کل کا کالم

ساجداقبال

محفلین
رشتہ۔۔۔۔میرے مطابق۔۔۔۔ڈاکٹر شاھد مسعود

چوہدری شجاعت پریشان ہیں کہ اتنے برس صدر مشرف کے ساتھ گذار لینے کے بعد۔۔۔آخر اْن کے باہمی رشتے کی حیثیت کیا ہے کہ صدر تمام اہم فیصلے اْنہیں نظر انداز کرتے ہوئے، چند قریبی فوجی افسران ، حساس اداروں کے سربراہان، حاضر سروس یا ریٹائیر بیوروکریٹس کے ایک ٹولے اور چند دوست احباب رشتہ داروں سے مشورہ کرنے اور واشنگٹن سے اْن کی اجازت لینے کے دوران اْنہیں کبھی اعتماد میں نہیں لیتے لیکن ان فیصلوں کے تباہ کن نتائج سامنے آنے کے بعد ۔۔چوہدری صاحب کو اْس مستری کی طرح طلب کرلیا جاتا ہے جو عموماََ گھروں میں پانی کا پائپ پھٹنے یا گٹرلائین بھر جانے کے بعد ہنگامی طور پر بْلالیا جاتا ہے۔۔۔!!چوہدری صاحب جو بحران کے ایک خاص مرحلے پر جان اور عزت دونوں بچا کر بیرونِ ملک ، کہیں علاج کے لئے پہنچے ہوتے ہیں اْنہیں راولپنڈی سے آتی فون کال ، اگلی فلائٹ سے وطن واپسی کا حکم صادر کرتی ہے اور وہاں تاریخ دیتا ڈاکٹر مریض کو سرپٹ بھاگتا دیکھتا رہ جاتا ہے!! چوہدری شجاعت کو شکوہ ہے کہ صدر مشرف نے اْن کے مشوروں پر" مٹی پا" کر ریفرنس کی صورت جو خود کش حملہ چیف صاحب پر کرنے کی کوشش کی، وہ دھماکہ خیز مواد، حملہ آور کے ہاتھ میں اس طرح پھٹ گیا کہ وہ خود تو اندرونی طاقت اور بیرونی حمایت کے باعث بچ نکلا لیکن اردگرد موجود تمام تماشائیوں کے چہرے دھماکے نتیجے میں مزید "سیاہ" ہوگئے۔ چوہدری صاحب کا رشتہ صدر مشرف سے طارق عزیز صاحب نے کروایا تھا اور اب وہی سسرال کی ایک اور شخصیت (جو اتفاق سے حساس ادارے کی سربراہ بھی ہیں) کے ساتھ مل کر، چوہدری صاحب کی سوتن دوبئی سے لانے کو بے تاب ہیں!! فرق صرف یہ ہے کہ اس بار یہ رشتہ "بڑوں" کی نہ صرف رضامندی بلکہ حکم سے طے پارہا ہے۔ اور اگرچہ خود دولہا میاں ۔۔۔"بڑی بیگم" اور انتہائی فرماں بردار ۔۔۔پانچ برسوں سے جوتیاں اٹھائے موجو د سسرالیوں سے بے حد مطمین تھے لیکن وہ "بڑوں" کے فیصلے کے سامنے فرماں برداری پر مجبور ہوتے۔۔نئی بیگم کو اس حقیقت کے باوجود گلے لگانے جا رہے ہیں کہ ممکن ہے کہ وہ نکاح کے روز ہی وردی کے بجائے شیروانی کا مطالبہ اور منہ دکھائی میں وزارت عظمیٰ مانگ بیٹھے!!! میکے اور باراتیوں کی اکژیت بھی نئی دلہن کے چال چلن اور ناز نخروں پر شدید اعترا ض کے باوجود۔۔۔اس موقعے پر یوں گھوڑی کے آگے بھنگڑا ڈالنے کو بے تاب ہے کہ اس صورت "بڑوں" کی جانب سے "کھانے" پر پابندی کا خطرہ ٹل جائے گا۔ اور یہ بات دولہا میاں بھی جانتے ہیں کہ اْن کے باراتیوں کو کھانا ملتا رہے تو وہ اْن کی گھوڑی کی پونچھ پر تیلی لگانے سے باز رہتے ہیں۔ اپنی توجہ صرف چھوارے بانٹنے تک مرکوز رکھیں گے!!! یہی باراتی ہی دولہا کی اصل طاقت ہیں اس لئے اْن کا کھانا پینا، خوش و خرم بینڈ کی دھنوں پر ناچتے رہنا "انکی سلامتی "کیلئے ضروری ہے۔ چوہدری صاحب کو اندیشہ ہے کہ میکے والوں نے پچھلی بار جو دولہا میاں کا جو دوسرا رشتہ کراچی میں طے کروایا تھا وہ دلہن تو آگ مانگنے آئی اور پنجاب کی مالکن اور حصہ دار بننے کا تقاضہ لے بیٹھی!! جہیز میں اتنے بھائی آگئے کہ وہ مینار پاکستان پر چڑھ کر بڑی بیگم کو ہی صلواتیں سنانے لگے!! یہ تو بھلا ہو دوسرے دو چوہدریوں کا (چوہدری افتخار اور چوہدری اعتزاز) !! جنہوں نے چیف جسٹس اور ان کے وکیل کی صورت 12 مئی کو کراچی جاکر ۔۔۔چوہدریوں کی پنجاب میں عزت بحال کرکے ۔۔۔چھوٹی دولہن کو واپس میکے بھیج دیا ورنہ تیور خطرناک تھے!!! "بڑوں" کے حکم کے مطابق نئی دولہن تاریخ پکی کرنے اور شرائط جلد کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے کیونکہ بات ابھی دوسری جگہ بھی چل رہی ہے، ختم نہیں ہوئی!!! یہ دوسرا سیدھاسادہ دولہا، نئی سج دھج کے ساتھ، لندن میں آس لگائے ۔۔۔