مکمل کلام ن م راشد (دوم)

فرخ منظور

لائبریرین
شہر میں صبح

مجھے فجر آئی ہے شہر میں
مگر آج شہر خموش ہے!

کوئی شہر ہے،
کسی ریگ زار سے جیسے اپنا وصال ہو!
نہ صدائے سگ ہے نہ پائے دزد کی چاپ ہے
نہ عصائے ہمّتِ پاسباں
نہ اذانِ فجر سنائی دے ۔۔۔۔۔۔

اب وجد کی یاد، صلائے شہر،
نوائے دل
مرےہم رکاب ہزار ایسی بلائیں ہیں!
(اے تمام لوگو!
کہ میں جنھیں کبھی جانتا تھا
کہاں ہو تم؟
تمہیں رات سونگھ گئی ہے کیا
کہ ہو دور قیدِ غنیم میں؟
جو نہیں‌ ہیں قیدِ غنیم میں
وہ پکار دیں!)

اسی اک خرابے کے سامنے
میں یہ بارِ دوش اتار دوں
ِِِمجھے سنگ و خشت بتا رہے ہیں کہ کیا ہوا
مجھے گرد و خاک سنا رہے ہیں وہ داستاں
جو زوالِ جاں کا فسانہ ہے
ابھی بُوئے خوں ہے نسیم میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں آن بھر میں‌خدا کی چیخ نے آلیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خدا کی چیخ
جو ہر صدا سے ہے زندہ تر

کہیں گونج کوئی سنائی دے
کوئی بھولی بھٹکی فغاں ملے،
میں پہنچ گیا ہوں تمہارے بسترِ خواب تک
کہ یہیں سے گم شدہ راستوں کا نشاں ملے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
زنجبیل کے آدمی

مجھے اپنے آپ سے آ رہی ہے لہو کی بُو
کبھی ذبح خانے کی تیز بُو
کبھی عورتوں کی ابلتی لاشوں کی تیز بُو
کبھی مرگھٹوں میں کباب ہوتے ہوئے سروں کی
دبیز بُو

وہ دبیز ایسی کہ آپ چاہیں تو
تیغِ تیز سے کاٹ دیں
مجھے اپنے آپ سے آ رہی ہے لہو کی بُو،
کہ مجھی کو قتل کیا ہو جیسے کسی نے
شہر کے چوک میں!
یہی چوک تھا۔۔
یہی وہ مقام تھا، ناگہاں
کسی خوف سے میں جسد سے اپنے لپٹ گیا
(کہیں تھا بھی میرا جسد مگر؟)
مرے آنسوؤں کی لڑی زمیں پہ بکھر گئی
مری "ہیک ہیک" نہ تھم سکی ۔۔
کبھی سائے آ کے سکڑ گئے
کبھی اور بڑھتے چلے گئے
کہ وہ اپنے جبر کے محوروں کے سوا نہ تھے
کسی اور راہ سے باخبر!
مری سسکیاں کسی بے صدائی کے ناگہاں میں
اتر گئیں ۔۔

ابھی چاند دفن تھا بادلوں کے مزار میں
وہیں میں نے نفسِ فریب کار کا سر، بدن
سے اڑا دیا
وہیں میں نے اپنی خودی کی پیرہ زنِ خمیدہ کمر
کی جان دبوچ لی
وہ کوئی برہنہ و مرگ رنگ صدا تھی
جس کا سراغ پا کے میں چل پڑا ۔۔۔
وہ صدا جو مسخرہ پن میں مجھ سے کبیر تر
وہ صدا جو مجھ سے شریر تر
کسی فلسفے میں رچی ہوئی وہ چڑیل ۔۔۔
احمق و تند و خو ۔۔
نئے ریگ زاروں میں، فاتحوں کے جہانِ پیر میں
گھومتی ہوئی سُو بہ سو
نئے استخوانوں کے آستانوں کی راہ جوُ ۔۔۔

(سرینوں کو ڈھانپو کہ اِن پر ابھی زندگی کی لکدکوب کے اُن ہزاروں
برس کے نشاں ہیں، جو گزرے نہیں ہیں، کہ ننگے سُرینوں کی دعوت
سے پڑتے رہے ہیں ہمیشہ سے اُن پر روایات کے بُعد کے تازیانے
اور اُن کے سوا اُن جواں تر نکیلے دماغوں کی کرنوں کے نیزے، جو
معقول و منقول دونوں سے خود کو الگ کر چکے ہیں؛ سُرینوں کو
ڈھانپو کہ اب تک وہ کودن بھی موجود ہیں جن کا ایماں ہے
غوغا و کشتارو امرد پرستی سے وہ بادشاہت ملے گی کہ جس کو وہ برباد
کرنے میں مختار ہوں گے ؛ یہ وہ لوگ ہیں جن کی جنت کے الٹے
چھپرکھٹ میں کابوس کی مکڑیاں اُن کی محرومیاں بُن رہی ہیں، وہ جنت
کہ جس میں کسالت کے دن رات نعروں کی رونق سے زندہ رہیں گے ۔۔)

کئی بار میں نے ۔۔ نکل کے چوک سے ۔۔ سعی کی
کہ میں اپنی بھوتوں کی میلی وردی اتار دوں
نئے بولتے ہوئے آدمی کے نئے الم میں شریک ہُوں
میں اسی کے حُسن میں، اُس کے فن میں، اُسی کے دم میں
شریک ہُوں
میں اُسی کے خوابوں، انھی کے معنیِ تہہ بہ تہہ میں
انھی کے بڑھتے ہوئے کرم میں شریک ہُوں ۔۔
وہ تمام چوہے ۔۔ وہ شاہ دولا کے ارجمند ۔۔
ہرایک بار اُچھل پڑے ۔۔ مرے خوف سے
مرے جسم و جاں پہ اُبل پڑے!

