ام اویس

محفلین
شھدائے بدر
بدر کے کم سِن شھید :
پیارے بچو! آپ جانتے ہیں کہ الله تعالی نے، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو تمام انسانوں کی راہنمائی کے لیے دنیا میں بھیجا۔اس وقت ہر طرف کفر و شرک کا دور دورا تھا، لوگ بتوں کی عبادت کرتے تھے اور ہر طرح کی برائی میں مبتلا تھے۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو اسلام کی طرف بلانے اور ایک الله کی عبادت کرنے کی دعوت دینے لگے، انہیں قیامت کے برپا ہونے اور اپنے تمام اعمال کا حساب دینے سے ڈرانے لگے۔ جن دلوں میں ہدایت کی طلب تھی الله تعالی نے انہیں دولتِ ایمان عطا فرمائی۔
مکہ کے بُت پرست کفار و مشرکین کے لیے یہ بہت عجیب بات تھی،انہوں نے پوری شدت سے اس کی مخالفت کی۔
پیارے بچو! ذرا سوچیں، اپنی تمام عادات، خواہشات اور رسم و رواج کو ایک دم چھوڑ کر الله اور اس کے رسول کے حکم پر عمل کرنا کس قدر ہمت کی بات ہے، اور اس راہ میں کس قدر دشواریاں حائل ہیں، اسی لیے سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں کا رتبہ اور مقام بہت بلند ہے۔
جوں جوں مکہ میں اسلام کا نور پھیلنے لگا کفار و مشرکین کی ضد اور دشمنی بھی بڑھنے لگی۔ ہر طرح کی رکاوٹوں کے باوجود ہر خاندان سے بہت سے لوگ اسلام کی سچائی پر ایمان لے آئے۔ ان ہدایت یافتہ لوگوں میں ہر عمر کے افراد شامل تھے، یہاں تک کہ بہت چھوٹی عمر کے لڑکے اور لڑکیوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک انتہائی کم عمر بچے کی کہانی سناتے ہیں۔ اس کا نام عمیر بن ابی وقاص ہے۔مشہور صحابی سعدؓ بن ابی وقاص کے چھوٹے اور سگے بھائی ہیں۔ ان کے والد کا نام مالک بن وہیب یا اہیب تھا لیکن وہ اپنی کنیت ابو وقاص سے مشہور تھے۔بنو زہرہ بن کلاب سے تعلق رکھنےکی وجہ سے زہری کہلاتے تھے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے پیارے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی والدہ کا نام آمنہ بنت وہب بن عبدمناف ہے۔سعد،عمیر اور عامر کے داداوہیب آنحضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے نانا وہب کے بھائی تھے۔اس لحاظ سے یہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ماموں ہوئے۔ ان کی والدہ کا نام حمنہ بنت سفیان تھا۔ ان کا شجرۂ نسب بھی پانچویں پشت پر آنحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کے شجرہ سے جا ملتا ہے ۔عمیر کے بھائی عامر بن ابی وقاص بھی السابقون الاولون میں شامل تھے۔
عام طور پر کیسے بھی حالات ہوں مائیں اپنے بچوں کی طرف داری کرتی اور ان کا خیال رکھتی ہیں۔ لیکن ان کی والدہ کفر و جاہلیت پر اتنی سختی سے قائم تھیں کہ ماں کی ممتا کو بھی بھلا دیا۔ اپنے بیٹوں کے ایمان لانے پر بہت شور وغُل کیا۔عمیر کے بھائی سعدؓ بن ابی وقاص بتاتے ہیں کہ ایک دن میں تیر اندازی کر کے گھر لوٹا تو دیکھا کہ میری والدہ حمنہ اور بھائی عامرؓ کے گرد لوگوں کا مجمع لگاہے ۔ میں نے پوچھا:
”کیا معاملہ ہے؟“
لوگوں نے بتایا: ”عامرؓ کے اسلام قبول کرنے پر تمہاری والدہ نے قسم کھالی ہے کہ اس وقت تک کسی سائے یاچھت تلے بیٹھیں گی نہ کھائیں پئیں گی جب تک یہ نیا دین نہیں چھوڑتا۔“
میں لوگوں کو ہٹا کر والدہ کے پاس پہنچا اورکہا: ”امی! یہ قسم میرے لیے بھی کھا لیجیے۔“
والدہ نے پوچھا:”کیوں؟“
جواب دیا: ”کیونکہ میں بھی نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول کر چکا ہوں۔“
وہ بولی:
”کچھ بھی ہو میں اپنی قسم ضرور پوری کروں گی۔“
تین روز گزرنے کے بعد ان کی والدہ بھوک اور گرمی سے بے ہوش ہوگئیں۔ ان کے دوسرے بیٹے عمارہ نےپانی پلاکر بھوک ہڑتال ختم کی۔
والدین کے متعلق ﷲ تعالیٰ کے اس حکم کانفاذ سب سے پہلے سعدؓ و عامرؓ ہی پر ہوا، جس میں کہا گیاہے: ”اوراگر یہ دونوں یعنی ماں باپ تجھے مجبور کریں کہ تم میرے ساتھ ایسا شریک ٹھہراؤ جس (کے خدائی میں شریک ہونے )کی تمہارے پاس کوئی علمی (و یقینی) اطلاع نہیں تو ان کی اطاعت نہ کرنا۔“(1)
کفار مکہ کی انہی سختیوں اور مظالم کی وجہ سے ہجرتِ حبشہ کی اجازت ملی تو عمیر کے بھائی، عامر بن ابی وقاص حبشہ چلے گئے اور سات سال بعد واپس مدینہ پہنچے۔ ان حالات نے عمیر پر بھی بہت اثر ڈالا۔ وہ تقریبا نو، دس سال کے تھے۔وہ بھی نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کی طرف متوجہ ہو گئے۔ سعد بن ابی وقاص نے اپنے چھوٹے بھائی کی دلچسپی کو محسوس کر لیا اور انہیں اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کرنے لگے۔
عمیر نے کہا: ”اے میرے بھائی کیا میں بھی اس دین کو قبول کر سکتا ہوں؟“
انہوں نے جواب دیا: ”کیوں نہیں!“، چنانچہ عمیر نےاتنی چھوٹی سی عمر میں الله کے دین کی پکار کو سُنا، اسےسمجھا اور اسلام قبول کرلیا۔ ماں کی محبت سے محرومی اور اس راہ میں پیش آنے والی ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک مسلمان کفار کا ظلم وستم برداشت کرتے رہے، بالآخر مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم نازل ہوا۔ السابقون الاولون اپنے گھر ، رشتے دار، مال و اسباب، کاروبار یہاں تک کہ الله کے گھر کو چھوڑ کرمدینہ کی جانب روانہ ہوگئے۔ عمیر کی عمر اس وقت تقریبا چودہ سال تھی جب وہ اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص اور خاندان کے کچھ دوسرے افراد کے ساتھ مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے آئے۔ پیارے بچو! غور کریں کہ موجودہ زمانے میں چودہ سال کا بچہ نویں ، دسویں جماعت کا طالب علم ہوتا ہے، اسے اپنے دین یا دنیا کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور وہ اپنے ہرمعاملے میں والدین کی طرف دیکھتا ہے۔
جب عمیر اپنے بھائی اور خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ مکہ چھوڑ کر مدینہ پہنچے تو رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ان کے ہم عمر انصاری عمرو بن معاذ رضی الله عنہ کا بھائی بنا دیا۔ دو ہجری میں الله کے حکم سے، مجاہدین اسلام غزوۂ بدر کے لیے نکلے۔ عمیر بھی ان کے ساتھ روانہ ہوگئے۔جس وقت غزوہ بدر پیش آیا آپ کی عمر سولہ سال تھی جو کہ جہاد میں شرکت کے لیے کم تھی۔ لشکر کی روانگی سے قبل آپ چھپتے پھر رہے تھے۔ ان کے بھائی سعد بن ابی وقاص نے انہیں دیکھ لیا اور حیران ہو کر پوچھا:” تمہیں کیا ہوا عمیر؟ تم چُھپ کیوں رہے ہو؟“
کہنے لگے مجھے ڈر ہے، ایسا نہ ہو کہ حضور اقدس صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم مجھے دیکھ لیں اور بچہ سمجھ کر واپس مدینہ بھیج دیں، جبکہ میں ہر صورت لڑائی میں شامل ہونا چاہتا ہوں، شاید اللہ تعالیٰ مجھے بھی شہادت کی سعادت عطا فرمائیں۔ آخر وہی ہوا، جس کا ڈر تھا، رسول اللہ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے لشکر کا معائنہ فرمایا۔ آپ کے سامنے تمام جانثار یکے بعد دیگرے پیش ہوئے تو عمیرکا خوف حقیقت بن گیا۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے کم عمری کی وجہ سے انہیں جہاد میں شامل ہونے سے منع فرما دیا۔
عمیر پر جہاد کا شوق اس قدر غالب تھا کہ برداشت نہ کرسکے اور بے اختیار زارو قطار رونے لگے۔ ان کی لگن اور جذبے سے متاثر ہوکر نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں جنگ میں شامل ہونے کی اجازت دے دی، بلکہ اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کے گلے میں تلوار لٹکائی، جو ان کے قد سے لمبی تھی۔ کم سن عمیر شوق شھادت لیے دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور تلوار چلا کر بہت سے کافروں کو جہنم واصل کیا۔ آخر آپ کی دلی خواہش پوری ہوئی اور جنگ بدر میں آپؓ عمرو بن ودّ کے ہاتھوں شہید ہوئے اور وہیں دفن ہوئے۔ میدانِ بدر میں شہید ہونے والوں میں، یہ سب سے کم عمر شہید تھے۔