منتظر ہے کہ دلہن ۔۔۔ڈولی میں اْسے بھی بٹھا لے جائے گی اور ایسی صورت کوئی رقیب لاہور ائر پورٹ پر للکارنے سے باز رہے گا کہ "یہ بارات سعودی عرب واپس جائے گی"!!! سادہ بھولا بھالا دولہا پریشان ہے کہ دلہن ۔۔۔چند ماہ پہلے ہی اْس سے بات پکی کرکے، ساری دنیا کا منہ میٹھا کرواکے۔۔۔اب پنڈی والے سے آنکھ مٹکا کر رہی ہے مگر ۔۔۔وہ "بڑوں "کی مرضی کے آگے بے بس ہے!!! آخر بارہ اکتوبر 1999 کے بعد جب اْسے زبردستی سسرال والوں نے گھر داماد بنالیا تھا تو یہی بڑے اْنہیں چھڑا کر باہر لے گئے تھے!! بڑوں کے آگے بھلا کس کا بس چلتا ہے!! چوہدری صاحب یوں بھی افسردہ ہیں کہ یہ مجوزہ نکاح "قاضی" صاحب کے بجائے "مولانا" پڑھانے جا رہے ہیں۔ اور مو لانا کی سیاست اس اْس نہج پر ہے جہاں خود اْن کے اراکین اسمبلی اخبار نویسوں سے پوچھتے پھرتے ہیں کی "بھائیو!! آج ہم کس کے ساتھ ہیں؟؟" قاضی صاحب کے اعتراض پرمولانا حلفیاََ بیاں کرتے ہیں کہ اْنہیں کرسی کا قطعاََ لالچ نہیں (کیونکہ ان کے ہاں فرشی نشست ہواکرتی ہے) !! وہ خود کو قاضی صاحب سے بڑا سیاستدان کہتے ہیں اور جنہوں نے مولانا کو دیکھا ہے ، وہ یہ تسلیم بھی کرتے ہیں !!! پھر مولانا سے بات کرو تو لگتا ہے کہ کسی اجتماع سے خطاب کر رہے ہیں!! غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ خود کش حملہ آوروں نے مولانا کو نشانہ بنانے کا ارادہ یوں بھی ترک کردیا کہ اس مقصد کے لئے کم از کم چار حملہ آور درکار تھے! وہ قاضی صاحب کے استعفیٰ پر سنجیدہ تبصرہ سے گریز کر رہے ہیں کیونکہ اب مولانا کی اس موضوع پر سنجیدہ گفتگو مذاق بن جاتی ہے!! چوہدری شجاعت کی خواہش ہے کہ چونکہ اْن سے مذاکرات کرتی ہر شخصیت بشمول اکبر بگٹی اور رشید غازی ۔۔۔سسرال کے ہاتھوں ختم کردی گئی!! اس لئے اس بار انہیں نئے طے پاتے رشتے میں بھی شامل کیا جائے کہ شائد اْن کے سائے کے فیض و برکت سے، اْن کا گھر لْٹنے اور سوتن کے منحوس قدم سے بچ جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ مستقبل میں سسرال اور باراتی یہ فریضہ چوہدری صاحب کے بغیر سر انجام دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں کہ ماضی میں وہ دوبار یہ سہاگ اجاڑ چکے ہیں!! دہلیز تک آتے اس خطرے کو بھانپ کر چوہدری صاحب نے دو روز قبل کراچی والی چھوٹی بیگم سے بات کی ہے، جو سسرالیوں کو اپنے خلاف سازش پر کوس رہی ہے!! اس کا کہناہے کہ وہ اپنی جھگڑالو عادتیں ترک کرکے گذرے پانچ برسوں سے صبح شا م ا ْن کی خدمت کرتی رہی اور اْس نے علیحدہ مکان کا مطالبہ بھی چھوڑ دیا تھا لیکن پھر اْسے پہلے ایک کرکٹر سے بدنام کرواکر۔۔واپس میکے محدود کردیا گیا!! اور وہ ابھی سنبھل ہی رہی تھی کہ بارشوں سے کئی سائین بورڈ اْ س پر آگرے اور وہ پھر دھڑام ہوگئی!! چوہدری صاحب نے یقین دلایا کہ وہ اْس کا گھر دوبارہ آباد کرنے اور نئی دلہن کے خلاف مورچہ بنانے میں اْس کا بھرپور ساتھ دیں گے کہ آخر دولہا میاں پر پہلا حق انہی دونوں کا ہے!! ادھر دولہا میاں خود بھی پریشان ہیں کیونکہ اب " بڑے" اس شک کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ شائد اْن کی مرضی کے مطابق گھر چلانے کے اہل نہیں رہے!! تبھی وہ نیا رشتہ طے کرواکر۔۔دولہا میں میں جوانی کی کھوئی ہوئی توانائی واپس لانا چاہتے ہیں لیکن دولہا میاں کا اصرار ہے کہ گھر چلانے کا اختیار صرف میرے ہاتھ میں رکھا جائے اور خاتون کو باورچی خانے تک محدود رکھا جائے اور وہ دل سے اس وٹے سٹے پر قطعاََ مطمن نہیں!!! چوہدری شجاعت کو یہ بھی شکایت ہے کہ ہر پیچیدہ صورتحال کے دوران وزیر اعظم خاموش اور علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ کسی نے پوچھا کہ وزیر اعظم کی پہچان کیا ہے؟ تو جواب ملا کہ اگر دو افراد گفتگو کر رہے ہوں اور ایک بور ہورہا ہو تو سمجھ جائیں کہ دوسرا شوکت عزیز ہے!! وہ اپنی یوٹیلیٹی تلاش کرنے ہر ہفتے ایک یوٹیلیٹی اسٹور پر جاتے ہیں لیکن جواب یہی ملتا ہے کہ "سر اب یہ ختم ہوچکی ہے "!!! اگر کوئی کہے کہ آپ کو برطرف کیا جارہا ہے تو ایوان صدر تصدیق سے پہلے نیو یارک کی اگلی فلائیٹ کے اوقات پوچھتے ہیں!!! عوام سے خود کو یوں دور رکھتے ہیں کہ اْن کے دکھوں میں مزید ا ضافہ نہ ہو اور صدر مشرف اکثر دوران گفتگو جب یہ سمجھتے ہیں کہ موصوف اْن کی بات توجہ سے سن رہے ہیں تو دراصل وہ اپنے بولنے کی باری کا انتظار کررہے ہوتے ہیں!! پچھلا انتخا ب جہاں سے جیت کر آئے تھے ، اْس حلقے میں دوبارہ یوں نہ جاسکے کہ وہ کسی غیر ملکی دورے کے دوران رستے میں ہی نہ آتا تھا!! اور اب دوبارہ یہی ارادہ رکھتے ہیں!!! چوہدری شجاعت حسین کے سر پر بھاری ذمہ داری ہے۔انہیں پرویز الہی صاحب کو سوٹ پہنواکر ۔۔اب پڑھا لکھا پاکستان بنوانا ہے!! صدر مشرف کو اْسی طرح اپنی افادیت پر قائل رکھنا ہے جس طرح وہ امریکا کو قائل رکھتے ہیں۔ الطاف بھائی سے فون پر گفتگو کا سلسلہ اس طرح جاری رکھنا ہے کہ چوہدری صاحب کی بات دوسری طرف سمجھ میں نہ آئے اور چوہدری صاحب کو دوسری طرف سے بولنے کا موقعہ نہ مل سکے!! شیخ رشید کو قابو رکھنا ہے کہ وہ پٹری سے نہ اترے، لغاری کے ڈاکٹر سے رابطہ ضروری ہے کہ وہ اگلے کچھ ماہ بستر پر پڑے رہیں، پیر پگارا کیلئے دعا کرنی ہے کہ اب ساری عمر جی ایچ کیو کے فرشتوں کے ساتھ گزار کر۔۔۔کوئی آخری فرشتہ اْن تک پہنچ جائے!! محمد علی درانی کو پہلے مصطفیٰ قریشی اور اب راشد قریشی سے بچا کر رکھنا ہے اور مشاہد حسین کو مسلسل فعال رکھنا ہے کہ وہ ادھورے جملے مکمل کرسکیں!! اور طارق عظیم کی ا دِھر اْدھر مخبریوں پر نظر رکھنی ہے!! شفیق الرحمٰن نے ایک بار لکھا تھا کہ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ بندے کو پسند تو خاتون کے گال کا تل آتا ہے لیکن اْسے شادی پوری خاتون سے کرنی پڑتی ہے۔ "بڑوں" کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اْنہیں پسند صرف دولہا میاں ہیں لیکن وہ اْنہیں ہر کچھ برس بعد نئے روپ میں تروتازہ دیکھنے کے لئے اْن کیلئے نئے رشتے تلاش کرنے چل پڑتے ہیں۔دلہا کا یہ مشورہ مہذب دنیا کو قابل قبول نہیں کہ" سیاست کو پاک کرنے کے لئے اس سیا ست دانوں کو الگ اور جنگ کے خطرات سے خطے کو پاک کرنے کے لئے فوج کو حکومت ادا کردی جائے!!" "بڑے" جشن سے پہلے ہی آتش بازیوں کی دھمکی دے رہے ہیں، اس لئے نئے رشتے جلد طے کرنا ضروری ہے اور قصوری صاحب چونکہ فرمارہے ہیں کہ ہم امریکیوں کے گھٹنوں کو ہاتھ نہیں لگاتے وہ ہمارے ہاتھوں کو گھٹنے لگاتے ہیں!! اس لئے ہو سکتا ہے آئندہ وہ یہ وضاحت کر رہے ہوں کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ہمارے علاقوں پر بمباری کی گئی ہے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ ہمارے علاقوں سے شرپسند افغان علاقے میں جاکر اْچھل اْچھل کر اتحادی فوج کے برستے بم دبوچ کر واپس ہمارے ہاں آکر اْنہیں استعمال کرنا چاہتے تھے کہ بم پھٹنے سے مارے گئے!! کسی نے پوچھا کہ یہ کیسا پتہ چلے گا کہ حکومتی ترجمان کب جھوٹ نہیں بولتے، جواب ملا کہ " جب وہ چپ ہوں" جنرل مشرف کا بے اختیار دل اگلے پانچ برس صدر بننے کو چاہتا ہے لیکن بے اختیار صدر بننے کو دل نہیں چاہتا!!! انہیں یقین ہے کہ یہ نیا رشتہ طے ہوگیا تو" بڑے " مسلم لیگ نون کو ۔۔۔مسلم لیگ آفٹرنون بنا دیں گے!!! اور یہ بھی چوہدری صاحب کے لئے رنجیدگی کا باعث ہوگا کہ اب رشتے آسمانوں یا آب پارے میں نہیں، واشنگٹن میں طے ہورہے ہیں
 