تو عجیب بات ہے، مَیں اگر
ہمہ تن نشاطِ غرور ہوں؟
شبِ انتقام کی آگ میں ہوں جلا ہوا؟
کہ فنا پرست کدورتوں میں رچا ہوا؟
سُنو! جنگ جوؤ، سپاہیو
مری آرزو کی شرافتوں کو دغا نہ دو
میں لڑھک کے دامنِ کوہ تک جو پہنچ گیا
تو یہ ڈر ہے ۔۔
زندہ چبا نہ لوں تمھیں ۔۔ کہ تم
ہو تمام "شیرۂ زنجبیل کے آدمی"!
مری بے بسی پہ ہنسو گے تم تو ہنسا کرو ۔۔
میں دعا کروں گا:
خدائے رنگ و صدا و نُور
تُو اِن کے حال پہ رحم کر!
(خدا،
رنگِ نَو، نور و آوازِ نَو کے خدا!
خدا،
وحدتِ آب کے، عظمتِ باد کے
رازِ نَو کے خدا!
قلم کے خدا، سازِ نو کے خدا!
تبسّم کے اعجازِ نَو کے خدا!۔۔)
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
دوئی کی آبنا (پرانا ورژن)

ہمیں ہیں وہ کہ جن کی اک نگاہ سے
ٍصدا دوئی کی آبنا کے آر پار اُتر گئی

نہیں مجھے نہ کھاؤ تم
نہیں کہ میں غذا نہیں
مجھے نہ کھا سکو گے تم
میں آب و نان سے بندھا ہوا نہیں
میں اپنے آپ سے بھرا ہوا نہیں
ہیں میرے چار سو وہ آرزو کے تار
تارِ خار دار
جن کو کھا نہیں سکو گے تم
نہیں مجھے نہ کھاؤ تم
ابھی نہ کھا سکو گے تم!

یہ سانپ دیکھتے ہو کیا؟
تمہارے جسم و جاں میں کھا رہا ہے بل
تمام دن، تمام رات
(وہ سانپ جس سے سب سے پہلی مرتبہ بہشت میں ملے تھے تم)
کبھی یہ اپنے زہر ہی میں جل کے خاک ہو گیا
کبھی یہ اپنے آپ کو نگل کے پاک ہو گیا
کبھی یہ اپنے آپ ہی میں سو گیا
تو پھر کھلیں گے سب کے ہاتھ
اب کے پاؤں اس نئے الاپ کی طرف بڑھیں گے
جس سے ہر وصال کی نمود ہے
نہیں مجھے نہ کھاؤ تم

یہ جانتے نہیں ہو تم
نہنگ مچھلیوں کو کھا رہے تھے۔۔۔
کھا رہے تھے
آخر اک بڑا نہنگ رہ گیا
ہزار من کا اک بڑا نہنگ (اکیلی جان) زندہ رہ گیا
اور اپنے اس اکیلے پن سے تنگ آ کے
اپنے آپ ہی کو کھا گیا!!
کہ نان و آب سے بندھے ہوؤں کا۔۔۔
اپنے آپ سے بھرے ہوؤں کا۔۔۔۔۔
بس یہی مآل ہے
یہ آخری وصال ہے!

مگر وہ عشق۔۔۔ جس کی عُمر ہم سے بھی طویل تر
وہ محض اشتہا نہیں
وہ محض کھیل بھی نہیں
وہ آب و نان کا رکا ہوا سوال بھی نہیں
وہ اپنے ہی وجود کا حسد نہیں
جو موت نے بچھا رکھا ہو
ایسا نا گزیر جال بھی نہیں

یہ ہم
جو حادثے کے لائے گِل سے یا
نصیب کے غبار سے نہیں اٹھے
ازل کے حافظے کے درد سے اٹھے
جو ہوش کے شگاف سے
جو استوائے جسم و روح سے اٹھے

ہمیں نہ کھا سکو گے تم
ہمیں ہیں وہ کہ جن کی اک نگاہ سے
صدا دوئی کی آبنا کے آر پار اُتر گئی
اور اس صدا سے ایک ایسا مرحلہ برس پڑا
جو بے نیازِ بُعد تھا
جو مشرقِ وجود تھا
وہ مرحلہ برس پڑا

تو کس طرح کہوں کہ ہم
تمام آب و نان کا رکا ہوا سوال ہیں؟
تمام اپنی بھوک کا جواب ہیں؟
نہیں مجھے نہ کھاؤ تم
کہ ایک میری جرأت نگاہ سے
تمام لوگ جاگ اٹھے
صدا کی شمع ہاتھ میں لیے ہوئے
دوئی کی آبنا کے آر پار ڈھونڈھنے لگے
اُسی طلوع کی خبر
جو وقت کی نئی کرن کے پھوٹتے ہی، ساحلِ نمود پر
کم التفات انگلیوں کے درمیاں سے نا گہاں پھسل گیا
کہ وہ طلوع جس کو رو چکے تھے ہم
پھر آج ان کے ساحلوں کی ریت سے
جھلک اٹھے
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
دوئی کی آبنا (کتاب ورژن)

