کنجِ غزل میں ہم نے جہاں کو بسا دیا

کنجِ غزل میں ہم نے جہاں کو بسا دیا
اس زندگی کو ایک فسانہ بنا دیا

آدم سے ابتدا ہوئی اک داستان کی
پھر اس کے حرف حرف پہ تارا ٹکا دیا

چہروں پہ لکھ کے چھوڑ دیں ساری عبارتیں
آوارہ خواہشوں کو ہوا میں اڑا دیا

لکھتے رہے ہیں سانحہ اس ہست و نیست کا
خالی زمین میں بھرا میلہ لگا دیا

ہر رہگزر سے اپنا پتہ پوچھتے رہے
ہر رہنما کو اپنا اثاثہ لٹا دیا

احسان جو بھی کر سکے ہیں کر دیا یہاں
ویرانہ ءِ حیات میں گلشن اگا دیا
احسان الٰہی احسان​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top