کلمہ طیبہ از پیر محمد کرم شاہ الازہری

حسن نظامی

لائبریرین
کلمہ طیبہ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد فاعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم
اَلَم تَرَکَیفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیبَہً کَشَجَرَۃٍ طَیبَۃٍ اَصلُھَا ثَابِتُ وَفَرعُھا فِی السَّمآء۔تُوتِی اُکُلَہَا کلَّ حِینٍ بِاذنِ ربّھَا وَیضرِبُ اللّٰہُ الاَمثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُم یَتَذَ کَّرُونَ ۔(سورۃ ابراہیم پارہ ۱۳)
برادرانِ اسلام ! سورۃ ابراہیم کی دو آیتیں میں نے آپ کے سامنے تلاوت کیں ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ ایک مشکل اور پیچیدہ حقیقت کو ایک مثال دے کر سمجھاتے ہیں کیونکہ جو بات مشکل ہوتی ہے آسانی سے سمجھ نہیں آتی ۔ استاد اس کی مثال پیش کر کے سمجھاتا ہے اللہ تعالیٰ بھی ایک مشکل بات کو ، ایک پیچیدہ مسئلے کو سمجھانے کے لئے ایک مثال ذکر کرتے ہیں تاکہ وہ حقیقت سب پر آشکارا ہو جائے ، عیاں ہو جائے ، سارے لوگ اس کو سمجھ لیں، خواہ وہ ذہین ہوں یاکند طبع ، خواہ وہ عالم ہوں یا ان پڑھ ۔ تا کہ ہر ایک کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جائے وہ کون سی حقیقت ہے ، وہ کلمہ طیبہ کی حقیقت ہے کہ کلمہ طیبہ کیا چیز ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے اثرات کیا ہیں؟ اس کی برکات کیا ہیں؟ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ ایک مثال دے کر بیان فرماتے ہیں۔
ارشاد فرمایا:
’’الم ترکیف ضرب اللّٰہ کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ۔‘‘
کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو اللہ تعالیٰ کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال بیان فرما رہے ہیں۔ کہ کلمہ طیبہ کو یوں سمجھو ۔ جس طرح ایک شجرہ طیبہ ایک پاکیزہ درخت ہوا کرتا ہے۔ جو خوبیاں ، جو صفات ، جو کمالات ، جو محاسن اس میں پائے جاتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح کی صفات ، اسی طرح کی خصوصیات کلمہ طیبہ میں ہیں۔ اللہ پاک اس شجرہ طیبہ کی خصوصیات بیان کرتے ہیں کہ شجرہ طیبہ آپ کس کو کہتے ہیں؟ کس درخت کو ہم پاکیزہ درخت کہہ سکتے ہیں۔
ارشاد فرمایا:
کلمہ طیبہ کی مثال ایک شجرہ طیبہ کی مانند ہے، اَصلُھَا ثَابِت’‘ اس کی پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کی جڑیں بہت گہری چلی گئی ہیں۔ اس کی جڑیں تحت الثریٰ تک پہنچی ہوئی ہیں۔ سنتے ہیں جس درخت کی جڑیں اوپر اوپر ہوں، جس درخت کی جڑیں مضبوط اور پختہ نہ ہوں، ایک تو یہ ہوتا ہے کہ وہ پائیدار نہیں ہوتا، کچھ مہینوں کے بعد وہ خود بخود خشک ہو جاتا ہے۔ آپ اسے کھاد دیتے ہیں ، پانی دیتے ہیں، سپرے کرتے ہیں۔ جس درخت کی جڑیں اوپر اوپر ہوں گی وہ خود بخود خشک ہو جائے گا۔ آپ خواہ کتنی بھی کوشش کریں ۔ گندم کا بوٹا ہے اس کی جڑیں اوپر اوپر ہوا کرتی ہیں آپ اس کو بہترین قسم کی کھاد ڈالیں اور اسے بروقت پانی دیں، آپ اسے سپرے کریں ، ہر قسم کے کیڑوں مکوڑوں سے اس کا بچائو کریں۔ جب بیساکھ کا مہینہ آئے گا ، اس کاوہ رنگ بدلنا شروع ہو جائے گا۔ اور جب بیساکھ گزر جائے گا وہ پودا سوکھنا شروع ہو جائے گا۔ اور جب بیساکھ گزر جائے گا اس مہینہ میں آپ کاٹ لیں تو کاٹ لیں، اگر نہ کاٹیں اور جیٹھ کا مہینہ آ جائے، ہاڑ کا مہینہ آجائے تو وہ خود بخود زمین بوس ہونا شروع ہو جائے گا۔ کوئی سہارا، کوئی خوراک، کوئی قوت، کوئی سپرے، اس کو برقرار نہیں رکھ سکتی ۔
کیونکہ اس کی جڑیں چھوٹی ہیں اس کی جڑیں زمین کے اوپر اوپر ہیں،توجس چیز کی جڑیں اوپر اوپر ہوتی ہیں، اس کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ اصلھا ثابت ‘‘ یہ کلمہ طیبہ ایسا درخت نہیں ہے جس کی جڑیں گہری نہ ہوں، زمین کی اوپر والی سطح تک ہی محدود ہوں کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد خود ہی اس پر خزاں کے آثار نمودار ہو جائیں، خود ہی اس کی رنگت بدل جائے، خود ہی اس کی تازگی ختم ہو جائے، خود ہی زمین بوس ہو جائے، یہ ایسا درخت نہیں بلکہ یہ کیا ہے۔