ہمیں ہیں وہ کہ جن کی اِک نگاہ سے
صدا دوئی کی آبنا کے آرپار اتر گئی

وہ عشق جس کی عمر
آدمی سے بھی طویل تر
وہ محض اشتہانہیں
وہ محض کھیل بھی نہیں
وہ آب ونان کا رُکا ہوا سوال بھی نہیں
وہ اپنے ہی وجود کا حسد نہیں
جو موت نے بچھا رکھا ہو ایسا
ناگزیر جال بھی نہیں

یہ ہم،
جوحادثے کے لائے و گل سے یا
نصیب کے غبار سے نہیں اٹھے
ازل کے حافظے کے درد سے اٹھے
جوہوش کے شگاف سے۔۔۔۔
جواستوائے جسم وروح سے اٹھے۔۔۔۔
ہمیں ہیں وہ کہ جن کی اک نگاہ سے
صدا دوئی کی آبنا کے آرپار اتر گئی
۔۔۔۔اوراس صدا سے ایک ایسا مرحلہ برس پڑا
جوبے نیازِ بُعدتھا
جومشرقِ وجود تھا
وہ مرحلہ برس پڑا!

ہماری ایک جراْتِ نگاہ سے
تمام لوگ جاگ اٹھے
صداکی شمع ہاتھ میں لیے ہوئے
دوئی کی آبنا کے آرپار ڈھونڈنے لگے
اُسی طلوع کی خبر
جووقت کی نئی کرن کے پھوٹتے ہی
ساحلِ نمود پر
کم التفات انگلیوں کے درمیاں پھسل گیا!

صدا پکارتی ہے پھر
وہی طلوع جس کو رو چکے تھے تم
ابھی ابھی
دوئی کی آبنا کے ساحلوں کی مرگ ریت پر
جھلک اُٹھا!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
گماں کا ممکن ۔۔۔ جو تُو ہے میں ہوں

کریم سورج،
جو ٹھنڈے پتھر کو اپنی گولائی
دے رہا ہے
جو اپنی ہمواری دے رہا ہے ۔۔۔
(وہ ٹھنڈا پتھر جو میرے مانند
بھورے سبزوں میں
دور ریگ و ہوا کی یادوں میں لوٹتا ہے)
جو بہتے پانی کو اپنی دریا دلی کی
سرشاری دے رہا ہے
۔۔۔ وہی مجھے جانتا نہیں
مگر مجھی کو یہ وہم شاید
کہ آپ اپنا ثبوت اپنا جواب ہوں میں!
مجھے وہ پہچانتا نہیں ہے
کہ میری دھیمی صدا
زمانے کی جھیل کے دوسرے کنارے
سے آ رہی ہے

یہ جھیل وہ ہے کہ جس کے اوپر
ہزاروں انساں
افق کے متوازی چل رہے ہیں
افق کے متوازی چلنے والوں کو پار لاتی ہیں
وقت لہریں ۔۔۔۔
جنہیں تمنا، مگر، سماوی خرام کی ہو
انھی کو پاتال زمزموں کی صدا سناتی ہیں
وقت لہریں
انہیں ڈبوتی ہیں وقت لہریں!
تمام ملاح اس صدا سے سدا ہراساں، سدا گریزاں
کہ جھیل میں اِک عمود کا چور چھپ کے بیٹھا ہے
اس کے گیسو افق کی چھت سے لٹک رہے ہیں
پکارتا ہے : "اب آؤ، آؤ!
ازل سے میں منتظر تمہارا۔۔۔
میں گنبدوں کے تمام رازوں کو جانتا ہوں
درخت، مینار، برج، زینے مرے ہی ساتھی
مرے ہی متوازی چل رہے ہیں
میں ہر ہوائی جہاز کا آخری بسیرا
سمندروں پر جہاز رانوں کا میں کنارا
اب آؤ، آؤ!
تمھارے جیسے کئی فسانوں کو میں نے اُن کے
ابد کے آغوش میں اتارا۔"
تمام ملاح اس کی آواز سے گریزاں
افق کی شاہراہِ مبتذل پر تمام سہمے ہوئے خراماں۔۔۔
مگر سماوی خرام والے
جو پست و بالا کے آستاں پر جمے ہوئے ہیں
عمود کے اس طناب ہی سے اتر رہے ہیں
اسی کو تھامے ہوئے بلندی پہ چڑھ رہے ہیں!

اسی طرح میں بھی ساتھ اَن کے اتر گیا ہوں
اور ایسے ساحل پر آ لگا ہوں
جہاں خدا کے نشانِ پا نے پناہ لی ہے
جہاں خدا کی ضعیف آنکھیں
ابھی سلامت بچی ہوئی ہیں
یہی سماوی خرام میرا نصیب نکلا
یہی سماوی خرام جو میری آرزو تھا ۔۔۔

مگر نجانے
وہ راستہ کیوں چنا تھا میں نے
کہ جس پہ خود سے وصال تک کا گماں نہیں ہے؟
وہ راستہ کیوں چنا تھا میں نے
جو رُک گیا ہے دلوں کے ابہام کے کنارے
وہی کنارا کہ جس کے آگے گماں کا ممکن
جو تُو ہے میں ہوں!

مگر یہ سچ ہے،
میں تجھ کو پانے کی (خود کو پانے کی) آرزو میں
نکل پڑا تھا
اُس ایک ممکن کی جستجو میں
جو تُو ہے میں ہوں
میں ایسے چہرے کو ڈھونڈتا تھا
جو تُو ہے میں ہوں
میں ایسی تصویر کے تعاقب میں گھومتا تھا
جو تُو ہے میں ہوں!

