کنگ چانگ صفحہ نمبر 26 تا 35

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

قیصرانی

لائبریرین
”ضروری تو نہیں ہے۔!"

"یہ تم اس لئے کہہ رہی ہو کہ بنکاٹا کے شاہی خاندان کی روایات کا تمہیں علم نہیں ہے۔ ولی عہد کی پرورش شاہی بھینس کے دودھ پر ہوتی ہے۔۔۔ بیچارہ جوزف پیدائش سے جوانی تک اسی بدذوقی میں مبتلا رہنے کی بناء پر اس قدر بلا نوش ہو گیا ہے کہ پانی کی جگہ بھی شراب ہی پیتا ہے۔!"

"دماغ میں تو اتار دی ہے تم نے یہ بات لیکن دل تسلیم نہیں کرتا۔!"

"بھلا تمہارے دل کا جوزف سے کیا تعلق۔۔۔؟" عمران بگڑ کر بولا۔

"فضول باتیں مت کرو۔!"

"سنو۔۔۔ رس ملائی۔ اگر تمہارے چوہے ایکس ٹو نے ضد نہ کی ہوتی تو میں اس شہزادے کو بھینس کا دودھ حرام ہی رہنے دیتا۔!"

"ایکس ٹو کا کیا مطلب۔۔۔؟"

"اُسی نے تو سب سے پہلے مجھے اطلاع دی تھی کہ جوزف بنکاٹا کا ولی عہد ہے۔ لٰہذا اسے اس کی بیوی ٹالابوآ کے حوالے کر دیا جائے۔!"

"مجھے حیرت ہے۔!"

"ارے تو کیا تم ایکس ٹو کی نصف بہتر ہو کہ تمہیں اس پر حیرت ہے۔۔۔ یہاں سے جاؤ اور مجھے سوگ منانے دو۔!"

"جیمسن اور ظفر کو تم نے ان کے تعاقب میں روانہ کیا تھا۔!"

"یہ کب کی خبر ہے۔!" عمران چونک کر بولا۔

"کیا تم نہیں جانتے۔۔۔؟"

عمران نے پُر تفکر انداز میں سر کو منفی جنبش دی اور وہ اس کی آنکھوں میں دیکھے جا رہا تھا۔

"ایکس ٹو کی ہدایت پر صفدر انہیں تلاش کرتا پھر رہا ہے۔!"

"سوال تو یہ ہے کہ وہ دونوں۔۔۔؟" عمران کچھ کہتے کہتے رک گیا۔

"ہو سکتا ہے کہ تمہیں علم نہ ہو! ایکس ٹو نے ان دونوں کو ان کے پیچھے لگایا ہو۔!"

"میری عقل ہی خبط ہو گئی ہے۔!" عمران اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا۔

"آدمی بنو۔!"

"کیا مطلب۔۔۔؟"

"سب پر خاک ڈالو۔۔۔!"

"اچھا ڈال دی۔۔۔ آگے چلو۔۔۔!"

"میں نے دو ماہ کی رخصت کے لئے درخواست دی ہے۔۔۔! چلو کہیں باہر چلیں۔!"

"میں کیوں چلوں۔۔۔؟ مجھے یہاں کیا تکلیف ہے۔!" عمران نے احمقانہ انداز میں کہا۔!

"تم۔۔۔!" وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔

"جاؤ۔۔۔!" عمران ہاتھ ہلا کر بولا۔ "میرے رونے کا وقت قریب آ رہا ہے۔!"

"شاید تم کبھی آدمی نہ بن سکو۔۔۔!" وہ برا سا منہ بنا کر بولی۔ "اس وقت میں تمہارے پاس ایک کام سے آئی ہوں۔ مگر اب نہ کہوں گی۔!"

"کام کا معاملہ ہے تو ضرور بتاؤ۔۔۔ رونا آدھے گھنٹے کے لئے ملتوی۔۔۔!"

"رخصت کی منظوری تمہاری سفارش پر منحصر ہے۔ شاید اس نے آج تک تمہاری کوئی بات نہیں ٹالی۔!"

