مکمل کلام ن م راشد (دوم)

فرخ منظور

لائبریرین
بے صدا صُبح پلٹ آئی ہے

بے صدا صُبح پلٹ آئی ہے،
ہیں ابھی رہگزرِ خواب میں اندیشے
گداؤں کی قطار
سرنِگوں، خیرہ نگار، تیرہ گلیم
گزرے لمحات کا انبار لگائے
شب کی دریوزہ گری کا حاصل!

بے صدا صُبح پلٹ آئی ہے
ریزشِ آب سرِ برگ سنائی دی ہے
اور درختوں پہ ہے رنگوں کی پکار
کتنے زنبور مرے کمرے میں دِر آئے ہیں
نوشِ جاں! بزمِ سحر گاہ کی ہو
ایک ہنگامہ پلٹ آیا ہے!
(خواب کا چہرۂ زیبا کبھی لوٹ آئے گا
لبِ خنداں بھی پلٹ آئیں گے!)
عشق ہو، کام ہو یا وقت ہو یا رنگ ہو
خود اپنے تعاقب میں رواں
اپنے ہی پہنائی تک
کیسے اِک دائرہ بن جاتا ہے
تاک کی شاخ سے تا لرزشِ مے
لرزشِ مے سے تمنّاؤں کی رعنائی تک
اور تمنّاؤں کی گل ریزی سے
صبح انگور کی دارائی تک
کیسے اِک دائرہ بن جاتا ہے
بے صدا صُبح پلٹ آئی ہے،
پاؤں کی چاپ لباسوں کی صریر
اور بڑھتی ہوئی کوُچوں کی نفیر
نوشِ جاں! کام کا ہنگامہ
یہی عشق بھی ہے، چہرۂ زیبا بھی یہی
یہی پھُولوں کا پر و بال بھی ہے
رنگِ لب ہائے مہ و سال بھی ہے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
تسلسل کے صحرا میں

تسلسل کے صحرا میں ریگ و ہوا، پاؤں کی چاپ
سمت و صدا
تغیر کا تنہا نشاں؛
تسلسل کے صحرائے جاں سوختہ میں
صدائیں بدلتے مہ و سال
ہوائیں گزرتے خدوخال
تنہا نشانِ فراق و وصال

تسلسل کے صحرا میں
اک ریت ٹیلے کی آہستہ آہستہ ریزش
کسی گھاس کے نامکمل جزیرے میں اک جاں بلب
طائر ِ شب کی لرزش
کسی راہ بھٹکے عرب کی سحر گاہ حمد و ثنا
تسلسل کے بے اعتنا رات دن میں تغیر کا
تنہا نشاں۔۔۔ محبت کا تنہا نشاں!

صبا ہو کہ صرصر کہ بادِ نسیم
درختوں کی ژولیدہ زلفوں میں بازی کناں
اور ذرّوں کے تپتے ہوئے سرخ ہونٹوں
سے بوسہ ربا
صبا جب گزرتی ہے، بیدار ہوتے ہیں اس کی صدا
سے بدلتے ہوئے حادثوں کے نئے سلسلے
نئے حادثے جن کے دم سے تسلسل کا رویا یقیں
نئے حادثے جن کے لطف و کرم کی نہایت نہیں!
تسلسل کے صحرا میں میرا گزر کل ہوا
تو یادیں نگاہوں کے آگے گزرتے ہوئے رہگزر
بن گئیں:
پہاڑوں پہ پانی کے باریک دھارے
فرازوں سے اترے، بہت دور تک دشت و در
میں مچلتے رہے، پھر سمندر کی جانب بڑھے
اور طوفاں بنے،
اُن کی تاریک راتیں سحر بن گئیں!
ازل کے درختوں میں سیبوں کے رسیا
ہمارے جہاں دیدہ آبا
درختوں سے اُترے، بہت دُور تک دشت و در
میں بھٹکتے رہے، پھر وہ شہروں کی جانب بڑھے
اور انساں بنے، ہر طرف نور باراں بنے
وہ سمت و صدا جو سفر
کا نشاں تھیں
وہی منتہائے سفر بن گئیں!
تسلسل کے صحرا میں ریگ و ہوا، پاؤں کی چاپ
سمت و صدا
تسلسل کا رازِ نہاں، تغیر کا تنہا نشاں
محبت کا تنہا نشاں
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
دیوار

کتنی آوارہ و سرگشتہ ہو
لوٹ آتی ہے دیوار سے ٹکرا کے نگاہ
دیکھ پتّوں کی کئی نسلوں کے انبار کہ ہیں
ایک انبوہِ پریشاں خمِ دیوار کے ساتھ
دیکھ انگور کی ان سوکھی ہوئی بیلوں کی گیرائی بھی
کس طرح صحن میں ایک ان میں سے جھک آئی بھی!

توڑ کے فرش کو ہمسائے نے دیوار لگائی تھی کبھی
(ایک پردہ بھی ہے، سایہ بھی ہے، دارائی بھی
اس سے ملتی نہیں عشاقِ تنک مایہ کو راہ
کام آتی نہیں مہتاب کی بینائی بھی!)
اور دیوار پہ ٹوٹے ہوئے شیشوں کی قطار
نیلگوں، سرخ، طلا رنگ، سیاہ
کس عرق ریزی سے، ہمت سے سجائی تھی کبھی
کہیں چھونے کی جسارت نہ کریں چور کے ہاتھ
(حیف، شیشوں پہ لپٹ آئی ہے اب کائی بھی!)
بوڑھے ہمسائے سے ہم کیوں نہ کہیں
کوئی مطلب نہیں انوار سے رنگوں سے صداؤں سے تجھے؟
راحتِ جاں سے شرابور ہواؤں سے غرض؟
صبح کے نغمہ سراؤں سے غرض؟
تجھے بھاتی نہیں خوشبوؤں کی رعنائی بھی؟

بوڑھا ہمسایہ سنے گا لیکن؟
زیرِ دیوار جو کرتا ہے بکھرتے ہوئے تاروں کا شمار
اپنے ٹوٹے ہوئے شیشوں کی قطاروں کا شمار
شامِ پیری کے اشاروں کا شمار؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
پَیرو

تُو مرے پیچھے، مرے قدموں پہ میلوں تک چلا
مجھ کو تیرے ہانپتے پاؤں کی دزدیدہ صدا آتی رہی
ایک مہجورِ ازل دل کی نوا آتی رہی
تُونے دو راہوں پہ آکر لوٹ جانے کا ارادہ بھی کیا
ترک جادہ بھی کیا
پھر بھی تُو چلتا رہا۔۔۔چلتا رہا
میں تذبذب پر ترے ہنستا رہا ۔۔۔ہنستا رہا!

