کلیاتِ شیفتہ

نوید صادق

محفلین
ردیف " جیم فارسی"

شیفتہ ہجر میں تو نالہء شب گیر نہ کھینچ
صبح ہونے کی نہیں خجلتِ تاثیر نہ کھینچ

اے ستم گر رگِ جاں میں ہے مری پیوستہ
دم نکل جائے گا سینے سے مرے تیر نہ کھینچ

حور پر بھی کوئی کرتا ہے عمل دنیا میں
رنجِ بے ہودہ بس اے عاملِ تسخیر نہ کھینچ

عشق سے کیا ہے تجھے شکل تری کہتی ہے
حسنِ تقریر کو آہیں دمِ تقریر نہ کھینچ

ہے یہ سامان صفائی کا عدو سے کیوں کر
دستِ مشاطہ سے یوں زلفِ گرہ گیر نہ کھینچ

اے ستم پیشہ کچھ امیدِ تلافی تو رہے
دستِ نازک سے مرے قتل کو شمشیر نہ کھینچ

چارہ گر فکر کر اس میں، کہ مقدر بدلے
ورنہ بے ہودہ اذیت پئے تدبیر نہ کھینچ

کون بے جرم ہے جو شائقِ تعزیر نہیں
شوقِ تعزیر سے تو حسرتِ تقصیر نہ کھینچ

وجد کو زمزمہء مرغِ سحر کافی ہے
شیفتہ نازِ مغنئ و مزامیر نہ کھینچ







'
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " حا"

ناصح تپاں ہے، شیفتہء نیم جاں کی طرح
کیا دل میں چبھ گئی نگہِ جاں ستاں کی طرح؟

بہتر ہے آپ غیر سے دل کھول کر ملیں
آخر تو یہ بھی میرے ہی ہے امتحاں کی طرح

اُس شمع رُو کی بزم میں مانع نہ تھا کوئی
ہوتی سبک جو نالہء آتش فشاں کی طرح

کیوں ہر نفس ہے شہدِ خموشی سے بند لب
بھائی ہے دل کو کون سے شیریں بیاں کی طرح

لڑنے میں آشتی نہ تغافل میں التفات
یہ جور کی نکالی ہے تم نے کہاں کی طرح

خمیازہ بند بند گسل ہے خمار سے
بدمست کر گئ یہ کس ابرو کماں کی طرح

ہر ہر قدم پہ رشک سے جلتی ہے شمعِ فند
چلتا ہے وہ بھی شیفتہ میری زباں کی طرح
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " خا "

دیا ہے بوسہ مجھے جب کہ میں ہوا گستاخ
غلط ہے بات کہ کم رزق ہے گدا گستاخ

تمہاری بزم میں افسردہ مَیں نہ بیٹھوں گا
نسیم باغ میں چالاک ہے، صبا گستاخ

کہاں ہے غیرتِ شوخی کہ جائے غیرت ہے
نگاہِ یار سے ہر وقت ہے حیا گستاخ

سفیہ جیسے کہ خدمت سے چل نکلتے ہیں
غرورِ مہر و وفا نے مجھے کیا گستاخ

لبوں سے جان ہے گستاخ ذوقِ بے حد سے
زبانِ بوسہ مجھے تو نے کیوں کہا گستاخ

قبول کیوں نہ ہوئی خواہشِ ہم آغوشی
کہ آشناؤں سے ہوتے ہیں آشنا گستاخ

عنانِ ضبط کوئی شیفتہ سے تھمتی ہے
کہ ہر کرشمہ ہے چالاک و ہر ادا گستاخ
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " دال "

روزِ غم میں کیا قیامت ہے شبِ عشرت کی یاد
اشکِ خوں سے آ گئیں رنگینیاں صحبت کی یاد

میری حالت دیکھ لو تغئیر کتنی ہو چکی
وصل کے دن دم بہ دم کیوں شیشہء ساعت کی یاد

میں ہوں بے کس اور بے کس پر ترحم ہے ضرور
حسنِ روز افزوں دلا دینا مری حالت کی یاد

طاقتِ جنبش نہیں اس حال پہ قصدِ عدم
مر گئے پر بھی رہے گی اپنی اس ہمت کی یاد

غالبا" ایامِ حرماں بے خودی میں کٹ گئے
آتی ہے پھر آرزو بھولی ہوئی مدت کی یاد

دل لگانے کا ارادہ پھر ہے شائد شیفتہ
ایسی حسرت سے جو ہے گزری ہوئی الفت کی یاد
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " ذال "