’’ اصلھا ثابت ‘‘ اس کی جڑیں زمین میں بہت گہری ہیں۔ تحت الثریٰ تک چلی گئی ہیں۔ اور جس درخت کی جڑ گہری ہوا کرتی ہے، وہ کبھی خشک نہیں ہوتا۔ صحرائوں میں چلے جائیی جہاں بارش نہیں برستی ہے، جہاں ندی نالے کا پانی مہیا نہیں ہوتا ، جہاں کوئی کنواں نہیں ہوتا، جہاں کوئی وسائل نہیں ہوتے ، جو درخت آپ وہاں دیکھیں وہ آپ کو سر سبز و شاداب نظر آئیں گے تو اس کاسبب کیا ہے؟ وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ان کی جڑیں بہت گہری ہیں اور گہری جڑیں نیچے سے پانی حاصل کر کے اپنی زندگی اور اپنے شباب کو برقرار رکھتی ہیں۔ لیکن وہ درخت جس کی جڑیں گہری نہیں ہوتیں وہ خود حوادثات دہر کی نذر ہو جاتا ہے۔ اور جس درخت کی جڑیں گہری ہوا کرتی ہیں۔ جتنی گہریں ہوں گی اتنا ہی وہ دیرپا ہوگا۔ جتنی گہری ہوں گی موسمی حوادثات کا آسانی سے مقابلہ کر سکے گا۔ جتنی ہی اس کی جڑیں گہری ہوں گی وہ اتنا ہی خشکی کو برداشت کر سکے گا۔
کلمہ طیبہ کی پہلی خصوصیت :
اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی ایک خصوصیت تو یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کی مثال شجر طیبہ کی ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ’’ اصلھا ثابت ‘‘ کلمہ طیبہ جب ایسا درخت ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ تو اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس پر کبھی خزاں نہیںٓ آسکتی،مصائب و آلام کی کوئی آندھی اسے اکھیڑ نہیں سکتی۔ تکلیفیں آپ اسے پہنچائیں،ظلم کی انتہا کر دیں، جہاں لا اِلٰہَ اِلا اللّٰہ کا درخت لگ جایا کرتا ہے ، وہ جان تو دے سکتا ہے مگر اس درخت پر خزاں نہیں آنے دیتا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ اصلھا ثابت کیونکہ کلمہ طیبہ کی خصوصیت یہ ہے کہ جب دل میں جڑ پکڑ لیتا ہے جب ذہن اس کو قبول کر لیتا ہے ، جب روح میں یہ رچ بس جاتا ہے، تو دنیا کا کوئی انقلاب، کوئی زلزلہ، دنیا کا کوئی طوفان، دنیا کی کوئی آندھی، اس کو گرا نہیں سکتی۔ اسے اکھیڑ نہیں سکتی ۔ یہ تمام حوادثات دہر کا مقابلہ سینہ تان کر کیا کرتا ہے۔میں نے اور آپ نے بھی سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ایسی مثالیں سنی ہیں،کہ جن کو سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان پاک سے لا اِلٰہَ اِلا اللّٰہ محمّد رَسُول اللّٰہ کا سبق پڑھایا تھا۔ جن کے دلوں کی زمین میں کلمہ توحید کا بیج نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا تھا۔ ان پر کتنی تکلیفیں آئیں ، اُنہیں کن کن مصائب و آلام کا مقابلہ کرنا پڑا۔
لیکن کوئی مثال ایسی نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی جان بچانے کے لئے ،اپنا مال بچانے کے لئے ،اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے لئے یا آرام حاصل کرنے کے لئے دین کے اس رشتے کو، اس تعلق کو چھوڑ دیا ، اور پھر کفر کی طرف لوٹ گئے ہوں۔ تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی بلکہ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لا اِلٰہَ اِلا اللّٰہ کا بیج لگایا۔ اس سے جو تن آور درخت پیدا ہوا وہ ہماری روح میں بس گیا، وہ ہمارے ذہن میں رچ گیا۔ ہمارے قلب کی گہرائیوں تک اس کی جڑیں پہنچ گئیں اور جس درخت کی جڑیں گہری اور پختہ ہوا کرتی ہیں اس کو حوادثات کی آندھیاں گرا نہیں سکتیں۔
سید نافاروق اعظم اور نُورقرآن:
آپ نے سناہوگا کہ! سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالےٰ عنہ ابھی نہ فاروق اعظم تھے، نہ رضی اللہ عنہ تھے ، ابھی صرف عمر بن خطاب تھے، ابھی دنیا ان کو یہ کہہ کر یاد کرتی تھی کہ وہ خطاب کا بیٹا ہے ۔ اس کا عمر نام ہے۔ کفر کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ کی عداوت کا آتش کدہ ان کے سینے میں دہکتا رہتا ہے۔ ان کی ساری کوششیں، ان کی ساری کاوشیں، ان باتوں پر مرکوز تھیں کہ دین کے جھنڈے کو ہم سر نگوں کر دیں۔ اس دین کی شمع کو ہم گل کر دیں۔ اور یہ جو دعوت لے کر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں۔ اس کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیں۔ انہوں نے بڑی کوششیں کیں۔ لیکن اس دین کے ماننے والوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ کہ آج فلاں مشرف بہ اسلام ہو رہا ہے۔ آج فلاںنے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر ہاتھ رکھ کر کلمہ پڑھ رہا ہے۔ ہر روز اور ہر رات اسلام کے ماننے والوں سے عداوت کا جذبہ تیز سے تیز تر ہوتا چلا گیا ۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایک دن یہ فیصلہ کیا کہ اس شخص کو ختم کر کے رکھ دوں گا۔ میں اس کو زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔ اگر یہ زندہ رہا تو ہمارے خدائوں کی بادشاہی، ہمارے خدائوں کی خدائی کا تختہ الٹ جائے گا اور ایک وقت آئے گا جب ان کا نام لینے والا کوئی نہ ہو گا۔ تو اس وقت کے آنے سے پہلے میں یہ آخری قدم اٹھانا چاہتا ہوں۔
وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلتے ہیں۔ ننگی تلوار گلے میں لٹک رہی ہے۔ غصے اور ناراضگی کے آثار چہرے پر نمودار ہو رہے ہیں۔ گلی سے گزر رہے ہیں کسی نے پوچھا عمر ؔکہاں غصے سے طوفان بنے بھاگتے جا رہے ہو ۔ انہوں نے کہا تمہیں تو معلوم ہے کہ اس شخص نے ہمیں تباہ برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ہمارے خدائوں کی عظمت کا چاند اس کی آمد سے گہنا رہا ہے۔ جب تک میں اس کو ختم نہ کر لوں اس کی زندگی کا چراغ گل نہ کر دوں اس وقت تک مجھے چین نہیں آسکتا۔ آج میں آخری اقدام کے لئے جا رہا ہوں اور تلوار میں نے اس لئے بے نیام کی ہے کہ اس ذاتِ پاک کی زندگی کا خاتمہ کر دوں جو سارے عالم کی زندگی کا باعث ہے۔ تو اس نے کہا تم عجیب آدمی ہو تمہاری نادانی کی کوئی حد بھی ہے تم اس کو شہید کرنے کے لئے جارہے ہو تمہاری بہن جس کا کلمہ پڑھ چکی ہے۔ اور اس کی غلام بن چکی ہے وہ اس کے دستِ مبارک پر بیعت کر چکی ہے۔ پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو تب ان کا قصد کرنا۔ جب انہوں نے سنا کہ میری بہن لات وعزّٰی کو چھوڑ کر محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا پر ایمان لا چکی ہے تو ان کے غصے کی کوئی انتہا نہ رہی ۔ اپنی بہن کے گھر کی طرف لوٹے دیکھا کہ دروازے بند ہیں اور اند ر سے گنگنانے کی سی آواز آ رہی ہے ۔ آپ نے زور سے دستک دی ۔ فاطمہ سہم گئیں آواز دی میں عمر ہوں دروازہ کھولو۔ وہ اپنے استاد سے قرآن کریم پڑھ رہی تھیں۔ سنا کہ عمر آ رہا ہے اور کفر وشرک کی آلودگی سے ابھی ملوث ہے تو اس اندیشہ سے کہ مبادا! وہ کافر !خدا کے پاک کلام کو ہاتھ لگائے یا اس کی بے ادبی کرے انہوں نے اسے غلاف میں لپیٹا اور اونچی جگہ پر رکھ دیا تا کہ ان کا ہاتھ وہاں تک نہ پہنچے ۔
عمر داخل ہوئے پوچھا کیا کر رہی تھی ، اس نے کہا کچھ نہیں ٹال مٹول کرنا چاہا عمر کہتے ہیں کہ میں نے سن لیا ہے مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ تم مسلمان ہو گئی ہو ۔ مارنا شروع کر دیا۔ عمر کا ہاتھ اور وہ ایک صنفِ لطیف جسم لہو لہان ہو گیا۔ لیکن آپ نے فرمایاکہ! اے عمر! تم میری جان تو نکال سکتے ہو لیکن مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میرے دل سے نہیں نکال سکتے ۔ ’’اصلھا ثابت‘‘جب ایمان کی جڑیں مضبوط ہو جاتی ہیں جب اس درخت کی جڑیں تحت الثریٰ تک پہنچ جایا کرتی ہیں۔ تو مصائب و آلام تکلیف و تعذیب کی کوئی آندھی اور طوفان اس کو اکھیڑ نہیں سکتا ، اس کو ساقط نہیں کر سکتا۔ ’’اصلھا ثابت‘‘
حضرت بلال اور عشق خدا :
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بار بار دھکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا جاتا، آپ کے ہوش اڑ جایا کرتے تھے ۔ لیکن بے ہوشی کے عالم میں بھی آپ کی زبان سے یہی نکلتا تھا۔ اَحَد’‘ ، اَحَد’‘ ، اَحَد’‘ جس خدا کو میں نے مانا ہے وہ وحدہ ٗ لاشریک ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے، اس کاکوئی نِد نہیں ہے، اس کی کوئی ضد نہیں ہے۔
تو اللہ تعالےٰ فرماتے ہیں اے میرے بندو!تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں کلمہ طیبہ کی حقیقت کو کس طرح تمہارے سامنے عیاں کر رہا ہوں۔ کس طرح اس کی حقیقت کو تمہارے سامنے واضح کر رہا ہوں۔ اور وہ بھی ایک مثال دے کر، فرمایا کلمہ طیبہ کی مثال ایسی ہے جس طرح کہ ایک پاکیزہ درخت اور پاکیزہ درخت کی جو تین صفات اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں۔