"ہائے میرا جوزف۔۔۔! اس کے لئے پورے فرانس کو ہلا کر رکھ دیتا۔۔۔ لیکن یہ ایکس ٹو کا بچہ۔۔۔ اُس سے تو میں اب بات بھی نہیں کر سکتا۔!"

"جھک مارتے ہو۔۔۔! تم نہ چاہتے تو ایسا کبھی نہ ہو سکتا۔!"

"اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ چھٹی لے کر جاؤ گی کہاں۔۔۔؟"

"بنکاٹا۔۔۔!" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی مسکرائی۔

"کیوں دماغ خراب ہوا ہے۔!"

"یقین کرو۔۔۔ اگر چھٹی مل گئی تو بنکاٹا ہی جاؤں گی۔!"

0

انہیں جھنجھوڑ کر جگایا گیا تھا۔! وہ گاڑی کی پچھلی نشست پر تھے۔! اور ان کے درمیان وہی لڑکی لوئیسا بیٹھی ہوئی تھی جس کے چکر میں پڑ کر وہ فرانس کے سفارت خانے پہنچے تھے۔!

"تم پر آخر نیند کے دورے کیوں پڑ رہے ہیں۔!" وہ اٹھلا کر بولی۔

جیمسن نے جواب میں کچھ کہنا چاہا لیکن ہونٹ ہلاتے ہوئے بھی کاہلی محسوس کر کے رہ گیا۔ ذہن شل ہو کر رہ گیا تھا۔ آنکھیں سب کچھ دیکھ رہی تھیں لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے رد عمل کی صلاحیت ہی مفقود ہو کر رہ گئی ہو۔!

فضا روشنی سے نہائی ہوئی تھی۔ انہیں گاڑی سے اتارا گیا۔ جیمسن کو یاد نہیں آ رہا تھا کہ وہ کب اور کیسے گاڑی میں بیٹھے تھے۔!

گاڑی سے اتر کر آگے بڑھے تو معلوم ہوا کہ ائیر پورٹ پر ہیں۔! لوئیسیا اُن کے ہاتھ پکڑے ہوئے درمیان میں چل رہی تھی۔

جیمسن نے ایک بار پھر اپنے ذہن کو ٹٹولنے کی کوشش کی۔ آخر وہ اتنی بے بسی سے اس کے ساتھ کیوں چل رہے ہیں۔!

اسی طرح وہ رن وے پر آ پہنچے۔۔۔ لوئیسا ان سے ٹھٹھول کرتی جا رہی تھی۔۔۔ لیکن ان کی زبانیں گنگ تھیں۔۔۔ ذہن میں نہ جھنجھلاہٹ تھی اور نہ احتجاج کرنے کی سکت باقی رہی تھی۔!

جہاز کی سیٹوں پر بھی آ بیٹھے لیکن یہ تک نہ پوچھ سکے کہ جانا کہاں ہے۔

پین ایم کا دیو پیکر جمبو جیٹ طیارہ تھا۔! لوئیسا اب بھی ان کے درمیان بیٹھی تھی۔

طیارے کے ٹیک آف کرتے ہی ان پر پھر غنودگی طاری ہونے لگی اور جب وہ بے خبر سو گئے تو لوئیسا نے ان کے گرد حفاظتی پیٹیاں بھی کس دیں۔!

پرواز کے دوران ہی میں دوبارہ بیدار ہوئے تھے۔۔۔ اور لوئیسا کو گھورنے لگے تھے۔!

"بیوقوفی کی کوئی حرکت نہ کر بیٹھنا۔!" لوئیسا مسکرائی! "تمہارا ملک بہت پیچھے رہ گیا ہے۔!"

"اتنے آدمیوں کے درمیان ہم کوئی حرکت نہیں کر سکتے۔!" جیمسن کی زبان پہلی بار کھلی۔

"تمہیں مطمئن رہنا چاہئے۔۔۔ میں تم دونوں کو پسند کرتی ہوں۔!"

"یہ زیادتی ہے۔!" ظفر کمزور سی آواز میں بولا۔ "کسی ایک کا انتخاب کر لو۔!"