طلبِ بوسہ پر اس لب سے شکر آب لذیذ
تند ہے، تلخ ہے، لیکن ہے مئے ناب لذیذ

کچھ مزا تو نہ سمجھ خضرِ اُمورِ عشرت
سب مزاجوں میں نہیں ایک سے اسباب لذیذ

سَم کی تاثیر کرے ہجر میں آبِ حیواں
مے گل گوں سے سوا وصل میں ہے آب لذیذ

ردِ زحاد سہی پر نہیں مقبولِ مغاں
تا نہ معلوم ہو تلخئ مے ناب لذیذ

شیفتہ ذوقِ سحر اس نے کہاں دیکھا ہے
وہ جو کہتا ہے کہ ہے آخرِ شب، خواب لذیذ
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " رے"

وصل کے لطف اُٹھاؤں کیوں کر
تاب اس جلوے کی لاؤں کیوں کر

گرم جوشی کا کروں شکوہ کہ وہ
کہتے ہیں تجھ کو جلاؤں کیوں کر

کیا کروں ہائے میں بے تاب، وہ شوخ
چین سے پاس بٹھاؤں‌کیوں کر

ہر بنِ مُو سے دھواں اٹھتا ہے
آتشِ غم کو چھپاؤں کیوں کر

میرے آنے سے تم اٹھ جاتے ہیں
بزمِ دشمن میں نہ آؤں کیوں کر

یاد نے جس کی بھلایا سب کچھ
اس کی میں یاد بھلاؤں کیوں کر

آپ بھایا مجھے رونا اپنا
کہتے ہیں ہائے میں جاؤں کیوں کر

چارہء غیر سے فرصت ہی نہیں
دردِ دل اس کو سناؤں کیوں کر

زندگانی سے خفا ہوں اپنی
پھر کہو، تم کو مناؤں کیوں کر

اس کے آتے ہی بھڑک اٹھی اور
آتشِ دل کو بجھاؤں کیوں کر

شورِ محشر ابھی چونک اٹھے گا
شیفتہ کو میں جگاؤں کیوں کر
 

نوید صادق

محفلین
شیفتہ آیا ہوں میں کس کا تماشا دیکھ کر
رہ گئے حیران مجھ کو سب خود آرا دیکھ کر

شوقِ خوباں اُڑ گیا حوروں کا جلوہ دیکھ کر
رنجِ دنیا مٹ گیا آرامِ عقبیٰ دیکھ کر

ہے وہ آتش جلوہ، اشک افشاں ہمارے شور سے
شمع رو دیتی ہے پروانے کو جلتا دیکھ کر

خیر جو گزری سو گزری پر یہی اچھا ہوا
خط دیا تھا نامہ بر نے اس کو تنہا دیکھ کر

سائلِ مبرم کی پھبتی مجھ پہ فرمانے لگے
آرزوئے شوق کو گرمِ تقاضا دیکھ کر

ہے وہاں سستی طلب میں ، جان یاں بھاری نہیں
کام کرتے ہیں مزاجِ کارفرما دیکھ کر

ہیں تو دونوں سخت لیکن کون سا ہے سخت تر
اپنے دل کو دیکھئے میرا کلیجا دیکھ کر

گاؤں بھی ہم کو غنیمت ہے کہ آبادی تو ہے
آئے ہیں ہم سخت پُرآشوب صحرا دیکھ کر

اب کسے لاؤں گواہی کے لئے روزِ جزا
میرے دشمن ہو گئے، اس کو احبا دیکھ کر

میں کمینِ توبہ میں ہوں آپ ، لیکن کیا کروں
منہ میں بھر آتا ہے پانی جام و مینا دیکھ کر

التماسِ وصل پر بگڑے تھے بے ڈھب رات کو
کچھ نہ بن آئی مگر جوشِ تمنا دیکھ کر

دوستی کرتے ہیں اربابِ غرض ہر ایک سے
میرے عاشق ہیں عدو اب ربط اس کا دیکھ کر

بے نقط مجھ کو سناؤ گے جو دیکھو گے ستم
آپ عاشق تو ہوئے ہیں شوق میرا دیکھ کر

پھر کہو گے اس کو دل، فرماؤ اے اربابِ دل
جو نہ ہو بے تاب و مضطر، روئے زیبا دیکھ کر