ایک تو یہ کہ اس کی جڑیں گہری ہیں لَا اَلٰہَ اِلا اللّٰہ شجرہ طیبہ کا مالی میرا محبوب مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور جس کے دل کی مبارک اور زرخیز زمین میں میرے محبوب نے اپنے دست مبارک سے اس کلمے کا بوٹا لگایا ہے۔ جس کی جڑیں اس کے رگ و پے میں پہنچ گئی ہیں دنیا کی کوئی طاقت ان کو اکھیڑ نہیں سکتی۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
بقول سلطان باہو:
الف اللہ چنبے دی بوٹی میرے مَن وچ مرشد لائی ہو
نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے ہر جائی ہو
اند ر بوٹی مُشک مچایا جاں پھُلاں تے آئی ہو
جیوے مرشد کامل باہو جیں ایہہ بوٹی لائی ہو
وہ لوگ پھسلتے ہیں جن کے دل میں ایمان کی جڑیں پیوست نہیں ہوا کرتیں۔ جنہوں نے دل کی گہرائیوں سے اس دعوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول نہیں کیا ہوتا۔ وہ کبھی دولت کو دیکھتے ہیں، کبھی عہدہ دیکھتے ہیں، کبھی ڈر کر، کبھی خوف زدہ ہو کر ، کبھی کسی لالچ میں آ کر، کبھی ادھر پھرتے ہیں اور کبھی ادھر پھرتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے ایک مرتبہ حقیقت کے روئے زیبا کی ایک جھلک دیکھ لی ہو ان کے بس میں نہیں ہوا کرتا کہ وہ اس نور حق کو چھوڑ کر کسی اور چیز کی طرف متوجہ ہوں۔ تو کلمہ طیبہ کی پہلی خصوصیت یہ ہے! ’’اصلھا ثابت ‘‘کہ جس کے دل میں کلمہ طیبہ کا بوٹا جڑ پکڑ لیتا ہے ، اس انسان کی جان تو قربان ہو سکتی ہے ، سر کٹایا جا سکتا ہے ، جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرائے جا سکتے ہیں لیکن وہ ہاتھ جس نے مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر کلمہ طیبہ کا معاہدہ کر لیا ہے، وہ معاہدہ نہیں بھول سکتا۔ اس کی ایک نہیں ہزاروں ، لاکھوں مثالیں آپ نے دیکھی ہیں اور سنی بھی۔
کلمہ طیبہ کی دوسری خصوصیت :
اللہ تعالیٰ نے شجرہ طیبہ کی دوسری خصوصیت یوں بیان فرمائی :
’’اصلھا ثابت وفر عھا فی السّماء ‘‘ اس کی جڑیں جو اتنی گہری ہیں : تو اس کی شاخیں بھی چھوٹی نہیں ہیں۔ مختصر نہیں ہیں ۔’’ وفر عھا فی السّماء ‘‘ شاخیں آسمانوں کی بلندیوں کو چھُو رہی ہیں ، جب اس کی شاخوں کی یہ کیفیت ہے کہ ’’وفر عھا فی السّماء ‘‘ تو درخت جتنی اس کی جڑیں پختہ ہوں گی ۔ جڑ جتنی گہری ہو گی ، اتنی ہی اس کی شاخیں زیادہ ہو ں گی ، اتنی ہی اس کی ٹہنیاں زیادہ ہوں گی ، اتنا اس پر پھل زیادہ لگے گا ، اتنا ہی اس کا سایہ بھی گھنا ہو گا اور اس کے نیچے آ کر سستانے والے آرام محسوس کریں گے ۔
دوسری اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت بیان کی کہ اس کی شاخیں ٹنڈ منڈ نہیں ہیں، چند شاخیں نہیں ہیں، کہ نہ ان کا سایہ ہو، نہ ان کے نیچے کوئی پناہ لے سکے ، نہ کسی کو سکون نصیب ہو سکے ، نہ وہاں کوئی جگہ ہو کہ کوئی پھل لگ سکے ، اس کی شاخیں تو پھیلتی پھیلتی آسمانوں کی بلندیوں کو چھُو رہی ہیں ، اور حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں کی بلندیاں کیا ہو سکتی ہیں۔عرش کی بلندیاں بھی کلمہ طیبہ کی بلندی کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’اصلھا ثابت وفر عھا فی السّماء ‘‘ اس کی ٹہنیاں کہاں تک پہنچی ہوئی ہیں، آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ جس درخت کی شاخیں پھیل کر آسمانوں کی بلندیوں کو چھُو رہی ہوں اس کے سایہ کا اندازہ آپ لگائیں ، اس کے گھنے ہونے کا اندازہ لگائیں۔ اور اس پر پھل اور پھول لگنے کے جو بے شمار امکانات ہیں ، ان کا اندازہ کیجئے ، تب آپ کو پتہ چلے گا کہ کلمہ طیبہ کی کیا حقیقت ہے۔
کلمہ طیبہ کی تیسری خصوصیت :
اللہ تعالےٰ، وہ قادر کریم، وہ حکیم ، وہ خالق مطلق، جو ہر چیز کا خالق بھی ہے’ تُعطِی اُکُلَھَا کُلَّ حِینٍ بِاِذنِ رَبِّھَا۔ ‘‘