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

(سورۂ لقمان : ۱۵) (مسلم: ۶۳۱۷، مسند احمد: ۱۶۱۴)
نزہت وسیم
 

سیما علی

لائبریرین
عمیر پر جہاد کا شوق اس قدر غالب تھا کہ برداشت نہ کرسکے اور بے اختیار زارو قطار رونے لگے۔ ان کی لگن اور جذبے سے متاثر ہوکر نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں جنگ میں شامل ہونے کی اجازت دے دی، بلکہ اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کے گلے میں تلوار لٹکائی، جو ان کے قد سے لمبی تھی۔ کم سن عمیر شوق شھادت لیے دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور تلوار چلا کر بہت سے کافروں کو جہنم واصل کیا۔ آخر آپ کی دلی خواہش پوری ہوئی اور جنگ بدر میں آپؓ عمرو بن ودّ کے ہاتھوں شہید ہوئے اور وہیں دفن ہوئے۔ میدانِ بدر میں شہید ہونے والوں میں، یہ سب سے کم عمر شہید تھے۔
ہمارا سلام ہے اس ننھے شہید پر !!!!
کن شہیدوں کے لہو کے یہ فروزاں ہیں چراغ
روشنی سی جو ہے زنداں کے ہر اک روزن میں
 
Top