یار پہلو میں نہیں، مے جام و مینا میں نہیں
تم ہوئے حیران مجھ کو نا شکیبا دیکھ کر

ناگہاں بادِ موافق شیفتہ چلنے لگی
جان پر کل بن رہی تھی شورِ دریا دیکھ کر
 

نوید صادق

محفلین
تھا قصدِ بوسہ نشے میں سرشار دیکھ کر
غش آ گیا مجھے انہیں ہشیار دیکھ کر

کچھ بیمِ قتل سے نہیں آنکھوں میں اشکِ سُرخ
کھاتا ہے جوش خوں تری تلوار دیکھ کر

جاتے ہیں اور منع کی طاقت نہیں ، مگر
رہ جائیں آپ وہ مجھے ناچار دیکھ کر

پردہ کسی کا یاد، نہ بے پردگی ہے یاد
غش ہو گیا میں کعبے کے استار دیکھ کر

سرخیلِ عاشقاں مجھے کہتے ہیں بوالہوس
عاشق کا اس کو مائلِ آزار دیکھ کر

آتی ہیں یاد کاکل و دل کی حکائتیں
روتا ہوں دام و مرغِ گرفتار دیکھ کر

کیا بن گیا ہوں صورتِ دیوار دیکھنا
صورت کسی کی میں سرِ دیوار دیکھ کر

رحم ایسی سادگی پہ ستم گر ضرور ہے
عاشق ہوئے ہیں ہم تجھے پُرکار دیکھ کر

کم رغبتی سے لیتے ہیں دل، ہوشیار ہیں
بڑھتا ہے مول شوقِ خریدار دیکھ کر

کہتا تھا وقت مرگ کے ہر اک سے شیفتہ
دینا کسی کو دل تو وفادار دیکھ کر
 

نوید صادق

محفلین
یوں پاس بوالہوس رہیں چشمِ غضب سے دور
یہ بات ہے بڑی دلِ عاشق طلب سے دور

دیوانہ میں نہیں کہ انا لیلیٰ لب پہ آئے
باتیں خلافِ وضع ہیں اہلِ ادب سے دور

مجھ کو سنا کے کہتے ہیں ہمدم سے، یاد ہے؟
اک آدمی کو چاہتے تھے ہم بھی اب سے دور

جو لطف میں بھی پاس پھٹکنے نہ دے کبھی
رکھیو الٰہی! ایسے کے مجھ کو غضب سے دور

کیوں کر میں انجمن میں تمہاری شریک ہوں
اربابِ رنج رہتے ہیں اہلِ طرب سے دور

ہم سے اسے معاملہ تھا جان و جسم کا
ہرگز ملا نہ گاہ، ہوا ہائے جب سے دور

تو بھی جو میرے پاس نہ آئے تو کیا کروں
تیرے ہی پاس سے تو میں رہتا ہوں سب سے دور

میں غیرِ بوالہوس نہیں ڈرتے ہو کس لئے
مجھ کو نہ رکھو بوسے میں تم لب کو لب سے دور

بوس و کنار کی نہ کروں گا ہوس کبھی
یہ خواہشیں ہیں عاشقِ حسرت طلب سے دور

آغازِ عمر ہی میں ہے ہم کو خیالِ حج
دلی جو شیفتہ ہے دیارِ عرب سے دور
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " زے "