تو مرا سایہ ہے لیکن
تجھ کو سایہ بن کے رہنا ناگوار
ثانوی نسبت کا سہنا ناگوار
تُو کبھی قامت، کبھی جثّے کی افزائش
کی سعیِ رائیگاں کرتارہا
راہگیروں سے یہ دردِ دل بیاں کرتا رہا

مجھ کو یہ ڈرتو نہیں
ایک دن تُو مجھ کو آلے گا کہیں
سوچتا ہوں
تجھ سے پائے راہ پیمائی کے سارے حوصلے
میں گماں ہوں، میں گماں ہوں
اور تُو میرا یقیں
میں تری صورت ہوں شاید
اور تُو معنا مرا
میں ترا پَیرو ہوں تُوہے رہبر دانا مرا
سوچتا ہوں
نقل لے لوں، اصل دے ڈالوں تجھے
اپنے جسم وروح میں ’’میَں‘‘ کی طرح پالوں تجھے
ہاں اگر اندیشہ ہے دل میں تو یہ
پھر بھی رہ جائیں نہ باقی وہ نجومی فاصلے
میرے تیرے درمیاں جو سالہا قائم رہے
جن کا تو شاکی رہا
تُو مرے پیچھے، مرے قدموں پہ میلوں تک چلا
چلتا رہا۔۔۔ دائم رہے چلنا ترا!
 

فرخ منظور

لائبریرین
وہی کشفِ ذات کی آرزو

مرا دل گرو، مری جاں گرو!
چلا آ کہ ہے مرا در کھلا
تو مرا نصیب ہے راہرو!
یہ ہوا، یہ برق، یہ رعد و ابر، یہ تیرگی
رہِ انتظار کی نارسی
مرے جان و دل پہ ہیں تو بتو
مرے میہماں ، مرے راہرو!
اے گریز پیا، تو سرابِ دشتِ خلا نہ بن
وہ نوا نہ بن جو فریبِ راہگزار ہو
وہ فسونِ ارض و سما نہ بن
جسے دل گرفتوں سے عار ہو!
جو تجھے بلاتی ہے پے بہ پے
وہ صدا جلاجلِ جاں کی ہے
وہ صدا مرورِ زماں کی ہے!
کسے اس صدا سے فرار ہو؟
مرا دل گرو، مری جاں گرو
تری کُن مکُن، تری رَو مرَو
مجھے بارِ جاں،
کہ میں حرف جس کا بیاں ہے تو
میں وہ جسم جس کی رواں ہے تو
تو کلام ہے، میں تری زباں
تو وہ شمع ہے کہ میں جس کی لو!

کسی نقش کار کا اِک نفس ۔۔۔
کئی صورتیں جو سدا سے تشنۂ رنگ تھیں
ہوئیں وصل معنی سے بارور
کسی بت تراش کی اِک نگہ ۔۔۔
کئی سنگ اذیتِ یاس و مرگ
سے بچ گئے
ہوئے سمتِ راہ سے باخبر!
چلا آ کہ میری ندا میں بھی
وہی رویتِ ازلی کہ ہے
جسے یاد غایتِ رنگ و بُو
جسے یاد رازِ مئے و سبو
جسے یاد وعدۂ تار و پو!
چلا آ کہ میری ندا میں بھی
اسی کشفِ ذات کی آرزو !
 

فرخ منظور

لائبریرین
نئی تمثیل

ہم کہ سب تیرے پرستاروں میں ہیں،
اے طلاموسِ کبیر،
تو ہمارا دستگیر!
(جیسے ہر کامل ہے ساکن
اُس طرف کامل کہ جو ساکن بھی ہے،
محدود بھی،
اس طرف اِک خام، خاموں کی طرح
حرکت میں ہے، غلطاں بھی ہے،
ناشکیبا بھی ہے، بے پایاں بھی ہے!)
کون سی جانب بڑھیں،
اے طلاموسِ کبیر؟
سنگِ میلِ ہست پر جم جائیں ہم؟
ماجرا کے سامنے آنکھیں بچھائیں؟

کھیل کھلتا ہے، تو کھلتی جارہی ہے
(کیسی کمسن!) داستاں،
ڈھلتے جاتے ہیں اشارے، حرف، آوازیں، ادائیں،
خود اداکاروں کا باطن داستاں!
ان کے متحرک قدم، اور ان کے سائے
دیکھنے والوں کا غوغا:’’چپ رہو!
چپ رہو، ہم کچھ سمجھ سکتے نہیں،
مبتذل! آوارہ! بس مت کچھ کہو!
شرمناک! اب کچھ نہ گاؤ!‘‘
دیکھنے وا لوں کاہنگامہ کہ بام وفرش ایک!
یہ نئی تمثیل، جس کا تُو ہی خالق
کیسا حوّا، کیسا مریم کھیل
کیا تو نے اسے دیکھا نہیں
داستاں طے کی نہ تھی،
حرف تک، کوئی اشارہ تک کبھی
سوچا نہ تھا؟

پھر بھی سرگرمی سے جاری ہے یہ کھیل!
اے طلاموسِ کبیر،
ایک نافہمی کے پتھر پر یہ کیوں خوابیدہ ہیں،
ایک پیرہ زال سے چسپیدہ ہیں،
دیکھنے والوں میں کیوں اتنے ادا ناآشنا؟

’’اس فسون وخواب کی تصویر آرائی کریں،
جو پِیرہے، پارینہ ہے؟
یا سبک پا روز و شب کے عشق سے
سینوں کو تابندہ کریں؟

اے اداکارو، نہیں
جیسے ہی پھر پردہ گرا
گونج بن کر اُن کے ذہنوں میں دمک اٹھے گا کھیل،
(ان کی نظریں دیکھیے!)
ان کو بچوں کی محبت، گھر کی راحت،
اور زمیں کا عشق سب یاد آئے گا،
ان کے صحرا جسم وجاں میں
فہم کی شبنم سے پھراٹھے گا
حِسِّ دریا کا شور!

خود اداکاروں سے یہ بھی کم نہیں،
یہ اداکاروں کی آوازوں پہ کچھ جھولے سہی،
لفظوں کو بھی تو لاکیے، قدموں کو بھی گنتے رہے،
۔۔۔ان کے چہرے زرد، رخسارے اُداس ۔۔۔
درد کی تہذیب کے پَیرو،
ہزاروں سال کی مبہم پرستش،
یہ مگر کیا پاسکے؟
آہ کے پیاسے، کبھی اشکوں کے مستانے رہے
اپنے بے بس عشق کو عشقِ رسا جانے رہے!
ہر نئی تمثیل کے معنی سے بیگانے رہے!
جب اداکاروں کی رخصت کی گھڑی آئی
تو جاگیں گے، تو یاد آئے گا ہم میں
اور اداکاروں میں نافہمی کے تار۔۔۔
اور کوئی فاصلہ حائل نہ تھا!