میں اس تعاقب میں
کتنے آغاز گن چکا ہوں
(میں اس سے ڈرتا ہوں جو یہ کہتا
ہے مجھ کو اب کوئی ڈر نہیں ہے)
میں اس تعاقب میں کتنی گلیوں سے،
کتنے چوکوں سے،
کتنے گونگے مجسموں سے ، گزر گیا ہوں
میں اِس تعاقب میں کتنے باغوں سے،
کتنی اندھی شراب راتوں سے
کتنی بانہوں سے،
کتنی چاہت کے کتنے بپھرے سمندروں سے
گزر گیا ہوں
میں کتنی ہوش و عمل کی شمعوں سے،
کتنے ایماں کے گنبدوں سے
گرز گیا ہوں
میں اِس تعاقب میں کتنے آغاز کتنے انجام گن چکا ہوں ۔۔۔
اب اس تعاقب میں کوئی در ہے
نہ کوئی آتا ہوا زمانہ
ہر ایک منزل جو رہ گئی ہے
فقط گزرتا ہوا فسانہ

تمام رستے، تمام بوجھے سوال، بے وزن ہو چکے ہیں
جواب، تاریخ روپ دھارے
بس اپنی تکرار کر رہے ہیں ۔۔۔
"جواب ہم ہیں ۔۔۔ جواب ہم ہیں۔۔۔۔
ہمیں یقیں ہے جواب ہم ہیں ۔۔۔۔"
یقیں کو کیسے یقیں سے دہرا رہے ہیں کیسے!
مگر وہ سب آپ اپنی ضد ہیں
تمام، جیسے گماں کا ممکن
جو تُو ہے میں ہوں !

تمام کُندے (تو جانتی ہے)
جو سطحِ دریا پہ ساتھ دریا کی تیرتے ہیں
یہ جانتے ہیں یہ حادثہ ہے،
کہ جس سے اِن کو،
(کسی کو) کوئی مفر نہیں ہے
تمام کُندے جو سطحِ دریا پہ تیرتے ہیں،
نہنگ بننا ۔۔ یہ اُن کی تقدیر میں نہیں ہے
(نہنگ کی ابتدا میں ہے اِک نہنگ شامل
نہنگ کا دل نہنگ کا دل!)
نہ اُن کی تقدیر میں ہے پھر سے درخت بننا
(درخت کی ابتدا میں ہے اک درخت شامل
درخت کا دل درخت کا دل!)
تمام کُندوں کے سامنے بند واپسی کی
تمام راہیں
وہ سطحِ دریا پہ جبرِ دریا سے تیرتے ہیں
اب ان کا انجام گھاٹ ہیں جو
سدا سے آغوش وا کیے ہیں
اب اِن کا انجام وہ سفینے
ابھی نہیں جو سفینہ گر کے قیاس میں بھی
اب ان کا انجام
ایسے اوراق جن پہ حرفِ سیہ چھپے گا
اب اِن کا انجام وہ کتابیں۔۔۔
کہ جن کے قاری نہیں، نہ ہوں گے
اب اِن کا انجام ایسے صورت گروں کے پردے
ابھی نہیں جن کے کوئی چہرے
کہ اُن پہ آنسو کے رنگ اتریں،
اور ان میں آیندہ
اُن کے رویا کے نقش بھر دے!

غریب کُندوں کے سامنے بند واپسی کی
تمام راہیں
بقائے موہوم کے جو رستے کھلے ہیں اب تک
ہے اُن کے آگے گماں کا ممکن ۔۔۔۔
گماں کا ممکن، جو تُو ہے میں ہوں !
جو تُو ہے میں ہوں!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
حسن کوزہ گر – 4

جہاں زاد، کیسے ہزاروں برس بعد
اِک شہرِ مدفون کی ہر گلی میں
مرے جام و مینا و گُلداں کے ریزے ملے ہیں
کہ جیسے وہ اِس شہرِ برباد کا حافظہ ہوں!
(حَسَن نام کا اِک جواں کوزہ گر ۔۔۔ اِک نئے شہر میں ۔۔۔۔
اپنے کوزے بناتا ہوا، عشق کرتا ہوا
اپنے ماضی کے تاروں میں ہم سے پرویا گیا ہے
ہمیں میں (کہ جیسے ہمیں ہوں) سمویا گیا ہے
کہ ہم تم وہ بارش کے قطرے تھے جو رات بھر سے،
(ہزاروں برس رینگتی رات بھر)
اِک دریچے کے شیشوں پہ گرتے ہوئے سانپ لہریں
بناتے رہے ہیں،
اور اب اس جگہ وقت کی صبح ہونے سے پہلے
یہ ہم اور یہ نوجواں کوزہ گر
ایک رویا میں پھر سے پروئے گئے ہیں! )