ہم بے نشان اور وفا کا نشاں ہنوز
ہے خاکِ تن ہوا و ہوا خوں فشاں ہنوز

بیت الحزن میں نغمہء شادی بلند ہے
نکلا ہی بابِ مصر سے ہے کارواں ہنوز

صبحِ شبِ وصال نئ صبح ہے، مگر
پرویں ہنوز جلوہ گر و کہکشاں ہنوز

ہرگز ابھی شکایتِ دشمن نہ چاہئے
ہم پر بھی یار خوب نہیں مہرباں ہنوز

کیوں کر کہیں کہ چھٹ گئے ہم بندِ جسم سے
اس زلفِ پیچ پیچ میں الجھی ہے جاں ہنوز

جو بات میکدے میں ہے اک اک زبان پر
افسوس مدرسے میں ہے بالکل نہاں ہنوز

ضبط و شکیب یاں ہے نقابِ جمال میں
بے وجہ واں نہیں ہے سرِ امتحاں ہنوز

مدت ہوئی بہارِ جہاں دیکھتے ہوئے
دیکھا نہیں کسی نے گلِ بے خزاں ہنوز

اکثر ہوا ہے مجھ کو سفر در وطن مگر
لایا نہ دوستوں کے لئے ارمغاں ہنوز

اک شب ہوا تھا جلوہ نما چرخ پر وہ ماہ
مدہوش ہیں ملائکہء آسماں ہنوز

نا آشنا رقیب سے ہے آشنا ابھی
نا آشنا ہے لب سے ہمارے فغاں ہنوز

آشفتہ زلف، چاک قبا، نیم باز چشم
ہیں صحبتِ شبانہ کے ظاہر نشاں ہنوز

اے موجہء نسیم ذرا اور ٹھہر جا
ہے خاک پر ہماری وہ دامن فشاں ہنوز

مے خانے میں تمام جوانی بسر ہوئی
لیکن ملا نہ منصبِ پیرِ مغاں ہنوز

اے تابِ برق تھوڑی سی تکلیف اور بھی
کچھ رہ گئے ہیں خار و خسِ آشیاں ہنوز

آتا ہوں میں وہیں سے ذرا صبر شیفتہ
سونے کے قصد میں بھی نہیں پاسباں ہنوز
 

نوید صادق

محفلین
ہند کی وہ زمیں ہے عشرت خیز
کہ نہ زاہد کریں جہاں پرہیز

وجد کرتے ہیں پی کے مے صوفی
مست سوتے ہیں صبح تک شب خیز

رند کیا یاں تو شاہد و مے سے
پارسا کو نہیں گزیر و گریز

سخت مشکل ہے ایسی عشرت میں
خطرِ حشر و بیمِ رستا خیز

ہے غریبوں کو جراتِ فرہاد
ہے فقیروں کو عشرتِ پرویز

عیش نے یاں بٹھا دیا ناقہ
غم نے کی یاں سے رخش کو مہمیز

کوئ یاں غم کو جانتا بھی نہیں
جز غمِ عشق سو ہے عیش آمیز

بادِ صر صر یہاں نسیمِ چمن
نارِ عنصر سے آتشِ گل تیز

بوستاں کی طرح یہاں صحرا
دل کشا، دل پزیر، دل آویز

کوئ پامالِ جورِ چرخ نہیں
کتنی ہے یہ زمین راحت خیز

اثرِ زہرہ اس میں یاں پایا
وہ جو مریخ ہے بڑا خوں ریز

شیفتہ تھام لو عنانِ قلم
یہ زمیں گرچہ ہے ہوس انگیز
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " سین"

دور رہنا ہم سے کب تک اور بے گانے کے پاس
ہیں قریبِ مرگ، کیا اب بھی نہیں آنے کے پاس؟

جلوہ آرا بس کہ تھا وہ شمع سیما رات کو
ہم بھی مر کر رہ گئے مجلس میں پروانے کے پاس

آفریں طغیانِ وحشت، مرحبا جوشِ جنوں!
وہ یہ کہتے ہیں کہ کیوں کر جائیں دیوانے کے پاس

غیر سے کہوائیں، یاروں سے سمجھوائیں گے ہم
دیکھ لیں گے پھر کہ تم کیوں کر نہیں آنے کے پاس

شیفتہ نے قصہ مجنوں سنایا رات کو
آ گیا میرا اُنہیں سنتے ہی افسانے کا پاس
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " شین"

اُٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستانِ بادہ فروش
طلسمِ ہوش ربا ہےدکانِ بادہ فروش

کھلا جو پردہ روئے حقائقِ اشیاء
کھلی حقیقتِ رازِ نہانِ بادہ فروش

فسردہ طینتی و کاہلی سے ہم نے کبھی
شباب میں بھی نہ دیکھی دکانِ بادہ فروش

یقین ہے کہ مئے ناب مفت ہاتھ آئے
یہ جی میں ہے کہ بنوں میہمانِ بادہ فروش

قدح سے دل ہے مراد اور مے سے عشق غرض
میں وہ نہیں کہ نہ سمجھوں زبانِ بادہ فروش

عجب نہیں کہ کسی روز وہ بھی آ نکلیں
کہ ہے گزرگہِ خلق، آستانِ بادہ فروش

مے و سرود کے اسرار آپ آ کر دیکھ
نہ پوچھ مجھ سے کہ ہوں رازدانِ بادہ فروش

شراب دیکھ کہ کس رنگ کی پلاتا ہے
جز اس کے اور نہیں امتحانِ بادہ فروش

تری شمیم نے گلزار کو کیا برباد
تری نگاہ نے کھولی دکانِ بادہ فروش

عبث ہے شیفتہ ہر اک سے پوچھتے پھرنا
ملے گا بادہ کشوں سے نشانِ بادہ فروش
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " صاد "