اے طلاموسِ کبیر
تیرا پیغمبر ہوں میں!
تُو نے بخشا ہے مجھے کچھ فیصلوں کا اختیار
ان اداکاروں سے ان کے دیکھنے والوں
کا عقدِ نو ۔۔۔ یہ میرافیصلہ:
’’تم میاں ہو، اور تم بیوی ہو۔۔۔
تم ملکہ ہو، تم ہو شہر یار۔۔۔
تم بندر ہو، تم بندریا۔۔۔‘‘
ہم کہ سب تیرے پرستاروں میں ہیں،
اے طلاموسِ کبیر!
 

فرخ منظور

لائبریرین
سالگرہ کی رات

آج دروازے کھُلے رہنے دو
یاد کی آگ دہک اٹھی ہے
شاید اس رات ہمارے شہدا آ جائیں
آج دروازے کھلے رہنے دو
جانتے ہو کبھی تنہا نہیں چلتے ہیں شہید؟
میں نے دریا کے کنارے جو پرے دیکھے ہیں
جو چراغوں کی لویں دیکھی ہیں
وہ لویں بولتی تھیں زندہ زبانوں کی طرح
میں نے سرحد پہ وہ نغمات سنے ہیں کہ جنہیں
کون گائے گا شہیدوں کے سوا؟
میں نے ہونٹوں پہ تبسّم کی نئی تیز چمک دیکھی ہے
نور جس کا تھا حلاوت سے شرابور
اذانوں کی طرح!
ابھی سرحد سے میں لوٹا ہوں ابھی،
مَیں ابھی ہانپ رہا ہوں مجھے دم لینے دو
راز وہ اُن کی نگاہوں میں نظر آیا ہے
جو ہمہ گیر تھا نادیدہ زمانوں کی طرح!
یاد کی آگ دہک اٹھی ہے
سب تمنّاؤں کے شہروں میں دہک اٹھی ہے
آج دروازے کھلے رہنے دو
شاید اس رات ہمارے شہدا آ جائیں!
وقت کے پاؤں الجھ جاتے ہیں آواز کی زنجیروں سے
اُن کی جھنکار سے خود وقت جھنک اٹھتا ہے
نغمہ مرتا ہے کبھی، نالہ بھی مرتا ہے کبھی؟
سنسناہٹ کبھی جاتی ہے محبت کے بجھے تیروں سے؟
میں نے دریا کے کنارے انہیں یوں دیکھا ہے ۔۔
میں نے جس آن میں دیکھا ہے انہیں
شاید اس رات،
اس شام ہی،
دروازوں پہ دستک دیں گے!
شہدا اتنے سبک پا ہیں کہ جب آئیں گے
نہ کسی سوئے پرندے کو خبر تک ہو گی
نہ درختوں سے کسی شاخ کے گرنے کی صدا گونجے گی
پھڑپھڑاہٹ کسی زنبور کی بھی کم ہی سنائی دے گی
آج دروازے کھلے رہنے دو!
ابھی سرحد سے میں لوٹا ہوں ابھی
پار جو گزرے گی اس کا ہمیں غم ہی کیوں ہو؟
پار کیا گزرے گی، معلوم نہیں ۔۔
ایک شب جس میں
پریشانیِ آلام سے روحوں پہ گرانی طاری
روحیں سنسان، یتیم
اُن پہ ہمیشہ کی جفائیں بھاری
بوئے کافور اگر بستے گھروں سے جاری
بے پناہ خوف میں رویائےشکستہ کی فغاں اٹھے گی
بجھتی شمعوں کا دھواں اٹھے گا ۔۔۔
پار جو گزرے گی معلوم نہیں ۔۔
اپنے دروازے کھُلے رہنے دو
 

فرخ منظور

لائبریرین
اس پیڑ پہ ہے بوم کا سایہ

اس پیڑ پہ ہے بوم کا سایہ
اس پیڑکا پھیلاؤ زمانوں میں بھی ہے، آج میں بھی
اس کی جڑیں ہیں
صدیوں سے یہاں لوگ ہر سمت سے آتے بھی
بچھڑتے بھی رہے ہیں
برگد کے تلےقبر پہ (کیا جانیے کیا دفن ہے!)
نذرانوں کے انبار لگے ہیں،
خوابیدہ ہے اس پیڑ کے نیچے کوئی مجذوبِ برہنہ
اور پیڑ پہ ہے بوم کا سایہ
اے قبر پہ برگد کے تلے سوئے ہوئےشخص
تہمد ترا رانوں سے بہت اونچا اٹھا ہے
اس راہ سے تاریخ ابھی گزری ہے حافظ کی غزل گاتی ہوئی
سوکھے ہوئے اعضا پہ ترے ہنستی ہوئی
اب جن کو تناسل سے کوئی کام نہیں ہے!

اے قبر پہ سوےُ ہوےُ مجزوب تری نیند میں
صحراوُں کی بُو باس،
آتی ہے تری سانس سے اس فقر کی آواز کہ ہے زیرو بمِ مرگ
وہ مرگ کہ ہے شرم کی تمثیل
افسوس کے دروازے پر اک عشقِ سیہ روز
کے مانند پڑا ہے

لو شخص نے پھر نیند کی دلدل میں سے جھانکا
تہمد بھی سنبھالا
اک نعرہ لگایا
حافظ کی غزل جس کی صدا گہرے کنویں میں سے اٹھی تھی
اس شخص نے پھر اس کو پکارا
پھر سلسلۂ خواب جہاں ٹوٹا تھا دوبارہ ملایا
اور ناف کے پر پیچ مسائل میں ہوا گُم

ہاں ناف میں (یا ناف کے پاتال میں) شاید
تجھ کو نظر آجاےُ کبھی شہر کے آلام کا رعشہ
اس شہر میں اب دیکھنے کو آنکھ، نہ جینے کے لیے ہاتھ
نہ رونے کے لیے دل!
کچھ لوگوں نے جو قحط کے ملبے پہ کھڑے دیکھتے تھے
اک گیت، محبت کا نیا گیت سرِ آغاز کیا ہے
برگد کی طرف آؤ، ذرا ہاتھ بڑھاؤ
گاتے ہوےُ لوگو
اے شہر کے پاکیزہ ترینو
نغمے کی حلاوت سے وہ افسوں جو کسی خوف نے
برگد پہ لپیٹا ہے اتارو
اور خوف کو چپ چاپ نکل جانے دو ماضی کے کنارے
(اس خوف کی ہر لہر میں حافظؔ کی غزل ہے!)
کیا چیز ہیں برگد کے پرندے
(کیا ان کی ہم آغوشی کا غل تم نے سنا ہے؟
ہر گھر کا کنواں ان کی عنایات سے پر ہے
اور ان کی ہوس ناک نگاہوں نے
جوانی کے کئی ہار چرائے!)
گاتے رہو لوگو!
گاتے رہو یہ گیت کہ ٹوٹے گی حجابات کی وہ مہر
جو سانسوں پہ لگی ہے
اس گیت سے پھر اپنی جواں عورتوں کے
سینوں پہ مہتاب کھلیں گے
اور پھولوں کے الہام سے
دھل جائیں گے پھر صحن ہمارے!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے

چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے
کئی لذّتوں کا ستم لیے
جو سمندروں کے فسوں میں ہیں
مرا ذہن ہے وہ صنم لیے
وہی ریگ زار ہے سامنے
وہی ریگ زار کہ جس میں عشق کے آئنے
کسی دستِ غیب سے ٹوٹ کر
رہِ تارِ جاں میں بکھر گئے!
ابھی آ رہا ہوں سمندروں کی مہک لیے
وہ تھپک لیے جو سمندروں کی نسیم میں
ہے ہزار رنگ سے خواب ہائے خنک لیے
چلا آرہا ہوں سمندروں کا نمک لیے

یہ برہنگیِ عظیم تیری دکھاؤں میں
(جو گدا گری کا بہانہ ہے)
کوئی راہرو ہو تو اس سے راہ کی داستاں
میں سنوں، فسانہ سمندروں کا سناؤں میں
(کہ سمندروں کا فسانہ عشق کی گسترش کا فسانہ ہے)

یہ برہنگی جسے دیکھ کر بڑھیں دست و پا، نہ کھلے زباں
نہ خیال ہی میں رہے تواں
تو وہ ریگ زار کہ جیسے رہزنِ پیر ہو
جسے تاب ِراہزنی نہ ہو
کہ مثالِ طائرِ نیم جاں
جسے یادِ بال و پری نہ ہو
کسی راہرو سے امّیدِ رحم و کرم لیے
میں بھرا ہوا ہوں سمندروں کے جلال سے
چلا آرہا ہوں میں ساحلوں کا حشم لیے
ہے ابھی انہی کی طرف مرا در ِدل کھلا
کہ نسیمِ خندہ کو رہ ملے
مری تیرگی کو نگہ ملے
وہ سرور و سوزِ صدف ابھی مجھے یاد ہے
ابھی چاٹتی ہے سمندروں کی زباں مجھے
مرے پاؤں چھو کے نکل گئی کوئی موج ساز بکف ابھی
وہ حلاوتیں مرے ہست و بود میں بھر گئی
وہ جزیرے جن کے افق ہجومِ سحر سے دیدِ بہار تھے
وہ پرندے اپنی طلب میں جو سرِ کار تھے
وہ پرندے جن کی صفیر میں تھیں رسالتیں
ابھی اس صفیر کی جلوتیں مرے خوں میں ہیں
ابھی ذہن ہے وہ صنم لیے
جو سمندروں کے فسوں میں ہیں
چلا آ رہا ہوں سمندروں کے جمال سے
صدف و کنار کا غم لیے
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے

صبح کے سینے میں نیزے ٹوٹے ،
اور ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے !
جسم کے ساحلِ آشفتہ پر اک عشق کا مارا ہوا
انسان ہے آسودہ، مرے دل میں ، سرِ ریگ تپاں
میں فقط اس کا قصیدہ خواں ہوں !
(ریت پر لیٹے ہوئے شخص کا آوازہ بلند!)
دور کی گندم و مے ، صندل و خس لایا ہے
تا ک کی شاخ پر اک قافلہ زنبوروں کا!
تاک کی شاخ بھی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھی!
کیسے زنبور ہمیشہ سے تمنا کے خداؤں کے حضور
سر بسجدہ ہیں ، مگر مشعل ِجاں لے کے ہر اک سمت رواں !

جونہی دن نکلے گا اور شہر
جواں میوہ فروشوں کی پکاروں سے چھلک اٹھے گا،
میں بھی ہر سو ترے مژگاں کے سفیروں کی طرح دوڑوں گا!
(دن نکل آیا تو شبنم کی رسالت کی صفیں تہہ ہوں گی
راستے دن کے سیہ جھوٹ سے لد جائیں گے
بھونکنا چھوڑ کے پھر کاٹنے لگ جائیں گے غم کے کتے
اور اس شہر کے دلشاد مسافر، جن پر
ان کے سائے سے بھی لرزہ طاری،
پیکرِ خواب کے مانند سر راہ پلٹ جائیں گے )
رات یوں چاہا مجھے تو نے کہ میں فرد نہیں
بلکہ آزادی کے دیوانوں کا جمگھٹ ہوں میں ؛
رات یوں چاہا تجھے میں نے کہ تو فرد نہ ہو
بلکہ آئندہ ستاروں کا ہجوم۔ ۔ ۔
صبح کے سینے میں نیزے ٹوٹے
اور ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے !

اب بھی اک جسم مرے جسم سے پیوستہ ہے
جیسے اس ریت پہ لیٹے ہوئے انسان کا قالب ہو یہی ۔۔
جسم، میں جس کا قصیدہ خواں ہوں ۔۔۔
دن نکل آئے گا زنبوروں کی سوغات گل و تاک
کی دہلیز پہ رکھی ہو گی،
وہ اٹھا لیں گے اسے چومیں گے
ایسی سوغات گل و تاک پہ کچھ بار نہیں!
انہی زنبوروں کی محنت کے پسینے سے درختوں کو ملی
تاب، کہ رویا دیکھیں
کسی دوشیزہ کا رویا جسے شیرینیِ لب بار ہو
(زیبائی جہاں بھی ہو سلام ۔۔۔
تیرے ہونٹوں کو دوام!)
رات کے باغوں کی خوشبوؤں کو چھو کر آئے،
زیست کی تازہ دمی، ہست کی ندرت لائے،
اُن کے اِک بوسے سے ہر لب میں نمو آئے گی
موت اس شہر سے دزدانہ پلٹ جائے گی
 

فرخ منظور

لائبریرین
رات خیالوں میں گُم

پھول کی پتّی ٹھہر، رات کے دل پر ہے بار
رات خیالوں میں گُم
طائرِ جاں پر نہ مار،
رات خیالوں میں گُم
کونسی یادوں میں گُم ہے شبِ تاریدہ مُو؟
رنجِ مسافت کا طُول
(جس کی ہے تُو خود رسول!)
وقت کے چہرے کا رنگ؟
جو کبھی قرمز، کبھی زرد، کبھی لاجورد
(تو کہ سیاہی میں فرد
کوریِ میداں کی مرد!)
راہ کی مہماں سرا؟ (سانس سے پستاں ترے کیسے ہمکتے رہے!)
تاجروں کا قافلہ ، ایک نظر باز تھے
حیلوں سے تکتے رہے!
راہ کی مہماں سرا، خوف سے بستر بھی سنگ
وہم سے رویا بھی دنگ
نالۂ درویش سے صبح کے پیکر پہ ضرب
(ختمِ تمنّا کا کرب!)
عشق کا افسانہ گو ہرزہ گری سے نڈھال
ظلم کی شاخوں سے ژولیدہ زمانوں کی فال
حاشیۂ مرگ پر رہروؤں کے نشاں
ریت کے جالوں میں گم
ریت سوالوں میں گُم
رات خیالوں میں گُم!
(سر جو اٹھائے ذرا ہم تری دعوت منائیں
جشنِ ارادت رچائیں!)

