دیکھ لیا۔ اسُ نے جا اوروں سے کہہ دیا: ’’ارے، اب تو ماہڑے پڑوس آجان بھی ہونے لگی، نماج بھی لوگ باگ پڑھنے لگے۔ آج سورے کو مار گیرو۔‘‘آدھی رات کو دوچار مرد، دو چار عورتیں مل کر کوئل کے تکیے پر آئے تاکہ اسُ کا بکھیڑا صاف کردیں۔ سڑک کے ابھی اسُ پار تھے گانے کی آواز کانوں میں پڑی۔ایک جاٹ: ارے یہ گائے کون ہے؟دوسرا: واہ جی واہ، آواج بھنبیری۔ایک عورت: زنانوں کے سے گیت گائے ہے۔پہلا جاٹ: تالیاں بھی ویسے ہی پیٹے ہے۔دوسری عورت: ماہرا کیا بگاڑے ہے۔ کاہے کو ستاؤ ہو۔ آجارے چھورے آجا۔ جانےبھی دے۔دوسرا: ہاں کا کا، غریب ہمارا کیا لے ہے۔ کہہ دیں گے کہ اجان و جان نماج وماج نہ پڑھوائے اور ماہرے کسی کام میں نہ بولے۔دوسری عورت : چل تو ابھی کہہ دے نا۔ پاس سے گانا بھی سن لیں گے۔کوئل کی آنکھیں بند تھیں۔ ہاتھ مٹکا مٹکا اور تالیاں پٹخار کر مٹک رہا تھا: ’’آجا میرے
سنولیا لوں تیری بیّاں‘‘ کی دھن بندھی ہوئی تھی۔ گوجر پہلے تو کھڑے تماشا دیکھتے رہے پھریکایک انہیں ہنسی چھوٹی۔ گنواروں کا ہنسنا جیسے پہاڑی کے پتھر لڑھکے۔ کوئل کا دھیان بہکا اوروہ سہم کر ان لٹھ بند گنواروں کو دیکھنے لگا۔ دو منٹ بعد جب ذرا اوسان درست ہوئے تو بولا:
’’چودھری، آدھی رات کو کہاں سے آرہے ہو؟‘‘گوجرؔ: ارے تو گائے تو خوب ہے۔کوئل: چودھری، میں نگوڑی گانا کیا جانوں، اپنے سنولیا کو رجھار ہی تھی۔گوجرؔ: ارے یہ تو زنانہ لگے ہے۔عورتؔ: جب ہی ایسا مٹکے تھا۔گوجرؔ: چلورے گھروں کو چلو۔ رات بہت آئی جھورے، اب نہ ستائیو اسے۔گاؤںمیں کہہ دیجیو کہ پانی بھرنے آئے تو کوئی نہ روکے۔جان بچی لاکھوں پائے، مگر بستی میں سب جان گئے کہ تکیے والا زنانہ ہے۔ اب سترھویںکا عرس آگیا تھا، کوئل نے نئے کپڑے بنائے، کرتا سبز رنگا، گل انار دوپٹہ، اس پر دھنک ٹانکی۔چار مٹکے پہلے تھے، چار اور لایا، شاموں شام ان میں پانی بھرا۔ کپڑے بدلے، بال بکھیرے اور لہک لہک کر گانا شروع کیا۔ تھوڑی دیر میں دّلی والوں کی بھیڑ لگ گئی۔ زیادہ دنوں کی بات نہ تھی اکثرنے پہچان لیا آوازے کسنے لگے۔ کوئی پھبتیاں اڑاتا، کوئی گانے کی فرمائش کرتا:’’ کوئل سنے ہوئےمدت ہوگئی۔’’ خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں‘‘ سنادو۔‘‘’’نہیں بھئی، میں اپنے مولا کی جوگن بنی ہوجائے۔‘‘’’ارے لنڈوری کو کیوں ستاتے ہو۔‘‘
کوئل پہلے تو چپ بیٹھا رہا، پھر ’’میں اپنے مولا کی جوگن بنی‘‘ گانے لگا۔ سماں بندھ گیا۔بہار کشوں ، ا وّ کں سے سڑک بھر گئی۔ اتنے میں ایک سیج گاڑی آئی ۔ بھیڑ میں گھوڑے بدک گئےاور ایسے بدکے کہ قابو میں نہ آئے۔ سواریوں کو اترنا پڑا۔ رات کے کوئی آٹھ بجے ہوں گے۔