دنیا میں باغات ہیں ، دنیا میں پھل دار درخت ہیں ، کسی میں سال میں ایک بار پھل لگتا ہے ، کسی میں دوسرے سال پھل لگتا ہے ، کسی میں ایک سال پھل زیادہ لگتا ہے دوسرے سال کم ، کبھی وہ کچا ہی گر جاتا ہے، کبھی اس کو بیماری لگ جاتی ہے، وہ سوکھ جاتا ہے، اس پر داغ لگ جاتا ہے اور پھر کسی کے استعمال کے قابل ہی نہیں رہتا۔
لیکن کلمہ طیبہ کا جو پاکیزہ درخت ہے ، اس کے پھل کی شان الگ ہے۔ تُعطِی اُکُلَھَا کُلَّ حِینٍ بِاِذنِ رَبِّھَا‘‘ اس کی شاخیں بارہ مہینے اللہ تعالیٰ کے اذن سے پھلوںاور پھولوں سے لدی رہتی ہے۔ ’ تُعطِی اُکُلَھَا کُلَّ حِینٍ بِاِذنِ رَبِّھَا‘‘ پورا سال اس کلمہ طیبہ کے شجر کی ہر شاخ پھلوں سے، پھولوں سے لدی رہتی ہے۔ کہیں خوشبو آ رہی ہے ، کہیں رنگت آنکھوں کو فرحت بخش رہی ہے، کہیں میٹھے لذیذ اور صحت بخش پھلوں کی فراوانی تن و دہن کی ضیافت کا سامان مہیا کر رہی ہے ۔
تُعطِی اُکُلَھَا کُلَّ حِینٍ بِاِذنِ رَبِّھَا۔ ‘‘
عام درخت پر سال میں ایک دفعہ پھل لگتا ہے ، کہیں نقصان ہو جاتا ہے۔ لیکن ایمان کا درخت تمام نقائص سے پاک ہے ، نقصانات سے بلند تر ہے، وہاں نہ موسم کی قید ہے نہ وہاں بیماری کا گزر ہے۔
شجرہ طیبہ ہر وقت پھلدار ہے ، ہر وقت کا کیا مطلب ہے ؟ ہر وقت پھلدار رہنے کی مختصر تشریح یہ ہے کہ جب تک اس دنیا میں رہیں گے ، اس وقت تک لَا اِلٰہَ اِلااللّٰہ مُحَمّد رسُول اللّٰہ کا درخت آپ کو پھل دیتا رہے گا۔ اور جب یہاں سے انتقال کریں گے آپ قبر میں تشریف لے جائیں گے اور قبر میں ڈیرا ڈال لیں گے ، تو وہاں بھی اس درخت کا پھل آپ کو ملتا رہے گا ۔ اور جب میدان حشر میں آپ حاضر ہوں گے پھر بھی اس درخت کا ٹھنڈا سایہ آپ پر سایۂ فگن ہوتا رہے گا۔ ہر وقت ، ہر گھڑی ، ہر آن اس کا پھل تیری ضیافت طبع کے لئے حاضر اور موجود ہے، کوئی وقت ایسا نہیں، کوئی گھڑی ایسی نہیں جب کہ وہاں پھلوں کی کمی ہو۔
فلسفہ ایصال ثواب :
جب کوئی آدمی ہم میں سے مرجاتاہے اس کے لئے صدقہ و خیرات کرتے ہیں ، اس کے لئے قرآن کریم کا ختم کرتے ہیں ، کلمہ شریف کا لاکھ نکالتے ہیں ، درود شریف کا لاکھ نکالتے ہیں ، تاکہ اس کا ثواب اسے ملے ۔ یہ ہمارا اہلِ سنت کا دستور ہے ناں؟ کرتے ہیں نا ں آ پ بھی ؟
اعتراض :
کچھ لوگ ہم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ سب تم فضول باتیں کرتے ہو۔ یہ تمہاری ساری باتیں لا یعنی ہیں۔ ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ ہے قرآن کے خلاف ہیں کیونکہ قرآن توکہتا ہے۔ لَے٘سَ لِل٘اِن٘سَانِ اِلَّا مَاسَعٰی۔
انسان کو اسی چیز کا اجر ملے گا، اسی چیز کا ثواب ملے گا، اسی چیز کا بدلہ ملے گا، جو عمل اس نے خود کیا ہے۔ وہ یہ پڑھ کر ہمیں ڈراتے ہیں کہ یہ جو تم نے سوانگ رچا رکھا ہے ، اس کی کوئی حقیقت نہیں، یہ سب لا یعنی ہیں۔ قرآن یہ کہتا ہے ( قرآن سے بڑھ کر سچی کون کتاب ہو سکتی ہے) کہ ’’ لَے٘سَ لِل٘اِن٘سَانِ اِلَّا مَا سَعٰی۔ ‘‘
جس کا معنی یہ ہے کہ کسی انسان کو کوئی ثواب نہیں ملے گا ، کوئی اجر نہیں ملے گا، کوئی صلہ نہیں ملے گا۔ مگر جس کے لئے اس نے خود کوششیں کی ہیں۔ یعنی جو نمازیں اس نے خود پڑھی ہیں ، اس کا ثواب تو اسے ملے گا۔ جو روزے اس نے خود رکھے ہیں، جو صدقات اس نے خود کئے ہیں ، اس کا ثواب اسے ملے گا۔ لیکن جو آدمی اس دنیا سے چلا جاتا ہے اس کا بیٹا یا کوئی دوسراانسان اس کے لئے جو صدقات ، قرآن خوانی وغیرہ کرتا ہے، یہ سب لا یعنی ہے۔ ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ اس قسم کی تفسیریں کرنے والے اور تقریریں کرنے والے خواہ مخواہ پریشان کرتے ہیں۔مجھے آپ سے یہ عرض کرنا ہے کہ اللہ کے قرآن پر ہمارا ایمان ہے ۔ یہ سچ ہے کہ ’’ لَے٘سَ لِل٘اِن٘سَانِ اِلَّا مَا سَعٰی۔ ‘‘کہ انسان کے لئے وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی ہے۔
جواب : پہلے تو میںآپ حضرات سے یہ پوچھتا ہوں کہ ایک آدمی بہترین نرسری سے آم کا ایک پودا لاتا ہے ،اس پودے کو آ کر لگاتا ہے۔
جب وہ پودا لایا گیا :
 