"میرے لئے مشکل کام ہے۔۔۔ اس کی داڑھی مجھے پسند ہے۔۔۔ اور تمہارا ناک۔۔۔!"

"میری داڑھی اکھاڑ کر ان کے چہرے پر لگا دو۔۔۔! میں کسی فراڈ لڑکی سے محبت نہیں کر سکتا۔!"

"یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔۔۔۔! بھورے بکرے، میں فراڈ ہوں۔!"

"یقیناً ہم نے تمہیں ایمبیسی کا راستہ بتایا تھا۔۔۔ اور تم نے ہمارے ساتھ یہ برتاؤ کیا۔!"

"کیا برتاؤ کیا۔۔۔؟"

"ہمیں تو اس کا بھی ہوش نہیں ہے کہ تہماری قید میں کتنے دنوں سے ہیں۔!"

"احمقانہ باتیں نہ کرو۔۔۔ تم اسے قید کہتے ہو، جبکہ میں اس دوران میں فیصلہ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہوں کہ تم سے کسے اپنے لئے منتخب کروں۔ وہاں کی آب و ہوا میں فیصلہ نہیں کر سکتی تھی تو اب تاہیتی لئے جا رہی ہوں۔!"

"تاہیتی۔۔۔!" دونوں بیک وقت اچھل پڑے۔!

"ہاں۔۔۔! تمہیں اس پر حیرت کیوں ہے۔! کیا آج تک کسی فرانسیسی لڑکی سے سابقہ نہیں پڑا۔!"

دونوں کچھ نہ بولے۔۔۔! معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھے جا رہے تھے۔!

"تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔!" لوئیسا پھر بولی۔

"پرنس آف بنکاٹا کہاں ہیں۔۔۔؟" دفعتاً ظفر پوچھ بیٹھا۔

"اُوہ پرنس۔۔۔! وہ پہلے ہی وہاں پہنچ چکے ہیں۔!"

"کہاں پہنچ چکے ہیں۔۔۔؟"

"تاہیتی۔۔۔! دراصل وہ پومارے پنجم کے مقبرے کی زیارت کرنا چاہتے ہیں۔!"

"خدا سمجھے اس شخص سے جس کا نام علی عمران ہے۔!" جیمسن بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ اس بار اس نے اردو میں اظہار کیا تھا۔

"پاگل بنا دینے والی حرکت ہے۔!" ظفر بڑبڑایا۔

"کیا تم دونوں میرے خلاف کچھ کہہ رہے ہو۔۔۔؟" لوئیسا بول پڑی۔

"نہیں گڑیا۔۔۔ تم میں رکھا ہی کیا ہے جس کی مخالفت ہوگی۔!" جیمسن کا لہجہ جھلاہٹ سے پاک نہیں تھا۔

"کیا مطلب۔۔۔!"

"آخر ہم کتنے دن تک تمہارے ساتھ رہے ہیں۔!" ظفر نے سوال کیا۔

"آج آٹھویں رات ہے۔!"

"آخر کیوں۔۔۔؟"

"اگر ایسا نہ کیا جاتا تو تم دونوں اتنی شرافت سے تاہیتی کا سفر نہ کر سکتے۔ کم از کم جہاز پر سوار کرانا مشکل ہو جاتا۔ تم لوگ مزاحمت ضرور کرتے۔!"

"اب یہ بھی بتا دو کہ ہماری یہ حالت کیوں ہوئی تھی۔۔۔؟"

"تمہیں کئی طرح کی ادویات استعمال کرائی جاتی رہی ہیں۔ لیکن اب ان کا اثر زائل ہو چکا ہے۔ بے فکر رہو۔!"

"بس اب اور کچھ نہ پوچھئے۔۔۔!" جیمسن نے اردو میں کہا۔ "ہم دونوں میں سے جسے پسند کرے اسے صرف عیش کرنا چاہئے۔!"

"بکو مت۔۔۔!"

"اچھا تو ہوائی جہاز سے چھلانگ لگا دیجئے۔!"