جہاں زاد ۔۔۔
یہ کیسا کہنہ پرستوں کا انبوہ
کوزوں کی لاشوں میں اُترا ہے
دیکھو!
یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں
کبھی جام و مینا کی لِم تک نہ پہنچیں
یہی آج اس رنگ و روغن کی مخلوقِ بے جاں
کو پھر سے اُلٹنے پلٹنے لگے ہیں
یہ اِن کے تلے غم کی چنگاریاں پا سکیں گے
جو تاریخ کو کھا گئی تھیں؟
وہ طوفان، وہ آندھیاں پا سکیں گے
جو ہر چیخ کو کھا گئی تھیں؟
انہیں کیا خبر کِس دھنک سے مرے رنگ آئے ۔۔۔
(مرے اور اِس نوجواں کُوزہ گر کے؟)
انہیں کیا خبر کون سی تتلیوں کے پروں سے؟
انہیں کیا خبر کون سے حُسن سے؟
کون سی ذات سے، کس خد و خال سے
میں نے کُوزوں کے چہرے اُتارے؟
یہ سب لوگ اپنے اسیروں میں ہیں
زمانہ، جہاں زاد، افسوں زدہ برج ہے
اور یہ لوگ اُس کے اسیروں میں ہیں ۔۔۔
جواں کوزہ گر ہنس رہا ہے!
یہ معصوم وحشی کہ اپنے ہی قامت سے ژولیدہ دامن
ہیں جویا کسی عظمتِ نارسا کے ۔۔۔۔
انہیں کیا خبر کیسا آسیبِ مبرم مرے غار سینے پہ تھا
جس نے مجھ سے (اور اِس کوزہ گر سے) کہا:
"اے حَسَن کوزہ گر، جاگ
دردِ رسالت کا روزِ بشارت ترے جام و مینا
کی تشنہ لبی تک پہنچنے لگا ہے!"
یہی وہ ندا، جس کے پیچھے حَسَن نام کا
یہ جواں کوزہ گر بھی
پیا پے رواں ہے زماں سے زماں تک،
خزاں سے خزاں تک!

جہاں زاد میں نے ۔۔۔ حَسَن کوزہ گر نے ۔۔۔
بیاباں بیاباں یہ دردِ رسالت سہا ہے
ہزاروں برس بعد یہ لوگ
ریزوں کو چُنتے ہوئے
جان سکتے ہیں کیسے
کہ میرے گِل و خاک کے رنگ و روغن
ترے نازک اعضا کے رنگوں سے مل کر
ابد کی صدا بن گئے تھے؟
میں اپنے مساموں سے، ہر پور سے،
تیری بانہوں کی پنائیاں
جذب کرتا رہا تھا
کہ ہر آنے والے کی آنکھوں کے معبد پہ جا کر چڑھاؤں ۔۔۔۔
یہ ریزوں کی تہذیب پا لیں تو پا لیں
حَسَن کوزہ گر کو کہاں لا سکیں گے؟
یہ اُس کے پسینے کے قطرے کہاں گن سکیں گے؟
یہ فن کی تجلی کا سایہ کہاں پا سکیں گے؟
جو بڑھتا گیا ہے زماں سے زماں تک
خزاں سے خزاں تک
جو ہر نوجواں کُوزہ گر کی نئی ذات میں
اور بڑھتا چلا جا رہا ہے!
وہ فن کی تجلی کا سایہ کہ جس کی بدولت
ہمہ عشق ہیں ہم
ہمہ کوُزہ گر ہم
ہمہ تن خبر ہم
خُدا کی طرح اپنے فن کے خُدا سر بسر ہم!
(آرزوئیں کبھی پایاب تو سَریاب کبھی،
تیرنے لگتے ہیں بے ہوشی کی آنکھوں میں کئی چہرے
جو دیکھے بھی نہ ہوں
کبھی دیکھے ہوں کسی نے تو سراغ اُن کا
کہاں سے پائے؟
کِس سے ایفا ہوئے اندوہ کے آداب کبھی
آرزوئیں کبھی پایاب تو سَریاب کبھی!)

یہ کوزوں کے لاشے، جو اِن کے لیے ہیں
کسی داستانِ فنا کے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
ہماری اذاں ہیں، ہماری طلب کا نشاں ہیں
یہ اپنے سکوتِ اجل میں بھی یہ کہہ رہے ہیں:
"وہ آنکھیں ہمیں ہیں جو اندر کھُلی ہیں
تمہیں دیکھتی ہیں، ہر ایک درد کو بھانپتی ہیں
ہر اِک حُسن کے راز کو جانتی ہیں
کہ ہم ایک سنسان حجرے کی اُس رات کی آرزو ہیں
جہاں ایک چہرہ، درختوں کی شاخوں کے مانند
اِک اور چہرے پہ جھُک کر، ہر انساں کے سینے میں
اِک برگِ گُل رکھ گیا تھا
اُسی شب کا دزدیدہ بوسہ ہمیں ہیں!"
 

فرخ منظور

لائبریرین
تصوّف

ہم تصوّف کے خرابوں کے مکیں
وقت کے طولِ المناک کے پروردہ ہیں
ایک تاریک ازل، نورِ ابد سے خالی!

ہم جو صدیوں سے چلے ہیں
تو سمجھتے ہیں کہ ساحل پایا
اپنی دن رات کی پاکوبی کا حاصل پایا

ہم تصوّف کے نہاں خانوں میں بسنے والے
اپنی پامالی کے افسانوں پہ ہنسنے والے
ہم سمجھتے ہیں نشانِ سرِ منزل پایا
 

فرخ منظور

لائبریرین
پرانی سے نئی پود تک

رات جب باغ کے ہونٹوں پہ تبسّم نہ رہا
رات جب باغ کی آنکھوں میں
تماشا کا تکلّم نہ رہا
غنچے کہنے لگے:
"رکنا ہے ہمیں باغ میں "لا سال" ابھی"
صبح جب آئی تو "لا سال" کے
جاں کاہ معمّا کا فسوں بھی ٹوٹا!

صبح کے نام سے اب غنچے بہت ڈرتے ہیں
صبح کے ہاتھ میں
جرّاح کے نشتر سے بہت ڈرتے ہیں
وہ جو غنچوں کے مہ و سال کی کوتاہی میں
ایک لمحہ تھا بہت ہی روشن
وہی اب ان کے پگھلتے ہوئے جسموں میں
گُلِ تازہ کے بہروپ میں
کِن زخموں سے دل گیر ہے، آشفتہ ہے!
رات میں خواب بھی تھے
خوابوں کی تعبیر بھی تھی
صبح سے غنچے بہت ڈرتے ہیں!
غنچے خوش تھے کہ یہ پھول
ہوبہو اُن کے خد و خال لیے
اُن کا رنگ، ان کی طلب،
ان کے پر و بال لیے
اُن کے خاموش تبسّم ہی کی پنہائی میں ۔۔
کیا خبر تھی انہیں وہ کیسے سمندر سے
ہوئے ہیں خالی!

