مکمل کلام ن م راشد (اوّل)

فرخ منظور

لائبریرین
ہونٹوں کالمس

تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس
جس سے میرا جسم طوفانوں کی جولاں گاہ ہے
جس سے میری زندگی، میرا عمل گمراہ ہے
میری ذات اور میرے شعر افسانہ ہیں!

تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس
اور پھر "لمسِ طویل"
جس سے ایسی زندگی کے دن مجھے آتے ہیں یاد
میں نے جو اب تک بسر کی ہی نہیں
اور اک ایسا مقام
آشنا جس کے نظاروں سے نہیں میری نگاہ!
تیرے اک لمسِ جنوں انگیز سے
کیسے کھُل جاتی ہے کرنوں کے لیے اک شاہراہ
کیسے ہو جاتی ہے، ظلمت تیز گام،
کیسے جی اٹھتے ہیں آنے وا لے ایّامِ جمیل!

تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس
جس کے آگے ہیچ جرعاتِ شراب
یہ سنہری پھل، یہ سیمیں پھول مانندِ سراب
سوزِ شمع و گردشِ پروانہ گویا داستاں
نغمۂ سیارگاں، بے رنگ و آب
قطرۂ بے مایہ طغیانِ شباب!

تیرے ان ہونٹوں کے اک لمسِ جنوں انگیز سے
چھا گیا ہے چار سُو
چاندنی راتوں کا نورِ بیکراں
کیف و مستی کا وفورِ جاوداں
چاندنی ہے اور میں اک "تاک" کے سائے تلے
اِستادہ ہوں
جان دینے کے لیے آمادہ ہوں

میری ہستی ہے نحیف وبے ثبات
"تاک" کی ہر شاخ ہے آفاق گیر!
حملۂ مرگ و خزاں سے بے نیاز
سامنے جس کے مری دنیا ہے، دنیائے مجاز
میرے جسم و روح جس کی وسعتوں کے سامنے
رفتہ رفتہ مائلِ حلّ وگداز!

ہاں مگر اتنا تو ہے،
میری دنیا کو مٹا کر ہو چلی ہیں آشکار
اور دنیائیں مقام و وقت کی سرحد کے پار
جن کی تو ملکہ ہے میں ہوں شہریار!
تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس،
جس سے میری سلطنت تابندہ ہے
انتہائے وقت تک پائندہ ہے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
اتفاقات

آج، اس ساعتِ دزدیدہ و نایاب میں بھی،
جسم ہے خواب سے لذت کشِ خمیازہ ترا
تیرے مژگاں کے تلے نیند کی شبنم کا نزول
جس سے دھُل جانے کو ہے غازہ ترا
زندگی تیرے لیے رس بھرے خوابوں کا ہجوم
زندگی میرے لیے کاوشِ بیداری ہے
اتفاقات کو دیکھ
اس حسیں رات کو دیکھ
توڑ دے وہم کے جال
چھوڑ دے اپنے شبستانوں کو جانے کا خیال،
خوفِ موہوم تری روح پہ کیا طاری ہے!
اتنا بے صرفہ نہیں تیرا جمال
اس جنوں خیز حسیں رات کو دیکھ!
آج، اس ساعتِ دزدیدہ و نایاب میں بھی
تشنگی روح کی آسودہ نہ ہو
جب ترا جسم جوانی میں ہے نیسانِ بہار
رنگ و نکہت کا فشار!

پھول ہیں، گھاس ہے، اشجار ہیں، دیواریں ہیں
اور کچھ سائے کہ ہیں مختصر و تیرہ و تار،
تجھ کو کیا اس سے غرض ہے کہ خدا ہے کہ نہیں؟
دیکھ پتوں میں لرزتی ہوئی کرنوں کا نفوذ
سرسراتی ہوئی بڑھتی ہے رگوں میں جیسے
اوّلیں بادہ گساری میں نئی تند شراب
تجھ کو کیا اس سے غرض ہے کہ خدا ہے کہ نہیں
کہکشاں اپنی تمناؤں کا ہے راہگزار
کاش اس راہ پہ مل کر کبھی پرواز کریں،
اک نئی زیست کا در باز کریں!
آسماں دور ہے لیکن یہ زمیں ہے نزدیک
آ اِسی خاک کو ہم جلوہ گہِ راز کریں!
روحیں مل سکتی نہیں ہیں تو یہ لب ہی مل جائیں،
آ اِسی لذتِ جاوید کا آغاز کریں!
صبح جب باغ میں رس لینے کو زنبور آئے
اس کے بوسوں سے ہوں مدہوش سمن اور گلاب
شبنمی گھاس پہ دو پیکرِ یخ بستہ ملیں،
اور خدا ہے تو پشیماں ہو جائے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
حزنِ انسان
(افلاطونی عشق پر ایک طنز)