کونسی یادوں میں گُم ہے شبِ تاریدہ مُو؟
ایک جزیرہ کہیں عیش وفا کا عدن!
سحر زدہ مر د و زن رقص کناں کُو بکُو
ننگے بدن، تشنہ جاں!
کہنے لگے: "دہ خدا کا ہمیں فرماں یہی،
سرد رگوں میں ہو خوں، رقص کریں پھر بھی ہم
جشن ہے کیوں۔۔۔؟"
بجھتے گئے سب چراغ، زندہ رہا اِک الاؤ
جس کی دہک سے زمیں اور ہوئی آتشیں
اور ہوئی عنبریں!

اور وہ تنہا دیار چاند سے بھی دُور دست
جس میں اذاں زیرِ لب جس میں فغاں غم سے پست
ایک ہی ہُو کا کھنڈر، جبرِ ریا راد بست
فکر کے مجذوب چُب، حرف کے دیوانے مست
(تجھ کو رہی نور بھر سطحِ خدا کی تلاش
جس کو کوئی چھو سکے: اب تو ہٹا آنکھ سے
بارِ جہاں کی سلیں!)
سطحِ خدا آئنہ اور رخ نیستی
محض ہیولائے ہست!

رات ذرا سر اٹھا، فرش سے چسپیدہ تو
جیسے کنویں سے نبات!
رات ذرا سر اٹھا، ہم کہ نہیں دشتِ صفر
ہم کہ عدم بھی نہیں!
سیر تری بے بہا اور ترا ہفت خواں
تاب میں کم بھی نہیں!
ہاتھ مگر شل ترے، تیرے قدم بھی نہیں!
اور اگر ہوں تو کیا؟
صبح کے بلّور پر کس کو میّسر ثبات؟
رات ذرا سر اٹھا
اور نہ کوتاہ کر اپنی مسافت کی راہ
کیوں ہے خیالوں میں گُم؟
کیسے خیالوں میں گُم؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
شہرِ وجود اور مزار

یہ مزار،
سجدہ گزار جس پہ رہے ہیں ہم
یہ مزارِ تار۔۔۔۔ خبر نہیں
کسی صبحِ نو کا جلال ہے
کہ ہے رات کوئی دبی ہوئی؟
کسی آئنے کو سزا ملی، جو ازل سے
عقدۂ نا کشا کا شکار تھا؟
کسی قہقہے کا مآل ہے
جو دوامِ ذات کی آرزو میں نزار تھا؟

یہ مزار خیرہ نگہ سہی،
یہ مزار، مہر بلب سہی،
جو نسیمِ خندہ چلے کبھی تو وہ در کھلیں
جو ہزار سال سے بند ہیں
وہ رسالتیں جو اسیر ہیں
یہ نوائے خندہ نما سنیں تو اُبل پڑیں!

انہیں کیا کہیں
کہ جو اپنی آنکھ کے سیم و زر
کسی روگ میں، کسی حادثے میں
گنوا چکے؟

انہیں کیا کہیں
کہ جو اپنے ساتھ کوئی کرن
سحرِعدم سے نہ لا سکے؟

مگر ایک وہ
کہ ہزار شمعوں کے سیل میں
کبھی ایک بار جو گم ہوئے
خبر اپنی آپ نہ پا سکے!
کبھی گردِ رہ، کبھی مہر و ماہ پہ سوار تھے
وہ کہانیوں کے جوان۔۔ کیسے گزر گئے!
وہ گزر گئے ہمیں خاکِ بے کسی جان کر
نہ کبھی ہماری صدا سنی
وہ صدا کہ جس کی ہر ایک لے
کبھی شعلہ تھی، کبھی رنگ تھی
کبھی دل ہوئی، کبھی جان بنی!

وہ نمی، وہ خلوتِ ترش بو
جو اجالا ہوتے ہی
قحبہ گاہوں میں آپ پائیں
وہی خامشیِ دراز مو، وہی سائیں سائیں
کہ جو بنک خانوں کے آس پاس
تمام رات ہے رینگتی
وہی اس مزار کی خامشی
جو ہماری ہست پہ حکمراں
جو ہماری بُود پہ خندہ زن!

مگر آرزوئیں،
وہ سائے عہدِ گزشتہ کے،
کبھی واردات کے بال و پر
کبھی آنے والے دنوں کا پرتوِ زندہ تر
وہ ہوائیں ہیں کہ سدا سے
آگ کے رقصِِ وحشی و بے زمام میں ہانپتی
کبھی گھر کے سارے شگاف و درز میں چیختی
کبھی چیختی ہیں پلک لگے
کبھی چیختی ہیں سحر گئے!

ابھی سامنے ہے وہ ثانیہ
جسے میرے خوابوں نے
شب کے ناخنِ تیز تر سے بچا لیا
اسی ثانیے میں وہ شیشے پیکر و جاں کے
پھر سے سمیٹ لوں
جو انہی ہواؤں کے زور سے
گرے اور ٹوٹ کے ماہ و سال کے رہ گزر
میں بکھر گئے
کہ نہیں ہیں اپنی بہا میں دیدۂ تر سے کم
جو مدار، حدِّ نظر سے کم!
میں ہوں آرزو کا۔۔۔
امید بن کے جو دشت و در میں
بھٹک گئی۔۔۔۔

میں ہوں تشنگی کا۔۔۔
جو کنارِ آب کا خواب تھی
کہ چھلک گئی ۔۔۔۔

میں کشادگی کا ۔۔۔
جو تنگ نائے نگاہ و دل میں
اتر گئی ۔۔۔۔
میں ہوں یک دلی کا ۔۔
جو بستیوں کی چھتوں پہ
دودِ سیاہ بن کے بکھر گئی ۔۔۔
میں ہوں لحنِ آب کا،
رسمِ باد کا، وردِ خاک کا نغمہ خواں!