ساجداقبال

محفلین
زیرہ پوائنٹ۔۔۔۔جاوید چودھری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ روزنامہ ایکپریس

1100231616-2.gif
 

ساجداقبال

محفلین
ایک اور فیصلے کا وقت قریب ہے . . . . قلم کمان… . . . حامد میر

اسیّ سالہ بھارتی دانشور کلدیپ نیّر پاکستانیوں پر حیران ہیں۔ پاکستان بنا تو ان کی عمر 24 سال تھی۔ وہ سیالکوٹ میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر دہلی پہنچے تو انہیں یقین نہیں تھا کہ پاکستان قائم رہے گا۔ انہیں دہلی پہنچے 60 سال گزر گئے لیکن پاکستان بدستور قائم ہے۔ وہ حیران ہیں کہ 60 میں سے 32 سال تک پاکستان پر فوجی سربراہوں نے حکومت کی۔ سیاسی حکومتوں کا دورانیہ 28 سال رہا لیکن اس کے باوجود پاکستان دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ کلدیپ نیّر کو فخر ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن انہیں افسوس یہ ہے کہ جب بھارت میں جمہوریت کیلئے ایک کڑا وقت آیا تھا تو بھارت کی سیاسی جماعتوں، عدلیہ اور میڈیا نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو پاکستان کے لوگوں نے فوجی آمروں کے خلاف جدوجہد میں ادا کیا۔ آج بھارت کی عدلیہ ایک فلم ایکٹر سنجے دت کو ناجائز اسلحہ رکھنے کے مقدمے میں چھ سال قید با مشقت کی سزا سنا کر قانون کی بالادستی کے دعوے کر رہی ہے۔ کیا صرف اس لئے کہ سنجے دت ایک مسلمان ماں کا بیٹا ہے ؟ بھارت میں آئین اور قانون کی بالادستی اس وقت کہاں گئی تھی جب 12 جون 1975ء کو الٰہ آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم اندرا گاندھی کو بد عنوانی کے الزامات میں چھ سال کیلئے نااہل قرار دیا ؟ اندرا گاندھی نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی بجائے 25 جون 1975ء کو تمام انسانی حقوق معطل کرتے ہوئے بھارت میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ اندرا گاندھی کی ایمرجنسی 21 ماہ تک نافذ رہی۔ اس ایمرجنسی کے خلاف بھارت کے وکلاء نے کوئی قابل ذکر مزاحمت نہیں کی۔ کلدیب نیّر اور چند دیگر صحافیوں نے ایمرجنسی کے خلاف لکھا تو انہیں اٹھا کر جیل میں پھینک دیا گیا لیکن بھارتی میڈیا نے کلدیپ نیّر کے حق میں ویسی تحریک نہیں چلائی جیسی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف چلائی۔ کلدیپ نیّر کہتے ہیں کہ ایمرجنسی کے خلاف مرارجی ڈیسائی، اٹل بہاری واجپائی، جے پرکاش نارائن اور ایل کے ایڈوانی سمیت کئی سیاستدان سڑکوں پر آئے، ہزاروں افراد کو جیل میں ڈالا گیا لیکن اندرا گاندھی کو کسی سے اتنا خطرہ محسوس نہ ہوا جتنا جنرل ضیاء الحق کو ذوالفقار علی بھٹو سے تھا۔ اگر ایک بھارتی سیاستدان بھٹو کی طرح تختہ دار پر لٹکنے کیلئے تیار ہوجاتا تو اندرا گاندھی کی ایمرجنسی چند دن سے زیادہ نہ چلتی۔ کلدیب نیّر حیران ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں کسی عدالت نے ایمرجنسی کے خلاف کوئی ایسا فیصلہ نہیں دیا جس کا مقابلہ 20 جولائی 2007ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے ساتھ کیا جا سکے۔ کلدیپ نیّر یہ اعتراف کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا میڈیا اندرا گاندھی کی ایمرجنسی میں وہ کردار ادا نہ کر سکا جو پاکستانی میڈیا نے جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سال اور جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور میں ادا کیا۔ ان کے خیال میں آج بھی بھارتی میڈیا کے مقابلے پر پاکستانی میڈیا اپنے محدود وسائل کے باوجود قومی مسائل کو اجاگر کرنے میں زیادہ متحرک ہے اور زیادہ جرأت مندانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ صرف ایک کلدیپ نیّر نہیں بلکہ بہت سے بھارتی مبصرین حیران ہیں کہ ایک ایسا ملک جہاں سیاستدانوں نے کم اور فوجی جرنیلوں نے زیادہ حکومت کی ہے وہاں جاوید ہاشمی کیسے پیدا ہو گیا جس نے جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور میں چار سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزار دیئے۔ جاوید ہاشمی وہ شخص ہے جو پاکستان ٹوٹنے سے چند ماہ قبل ڈھاکہ جا پہنچا۔ وہ ناراض بنگالی نوجوانوں سے ملنا چاہتا تھا، انہیں بتانا چاہتا تھا کہ مغربی پاکستان کے عوام کی اکثریت فوجی جرنیلوں کو پسند نہیں کرتی لیکن جاوید ہاشمی سے کہا گیا کہ بنگالیوں سے دور رہو وہ تمہیں گولی مار دیں گے۔ یہ دیوانہ شخص چاک گریبان کے ساتھ سینے پر گولی کھانے کیلئے تیار ہو گیا۔ اس نے کہا کہ اگر میرے لہو سے کسی کی نفرت کی آگ بجھتی ہے اور پاکستان بچ جاتا ہے تو میں گولی سے نہیں ڈرتا۔ پاکستان کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کی خواہش رکھنے والے اس شخص کو موجودہ دور حکومت میں غدّار قرار دیا گیا۔ بغاوت کا مقدمہ بنانے والوں کو بھی پتہ تھا کہ جاوید ہاشمی غدّار نہیں۔ اسے کہا گیا کہ اگر وہ نواز شریف کے ساتھ غدّاری پر راضی ہو جائے تو اسے سیاسی شان و شوکت سے مالا مال کر دیا جائے گا لیکن اسے یہ شوکت کبھی عزیز نہیں رہی۔ وہ انکار کرتا رہا۔ اعلیٰ عدالتوں سے اس کی درخواست ضمانت مسترد ہوتی رہی لیکن آخر کار 3 / اگست کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اور تاریخی فیصلے کے ذریعہ جاوید ہاشمی کو رہا کرنے کا حکم دیدیا۔ افسوس صد افسوس کہ جاوید ہاشمی چار سال تک پابند سلاسل رہا لیکن قومی اسمبلی کے اسپیکر چوہدری امیر حسین نے ایک مرتبہ بھی جاوید ہاشمی کو اسمبلی کے اجلاس میں لانے کیلئے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کئے۔ یہ درست ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد موجودہ قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہے لیکن اسمبلی کی تاریخ کا یہ واقعہ شرمناک ہے۔ اس اسمبلی کا ایک رکن چار سال تک جیل میں تھا ، اس کی رکنیت برقرار رہی لیکن اسے اسمبلی کے اجلاس میں حاضر کرنے کا حکم صادر نہ ہو سکا ؟ اس ایک مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک کمزور اسمبلی تھی، اس اسمبلی نے جاوید ہاشمی کو کوئی عزت نہیں دی لیکن جاوید ہاشمی جیسے بہادر شخص کی رکنیت کے باعث اس اسمبلی کو عزت ضرور ملی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جب جاوید ہاشمی رہائی کے بعد قومی اسمبلی میں داخل ہوگا تو اسپیکر چوہدری امیر حسین کس طرح اس کا سامنا کریں گے ؟ اسپیکر صاحب کو چاہئے کہ جب جاوید ہاشمی ایوان میں موجود ہوا کرے تو وہ اپنی کرسی کسی اور کو دیدیا کریں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ زیادہ دیر اس تکلیف میں مبتلا نہ رہیں۔ جنرل پرویز مشرف کچھ دنوں میں موجودہ اسمبلیوں سے دوبارہ منتخب ہونے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ یہ اعلان سامنے آنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی زیادہ دن انتظار نہیں کریں گے اور اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیں گے۔ کلدیپ نیّر مزید حیران ہونے والے ہیں کیونکہ پاکستان میں آئین اور جمہوریت کیلئے جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔ منزل بہت دور ہے۔ ایک جاوید ہاشمی تو رہا ہو گیا لیکن ابھی جاوید ہاشمی کو اختر مینگل اور ان کے کئی دیگر ساتھیوں کی رہائی کیلئے مزید جدوجہد کرنی ہے۔ ان سب پر بھی بغاوت کے مقدمے ہیں۔ ابھی تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھی رہا کروانا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی پر پاکستان کے دشمن خوش نہیں ہوں گے اور اسی لئے مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے دشمن اس ملک میں حقیقی جمہوریت اور قانون کی بالادستی نہیں چاہتے۔ کیا وجہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا دشمن جاوید ہاشمی کا بھی دشمن ہے ؟ کیا دونوں غدّار ہیں ؟ سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ کر دیا کہ جاوید ہاشمی غدّار نہیں اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی کے بعد تاریخ کو بھی ایک فیصلہ کرنا ہے۔ یہ فیصلہ انہیں نظر بند کرنے والوں کے بارے میں ہو گا اور اس فیصلے کا وقت بھی قریب ہے۔
 