جسم اور روح میں آہنگ نہیں،
لذّت اندوزِ دل آویزیِ موہوم ہے تو
خستہِ کشمکشِ فکر و عمل!
تجھ کو ہے حسرتِ اظہارِ شباب
اور اظہار سے معذور بھی ہے
جسم نیکی کے خیالات سے مفرور بھی ہے
اس قدر سادہ و معصوم ہے تو
پھر بھی نیکی ہی کیے جاتی ہے
کہ دل و جسم کے آہنگ سے محروم ہے تو

جسم ہے روح کی عظمت کے لیے زینہِ نور
منبعِ کیف و سرور!
نا رسا آج بھی ہے شوقِ پرستارِ جمال
اور انساں ہے کہ ہے جادہ کشِ راہِ طویل
(روحِ یوناں پہ سلام!)
اک زمستاں کی حسیں رات کا ہنگامِ تپاک
اس کی لذّات سے آگاہ ہے کون؟
عشق ہے تیرے لیے نغمہِ خام
کہ دل و جسم کے آہنگ سے محروم ہے تو!

جسم اور روح کے آہنگ سے محروم ہے تو!
ورنہ شب ہائے زمستاں ابھی بے کار نہیں
اور نہ بے سود ہیں ایّامِ بہار!
آہ انساں کہ ہے وہموں کا پرستار ابھی
حسن بے چارے کو دھوکا سا دیے جاتا ہے
ذوقِ تقدیس پہ مجبور کیے جاتا ہے!
ٹوٹ جائیں‌گے کسی روز مزامیر کے تار
مسکرا دے کہ ہے تابندہ ابھی تیرا شباب
ہے یہی حضرتِ یزداں کے تمسخر کا جواب!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
ایک رات

یاد ہے اک رات زیرِ آسمانِ نیل گوں،
یاد ہے مجھ کو وہ تابستاں کی رات!
چاند کی کرنوں کا بے پایاں فسوں۔۔۔ پھیلا ہوا
سرمدی آہنگ برساتا ہوا ۔۔۔ہر چار سُو!
اور مرے پہلو میں تُو۔۔۔!
میرے دل میں یہ خیال آنے لگا:
غم کا بحرِ بے کراں ہے یہ جہاں
میری محبوبہ کا جسم اک ناؤ ہے
سطحِ شور انگیز پر اس کی رواں
ایک ساحل، ایک انجانے جزیرے کی طرف
اُس کو آہستہ لیے جاتا ہوں میں

دل میں یہ جاں سوز وہم
یہ کہیں غم کی چٹانوں سے نہ لگ کر ٹوٹ جائے!
یاد ہے مجھ کو وہ تابستاں کی رات
تیرے دل میں راز کی اِک کائنات
تیری خاموشی میں طوفانوں کا غوغائے عظیم
سرخوشِ اظہار تیری ہر نگاہ
تیرے مژگاں کے تلے گہرے خیال
بے بسی کی نیند میں الجھے ہوئے!
تیرا چہرہ آب گُوں ہونے کو تھا
دفعتاً، پھر جیسے یاد آ جائے اک گم گشتہ بات
تیرے سینے کے سمن زاروں میں اٹھیں لرزشیں
میرے انگاروں کو بے تابانہ لینے کے لیے
اپنی نکہت، اپنی مستی مجھ کو دینے کے لیے
غم کے بحرِ بے کراں میں ہو گیا پیدا سکوں
یاد ہے وہ رات زیرِ آسمانِ نیلگوں
یاد ہے مجھ کو وہ تابستاں کی رات!
 