اُن کو دسشمن سے ہے محبت خاص
یہ ہمارا ہے ثمرہ اخلاص

وجد میں لائے اہلِ درد ہمیں
باد کے ساتھ خاک ہے رقاص

دل کے ٹکڑے اُڑا، نہیں ہے گناہ
نفس کو قتل کر، نہیں ہے قصاص

حسنِ باطن، زبونئ ظاہر
ہے مئے ناب اور جامِ رصاص

کیا مزا تم سے آشنائی کا
ما شربتم مدامۃ الاخلاص

ہجر زہر اور وصل ہے تریاق
زہر و تریاق کا جدا ہے خواص

قسمت اُس کی، خبر نہ ہو جس کو
عام اس دور میں ہے بادہ خاص

دام سے تیرے موسمِ گل میں
بلبلوں کو نہیں ہوائے خلاص

شیفتہ نے ہماری داد نہ دی
سچ ہے القاص لا یحب القاص
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " ضاد "

ہے دل کو یوں ترے دمِ اعجاز اثر سے فیض
غنچے کو جیسے موجہ بادِ سحر سے فیض

عشاق سے نگاہ نہ رکھو دریغ تم
پاتے ہیں لوگ خدمتِ اہلِ نظر سے فیض

ہے عالمِ کبیر میں بھی یوں ہی جس طرح
دل سے جگر کو فیض ہے، دل کو جگر سے فیض

آزردہ جفائے "دے" و "تیر" کو نہیں
یک ذرہ آب و آتشِ لعل و گہر سے فیض

اپنی نہاد میں نہیں احساں فرامشی
پایا ہے ہم نے صاعقے کا ابرِ تر سے فیض

زر کسب کر کہ عشرتِ خسرو نصیب ہو
فرہاد کو سنا ہے، ہوا جو ہنر سے فیض؟

لگتے ہیں اس کے سینہ و بر سے مدام ہم
ہوتا ہے ہم کو روز مہِ سیم بر سے فیض

اربابِ خانقاہ ہیں محتاجِ اغنیا
کافی ہے ہم کو پیرِ مغاں! تیرے در سے فیض

بلبل ہمارے گھر وہ خود آتے ہیں رحم سے
افزوں ہے بے پری میں یہاں بال و پر سے فیض

خرم نہادِ مے کش و زاہد شگفتہ دل
ہے شیفتہ ہر ایک کو وقتِ سحر سے فیض
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " طا "

لازم ہے بے وفا تجھے اہلِ وفا سے ربط
کیسا ہے دیکھ عکسِ ادا کو ادا سے ربط

یہ ناخن و خراش میں بگڑی کہ کیا کہوں
اک دم ہوا جو عقدہ بندِ قبا سے ربط

ناصح مری ملامتِ بے جا سے فائدہ
بے اختیار دل کو ہے اس دل ربا سے ربط

اس سرد مہر کو ہو اثر، پر جو ہو سکے
کام و دہاں کو میرے دمِ شعلہ زا سے ربط

کیجے گر ان سے شکوہ انجامِ کارِ عشق
کہتے ہیں مجھ کو تم سے نہ تھا ابتدا سے ربط

دو دن میں تنگ ہو گئے جورِ سپہر سے
اس حوصلے پہ کرتے تھےاس کی جفا سے ربط

کیا کیجے، بدگمانئ ابرو کا دھیان ہے
کرتے وگرنہ ہجر میں تیغِ قضا سے ربط

تیرے ستم سے ہے یہ دعا لب پہ دم بہ دم
یا رب نہ ہو کسی کو کسی بے وفا سے ربط

صبحِ شبِ فراق کیا لطفِ مرگ نے
کیا دیر میں ہوا ہمیں زود آشنا سے ربط

فریادِ نزع کان تک اس کے نہ جا سکی
تھا شیفتہ ہمیں نفسِ نارسا سے ربط
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " ظا "