حسن نظامی

لائبریرین
۱۔ کیا اس کے ساتھ شاخیں اور ٹہنیاں تھیں۔
۲۔ کیا اس پر آم کا بُور تھا۔
۳۔ کیا آم کا پھل تھا۔
کچھ بھی نہ تھا صرف ایک چھوٹا سا پودا تھا، ایک شاخ تھی ۔ لیکن جب و ہ شا خ اس نے آ کر لگائی اور وہی شاخ جب بڑھی اور بڑھنے کے بعد وہ برگ و بار لائی۔ اس کی ٹہنیاں بڑھیں ، اس کا تنا موٹا ہوا، موسم آیا۔ اس پر پھول لگے ، وہ پھول امبیوں میں تبدیل ہوا، امبیوں سے چھوٹے آم بنے ، یہاں تک کہ وہ پختہ ہو گیا۔ اب کوئی شخص یہ کہے کہ ان آموں کے ساتھ اس پودے کا کوئی تعلق نہیں اس سے تُجھے کیا سروکارہے۔ یہ تیری چھوٹی سی وہ ٹہنی ہے جو تولے آیا تھا باقی کے ساتھ تیرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ تیرا عمل تو صرف اتنا ہے ، کہ تو ایک ٹہنی لے آیا اور اس کو یہاں لگا دیا۔ باقی تیرے کام میں کسی محنت کا کوئی دخل نہیں۔
تو کیا آپ اس کو عقل مند کہیں گے ؟ آپ کہیں گے کہ پودا کس نے لگایا تھا۔ اس پودے کے جتنے پتے ہیں ۔ اس پودے کی جتنی ٹہنیاں ہیں؂اس پودے کی جتنی شاخیں ہیں۔ اس پودے کے جتنے پھول ہیں۔اس پودے کے جتنے پھل ہیں۔ اُس کے ہیں جس نے وہ ٹہنی لگائی تھی ۔ اب ہمیں کوئی یہ آیت پڑھ کر سنائے کہ بھائی نہیں۔
’’ لَیسَ لِلاِنسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی۔ ‘‘انسان کے لئے وہ کچھ ہے، جو وہ خود کرتا ہے، اس نے جو ایک ٹہنی لگائی تھی ، اور یہ سارا باقی کا مال جو ہے ، تو وہ پھر اس کا نہ ہوا۔ پھر اس سے چھین کر ہڑپ کر جائیی ۔
اگر وہ ٹہنی لگا کر آپ پھل کھا سکتے ہیں اور سب کے مالک ہو سکتے ہیں ۔ تو اس آیت کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ تو کسی نہ کسی طرح جب ایک بندہ اپنے دل کی زمین میں لَا اِلٰہَ اِلا اللّٰہ مُحَمّد رسُول اللّٰہکا بوٹا لگاتا ہے ، وہ بوٹا جس کی مثال شجرہ طیبہ کے ساتھ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
تُعطِی اُکُلَھَا کُلَّ حِینٍ بِاِذنِ رَبِّھَا۔ ‘‘جو بارہ مہینے پھل دیتا رہتا ہے یہاں ہو تو اس کا ثواب ملتا رہے گا ، وہاں حشر کے میدان میں بھی اس کا ثواب تمہیں ملے گا۔ یہ تمہارا اپنا لگایا ہوا پودا ہے جس کا تم پھل کھا رہے ہو ، یہ آپ کا اپنا لگایا ہوا پودا ہے جس کو آپ نے گل بہار کیا اور جس کا پھل آپ کھا رہے ہیں۔
تو اگر کافر مر جائے تو اس کے لئے کبھی کسی نے قرآن کریم کا ختم کیا ہے۔ اس کے لئے بھی کبھی کسی نے کلمہ شریف کا لاکھ نکالا ہے، اس کے لئے بھی کبھی کسی نے صدقہ و خیرات دیا ہے ۔ کبھی نہیں دیا ۔ کیو نکہ وہاں لَا اِلٰہَ اِلا اللّٰہکا درخت ہے ہی نہیں ، جب درخت ہے ہی نہیں تو پھل کہاں سے لگے گا۔ یہ پھل وہاں لگتا ہے جہاں لَا اِلٰہَ اِلا اللّٰہ مُحَمّد رسُول اللّٰہ کا درخت ہے۔
یہ سارے ختم ، یہ سارے کلمے ، یہ سارے لاکھ ، یہ ساری چیزیں، یہ پھل ہیں اس درخت کے جو تم نے اپنی زندگی میں لگایا اور جس کی نگہداشت کرتا رہا۔ جس کو تو نے پانی دیا اور سیراب کیا اور شیطان کی دست برد سے بچا کے تو نے اپنے سینے میں مقرر کیا۔ یہ اسی درخت کے پھل ہیں جو تم اس دنیا میں کھائو گے ، قبر میں بھی کھائو گے ، حشر میں بھی کھائو گے اور جنت میں بھی تم کھائو گے ۔ جتنا کسی شخص نے اس درخت کی زیادہ حفاظت کی ہوتی ہے اتنا ہی اس کا پھل زیادہ لگتا ہے ، جتنا درخت توانا ہوتا ہے ، پھل بھی اتنا ہی قوی ہوتا ہے ۔
حضرت داتا گنج بخش کا مقام :
آپ داتا گنج بخش کے آستانہ عالیہ پر حاضر ہوں تو کوئی قرآن مجید پڑھ رہا ہے ، کوئی کلمے کا لاکھ نکال رہا ہے ، کوئی درودِ پاک پڑھ رہا ہے ، کوئی قصیدہ بردہ شریف پڑھ رہا ہے ، کوئی کسی طرح اللہ کا ذکر کر رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ کر کے کہتا ہے یارب العالمین اس سارے کا ثواب اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی ذات پاک کو تحفۃ بھیجتے ہیںاس کے بعد اپنے اس مقبول بندے کو پہنچا۔ میں بھی جاتا ہوں ، میں بھی عرض کرتا ہوں۔ آپ بھی جاتے ہیں تو آپ بھی یہی عرض کرتے ہیں ۔ لاکھوں آدمی دن میں آتے ہیں سارے عرض کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہلے جو مقام عطا فرما دیا ہے ، اس کا کوئی اندازہ نہیں ۔ لیکن جو کلمے کا بوٹا آپ نے لگایا تھا، وہ اتنا زیادہ گل بہار ہے ، وہاں پھل کی اتنی فراوانی ہے کہ جس کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
اسی طرح جیسے کسی کا مقام ہوتا ہے ، اسی طرح اس پر زیادہ پھل لگتا ہے۔ اور جہاں کسی کے ایمان میں کمی یا ضعف ہوا کرتا ہے وہاں کوئی فاتحہ پڑھ دے تو پڑھ دے ، نہ پڑھے تو نہ پڑھے حالانکہ اس بیچارے کو زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس نے اپنی زندگی میں شجرہ طیبہ کی صحیح طور پر آبیاری نہیں کی تھی ، اس کی رکھوالی نہیں کی تھی ، اس کی نگہداشت میں کوتاہی کا مرتکب ہوا تھا ، اس لئے اس پر پھل بھی کم ہے۔
اور جنہوں نے اس کی جان دے کر حفاظت کی ان پر پھل بھی زیادہ ہے۔ تُعطِی اُکُلَھَا کُلَّ حِینٍ بِاِذنِ رَبِّھَا‘‘ وہ پھل دیتا ہے کس وقت دیتا ہے ، صرف خزاں میں نہیں، بہار میں نہیں، صرف گرمیوں میں نہیں، صرف سردیوں میں نہیں۔’’کل حین‘‘۔ہر گھڑی اس درخت کی شاخیں پھلوں سے لدی ہوئی ہیں اورلوگوں کو دعوت نظارہ دے رہی ہوتی ہیں۔
تو معلوم ہوا یہ ایمان کا درخت وہ شجرہ طیبہ ہے۔ جس نے اس کو لگایا، جس نے اس کی حفاظت کی ، اس کی نگہداشت کی نہ اسکو دنیا میں کوئی کمی ہے اور نہ ہی قبر میں کوئی کمی ہے۔ اور نہ قیامت کے دن اسے خوف وحزن ہو گا۔ اللہ ہر خوف و حزن سے محفوظ رکھے ۔
قرآن اور صاحب قرآن :
اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم ہم زیادہ سمجھتے ہیں یا جس ذات مقدس پر نازل ہوا تھا۔ وہ زیادہ سمجھتی تھی ۔ آج کے مفسرین اور شیخ القرآن قرآن کریم کو زیادہ سمجھتے ہیں یا سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ ذات جس پر اللہ تعالےٰ نے اس کلام پاک کو نازل کیا ؟ کون زیادہ سمجھتا ہے ؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات زیادہ سمجھتی تھی ۔ کوئی بڑے سے بڑا ، علامہ ،محقق، اور کوئی بڑے سے بڑا شیخ القرآن اور شیخ الحدیث اس سمجھ کی گر دِراہ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ جو افہام قرآن مجید کا اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ اگر کسی کی کوشش سے ، کسی کی دعا سے اور کسی کے ایصالِ ثواب سے کسی کا بھلا نہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کام کرتے؟
 