یہ بجا کہ ہست ہزار رنگ سے جلوہ گر
مگر اک حقیقتِ آخریں
یہی آستانۂ مرگ ہے!

یہ بجا سہی
کبھی مرگ اپنی نفی بھی ہے
(وہی مرگ سال بہ سال آپ نے جی بھی ہے)
وہی ہولِ جاں کی کمی بھی ہے
یہی وہ نفی تھی کہ جس کے سایے میں
آپ (میرے مراقبے کی طرح)
برہنہ گزر گئے۔۔
یہ اسی کمی کی تھی ریل پیل
کہ آپ اپنی گرسنگی کی ندی
کے پار اتر گئے
کبھی آسماں و زمیں پہ (دورِ خزاں میں)
بوئے عبیر و گل کی سخاوتوں کی مثال
آپ بکھر گئے۔۔۔۔
ابھی تک (مرا یہ مشاہدہ ہے)
کہ اس مزار کے آس پاس
عبیر و گل کی لپٹ سے
زائروں، رہروؤں کے نصیب
جیسے دمک اٹھے
تو ہزار نام بس ایک نام کی گونج بن کے
جھلک اٹھے
تو تمام چہروں سے ایک آنکھ
تمام آنکھوں سے اک اشارہ
تمام لمحوں سے ایک لمحہ برس پڑا
تو پھر آنے والے ہزار قرنوں کی شاہراہیں
(جو راہ دیکھتے تھک گئی تھیں)
شرار بن کے چمک اٹھیں!

یہ بجا کہ مرگ ہے اک حقیقتِ آخریں
مگر ایک ایسی نگاہ بھی ہے
جو کسی کنوئیں میں دبی ہوئی
کسی پیرہ زن (کہ ہے مامتا میں رچی ہوئی)
کی طرح ہمیں
ہے ابد کی ساعتِ نا گزیر سے جھانکتی
تو اے زائرو،
کبھی نا وجود کی چوٹیوں سے اتر کے تم
اسی اک نگاہ میں کود جاؤ
نئی زندگی کا شباب پاؤ
نئے ابر و ماہ کے خواب پاؤ!

نہیں مرگ کو (کہ وہ پاک دامن و نیک ہے)
کسی زمزمے کو فسردہ کرنے سے کیا غرض؟
وہ تو زندہ لوگوں کے ہم قدم
وہ تو ان کے ساتھ
شراب و نان کی جستجو میں شریک ہے
وہ نسیم بن کے
گُلوں کے بیم و رجا میں
ان کی ہر آرزو میں شریک ہے
وہ ہماری لذتِ عشق میں،
وہ ہمارے شوقِِ وصال میں،
وہ ہماری ہُو میں شریک ہے
کبھی کھیل کود میں ہوں جو ہم
تو ہمارے ساتھ حریف بن کے ہے کھیلتی
کبھی ہارتی کبھی جیتتی۔۔۔۔۔
کسی چوک میں کھڑے سوچتے ہوں
کدھر کو جائیں؟
تو وہ اپنی آنکھیں بچھا کے راہ دکھائے گی۔۔۔
جو کتاب خانے میں جا کے کوئی کتاب اٹھائیں
تو وہ پردہ ہائے حروف ہم سے ہٹائے گی،
وہ ہماری روز کی گفتگو میں شریک ہے!

تو، مرے وجود کے شہر
مجھ کو جگا بھی دو
مری آرزو کے درخت مجھ کو دکھا بھی دو
وہ گلی گلی جو گرا رہے ہیں دو رویہ
کتنے ہزار سال سے برگ و گل ۔۔۔۔
مجھے دیکھنے دو وہی سحر،
وہی دن کا چہرۂ لازوال،
وہ دھوپ
جس سے ہماری جلد سیاہ تاب ازل سے ہے
مجھے اس جنوں کی رہِ خرام پہ لے چلو
نہیں جس کے ہاتھ میں مو قلم
نہیں واسطہ جسے رنگ سے
فقط ایک پارۂ سنگ سے
ہے کمالِ نقش گرِ جنوں!

اے مرے وجود کے شہر
مجھ کو جگا بھی دو!
مرے ساتھ ایک ہجوم ہے
میں جہاں ہوں
زائروں کے ہجوم بھی ساتھ ہیں
کہ ہم آج
معنی و حرف کی شبِ وصلِ نو
کی برات ہیں!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
آگ کے پاس

پیرِ واماندہ کوئی
کوٹ پہ محنت کی سیاہی کے نشاں
نوجواں بیٹے کی گردن کی چمک دیکھتا ہوں
(اِک رقابت کی سیہ لہر بہت تیز
مرے سینۂ سوزاں سے گزر جاتی ہے)
جس طرح طاق پہ رکھے ہوئے گلداں کی
مس و سیم کے کاسوں کی چمک!
اور گلو الجھے ہوئے تاروں سے بھر جاتا ہے

کوئلے آگ میں جلتے ہوئے
کن یادوں کی کس رات میں
جل جاتے ہیں؟
کیا انہی کانوں کی یادوں میں جہاں
سال ہا سال یہ آسودہ رہے؟
انہی بے آب درختوں کے وہ جنگل
جنہیں پیرانہ سری بار ہوئی جاتی تھی؟
کوئلے لاکھوں برس دور کے خوابوں میں الجھ جاتے ہیں۔۔

آج شب بھی وہ بڑی دیر سے
گھر لوٹا ہے
اس کے الفاظ کو
ان رنگوں سے، آوازوں سے کیا ربط
جو اس غم زدہ گھر کے خس و خاشاک میں ہیں؟
اس کو اس میز پہ بکھری ہوئی
خوشبوؤں کے جنگل سے غرض؟
آج بھی اپنے عقیدے پہ بدستور
بضد قائم ہے!

وہ درختوں کے تنومند تنے
(اپنے آئندہ کے خوابوں میں اسیر)
گرد باد آ ہی گئے
ان کی رہائی کا وسیلہ بن کر
خود سے مہجوریِ ناگاہ کا حیلہ بن کر
آئے اور چل بھی دیے
طولِ المناک کی دہلیز پہ
"رخصت" کہہ کر
اور وہ لاکھوں برس سوچ میں
آیندہ کے موہوم میں خوابیدہ رہے!