گاڑی میں ایک سفید لمبی ڈاڑھی کے پیر صاحب تھے۔ مریدوں کی ٹولی ساتھ تھی۔پیر صاحب : مرید سے( یہاں لوگ کیوں اکٹھے ہیں؟
مرید: حضور کسی زنانے نے سبیل لگا رکھی ہے۔پیر: لاحول ولا قوۃ۔ زنانہ!مرید: کہتے ہیں یہاں کا پانی بڑا ٹھنڈا ہوتا ہے۔ نوش فرمائیں تو حاضر کروں؟پیر: زنانے کا پانی پینا حرام ہے مگر آؤ دیکھیں تو سہی، کم بخت گابھی رہا ہے )کوئل کی صورت دیکھ کر اور گانا سن کر ( مردود ہے۔ شیطان نے کیا سانگ بھرا ہے۔کوئل نےپیر صاحب کی طرف دیکھ کرکہامیاں میں قربان، خفا کیوں ہوتے ہو۔ اپنے پیا کی جوگن بنی، بروگن بنی۔مجسم شیطان ہے۔پیر:کوئل: میاں۔ کوئل کی کوک سے ناراض نہ ہو۔ میں تو اپنے میاں کو رجھا رہی ہوں۔پیر: استغفراللہ۔ )مریدوں سے( شکرم کے گھوڑے ہوگئے؟کوئل: میں صدقے، پانی لاؤں؟ کورے کورے سوندے سوندے مٹکوں کا پانی۔ برفسے زیادہ ٹھنڈا۔پیر صاحب نے نہایت غصے سے کوئل کو دیکھا۔کوئل: میاں اللہ کے نام کی سبیل ہے۔ لونڈی نے نہا دھوکر مٹکے بھرے ہیں اور کچھ نہیںتو مُنھ ہاتھ ہی دھو لیجیے۔یہ کہہ کر کوئل نے ایک کوری بدھنی بھری اور پیر صاحب کے پاس لے کر آیا۔ پیرصاحب کو طیش آرہا تھا۔ جریب ہاتھ میں تھی۔ جریب سے جو ٹھوکا دیتے ہیں تو بدھنی کوئل کےہاتھ سے چھوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔پیر صاحب کا غصہ ذرا ٹھنڈا ہوا۔ کوئل کی مایوس شکل دیکھی کچھ ترس بھی شاید آگیا۔ مگرزاہدانہ غرور کی شان بھی دکھانا چاہتے تھے۔ مریدوں سے جھلاّ کر کہنے لگے:’’عجب اتفاق ہے۔ پہلے ریل میں دیر لگی، اب شیطان نے رستہ روک لیا۔ ہماری زیارت کا بندھا ہوا وقت ہے۔ محبوب الٰہی کے دربار میں انتظار ہوگا۔ دیکھو بھئی، جلدی کرو۔ ایک روپیہ اس بدبخت کو بھی دے دو۔ اس کا بدھنی کا نقصان ہوا ہے۔‘‘کوئل: مٹکتے ہوئے آگے بڑھ کر دور سے بلائیں لینے کے بعد( میں واری، یہ روپیہ میری طرف سے میاں پر نچھاور کردینا۔پیر صاحب: غصے اور نفرت سے( دور ہو خبیث، مجھے بھی گنہگار کرتا ہے۔ نہ ہوا آج عالمگیر کا زمانہ۔ ابھی تھوتھے تیروں اڑوا دیا جاتا۔ ایک زنانہ گندگی کی پوٹ اور محبوب الٰہی کا نام لے۔کوئل: تھر تھر کانپ کر( حضور، میرا تو اس روپے کو ہاتھ تک نہیں لگا ہے۔ حضور ہی کی مایا ہے۔ میاں نے قبول نہ کیا تو خادموں کے کام آجائے گا۔ میری کمائی کا تو نہیں۔
پیر صاحب کو نجانے کیا خیال آیا۔ خادم کے ہاتھ سے روپیہ لے کر اپنی جیب میں ڈال لیا۔ گھوڑے ٹھیک ہوگئے تھے۔ گاڑی کی طرف چلے۔
کوئل: )پکار کر( حضور، میاں سے کہنا کہ یہ کوئل زنانے کی نذر ہے، اسے قبول کرلو اورجب تک میاں کا ہاتھ لینے کو نہ نکلے، کسی کو دینا نہیں۔پیر: پورا شیطان معلوم ہوتا ہے۔ مسخرے کی باتیں تو سنو۔ نعوذباللہ۔پیر صاحب مع مریدوں کے گاڑی میں بیٹھے۔ گاڑی روانہ ہوگئی۔