حسن نظامی

لائبریرین
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو’’ لَیسَ لِلاِنسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی۔ ‘‘ والی آیت یاد تھی یا کہ نہیں ؟ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ناں ! اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی سن کر آج چودہ صدیاں بعد ہمیں یہ آیت یاد ہو رہی ہے کہ ’’ لَیسَ لِلاِنسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی۔ ‘‘اگر اس کا یہی مطلب ہوتا جو آج کل کے خود فریب مولوی صاحبان نے مقرر کر رکھا ہے ۔ تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جن پر یہ قرآن کریم نازل ہوا تھا۔ اور جن کو زیادہ سمجھ تھی اس قرآن کریم کی ،وہ قطعاً کوئی ایسی بات نہ کرتے جو قرآن کریم کی کسی آیت کے خلاف ہوتی ۔
اُمّت کی طرف سے قربانی :
آئیی حدیث کی کتابیں اٹھا کر دیکھتے ہیں ، بخاری ، ترمذی، مسلم شریف ، ابو دائود، اور کوئی کتاب اٹھائیی، وہاں جب عید الضحیٰ کا باب آپ کھولیں گے تو وہاں آپ کو ہر جگہ یہ حدیث پاک نظر آ ئے گی ۔کہ جب قربانی کا دن آیا کرتا تھا تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم دو دنبے ذبح کیا کرتے تھے۔ پہلے ایک دنبے کی قربانی اپنی طرف سے اور پھر جب دوسرے دنبے کو زمین پر لٹاتے اس کے گلے پر چھُری چلانے لگتے ، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی جناب میں عرض کرتے :
’’اَلّٰھُمَّ تَقَبَّلہُ مِن فُقَرَائِ اُمَّتِی‘‘
میری امت کے جو فقراء ہیں ، میری امت کے جو مساکین ہیں جن کے پاس اتنی قدرت نہیں ہے کہ وہ اپنی جیب سے پیسے نکال کر جانور خرید کر اس کو ذبح کر سکیں۔
یارب العالمین ! میں تیرا بندہ ہوں۔ میں تیرا رسول ، میں تیرا محبوب اپنی امت کے ان غریبوں اور مسکینوں کی طرف سے تیری جناب میں یہ قربانی پیش کررہا ہوں۔
دوسری قربانی کس کی طرف سے تھی ؟ اس کا ثواب کس کو دیا؟ ان غریبوں کو ملا، ان امتیوں کو ملا، ان مسکینوں کو ملا جنہوں نے پڑھا تھا اپنے محبوب کا کلمہ ۔ لَا اِلٰہَ اِلا اللّٰہ مُحَمّد رسُول اللّٰہ تو معلوم ہوا جو عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اگرچہ اس میں چودھویں، پندرہویں صدی کے غریب کاکوئی حصہ نہیں۔ لیکن اس کو بھی ثواب مل رہاہے۔ چودہ صدیوں میں مشرق و مغرب ، شمال و جنوب ، عرب و عجم ، جہاں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکین اور غریب مخلص غلام ہے، سب کو ثواب مل رہا ہے ۔
جب دنیا دار ، دولت مند اپنے پیسے سے جانور خرید کر قربانیاں دے کر ثواب لوٹتے ہیں تو جو غریب ہیں ان کی طرف سے ان کے آقا صلی اللہ علیہ وسلمنے جو قربانی دی ہے اس کا ثواب ان کے نامۂ اعمال میں لکھا جاتا ہے ۔ تو سنت نے ہمیں بتایا کہ جو عمل کیا جاتا ہے اس سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔
حضرت علی کا سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے قربانی دینا:
تیسری بات یہ ہے کہ حضرت سید نا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا یہ معمول تھا کہ جب آپ قربانی دیتے تو ایک جانور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دیتے کہ اس کا ثواب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو پہنچے ۔
تو معلوم ہوا جو ہم نیک عمل کرتے ہیں، جو ہم ذکر الٰہی کرتے ہیں ، جو ہم ختم قرآن کرتے ہیں، جس کو یہ ثواب پہنچا رہے ہیں۔ وہ اگر ایمان کی دولت لے کر اس دنیا سے گیا ہوا ہے تو جتنا آپ اس کو ثواب پہنچائیں گے یہ اس کلمہ طیبہ کے پاکیزہ درخت کا پھل ہو گا۔ جس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے :
تُعطِی اُکُلَھَا کُلَّ حِینٍ بِاِذنِ رَبِّھَا۔ ‘‘وہ دنیا میں بھی پھل دے رہا ہے، قبر میں بھی دے رہا ہے، قیامت میں بھی دے گا، اور جنت میں بھی ہم اس کے پھلوں سے شاد کام ہوں گے ۔ تو اللہ تعالیٰ کلمہ طیبہ کی مثال بیان فرماتے ہیں۔
’’الم ترکیف ضرب اللّٰہ مثلاً کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبہ۔ ‘‘