جیسے اک ٹوٹے ہوئے دانت سے
یہ ساری چٹانیں اٹھیں
جیسے اک بھولے ہوئے قہقہے سے
سارے ستارے اُبھرے
جیسے اک دانۂ انگور سے
افسانوں کا سیلاب اُٹھا
جیسے اِک بوسے کے منشور سے
دریا جاگے
اور اک درد کی فریاد سے
انساں پھیلے
اُنھیں (اُن غنچوں کو) امید تھی
وہ پھول بھی اُن کے مانند
ان کی خودفہمی کی جویائی سے
پیدا ہوں گے
اُن کے اُس وعدۂ مبرم ہی کا
ایفا ہوں گے

پھول جو اپنے ہی وہموں کے تکبّر کے سوا
کچھ بھی نہیں
اُن کی (اُن غنچوں کی)
دلگیر صدا سنتے ہیں،
ہنس دیتے ہیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں

میں وہ اقلیم کہ محروم چلی آتی ہے
آج تک دشت نوردوں سے جہاں گردوں سے
سالہا سال میں گر ہم نے رسائی پائی
کسی شے تک تو فقط اس کے نواحی دیکھے
اس کے پوشیدہ مناظر کے حواشی دیکھے
یا کوئی سلسلۂ عکسِ رواں تھا اِس کا
ایک روئے گزراں تھا اس کا

کوہِ احساس پر آلام کے اشجار بلند
جن میں محرومئ دیرینہ سے شادابی ہے
برگ و باراں کا وہ پامال امیدیں جن سے
پرسی افشاں کی طرح خواہشیں آویزاں تھیں
کبھی ارمانوں کے آوارہ سراسیمہ طیّور
کسی نادیدہ شکاری کی صدا سے ڈر کر
ان کی شاخوں میں اماں پاتے ہیں سستاتے ہیں
اور پھر شوق کے صحراؤں کو اڑ جاتے ہیں
شوق کے گرم بیاباں کہ ہیں بے آب و گیاہ
ولولے جن میں بگولوں کی طرح گھومتے ہیں
اونگھتے ذرّوں کے تپتے ہوئے لب چومتے ہیں

دُور اس وادی سے اک منزلِ بے نام بھی ہے
کروٹیں لیتے ہیں جس میں انہی صحراؤں کے خواب
ان کہستانوں کی روحیں ۔۔ سرو رو بستہ ہیں
اولّیں نقش ہیں آوارہ پرندوں کے جہاں
خواہشوں اور امیدوں کے جنین
اور بگولوں کے ہیولے
کسی نقّاش کی حسرت میں ملول
"میں" وہ اقلیم کہ محروم چلی آتی ہے
آج تک دشت نوردوں سے جہاں گردوں سے
کون اس دشتِ گریزاں کی خبر لاتا ہے!

(نیویارک، 13 فروری 1955)
 

فرخ منظور

لائبریرین
مسز سالا مانکا

خداحشر میں ہومددگارمیرا
کہ دیکھی ہیں میں نے مسزسالامانکاکی آنکھیں
مسز سالامانکا کی آنکھیں
کہ جن کے افق ہیں جنوبی سمندر کی نیلی رسائی سے آگے
جنوبی سمندر کی نیلی رسائی
کہ جس کے جزیرے ہجومِ سحر سے درخشاں
درخشاں جزیروں میں زرتاب وعنّاب و قرمز پرندوں کی جولاں گہیں
ایسے پھیلی ہوئی جیسے جنت کے داماں
پرندے ازل اورابد کے مہ وسال میں بال افشاں!
خدا حشر میں ہو مددگار میرا
کہ میں نے لیے ہیں مسزسالامانکا کے ہونٹوں کے بوسے
وہ بوسے کہ جن کی حلاوت کے چشمے
شمالی زمینوں کے زرتاب وعنّاب وقرمز درختوں
کے مدہوش باغوں سے آگے
جہاں زندگی کے رسیدہ شگوفوں کے سینوں
سے خوابوں کے رم دیدہ زنبور لیتے ہیں رس اورپیتے ہیں وہ
کہ جس کے نشے کی جِلا سے
زمانوں کی نادیدہ محراب کے دوکناروں کے نیچے
ہیں یکبارگی گونج اٹھتے خلا و ملاکے جلاجل
جلاجل کے نغمے بہم ایسے پیوست ہوتے ہیں جیسے
مسزسالامانکا کے لب میرے لب سے!

خدا حشر میں ہو مددگار میرا
کہ دیکھاہے میں نے
مسزسالامانکا کو بستر میں شب بھر برہنہ
وہ گردن وہ باہیں وہ رانیں وہ پستاں
کہ جن میں جنوبی سمندر کی لہروں کے طوفاں
شمالی درختوں کے باغوں کے پھولوں کی خوشبو
جہاں دم بدم عطر و طوفاں بہم اورگریزاں
مسز سالامانکا کا جسمِ برہنہ
افق تا افق جیسے انگور کی بیل جس کی
غذا آسمانوں کا نور اور حاصل
وہ لذت کہ جس کا نہیں کوئی پایاں
خداکے سواکون ہے پاک داماں!