میرے بیٹے، تجھے کچھ یاد بھی ہے
میں نے بھی شور مچایا تھا کبھی
خاک کے بگڑے ہوئے چہرے کے خلاف؟
لحنِ بے رنگ ہوا سن کے
مری جاں بھی پکار اٹھّی تھی؟
میں کبھی ایک انا اور کبھی دو کا سہارا لیتا
اپنی ساتھی سے میں کہہ اٹھتا کہ "جاگو، اے جان!
ہر انا تیرہ بیاباں میں
بھٹکتے ہوئے پتوں کا ہجوم!
میرا ڈر مجھ کو نگل جائے گا"
میرے کانوں میں مرے کرب کی آواز
پلٹ آتی تھی
"تجھے بے کار خداؤں پہ یقیں
اب بھی نہیں؟
اب بھی نہیں؟

آج بھی اپنے ہی الحاد کی کرسی میں
پڑا اونگھتا ہوں
نوجواں بیٹے کے الفاظ پہ چونک اٹھتا ہوں:
"تو نے، بیٹے،
یہ عجب خواب سنایا ہے مجھے
اپنا یہ خواب کسی اور سے ہر گز نہ کہو!"
کبھی آہستہ سے دروازہ جو کھلتا ہے تو ہنس دیتا ہوں
۔۔۔ یہ بھی اس رات کی صر صر کی
نئی چال، نیا دھوکا ہے!
"پھول یا پریاں بنانے کا کوئی نسخہ
مرے پاس نہیں ہے بیٹے
مجھے فرداؤں کے صحرا سے بھی
افسونِ روایت کی لہک آتی ہے۔۔۔
آگ میں کوئلے بجھنے کی تمنا نہ کرو
ان سے آیندہ کے مٹتے ہوئے آثار
ابھر آئیں گے
ان گزرتے ہوئے لمحات کی تنہائی میں۔۔
کیسا یہ خواب سنایا ہے مجھے تو نے ابھی
نہیں، ہر ایک سے،
ہر ایک سے یہ خواب کہو
اس سے جاگ اٹھتا ہے
سویا ہوا مجذوب
مری آگ کے پاس
ایسے مجذوب کو اک خواب بہت
خواب بہت۔۔۔ ۔۔ خواب بہت۔۔۔
ایسے ہر مست کو
اک خواب بہت!
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ خلا پُر نہ ہوا

ذہن خالی ہے
خلا نور سے، یا نغمے سے
یا نکہتِ گم راہ سے بھی
پُر نہ ہوا
ذہن خالی ہی رہا
یہ خلا حرفِ تسلی سے،
تبسم سے،
کسی آہ سے بھی پر نہ ہوا
اِک نفی لرزشِ پیہم میں سہی
جہدِ بے کار کے ماتم میں سہی
ہم جو نارس بھی ہیں، غم دیدہ بھی ہیں
اِس خلا کو
(اِسی دہلیر پہ سوئے ہوئے
سرمست گدا کے مانند)
کسی مینار کی تصویر سے،
یا رنگ کی جھنکار سے،
یا خوابوں کی خوشبوؤں سے
پُر کیوں نہ کریں؟
کہ اجل ہم سے بہت دُور
بہت دُور رہے؟

نہیں، ہم جانتے ہیں
ہم جو نارس بھی ہیں، غم دیدہ بھی ہیں
جانتے ہیں کہ خلا ہے وہ جسے موت نہیں
کِس لیے نُور سے، یا نغمے سے
یا حرفِ تسلّی سے اسے "جسم" بنائیں
اور پھر موت کی وارفتہ پذیرائی کریں؟
نئے ہنگاموں کی تجلیل کا در باز کریں
صبحِ تکمیل کا آغاز کریں؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
طلب کے تلے

گُل و یاسمن کل سے نا آشنا،
کل سے بے اعتنا
گُل و یاسمن اپنے جسموں کی ہئیت میں فرد
مگر۔۔ کل سے ناآشنا، کل سے بے اعتنا
کسی مرگِ مبرم کا درد
اُن کے دل میں نہیں!

فقط اپنی تاریخ کے بے سر و پا طلب کے تلے
ہم دبے ہیں!
ہم اپنے وجودوں کی پنہاں تہیں
کھولتے تک نہیں
آرزو بولتے تک نہیں!
یہ تاریخ میری نہیں اور تیری نہیں
یہ تاریخ ہے ازدحامِ رواں
اُسی ازدحامِ رواں کی یہ تاریخ ہے،
یہ وہ چیخ ہے
جس کی تکراراپنے من و تُو میں ہے
وہ تکرار جو اپنی تہذیب کی ہُو میں ہے!

تجھے اس پہ حیرت نہیں
ہم اِس ازدحامِ رواں کے نشانِ قدم پر چلے جا رہے ہیں
بڑھے جا رہے ہیں
کہ ہم ظلمتِ شب میں تنہا
پڑے رہ نہ جائیں۔۔
بڑھے جا رہے ہیں،
نہ جینے کی خاطر
نہ اس سے فزوں زندہ رہنے کی خاطر
بڑھے جا رہے ہیں، کسی عیب سے
رہزنِ مرگ سے بچ نکلنے کی خاطر،
جدائی کی خاطر!
کسی فرد کے خوف سے بڑھ رہے ہیں
جو باطن کے ٹوٹے دریچوں کے پیچھے
شرارت سے ہنستا چلا جا رہا ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہم جسم

در پیش ہمیں
چشم و لب و گوش
کے پیرائے رہے ہیں
کل رات
جو ہم چاند میں
اس سبزے پہ
ان سایوں میں
غزلائے رہے ہیں
کس آس میں
کجلائے رہے ہیں؟
اس "مَیں" کو
جو ہم جسموں میں
محبوس ہے
آزاد کریں۔۔۔
کیسے ہم آزاد کریں؟
کون کرے؟ ۔۔ ہم؟
ہم جسم؟
ہم جسم کہ کل رات
اسی چاند میں
اس سبزے پہ
ان سایوں میں
خود اپنے کو
دہرائے رہے ہیں؟
کچھ روشنیاں
کرتی رہیں ہم سے
وہ سرگوشیاں
جو حرف سے
یا صوت سے
آزاد ہیں
کہہ سکتی ہیں
جو کتنی زبانوں میں
وہی بات، ہر اک رات
سدا جسم
جسے سننے کو
گوشائے رہے ہیں۔۔

ہم جسم بھی
کل رات کے
اک لمحے کو
دل بن کے
اسی بات سے
پھر سینوں کو
گرمائے رہے ہیں۔۔۔
اس "مَیں" کو
ہم آزاد کریں؟
رنگ کی، خوشبوؤں کی
اس ذات کو
دل بن کے
جسے ہم بھی
ہر اک رات
عزیزائے رہے ہیں؟
یا اپنے توہمات کی
زنجیروں میں
الجھائے رہے ہیں
اس ذات کو
جس ذات کے
ہم سائے رہے ہیں؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
جہاں ابھی رات ہے ۔۔