ظفر کچھ نہ بولا۔

تھوڑی دیر بعد لوئیسا بولی۔ "اور کچھ پوچھنا ہے۔۔۔؟"

"قطعی نہیں۔۔۔!" جیمسن جلدی سے بول پڑا۔ "میرے لئے یہی اعزاز کافی ہے کہ تمہیں میری داڑھی پسند آ گئی ہے۔!"

"لیکن میں کس سے محبت کروں۔۔۔؟"

"دونوں سے نیا اور انوکھا تجربہ۔!"

"بکواس ہے۔۔۔! ایک وقت میں ایک ہی سے محبت کی جا سکتی ہے۔!"

"کتابی باتیں ہیں، تم چاہو تو بیک وقت دس آدمیوں سے محبت کر سکتی ہو۔!"

"اُوہو۔۔۔! تم شائد میرا مذاق اڑانے کی کوشش کر رہے ہو۔!"

"ایسی کوئی بات نہیں ہے مکھن کی ڈلی۔۔۔! میں تو تمہاری بہت عزت کرتا ہوں۔!"

"اوہ۔۔۔ خوب یاد آیا۔۔۔ تمہارے لئے پرنس کا خط ہے۔۔۔!" اس نے کہا اور بیگ کھول کر ایک لفافہ نکالا۔

دوسرے ہی لمحے وہ دونوں خط پر جھک پڑے۔ جوزف نے لکھا تھا۔

"میں تم دونوں سے شرمندہ ہوں۔۔۔ لیکن کیا کروں۔۔۔ باس نے تو مجھے دھکا دیا۔ لیکن میں ایسے لوگوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا جن سے کم از کم باس کی خوشبو آ رہی ہو۔۔۔ اور پھر تمہیں حیرت ہوگی کہ میری اس ماہ کی سب سے بڑی خواہش اس طرح پوری ہونے جا رہی ہے۔ اب میں اس بوتل کی زیارت کر سکوں گا جو پومارے پنجم کے مقبرے پر تراشی گئی ہے۔ پہلے تاہیتی جاؤں گا پھر بنکاٹا۔۔۔ اب خدا میری شہزادگی پر رحم کرے۔!"

خط پڑھ کر جیمسن نے قہقہہ لگایا اور ظفر نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے دوسری طرف دیکھنے لگا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
0

تاہیتی کے صدر مقام پاپ اے اے تے کی ایک خوش گوار رات تھی، ساحل کی طرف سے آنے والی نم آلود ہوائیں بستی میں داخل ہونے سے پہلے ہی خوشبوؤں سے بوجھل ہو جاتی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے دوشیزہ فطرت نے اپنے معطر گیسو کھول دیئے ہوں! خوشبوئیں بھانت بھانت کی مہکاریں، ترغیب اور رغبت کی آنکھ مچولی بن کر رہ گئی تھیں۔۔۔! رات کے دو بجے تھے لیکن پورا شہر جاگ رہا تھا۔ کیفے اور ریستورانوں میں قہقہے تھے۔ سازوں کی جھنکاریں تھیں اور گیتوں کے سوتے پھوٹ رہے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ساری دنیا میں یہیں سے مسرتیں تقسیم ہوتی ہوں۔ البتہ ساحل پر ایک خوبصورت سے بنگلے میں جوزف دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ اور اس کی نو دریافت شدہ بیوی ٹالا بوآ کبھی جھنجھلاتی تھی اور کبھی خوشامدیں کرنے لگتی تھی۔

"پومارے پنجم گیا جہنم میں! اب میں واپس جاؤں گا۔!" جوزف نے بالآخر الفاظ میں اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔

"آخر کیوں۔۔۔؟"

"وہ پیتے پیتے مر گیا اور مجھے نشہ ہی نہیں ہو رہا۔ ساری دنیا میں ویسی شراب نہیں مل سکتی جیسی میرا باس مہیا کرتا تھا۔!"

"میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ تم اس حد تک شرابی ہو گئے ہوگے۔۔۔؟"

"بس خاموش رہو۔۔۔! میں نہیں جانتا کہ تم کیا بلا ہو۔ جہنم میں جائے ولی عہدی اور بادشاہت۔۔۔ اور اب تو پومارے پنجم سے بھی کوئی ہمدردی نہیں رہی۔ اگر وہ ایسی ہی گھٹیا شرابیں پی کر مرا ہے۔!"

"یہ بہت قیمتی ہے ڈارلنگ! عوام کیا خواص کی بھی پہنچ سے باہر۔!" ٹالا بوآ نے میز پر رکھی ہوئی بوتل کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

"قیمت نشے کی ہوتی ہے بوتل کی نہیں۔! اور اس منحوس مقبرے پر جو بنڈ کٹائین کی بوتل تراشی گئی ہے اس پر ہزار بار لعنت۔"

"میں تمہارے لئے بکری کی اوجھڑی کی شراب کہاں سے مہیا کروں۔" وہ جھنجھلا کر بولی۔

دفعتاً جوزف چونک پڑا۔ اور اسے گھورتا ہوا بولا۔ "اے بدبخت عورت! اس وقت بکری کی اوجھڑی کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا تو چاہتی ہے کہ میرا پتہ پھٹ جائے اور میں مر جاؤں۔!"

"نہیں میں تو یہ نہیں چاہتی۔!"

"چلی جاؤ یہاں سے۔!"

"تم آخر میری توہین کیوں کرتے رہتے ہو۔!"

"جاؤ، میں تنہائی میں مرنا چاہتا ہوں۔!"

ٹھیک اُسی وقت تین آدمی کمرے میں گھس آئے، ان میں سے ایک کے ہاتھ میں ریوالور تھا۔

"تمہیں اس کی جرآت کیسے ہوئی۔" ٹالابوآ انہیں گھورتی ہوئی بولی۔

"اس لئے کہ ہم بنکاٹا کے شہری نہیں ہیں۔" ریوالور والے نے ہنس کر کہا انداز مضحکہ اڑانے کا سا تھا۔

"دانت بند کرو، اور یہاں سے سے چلے جاؤ۔!"

"صرف اتنا معلوم کرنا ہے کہ آخر تم لوگوں کے ارادے کیا ہیں۔۔۔؟"

"تم کون ہو یہ معلوم کرنے والے۔!"

"یور ہائی نس میرے ہاتھ میں ریوالور ہے کھلونا نہیں۔!"

"کیا قصہ ہے۔۔۔؟" جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔

"تم خاموش رہو۔" ٹالابوآ نے آہستہ سے کہا، ویسے جوزف کی نظر شروع ہی سے ریوالور پر رہی تھی۔

اچانک اس نے دھاڑ کر اپنے قبیلے کا جنگی نعرہ لگایا اور کسی چیتے کی طرح ریوالور والے پر چھلانگ لگا دی۔! پھر ریوالور تو اچھل کر چھت کی طرف گیا تھا اور اس کا شکار ایک لمبی کراہ کے ساتھ فرش پر ڈھیر ہو گیا تھا۔ اُس کے دونوں ساتھی جوزف پر ٹوٹ پڑے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے جوزف یہ بھول گیا ہو کہ وہ آدمی ہی ہے۔۔۔۔ بالکل درندوں کے سے انداز میں ان پر حملے کر رہا تھا، اور ہلکی ہلکی غراہٹیں کمرے کی فضا میں گونج رہی تھیں۔

ریوالور والا تو پھر اٹھ ہی نہیں سکا تھا۔۔۔ ایک اور گرا۔۔۔ پھر ایسا معلوم ہونے لگا جیسے تیسرا جان بچا کر نکل جانا چاہتا ہو۔! ٹالابوآ دم بخود کھڑی انہیں دیکھ رہی تھی۔ دفعتاً جوزف نے تیسرے کو اپنی گرفت میں لے کر سر سے اونچا اٹھایا اور فرش پر دے مارا۔