جنگل میں منگل تھا۔ درگاہ کے قریب سڑک سے اترتے ہی آدمیوں کی بھیڑ تھی۔سودے والوں کا غل، دکانوں پر شامیانے تنے ہوئے قصہ مختصر پیر صاحب گاڑی سے اترے،سامان اتارا گیا جو ملتا، پیر صاحب کے ہاتھ چومتا۔ آپ کی تمکنت، آپ کا تقدّس اللہ اللہ۔ نہایت تکلّف کے ساتھ درگاہ شریف کے اندر داخل ہوئے۔ قوالی ہورہی تھی۔ دو خادم آگے، چار پیچھےہٹو بچو کرتے مزار مبارک کے حجرے میں پہنچے۔ اپنے طریق پر زیارت کی۔ فاتحہ پڑھی، چندمنٹ مراقبے میں بیٹھے، اس کے بعد اٹھ کر باہر نکلنے ہی والے تھے کہ کوئل کا خیال آگیا۔ پہلے تواس کی گنہگار زندگی کا تصور کرکے ناک بھوں چڑھائی، پھر نجانے کس جذبے کے تحت جیب میں ہاتھ ڈالا، روپیہ نکالا اور تمسخرانہ لہجے میں آہستہ آہستہ کہ کوئی دوسرا نہ سن لے، اسُ کے الفاظ دہرائے تھے کہ حیرت کی انتہا نہ رہی ظاہری حجاب آنکھوں کے سامنے سے اٹھ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں مزار مقدّس کو حرکت ہوئی غلاف ہٹا اور اس میں سے ایک مرمریں ہاتھ باہر نکلا۔ ہاتھ کیا چاندتھا۔ ساری شمعیں اسُ کے آگے ماند پڑ گئیں۔ مشک و عنبر کی لپٹوں سے تمام حجرہ معطر ہوگیا۔ اور کانوں میں آواز آئی: ’’ہماری کوئل کی نذر لاؤ۔‘‘پیر صاحب ششدر تھے۔ غرور و تمکنت سب غائب۔ ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔ مٹھّی خودبہ خود کھل گئی۔ روپیہ غائب ہوگیا ہوش جاتے رہے۔ بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ دیکھا محبو ب الٰہی کا دربار آراستہ ہے اور کوئل حضور کے سامنے بیٹھا ’’اپنے پیا کے جوگن بنی‘‘ گا رہا ہے اور امیر خسروؒداد دے رہے ہیں۔ آپ نے کچھ دیر کے بعد نظریں اٹھا کر پیر صاحب کی طرف دیکھا اور تیوری پر بل ڈال کر فرمایا: ’’پیری سے میری نہیں ملتی۔ اپنی نسبتوں پر یہ غرور! خاک شو پیش ازاں کہ خاک شوی۔ یہ محبوب کا دربار ہے۔ عاشق بن کر آؤ۔ سگ لیلیٰ سے اس قدر نفرت۔‘‘پیر صاحب کے جب ہوش ٹھکانے آئے ہیں تو ان کی آنکھیں کھل گئی تھیں۔ پیری مریدی، عبادت و تقدّس کا سارا طلسم ٹوٹ گیا تھا۔ رات بھر جالیوں سے لگے روتے اور تڑپتے رہے۔ بیتاب تھے کہ کس طرح صبح ہو اور کوئل سے اپنی خطاؤں کی معافی مانگیں۔ خدا خدا کرکےرات گزری۔ غسل میں شریک ہوئے اور فورا ہی چل پڑے۔ سورج ابھی پورا نکلا بھی نہ تھا کہ کوئل کی سبیل کے سامنے گاڑی رکوائی۔ کوئل حسب معمول جھاڑو بہارو دے، منھ ہاتھ دھو اپنےچبوترے پر بیٹھا گنگنا رہا تھا۔ پیر صاحب اپنے مریدوں کو گاڑی میں چھوڑ سیدھے کوئل کے سامنےپہنچے اور ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے۔