جہاں ابھی رات ہے، ہوا کے سوا
کوئی زندہ تو نہیں ہے
ابھی ہَوا ساحلوں کے بے تاب ہمہموں سے
گزر کے اپنی طلب کے سُونے
چہار راہوں میں رک گئی ہے ۔۔
اگر وہ چاہے،
تو دُودِ ماضی کے بام و دیوار پھاند جائے
(وہ دست و پا کے پرانے زخموں
کی ریزشِ خوں سے ڈر رہی ہے)
ہوا کشوں کی نگہ سے بچ کر
اگر وہ چاہے،
غموں کی بے صرفہ کھڑکیوں کے
سیاہ شیشوں کو توڑ ڈالے
دلوں کی افسردہ جلوتوں کا سراغ پا لے
(وہ ناتوانوں کے زورِ بازو کے
رازِ پنہاں سے کانپتی ہے)
اگر وہ چاہے،
شگافِ در سے
(جو رات بھر سے
ہماری بے التفاتیوں سے
کھلے رہے ہیں)
ہمارے صحنوں کو روند ڈالے
ہمارے صحنوں کے چار گوشوں میں پھیل جائے
(مگر وہ ہر صحن کی اداسی کو بھانپتی ہے)
جہاں ابھی رات ہے، وہاں ہم ۔۔
وہا ں ابھی لوگ
بہتے پانی کو بوڑھے دانتوں سے کاٹتے ہیں
اور ایسے روتے ہیں خواب میں
جیسے ایک بے جان جسد سے لگ کے
وہ سو رہے ہوں!
ہوا کو اس کی خبر نہیں ہے
ہوا کا ان ہول کے پلوں پر
گزر نہیں ہے!

جہاں ابھی رات ہے، وہاں ہم ۔۔
وہاں ابھی لوگ
آرزؤں کے نرد بانوں پہ چل رہے ہیں
قدم قدم پر پھسل رہے ہیں
کہ جیسے صحرا سمندروں میں پھسل رہا ہو!
جہاں ابھی رات ہے
ہوا کے سوا کوئی پردہ در نہیں ہے ۔۔
مگر ہوا جب طلب کی راہوں کو چھوڑ کر پھر
ہمارے دیوار و در پہ جھپٹی
ہمیں پھر اپنی برہنگی کا یقین ہو گا
اور اپنے جسموں کے چاک ہم
رات کی سیاہی میں دیکھتے ہی
بہت ہنسیں گے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
بے سُرا الاپ

وہ صحن جن سے پلٹ گئی تھی
دھنک کی خوشبو
وہاں ابھی تک درخت اپنی برہنگی میں
پکارتے ہیں۔۔
پکارتے ہیں:
۔۔"دھنک کی خوشبو
وہ خواب لا دے
کہ جن سے بھر جائیں رات بھر میں
سبو ہمارے" ۔۔۔

وہ چاند، کل شب،
جسے ہم اپنے دلوں کے پیالوں
میں قطرہ قطرہ
انڈیلتے رہ گئے تھے، اُس کو
ہنسی ہنسی میں
ابھی کوئی شخص، لمحہ پہلے،
چڑھا کے پیالہ پٹک گیا ہے ۔۔
یہ دیکھتے ہی
گلی کا ملّا بہت ہی رویا:
"خلا سے کچھ عرش کی خبر بھی؟"
(نفی میں کیسے نفی کا جویا!)
"وہ چاند کے آر پار۔۔ گویا ۔۔
کہیں نہیں تھا؟
عجیب! گویا کہیں نہیں تھا!"

وہ صحن جن سے پلٹ گئی ہے
دھنک کی خوشبو
وہ اُن میں فردا کی نا رسائی کے اشک
چپ چاپ بو رہا ہے ۔۔۔
وہ ہنس رہا ہے:
"اگر زمیں گھومتی ہے، کیونکر
یہ لوگ صحنوں کو لوٹ آئے سحر سے پہلے
کوئی پرندہ نہ راہ بھولا سفر سے پہلے؟"

وہ صحن جن سے پلٹ گئی تھی
دھنک کی خوشبو
خلا سے آتی ہوئی صدائیں
اب اُن کے دیوار و بام کو
تھپتھپا رہی ہیں،
ہمارے بوڑھے نزار چہروں پہ لطمہ زن ہیں
کہ رات کے دل فریب رویا
ہمارے سینوں میں
بے سُرا سا الاپ بن کر
اٹک گئے ہیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
طوفان اورکرن

شب تم اس قلعے کے "ناجشن" میں
موجود نہ تھے
(شاد رہو!)
کیسی طوفان کی شوریدہ سری تھی، توبہ!
کس طرح پردے کیے چاک
گرائے فانوس
اورہردرز میں غرّاتارہا!
ڈگمگاتے ہوئے مہمان
ضیافت کی صفوں سے گزرے
پاؤں تک رکھتے نہ تھے
دل کے قالینوں کے
رنگ وخط ومحراب کو
تکتے بھی نہ تھے!

آ کے ٹھہری ہے لب ِکاسۂ جاں
یاد کے جنگلِ افسردہ سے
بچتی ہوئی اک تازہ کرن
پرجھپکتی بھی نہیں
اور۔۔۔اُس آنکھ کوجوکاسۂ جاں میں
وا ہے
ابھی تکتی بھی نہیں۔۔۔۔
(یہی وہ کاسۂ جاں
جس میں جلائی ہیں گُلوں کی شمعیں،
جس میں سو رنگ سے کل رات کے مانند
منائی ہیں خدائی راتیں!)
اے کرن،
شکرکہ ہم
ہجر کے زینوں پہ یا
وصل کے آئینوں پہ
جم جاتے نہیں!
اور۔۔۔بیکار ہیولاؤں کے ساتھ
بہتی مالاؤں پہ تھم جاتے نہیں
جن میں نادیدہ ملاقات کی سرگوشی ہو
ایسے گوشوں میں بھی ہم جاتے نہیں!

کل تم اس قلعے کے ناجشن میں موجود نہ تھے
اور نہ تم سن ہی سکے
کیسی دوشیزہ وہ دستک تھی
جسے سن نہ سکے
اس کے مژگاں کی لب وچشم کی پیہم دستک!
ایسی دوشیزہ
کہ افلاس کے ناشہروں کی رہنے والی
وہ اترتی ہی گئی
زینوں سے
دیواروں سے
تا حدِّ غبار
تم کہ تھے سیرنگاہ اپنے توہّم پہ سوار
اس کی آوازکہیں سن نہ سکے!

اب بھی وہ قلعۂ عرفاں کے دریچے کے تلے
دیتی رہتی ہے دبی پیاس کی دستک شب وروز
اے کرن،
اس کے لیے قطرۂ اشک!
اپنے نادیدہ اجالوں کی پھواروں سے
کوئی قطرۂ اشک!
جس سے دھندلائے بدن
پھر سے نکھر کرنکلیں
خندۂ نور سے بھرکرنکلیں!
 
آخری تدوین:
Top