پھر ٹالابوآ نے بھی کسی قسم کا نعرہ لگایا تھا اور پرجوش انداز میں کہنے لگی تھی "اے بادشاہ نگوینڈا کے بیٹے! اے میرے شہ زور چیتے تو جیسا تھا ویسا ہی اب بھی ہے۔ گھٹتے چاند بھی تجھ پر اثر انداز نہیں ہو سکے تو ہی بنکاٹا والوں کو پوپاؤں کی غلامی سے نجات دلائے گا۔ اب یہ دیکھ کہ ان میں سے کوئی اپنی ناپاک زبان ہلانے کے لئے زندہ بھی بچا ہے یا نہیں۔۔۔؟"

"میں کیوں دیکھوں۔۔۔ تم خود ہی دیکھ لو۔!" جوزف بھنا کر بولا۔ "مجھے اپنے باپ کا بیٹا ہی رہنے دو، میں کسی نگوینڈا کو نہیں جانتا۔!"

وہ کچھ نہ بولی اور جھک کر ان تینوں بے ہوش آدمیوں کا جائزہ لینے لگی یہ نسلاً چینی معلوم ہوتے ہیں۔ کچھ دیر بعد وہ سیدھی کھڑی ہو کر بولی "تینوں زندہ ہیں۔ لیکن آخر کیوں۔۔۔؟ کیا تمہاری واپسی کا راز افشاء ہو گیا ہے۔۔۔؟"

"میں کہتا ہوں کہ فضول باتیں مت کرو۔۔۔ میں جوزف ہوں، میں نہیں جانتا کہ نگوینڈا کون ہے۔ میرا باپ تو پرتگالیوں سے لڑتا ہوا مارا گیا تھا۔

"میں تمہیں نصیحت کرتی ہوں کہ اب ایسی کوئی بات زبان سے نہ نکلانا۔ تم ولی عہد ہربنڈا ہو، والی بنکاٹا کے بیٹے۔!"

"اگر میں کبھی اس کو تسلیم کر لوں تو مجھے گدھے کا بچہ سمجھنا۔!"

"چلو یہی سہی! لیکن اب اس معاملے میں اپنی زبان بند ہی رکھو گے۔۔۔ اُوہو وہ شاید ہوش میں آ رہا ہے، اُس سے جو کچھ پوچھوں اس میں دخل انداز نہ ہونا۔"

جوزف بُرا سا منہ بنائے میز کی طرف بڑھا اور بوتل اٹھا کر ہونٹوں سے لگا لی۔ اس دھینگا مشتی کے دوران میں بھی اس نے خیال رکھا تھا کہ اس میز پر آنچ نہ آنے پائے۔!

"خدا کی پناہ۔۔۔!" ٹالابوآ بڑبڑائی۔ "کیا تم یہ بھی نہیں جاننا چاہتے کہ یہ کون ہیں اور اس کا مقصد کیا تھا۔۔۔؟"

"میں صرف قیمہ کرنے کی مشین ہوں۔۔۔" جوزف غرایا۔ "مجھے اس سے غرض نہیں کہ بیف ہے یا مٹن، دوسری بوتل کہاں ہے۔۔۔؟"

"میں تمہیں اتنی زیادہ نہیں پینے دوں گی۔!"

"تو پھر میں چیخ چیخ کر ساری دنیا کو آگاہ کر دوں گا کہ ہربنڈا نہیں جوزف ہوں۔!"

"اُوہ۔۔۔ آہستہ بولو۔۔۔ وہ ہوش میں آ رہا ہے۔۔۔!"

جوزف اس کی طرف متوجہ ہو گیا، حملہ آوروں میں سے ایک اٹھ بیٹھا تھا لیکن اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپائے ہوئے تھا۔

"ہاتھ ہٹاؤ چہرے سے!" ٹالابوآ گرج کر بولی۔

اس نے بوکھلا کر ہاتھ ہٹا لئے اور اس طرح آنکھیں پھاڑنے لگا جیسے کچھ سجھائی نہ دیتا ہو۔

پھر تھوڑی دیر بعد بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ "یور ہائی نس! ہم کچھ نہیں جانتے، ہم سے جو کچھ کہا گیا تھا۔۔۔!"