ساجداقبال

محفلین
خبردار۔۔۔۔۔قلم کمان۔۔۔۔۔حامد میر
حافظ عبدالباسط تین سال اور آٹھ ماہ تک بغیر کسی مقدمے کے قید میں رہا۔ اس کی رہائی کے لئے سپریم کورٹ کے معززججوں نے جس جرأت و استقامت کا مظاہرہ کیا اس پر ہر محب وطن پاکستانی ان کا شکرگزار ہے۔ حافظ عبدالباسط کو القاعدہ اور طالبان سے تعلق کے الزام میں پکڑا گیا لیکن تین سال اور آٹھ ماہ تک انہیں کسی عدالت میں پیش نہیں کیاگیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ جنرل پرویز مشرف پر حملوں میں بھی ملوث ہیں لیکن اس سلسلے میں پولیس اور فوج کے خفیہ ادارے کوئی ثبوت حاصل نہ کرسکے۔ حافظ عبدالباسط کو ایف آئی اے کے سربراہ کے حکم پر فیصل آباد پولیس نے پکڑ کر ایک فوجی افسر کے حوالے کیا۔ 20 اگست کو سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کے سربراہ کو طلب کر کے حافظ عبدالباسط کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ملزم کو پکڑ کر خفیہ اداروں کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ عدالت نے پوچھا کہ کس قانون کے تحت حافظ عبدالباسط کو پکڑا گیا اور کس قانون کے تحت خفیہ اداروں کے حوالے کیاگیا تو ایف آئی اے کے سربراہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ عدالت نے ان کی سرزنش کی اور کہا کہ ہمیں مسلح افواج کے سربراہوں کو یہاں طلب کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب راولپنڈی میں کچھ شخصیات الرٹ ہوگئیں۔ اٹارنی جنرل ملک قیوم بار بار پیغام بھجواتے رہے کہ حافظ عبدالباسط کو رہا کردیا جائے لیکن دوسری طرف سے بہانے بنائے جاتے رہے۔ شام تک ایف آئی اے کے سربراہ عدالت میں موجود رہے جس کے بعد وارننگ دی گئی کہ منگل کو ہر صورت میں حافظ عبدالباسط کو رہا کیا جائے۔ منگل کی رات ایف آئی اے کے سربراہ نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ حافظ عبدالباسط خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس تھا اور اسے رہا کردیاگیا ہے۔ سپریم کورٹ نے حافظ عبدالباسط کے علاوہ منگل کوعمران منیر اور علیم ناصر کی رہائی کو بھی ممکن بنایا۔ رہائی کے بعد حافظ عبدالباسط نے صحافیوں کو بتایا کہ بہت سے بے گناہ افراد خفیہ اداروں کی غیر قانونی حراست میں ہیں انہوں نے بتایا کہ دوران قید راولپنڈی کے عنصر علی، بہاولپور کے حافظ ناصر، ملتان کے اسامہ نذیر اور صدیق اکبر سے ان کی ملاقات ہوئی۔ اسامہ نذیر ٹی بی کے مریض بن چکے تھے اور تشدد کے باعث ان کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہو چکی ہے۔ انہوں نے درخواست کی کہ ان بے گناہوں کی رہائی کے لئے بھی کچھ کیا جائے۔ علیم ناصر نے بھی منگل کو سپریم کورٹ میں بتایا کہ وہ آئی ایس آئی کی تحویل میں تھا اور جس قید خانے میں اسے رکھا گیا وہاں لوگوں کو بہت مارا جا رہا تھاا ور انہوں نے وہاں بہت سے مردوں کو روتے ہوئے دیکھا۔ یہ سن کر چیف جسٹس کو کہنا پڑا کہ آئی ایس آئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ نہیں ہے۔ یہ ادارہ کس قانون کے تحت لوگوں کوگرفتار کرتا ہے؟ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ میں خفیہ اداروں کی غیر قانونی کارروائیوں پر بحث ہو رہی تھی خفیہ اداروں کے اہلکار اس وقت بھی سپریم کورٹ کی عمارت کے اندر اپنی غیر قانونی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ جب عمران منیر کو سپریم کورٹ میں لایا گیا تو جیو ٹی وی کے سینئر وقائع نگار عبدالقیوم صدیقی نے اپنے موبائل فون سے ان کی تصاویر بنا لیں کیونکہ عدالت میں ٹی وی کیمرے نہیں لائے جاسکتے۔ عدالتی کارروائی کے بعد عبدالقیوم صدیقی اٹارنی جنرل ملک قیوم سے گفتگو کر رہے تھے کہ کسی نے ان کا موبائل فون جیب سے نکال لیا۔ سپریم کورٹ کی حدود میں دوسری مرتبہ ان کا موبائل فون چوری کیاگیا ہے جس کی تحریری شکایت ڈی ایس پی سیکورٹی سپریم کورٹ آف پاکستان کو درج کروا دی گئی ہے۔ خفیہ اداروں کے جس اہلکار نے بھی عبدالقیوم کا موبائل فون چوری کیا ہے وہ اپنے افسروں کی نظروں میں بڑا فرض شناس ٹھہرے گا۔ وہ موبائل فون میں سے عمران منیر کی ہتھکڑیوں میں تصاویر کو ڈاؤن لوڈ کرکے افسروں کو دکھائے گا اور بتائے گا کہ جناب یہ تصاویر جیو ٹی وی پر دکھا دی جاتیں تو پاکستان کو بہت نقصان ہو جاتا لیکن میں نے اپنے ہاتھ کی صفائی سے پاکستان کو ایک بہت بڑے نقصان سے بچا لیا۔ یہ سن کر خفیہ ادارے کے افسر خوش ہوں گے۔ گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں خفیہ اداروں کے کردار کے بہت سے پہلو سامنے آئے ہیں اور ان خفیہ اداروں کے بارے میں معزز جج صاحبان نے جو ریمارکس دیئے ہیں وہ پاکستان کے ننانوے فیصد عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ قانون اور آئین کی بالادستی چاہتی ہے اور خفیہ اداروں نے ہمیشہ قانون اور آئین کو اپنے بھاری بھرکم بوٹوں کی نوک پر لکھا ہے۔ خفیہ اداروں کے لامحدود اختیارات صرف غیر جمہوری قوتوں کے مفادات کے ترجمان رہے ہیں۔ اب جبکہ سپریم کورٹ قانون اور آئین کے ہر دشمن کے لئے خطرہ بن رہا ہے تو ان خفیہ اداروں کے بعض افسران ایمرجنسی اور مارشل لا کی تجاویز لکھ لکھ کر اوپر بھیج رہے ہیں۔ یہ تجاویز کور کمانڈرز کے اجلاسوں میں زیر بحث آئیں نہ آئیں لیکن جن کی اجارہ داریاں خطرے میں ہیں وہ چودھری شجاعت حسین کے ذریعہ مولانا فضل الرحمن کو یہ پیغام دلوا رہے ہیں کہ اگر حالات ٹھیک نہ ہوئے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ چودھری شجاعت حسین کہتے ہیں کہ وہ مارشل لاء کے حامی نہیں البتہ انہوں نے ایمرجنسی کی تجویز ضرور دی تھی تاہم چند دن قبل انہوں نے واضح الفاظ میں مولانا فضل الرحمن سے کہا تھا کہ ایمرجنسی کے ساتھ ساتھ مارشل لا کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ ان تجاویز کا مقصد محض اپوزیشن کو ڈرانا نہیں ہے کیونکہ جن کی اجارہ داریاں خطرے میں ہیں انہیں سپریم کورٹ سے خطرہ نظر آ رہا ہے۔ سپریم کورٹ میں صرف آئین اور قانون کی زبان سمجھی جاتی ہے لیکن ان اجارہ داروں کی بقاء صرف غیر آئینی اور غیر قانونی طریقہ حکومت میں ہے لہٰذا اپنی بقاء کو خطرے میں دیکھ کر وہ سپریم کورٹ کا مقابلہ مارشل لاء سے کرنے کے خواہش مند ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق جنرل پرویز مشرف مارشل لاء یا ایمرجنسی کے حامی نہیں ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر انہیں آئین اور قانون کی پاسداری کرنی ہوگی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر وہ کارروائیاں ختم کرنا ہوں گی جن کے ذریعہ حافظ عبدالباسط جیسے بے گناہوں کو پکڑ کر تین سال اور آٹھ ماہ تک اندھیرے قید خانے میں بند رکھا جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ قبول کر نا ہوگا اور اگر کسی فیصلے سے ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا نظر آئے تو وہ محاذ آرائی سے گریز کریں۔ کیونکہ سپریم کورٹ سے دوبارہ محاذ آرائی ہوئی تو قوم ایک دفعہ پھر مزید جوش اور جذبے کے ساتھ سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہو جائے گی۔ اس مرتبہ خدانخواستہ مارشل لاء آیا تو بہت جلد واپس جائے گا۔
 