کہ کلمہ طیبہ کیا ہے؟ کہوناں! کلمہ طیبہ ’’ لَا اِلٰہَ اِلا اللّٰہ مُحَمّد رسُول اللّٰہ ‘‘ اس کی مثال ’’ کشجرۃ طےّبہ۔ ‘‘ اس درخت کی مثال ہے جو پاکیزہ ہے جس کی صفات مولا کریم بیان فرماتے ہیں: ’’اصلھا ثابت ‘‘ اس کی جڑیں بہت گہری چلی گئی ہیں۔ وفر عھا فی السَّماء اور اس کی شاخیں اور ٹہنیاں آسمان کی بلندیوںکو چھُو رہی ہیں۔ تُعطِی اُکُلَھَا کُلَّ حِینٍ بِاِذنِ رَبِّھَا۔ ‘‘ ‘اور اللہ کے اِذن سے ہر گھڑی اور ہر آن اس زندگی میں بھی ، برزخ میں بھی ،آخرت میں بھی ، یہ درخت ہمیشہ پُر بہار رہے گا۔ ہمیشہ سدا بہار رہے گا۔ ہمیشہ اس کی ٹہنیاں پھلوں سے لدی رہیں گی ۔
گذارش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شجرہ طیبہ کی حفاظت کرنا کلمہ طیبہ کی نگرانی کرنا، شیطان کی دست برد سے ، نفس کی دست اندازیوں سے اس کو بچانا، کسی بیماری سے اس کی حفاظت کرنا، اتنا قیمتی درخت جس کی برکتیں ہماری تینوں زندگیوں تک پھیلتی ہیں ، یہ دنیا کی زندگی ، برزخ کی زندگی اور پھر آخرت کی زندگی جس کی کوئی انتہا ہی نہیں ، جو اپنی برکتوں کے سائے میں ہماری ان تینوں زندگیوں کو لئے ہوئے ہے۔ اس کی خاطر کرنا ، اس کی حفاظت کرنا ، اس کی نگہداشت کرنا ہمارے اولین فرائض میں سے ہیں۔ یہ درخت ترو تازہ ہو گا۔ یہ درخت بیماری سے محفوظ ہو گا۔ یہ درخت پُر بہار ہو گا ۔ تو اس کا پھل ہم دنیا میں بھی کھائیں گے ، قبر میں بھی کھائیں گے اور آخرت میں بھی کھائیں گے ۔
مولائے کریم ہمیں اس کلمہ طیبہ کی حفاظت کی بیش از بیش تو فیق عطا فرمائے جسکا بیج سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے اپنی امت کے دلوں میں کاشت کیا ہے۔ واٰخِرُ دعواناان الحمد للّٰہ ربِّ العالمین !
 

مہوش علی

لائبریرین
جزاک اللہ نظامی بھائی۔ اللہ تعالیٰ پیر ازھری صاحب کے درجات میں اضافہ فرمائے۔ امین۔

کچھ عرصہ قبل میں نے راجہ نعیم صاحب سے درخواست کی تھی کہ وہ ازھری صاحب کی ان دو کتب کو کسی طرح ڈیجیٹائز کرنے کی سعی کریں:

1۔ ضیاء القران
2۔ ضیاء النبی

خصوصا ضیاء النبی میرے خیال میں اس جدید وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ یہ کتاب ویسے بھی شاید انپیج میں لکھی گئی ہے۔

چنانچہ نظامی بھائی، اگر ممکن ہو سکے تو پبلشرز سے رابطہ کر کے ضیاء النبی کی انپیج فائلز حاصل کرنے کی کوشش فرمائیں۔ جزاک اللہ۔
والسلام۔
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ،

حسن بھائی، جزاک اللہ خیر۔ اللہ جزادے(آمین ثم آمین)

والسلام
جاویداقبال
 

حسن نظامی

لائبریرین
مہوش علی نے کہا:
جزاک اللہ نظامی بھائی۔ اللہ تعالیٰ پیر ازھری صاحب کے درجات میں اضافہ فرمائے۔ امین۔

کچھ عرصہ قبل میں نے راجہ نعیم صاحب سے درخواست کی تھی کہ وہ ازھری صاحب کی ان دو کتب کو کسی طرح ڈیجیٹائز کرنے کی سعی کریں:

1۔ ضیاء القران
2۔ ضیاء النبی

خصوصا ضیاء النبی میرے خیال میں اس جدید وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ یہ کتاب ویسے بھی شاید انپیج میں لکھی گئی ہے۔

چنانچہ نظامی بھائی، اگر ممکن ہو سکے تو پبلشرز سے رابطہ کر کے ضیاء النبی کی انپیج فائلز حاصل کرنے کی کوشش فرمائیں۔ جزاک اللہ۔
والسلام۔

السلام علیکم
مہوش بہنا میں آپ کو بہنا ہی کہوں گا ۔۔۔۔۔
آپ کی تجویز بلا شک و شبہ بے حد اچھی ہے میرے ذہن میں یہ خیال کافی عرصے کا موجود ہے خاص طور پر جب سے یونیکوڈ کنورٹر کا علم ہوا اور اردو محفل سے وابستگی ہوئی میری یہ شدید خواہش ہے میں نے اپنی سی کوشش کی تھی اس سلسلے میں مگر کیا کیا جائے ہر کسی کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اللہ تمام لوگوں کو علم دوستی عطا فرمائے
میرا خیال ہے مجھے خود ہی اس کام کا بیڑا اٹھانا ہوگا پھر شاید کوئی اور اس سلسلے میں ہم سفر بن جائے
میں حضور پیر کرم شاہ صاحب کی اسلامک یونیورسٹی کا طالب علم ہوں اور میرے پاس آپ کی تمام کتب موجود ہیں
ساتھ ساتھ میں مکمل کوشش بھی کر رہا ہوں کہ میں کسی ذریعے سے ضیاء النبی کی انپیج فائل حاصل کر سکوں انشاء اللہ اول تو کامیابی ہو گی اگر نہ ہوئی تو میں خود ہی ضیاءالنبی برقیانے کی کوشش کروں گا
میں نے حضور ضیاءالامت پر ایک مختصر سا مضمون لکھا ہے آپ یہاں اسے دیکھیں بلکہ میں ایک الگ سے دھاگہ شروع کر کے اس کا لنک دے دیتا ہوں
http://alqalam.orgfree.com/viewforum.php?f=21
والسلام بہنا مع الاکرام
 
Top