"کس نے کہا تھا۔۔۔؟"

جواب میں اُس نے ایک بیہوش حملہ آور کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ "اس کے علاوہ اُسے اور کوئی نہیں جانتا۔!"

"وہ کیا چاہتا ہے۔۔۔؟"

"میں یہ بھی نہیں جانتا۔!"

"کیا تم کنگ چانگ کے آدمی نہیں ہو۔۔۔؟"

"مادام، یور ہائی نس پلیز۔۔۔ میں کچھ نہیں جانتا۔!"

"نہیں جانتے تو جہنم میں جاؤ۔" جوزف اس کی طرف دیکھے بغیر بڑبڑایا۔

0

لوئیسا ان دونوں کے لئے عذاب بن کر رہ گئی تھی۔ کبھی جیمسن پر جان چھڑکتی اور کبھی ظفر کے سر پر ہاتھ پھیرتی۔

آکلینڈ سے تاہیتی کے لئے پرواز کے آغاز پر اس نے ان سے کہا تھا۔ "یہ ضروری نہیں کہ پرنس سے تاہیتی میں ملاقات ہو جائے۔"

"تو پھر تم ہمیں وہاں کیوں لے جا رہی ہو۔؟" ظفر نے پوچھا۔

"شاید وہیں کی آب و ہوا میں کسی نتیجے پر پہنچ سکوں۔!" لوئیسا نے سنجیدگی سے کہا۔

"کیوں نہ چاقو سے تمہارے دو ٹکڑے کر دیئے جائیں۔!" جیمسن نے بھی سنجیدگی سے کہا۔

وہ ہنس پڑی، لیکن جیمسن تلخ لہجے میں بولا۔ "اگر میں واقعی تم سے محبت کرنے لگا ہوں تو یہی کروں گا۔!"

"فضول باتوں میں نہ پڑو۔" ظفر اردو میں بڑبڑایا۔

"سوال تو یہ ہے کہ ہم اتنے احمق کیوں ہو گئے ہیں۔!" جیمسن بھنا کر بولا۔

"کیا مطلب۔۔۔؟"

"ہم اس کے اشاروں پر کیوں ناچ رہے ہیں۔۔۔!"

"اس کے علاوہ بھی کچھ اور سوجھے تو مجھے ضرور مطلع کرنا۔ ہمارے جیب خالی ہیں۔ ٹکٹ واپسی کے لئے نہیں کہ کسی طرح اسے جل دے کر اپنی راہ لیں۔!"

"تو ہم قطعی بے بس ہو چکے ہیں۔!"

"یقیناً۔۔۔ فی الحال ہماری یہی پوزیشن ہے۔!"

اتنے میں لوئیسا اپنی سیٹ سے اٹھنے لگی۔

"کہاں چلیں۔۔۔؟" جیمسن نے پوچھا۔

"ٹوائیلٹ۔۔۔! تم دونوں گونگوں کی طرح بھانت بھانت کی آوازیں نکالتے رہو۔!"

وہ چلی گئی۔ ظفر اور جیمسن منہ بنائے بیٹھے رہے۔۔۔ تھوڑی دیر بعد لوئیسا واپس آ گئی۔ لیکن اس کا چہرہ دہشت سے سفید ہو رہا تھا۔

"کیا بات ہے۔۔۔؟" ظفر چونک کر بولا۔

"خطرہ۔!" وہ آہستہ سے بڑبڑائی۔ "اب ہم پاپ تے میں اُتر کر پرنس کی قیام گاہ کی بجائے کسی ہوٹل کا رخ کریں گے۔!"

"اب ہم اُس وقت تک تمہارے مشورے پر عمل نہیں کریں گے جب تک کہ اصل معاملات کا علم ہمیں نہ ہو جائے گا۔" ظفر نے خشک لہجے میں کہا۔

"آخر کیوں۔۔۔؟"

"اصولی بات ہے، ہم کب تک آنکھیں بند کر کے تہمارے ساتھ چلتے رہیں گے۔!"
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top