سید ابرار

محفلین
ساجد صاحب ! ایک درخواست اگر برا نہ مانیں تو ، ایک تو اردو تحریر کا فونٹ تبدیل کردیں ، ، چونکہ مضمون بھی طویل ہے اس لیے اس فونٹ میں پڑھتے ہوئے کافی الجھن ہوتی ہے ، دوسری بات اگر وقت ہو اور ممکن ہو تو پیرا گراف اور
پیراگراف کے درمیان وقفہ ضرور دے دیں ، کم از کم میرے لئے آسانی ہوجائے گی
 

ساجداقبال

محفلین
بھائی جی، فونٹ تو میں نے درست کر لیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کالموں میں پیراگراف نہیں ہوتے بلکہ کالم ہوتے ہیں۔ ;)
 

ساجداقبال

محفلین
فغانستان اور افیون,,,,گریبان…منوبھائی

افغانستان اور افیون,,,,گریبان…منوبھائی

موقرخبررساں ایجنسی فرانس پریس بتاتی ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن منشیات کی ماں افیون کی پیداوار میں افغانستان انیسویں صدی کے چین کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ ادارہ اقوام متحدہ کی سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت افغانستان میں ایک لاکھ 93ہزار ہیکٹرز (چارلاکھ 76ہزار سات سو دس ایکڑز) میں آٹھ ہزار دو سو ٹن افیون پیداکرنے کی صلاحیت رکھنے والی پوست کی فصل کاشت کی گئی ہے۔ جوپوری دنیا کے افیونیوں اور ہیروئن کے نشہ بازوں کی 93فیصد ضرورتیں پوری کر سکتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال 2006ء میں اس سے 34فیصدکم رقبے ایک لاکھ 65ہزار ہیکٹرز میں پوست کاشت کی گئی تھی جو چھ ہزار ایک سو ٹن افیون پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی گویا ایک سال کے اندر افغانستان نے افیون کی پیداوار میں دو ہزار ایک سو ٹن کا اضافہ کیا ہے جو عالمی سطح پر غیر قانونی منشیات فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ یہ اعتراف ادارہ اقوام متحدہ نے کیا ہے جو کہ کروڑوں ڈالروں کے خرچ سے افیون کی عالمی تجارت کے خلاف مہم چلا رہا ہے مگر یہ مہم چلانے والے ان حقائق سے بے خبر نہیں ہو سکتے کہ امریکہ بہادر نے افغانستان پر قبضہ کرنے والی روسی فوجوں کے خلاف جنگ کے اخراجات پورے کرنے کے لئے افغانستان کے وار لارڈز کو زیادہ سے زیادہ افیون کاشت کرنے کی اجازت دے دی تھی مگر طالبان کی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں افیون کی پیداوار کو بہت ہی کم کر دیا تھا۔ افغانستان میں حامد کرزئی اور وار لارڈز کی مخلوط حکومت اور امریکہ کی سرپرستی میں افیون کی پیداوار اور ہیروئن کی اربوں ڈالروں کی ”صنعت“ نے نئے عالمی ریکارڈ قائم کئے ہیں اور صرف ایک انتہائی غریب اور پسماندہ ملک افغانستان پوری دنیا کے انتہائی مہلک نشے کی 93فیصد ضرورتیں پوری کرنے لگا ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا کہ افغانستان کے انتہائی غریب لوگ اربوں ڈالروں کی مالیت کی ہیروئن تیار کر سکتے ہیں۔ یقینی طور پر افیون سے ہیروئن تیار کرنے کی اربوں ڈالروں کی صنعت ملٹی نیشنل کمپنیاں ہی چلا سکتی ہیں جن کے ہاتھ پاؤں پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہوں گے۔پوست کاشت کرنے والے افغانیوں کو تووہی کچھ اور اتنا کچھ ہی ملتا ہوگا جتنا چاول اور کپاس کاشت کرنے والے کسانوں کو ملتا ہے۔ یہ بھی ممکن بلکہ یقینی ہو سکتا ہے کہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کچھ حصے یہاں کے وار لارڈز اور حکمرانوں کے یا حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے ہوں گے جو اس زہر کو پوری دنیا میں پھیلانے کی محنت کا معاوضہ پاتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ جس طرح عالمی سطح پرغربت میں کمی لانے کی کوششوں سے غربت میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوا ہے اور دنیا کی نصف آبادی غربت کی اذیت محسوس کرنے لگی ہے۔اسی طرح عالمی سطح پر منشیات کے کاروبار میں کمی لانے کی کوششوں میں اربوں ڈالروں کے اخراجات سے عالمی سطح پر منشیات کے کاروبار میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوگیا ہے اور خاص طور پر لاکھوں کی تعداد میں انسانی زندگیاں ضائع کرنے والے ہیروئن اورافیون کے نشے نے خطرناک سے بھی زیادہ بھیانک اعداد وشمار کوچھو لیا ہے۔ اعجاز ترین اور خالدہ ترین جیسے عالمی شہرت کے نفسیات دان بتاتے ہیں کہ درد اور اذیت میں کمی لانے والی مغربی ادویات (پین کلرز) کے سامنے افیون جیسی نشہ آور اشیاء کے نقصانات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ درد اور اذیت میں کمی لانے والی مغربی ادویات ہیروئن سے بھی زیادہ نقصان پہنچانے والی ہوتی ہیں اور مریضوں کے آخری دم اورآخری سانسوں تک چمٹ کر رہ جاتی ہیں اور مغربی ادویات اور ”پین کلرز“ کے مقابلے میں افیون اس قدر کم ضرررساں سمجھی جاتی تھی۔ والدین اپنے بچوں کو دینے میں کوئی خطرہ یا اندیشہ محسوس نہیں کرتے تھے مگر افیون سے ہیروئن جیسا زہرکشید کرنے والوں کی صنعت نے اسے پوری دنیا میں پھیلا کر اس سے بے پناہ نفع کمایا اور دولت کے انبار لگائے۔ بتایا جاتا ہے کہ افغانستان میں جو رقبہ اراضی گل لالہ اگانے اور اور اس سے افیون نکالنے کے کام آتا ہے و ہ عالمی سطح پر کوکا کاشت کرنے والے رقبے سے زیادہ ہے۔ کوکا ایک ا ور خطرناک نشہ ”کوکین“تیار کرنے والی جنس ہے۔ جو کولمبیا، پیرو اور بولیویا میں کاشت کی جاتی ہے۔ انیسویں صدی میں انقلاب سے بہت پہلے چین میں سب سے زیادہ پوست کاشت کی جاتی تھی اور اس سے افیون پیدا کی جاتی تھی۔ اب افغانستان افیون کی پیداوار میں انیسویں صدی کے چین سے آگے بڑھ گیا ہے اور پوری دنیا کی 93فیصد ضرورت پوری کرنے لگا ہے۔
 

Dilkash

محفلین
ایاز میر کی بات کیا ہے۔۔۔اس قسم کے نڈر اور سمجھدار لوگوں کی پاکستان کو ضرورت ہے

ایاز میر وہ غیرت مند Mpa تھا جنہوں نے مشرف کی منتخب شدہ اسمبلیوں سے چند مہینوں بعد استعفی دیا تھا۔
 
Top