ترے فسوں کی نہیں میرے دل میں جا واعظ
صنم پرست نہ ہو بندہ ریا واعظ

کسی صنم نے مگر آپ کو جلایا ہے
نہیں تو حوروں کی کیوں اس قدر ثنا واعظ

تمہارے حسنِ جہاں سوز سے میں جلتا ہوں
کہ ہیں رقیب مرے شیخ و پارسا، واعظ

ملا کے دیکھیں کہ ہے خوب کون دونوں میں
ہم اس کو لاتے ہیں تو حور کو بلا واعظ

ترے فسونِ اثر ریز سے رسا تر ہے
فغانِ بے اثر و آہِ نارسا واعظ

کمی تھی حالتِ رندی میں اس کو کیا یارو
کوئی یہ پوچھے کہ کیوں شیفتہ ہوا واعظ
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " عین "

خورشید کو اگرچہ نہ پہنچے ضیائے شمع
پروانے کو پسند نہیں پر سوائے شمع

اس تیرہ روزگار میں مجھ سا جگر گداز
مشعل جلا کے ڈھونڈے اگر تو نہ پائے شمع

روزِ فراق میں ہے قیامت، جمالِ گُل
شب ہائے ہجر میں ہے مصیبت، لقائے گُل

پروانے کیا خجل ہوئے دیکھا جو صبح کو
تھا شب کو اس کی بزم میں خورشید جائے شمع

اُس رشکِ شمع و گُل کی ہے کچھ آب و تاب اور
دیکھے ہیں جلوہ ہائے گل و شعلہ ہائے شمع

دیتی ہے اور گرمئ پروانہ داغِ اشک
شب ہائے ہجر میں کوئی کیونکر جلائے شمع

کیا حاجت آفتاب کے گھر میں چراغ کی
ہے حکم شب کو بزم میں کوئی نہ لائے شمع

اُس لعلِ بے بہا سے کہاں تابِ ہمسری
روشن ہے سب پہ قیمتِ گُل اور بہائے شمع

خورشید جس کے جلوہ سے ہو شمعِ صبح دم
کیا ٹھہرے اس کے سامنے نور و ضیائے شمع

اس تیرہ شب میں جائیں گے کیونکر عدو کے گھر
میرا رقیب وہ ہے جو ان کو دکھائے شمع

آتے ہیں وہ جو گور پہ میری تو بہرِ زیب
کوئی نہ پھول لائے نہ کوئی منگائے شمع

گُل پر لگا کے آپ سے پہنچیں گے بے طلب
آئے گی اپنے پاؤں سے یاں بن بلائے شمع

ڈر ہے اُٹھا نہ دے کہیں وہ بزمِ عیش سے
کیا تاب ہے کہ شیفتہ آنسو بہائے شمع
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " غین "

کیا غیر تھا کہ شب کو نہ تھا جلوہ گر چراغ
رہتا ہے ورنہ گھر میں ترے تا سحر چراغ

کیا لطفِ آہ، صبحِ شبِ ہجرِ مہروش
کیا فائدہ جو کیجئے روشن سحر چراغ

پروانہ گر نہ جائے تو بے جا ہے لافِ عشق
روشن ہے میرے نالوں سے افلاک پر چراغ

حربا کرے طریقہء پروانہ اختیار
اُس تابِ رخ سے کیجئے روشن اگر چراغ

پروانہ ہو گیا ہے رقیبِ کتاں کہ ہے
اُس مہروش کے جلوے کے آگے قمر چراغ

گستاخیوں کی تاب کسے اس کی بزم میں
بے باکئ نسیم سے ہرگز نہ ڈر چراغ

ہے شمعِ انجمن وہ مہِ آتشیں عذار
گھی کے جلیں گے آج تو دشمن کے گھر چراغ

کرتا ہوں فکرِ شعر جو میں شب کو شیفتہ
رہتا ہے خواب گہ میں مری رات بھر چراغ
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " فا "

واں ہوا پردہ اٹھانا موقوف
یاں ہوا راز چھپانا موقوف

غیر کو رشک سے کیا آگ لگے
کہ ہوا میرا جلانا موقوف

ذکرِ شیریں کی اگر بندی ہے
کوہ کن کا بھی فسانہ موقوف!

اب کس امید پہ واں جائے کوئی
کہ ہوا غیر کا آنا موقوف

رمِ آہو سے وہ رم یاد آیا
دشت و صحرا میں بھی جانا موقوف

بد دماغ آج ہوا وہ گُل رُو
شیفتہ عطر لگانا موقوف
 
Top