کوئل: چونک کر( میں قربان، میاں کے لاڈلے آگئے۔ بڑے سویرے سویرے لوٹ آئے۔پیر صاحب: نیچی نگاہیں کیے کیے( میاں کے لاڈلے تو تم ہو۔کوئل: میں نگوڑی پاپن گندی ،میاں کی دروازے کی کتیا۔پیر صاحب: آگے بڑھ کر کوئل کے قدموں کو چومنے کے ارادے سے( کوئل، اب تم مجھے کانٹوں میں نہ گھسیٹو۔ میں نے اپنی آنکھوں سے تمہارا مرتبہ دیکھ لیا۔کوئل) پیچھے ہٹتے ہوئے( واری جاؤں۔ میں تو ایک زنانہ ہوں۔ ساری عمر گناہوں میں گزری ہے۔ حرام کے لقمے کھائے ہیں۔ تو بہ توبہ آپ اور میرے پاؤں چھوئیں۔ دوزخ کا کندا نہ
بنائیے۔ آپ کو میرے میاں نے سہاگن بنایا ہے۔ آپ انُ کے پیارے ہیں۔ مجھے اپنے پیر چھونےدیجیے۔پیر صاحب: بھرّائی ہوئی آواز میں( کوئل عقیدت کا درجہ عبادت سے بہت اونچا ہے۔یہ بھید آج کھل گیا۔ تقدس اور شرافت کے سارے کثیف و تاریک پردے اٹھ گئے۔ تم مجھےزنانے نہیں مردانوں کے مردانے دکھائی دے رہے ہو۔ آج میں سمجھا ہوں ؎
ذات پات پوچھے نہ کوئے
ہر کو بھجے سو ہر کا ہوئے
اور خدا کا پیار حاصل کرنے کا بھی جو ہم سمجھے ہیں وہ طریقہ نہیں۔ نہ جانے کیا ادا اسُے بھاجائے۔ سچ تو یہ ہے کہ جسے پیا چاہے وہی سہاگن ہو کوئل تم۔ میاں کی زبان سے سن آیا ہوں۔کوئل: ایک عجیب قسم کی رّ مست کے ساتھ( میاں نے میرا نام لیا، سچ؟ پیرؔ صاحب: ہاں کوئل تمہارا نام۔کوئلؔ: میرا نام، ایک زنانے کا نام۔پیر صاحب: تم ان کے سامنے بیٹھے لہک رہے تھے۔کوئلؔ: میں کتیا بھونک رہی تھی؟ اچھا کیا نام لیا تھا؟پیر صاحبؔ: سگ لیلیٰ۔یہ سنتے ہی کوئل نے ’’اپنے پیا کی جوگن بنی‘‘ کی ایک تان لگائی اور ہاتھوں کو اس طرح مٹکاتا ہوا جیسے کوئی سامنے ہے اور اس کی بلائیں لے رہا ہے، زمین پر گر گیا۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور سر کے بالوں کی نقاب مُنھ پر۔ پیر صاحب نے بڑھ کر جو اٹھانا چاہا، تو وہاں کیا رکھا تھا
 

سید عمران

محفلین
بہت ہی شاندار تحریر۔۔۔
مگر یہ ربط سمجھ میں نہیں آیا۔۔۔
ایک جگہ کہا گیا کہ۔۔۔
وہ حج کو گیا اور وہیں کا ہورہا۔ ہر برس حاجی آکر سناتے کہ ہیجڑے کی تو تقدیر کھل گئی۔ روضہ اقدس پر اپنے سر کے بالوں سے جھاڑو دیا کرتا ہے
مگر آگے چل کر لکھا ۔۔۔
پرانا قلعہ انُ دنوں گوجروں کی بستی تھی
کوئل نے شہر سے نکل یہیں کہیں کسی ٹوٹے پھوٹے مقبرے میں اپنا آشیانہ بنا لیا
 
بہت ہی شاندار تحریر۔۔۔
مگر یہ ربط سمجھ میں نہیں آیا۔۔۔
ایک جگہ کہا گیا کہ۔۔۔

مگر آگے چل کر لکھا ۔۔۔
یہ میں نے بھی محسوس کیا تھا مگر جس طرح ملا اسی طرح من و عن پوسٹ کر دیا دیکھتے ہیں کہ اگر کہیں صحیح متن ملے تو تدوین کر دیتے ہیں
 
Top