(نیویارک۔۔۔۲۹ اگست ۱۹۵۵ ؁ء)
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
اے وطن اے جان

اے وطن، اے جان
تیری انگبیں بھی اور خاکستر بھی میں
میں نے یہ سیکھا ریاضی سے ادب بہتر بھی ہے برتر بھی ہے
خاک چھانی میں نے دانش گاہ کی
اور دانش گاہ میں بے دست و پا درویش حُسن و فہم کے جویا ملے
جن کو تھی میری طرح ہر دستگیری کی طلب
دستگیری کی تمنّا سالہا جارہی رہی
لیکن اپنے علم و دانش کا ثمر اس کے سوا کچھ بھی نہ تھا
سر تہی نقلی خدا تھے خیر و قوّت کا نشاں
اور انساں، اہلِ دل انساں شریر و ناتواں

اے وطن ترکے میں پائے تُو نے وہ خانہ بدوش
جن کو تھی کہنہ سرابوں کی تلاش
اور خود ذہنوں میں اُن کے تھے سراب
جس سے پسپائی کی ہمت بھی کبھی ان میں نہ تھی

اے وطن کچھ اہلِ دیں نے اور کچھ انساں پرستوں نے تجھے اِنشا کیا
عالمِ سکرات سے پیدا کیا
تاکہ تیرے دم سے لوٹ آئے جہاں میں عفّتِ انساں کا دَور!
دشمن اُس خواہش پہ خندہ زن رہے اور دوست اس پر بدگماں
اے وطن اے جان تُو نے دوست اور دشمن کا دل توڑا نہیں
ہم ریاضی اور ادب کو بھول کر
سیم و زر کی آز کے ریلے میں یوں بہتے رہے
جیسے ان بپھری ہوئی امواج کا ساحل نہ ہو
اُس یقیں کا اس عمل کا اس محبت کا یہی حاصل تھا کیا؟

اے وطن، اے جان ہر اک پل پہ تو استادہ ہے
بن گیا تیری گزرگاہ اک نیا دورِ عبور
یوں تو ہے ہر دورِ نَو بھی ایک فرسودہ خیال
حرف اور معنی کا جال!
آج لیکن اے وطن، اے جاں تجھے
اور بھی پہلے سے بڑھ کر حرف و معنی کے نئے آہنگ کی ہے جستجو
پھر ریاضی اور ادب کے ربطِ باہم کی طلب ہے رُوبرو!
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایک زمزمے کا ہاتھ

ابھرا تھا جو آواز کے نابود سے
اک زمزمے کا ہاتھ
اس ہاتھ کی جھنکار
نئے شہروں کا، تہذیبوں کا
الہام بنے گی
وہ ہاتھ نہ تھا دھات کے اک معبدِ کہنہ
سے چرایا ہوا، تاریخ میں لتھڑا ہوا
اک ہاتھ
وہ ہاتھ خداوندستمگر کا نہیں تھا
وہ ہاتھ گدا پیشہ پیمبر کا نہیں تھا
اس ہاتھ میں [تم دیکھتے ہو]
شمع کی لرزش ہے جوکہتی ہے کہ:
"آؤ،
شاہراہ پہ بکھرے ہوئے اوراق اٹھاؤ
اس ہاتھ سے لکّھو!"
کہتی ہے کہ :" آؤ
ہم تم کونئے زینوں کے،
آئینوں کے، باغوں کے
چراغوں کے، محلوں کے، ستونوں کے
نئے خواب دکھائیں
وہ پھول جو صحراؤں میں شبنم سے جدا
[خود سے جدا]
ہانپتے ہیں، ان کے
نئے صحنوں میں انبار لگائیں
الجھے ہوئے لمحات جوافکار
کی دیواروں سے آویختہ ہیں
ان سے نئے ہار بنائیں
سینوں میں اتر جائیں،
پھرافسردہ تمنائیں جلائیں"
کہتی ہے کہ:
"دو وقت کی روٹی کا سہارا ہے یہی ہاتھ
جینے کا اشارہ ہے یہی ہاتھ
اس ہاتھ سے پھرجام اٹھائیں
پھرکھولیں کسی صبح کی کرنوں کے دریچے،
اس ہاتھ سے آتی ہوئی خوشبوؤں کو
آداب بجا لائیں!

کہتی ہے کہ:
"افسوس کی دہلیز پر
اک عشقِ کہن سال پڑا ہے
اس عشق کے سوکھے ہوئے چہرے
پہ ڈھلکتے ہوئے آنسو
اس ہاتھ سے پونچھیں
یہ ہاتھ ہے وہ ہاتھ
جوسورج سے گرا ہے
ہم سامنے اس کے
جھک جائیں دعا میں
کہ یہی زندگی و مرگ کی ہردھوپ میں
ہر چھاؤں میں
الفاظ و معانی کے نئے وصل
کاپیغام بنے گا
ہر بوسے کا الہام بنے گا!"
 

فرخ منظور

لائبریرین
آک اور حنا

کیسے بکھری پھول نیند
کیسے شانوں پر گرا اک چاند گیت،
جس سے میں ظاہر ہوا
چاند گیت!
ان گہری ندیوں کے فرازوں کی طرف
لے چل، جہاں
آک کے پہلو میں اگتی ہے حنا،
ان درختوں کی طرف لے چل مجھے
جن کی جانب لوٹ آئے
راہ سے بھٹکے ہوئے زنبور
چھتّوں کی طرف
جن سے کرنا ہیں مجھے سرگوشیاں!
مجھ کولے چل کشت زاروں کے
خزاں کجلائے چہروں کی طرف
جن پہ ماتم کی عنبریں کرنیں جھلک اٹھی ہیں
گیت!

عشق جیسے روشنائی کاکوئی دھبہ تھا
پیراہن پہ ناگہاں گرا
میں نے اس بپھری جوانی میں
وہ موسیقی کی سرشاری سنی
میں نے خوشبوؤں کی پُر باری سنی
میں نے بازاروں میں گھبرائے ہجوموں کا
وہی نغمہ، وہی شیون سنا
جو ہر اک زخمی سے کہتاہے کہ :"آ
تیرا مزار اب میں ہی ہوں،
میں وہ مطلع ہوں جو اجلا ہی سہی
نارس بھی ہے
میں وہ تصویِر خداوندی ہوں، دھندلائی ہوئی
میں وہ دنیا ہوں کہ جس کے لب نہیں!"

لیکن اپنے زرد آج اور سرخ کل کے درمیاں
تنگ دوراہے پہ اک لمحہ بھی تھا
نارنج رنگ!
ہاں، اسی لمحے میں
کتنے راہ سے بھٹکے پرندے
ذہن کے برجوں پر آ بیٹھے کہ :"ہم
ہم میں کھو جا! ہم تجھے لے جائیں گے
اب اُس حنا تک
اگ رہی ہے، آک کے مسموم پیمانوں کے پاس
ان سے رس لیتی ہوئی !"
 

فرخ منظور

لائبریرین
برزخ

شاعر
اے مری روح تجھے
اب یہ برزخ کے شب وروز کہاں راس آئیں
عشق بپھرا ہوا دریا ہے، ہوس خاک سیاہ
دست و بازو نہ سفینہ کہ یہ دریا ہوعبور
اوراس خاکِ سیاہ پرتو نشانِ کف ِپا تک بھی نہیں
اجڑے بے برگ درختوں سے فقط کاسۂ سر آویزاں
کسی سفّاک تباہی کی المناک کہانی بن کر!
اے مری روح، جدائی سے حزیں روح مری
تجھے برزخ کے شب و روز کہاں راس آئیں؟

روح
میرا ماویٰ نہ جہنم مرا ملجا نہ بہشت
برزخ ان دونوں پر اک خندۂ تضحیک تو ہے
ایک برزخ ہے جہاں جور و ستم، جود و کرم کچھ بھی نہیں
اس میں وہ نفس کی صرصر بھی نہیں
جسم کے طوفاں بھی نہیں
مبتلا جن میں ہم انسان سدا رہتے ہیں
ہم سیہ بخت زمیں پرہوں، فلک پرہوں کہیں
ایک برزخ ہے جہاں مخمل و دیبا کی سی آسودگی ہے
خوابِ سرما کی سی آسودگی ہے

(نیویارک۔۔۔۱۶جون ۱۹۵۵؁ء)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بے چارگی

میں دیوارِ جہنم کے تلے
ہر دوپہر، مفرور طالب علم کے مانند
آ کر بیٹھتا ہوں اور دزدیدہ تماشا
اس کی پراسرار و شوق انگیز جلوت کا
کسی رخنے سے کرتا ہوں!

معرّی جامِ خوں در دست، لرزاں
اور متنبی کسی بے آب ریگستاں
میں تشنہ لب سراسیمہ
یزید اِک قلّۂ تنہا پر اپنی آگ میں سوزاں
ابوجہل اژدہا بن کر
خجالت کے شجر کی شاخ پر غلطاں
بہأاللہ کے جسمِ ناتواں کا ہر
رواں اِک نشترِ خنداں
زلیخا، ایک چرخِ نور و رنگ آرا
سے پابستہ
وہیں پہیم رواں، گرداں
ژواں، حلّاج، سرمد
چرسی انسان کی طرح ژولیدہ مو، عریاں
مگر رقصاں

ستالن، مارکس، لینن روئے آسودہ
مگر نارس تمنّاؤں کے سوز و کرب سے شمع تہِ داماں
یہ سب منظور ہے یارب
کہ اس میں ہے وہ ہاؤ ہو، وہ ہنگامہ وہ سیمابی
کہ پائی جس سے ایسی سیمیائی صورتوں نے
روحِ خلاّقی کی بے تابی
مگر میرے خدا، میرے محمد کے خدا مجھ سے
غلام احمد کی برفانی نگاہوں کی
یہ دل سوزی سے محرومی
یہ بے نوری یہ سنگینی
بس اب دیکھی نہیں جاتی
غلام احمد کی یہ نا مردمی دیکھی نہیں جاتی

(نیویارک ۔ 16، دسمبر 1953ء)
 

فرخ منظور

لائبریرین
رات عفریت سہی

رات عفریت سہی،
چار سو چھائے ہوئے موئے پریشاں جس کے
خون آلودہ نگاہ و لب و دنداں جس کے
ناخنِ تیز ہیں سوہانِ دِل و جاں جس کے

رات عفریت سہی،
شکرِ للہ کہ تابندہ ہے مہتاب ابھی
چند میناؤں میں باقی ہے مئے ناب ابھی
اور بے خواب مرے ساتھ ہیں احباب ابھی

رات عفریت سہی،
اسی عفریت نے سو بار ہزیمت پائی
اس کی بیداد سے انساں نے راحت پائی
جلوۂ صبحِ طرب ناک کی دولت پائی

رات عفریت سہی،
آؤ احباب کہ پھر جشنِ سحر تازہ کریں
پھر تمناؤں کے عارض پہ نیا غازہ کریں
ابنِ آدم کا بلند آج پھر آوازہ کریں

13، فروری 1953ء
 
Top