فرخ منظور

لائبریرین
سپاہی

تُو مرے ساتھ کہاں جائے گی؟
۔۔۔ موت کا لمحۂ مایوس نہیں،
قوم ابھی نیند میں ہے!
مصلحِ قوم نہیں ہوں کہ میں آہستہ چلوں
اور ڈروں قوم کہیں جاگ نہ جائے۔۔۔
میں تو اک عام سپاہی ہوں، مجھے
حکم ہے دوڑ کے منزل کے قدم لینے کا
اور اسی سعیِ جگر دوز میں جاں دینے کا
تُو مرے ساتھ مری جان، کہاں جائے گی؟

تُو مرے ساتھ کہاں جائے گی؟
راہ میں اونچے پہاڑ آئیں گے
دشتِ بے آب وگیاہ
اور کہیں رودِ عمیق
بے کراں، تیز و کف آلود و عظیم
اجڑے سنسان دیار
اور دشمن کے گرانڈیل جواں
جیسے کہسار پہ دیودار کے پیڑ
عزت و عفت و عصمت کے غنیم
ہر طرف خون کے سیلاب رواں۔۔۔
اک سپاہی کے لیے خون کے نظاروں میں
جسم اور روح کی بالیدگی ہے
تُو مگر تاب کہاں لائے گی
تُو مرے ساتھ مری جان کہاں جائے گی؟
دم بدم بڑھتے چلے جاتے ہیں
سرِ میدان رفیق،
تُو مرے ساتھ مری جان کہاں جائے گی؟
عمر گزری ہے غلامی میں مری
اس سے اب تک مری پرواز میں کوتاہی ہے!
زمزمے اپنی محبت کے نہ چھیڑ
اس سے اے جان پر وبال میں آتا ہے جمود
میں نہ جاؤں گا تو دشمن کو شکست
آسمانوں سے بھلا آئے گی؟
دیکھ خونخوار درندوں کے وہ غول
میرے محبوب وطن کو یہ نگل جائیں گے؟
ان سے ٹکرانے بھی دے
جنگِ آزادی میں کام آنے بھی دے
تُو مرے ساتھ مری جان کہاں جائے گی؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
زوال

آہ پایندہ نہیں،
درد و لذّت کا یہ ہنگامِ جلیل!
پھر کئی بار ابھی آئیں گے لمحاتِ جنوں
اس سے شدت میں فزوں، اس سے طویل
پھر بھی پائندہ نہیں!

آپ ہی آپ کسی روز ٹھہر جائے گا
تیرے جذبات کا دریائے رواں
تجھے معلوم نہیں،
کس طرح وقت کی امواج ہیں سرگرمِ خرام؟
تیرے سینے کا درخشندہ جمال
کر دیا جائے گا بیگانۂ نور
نکہت و رنگ سے محرومِ دوام!
تجھے معلوم نہیں؟

اس دریچے میں سے دیکھ
خشک، بے برگ، المناک د رختوں کا سماں
کیسا دل دوز سکوت!
زیرِ لب نالہ کشِ جورِ خزاں
چودھویں رات کا مہتابِ جواں!
ان کے اس پار سے ہے نزد طلوع؛
تجھے معلوم نہیں،
ایک دن تیرا جنوں خیز شباب
تیرے اعضا کا جمال
کر دیا جائے گا اس طرح سے محرومِ فسوں؟
اور پھر چاند کے مانند محبت کے خیال
سارے اس عہد کے گزرے ہوئے خواب
تیرے ماضی کے افق پر سے ہویدا ہوں گے
تجھے معلوم نہیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
اظہار

کیسے میں بھی بھول جاؤں
زندگی سے اپنا ربطِ اوّلیں؟
ایک دور افتادہ قریے کے قریب
اک جنوں افروز شام
نہر پر شیشم کے اشجارِ بلند
چاندنی میں اُن کی شاخوں کے تلے
تیرے پیمانِ محبت کا وہ اظہارِ طویل!

روح کا اظہار تھے بوسے مرے
جیسے میری شاعری، میرا عمل!
روح کا اظہار کیسے بھول جاؤں؟
کیسے کر ڈالوں میں جسم و روح کو
آج بے آہنگ و نور؟
تُو کہ تھی اس وقت گمنامی کے غاروں میں نہاں
میرے ہونٹوں ہی نے دی تجھ کو نجات
اپنی راہوں پر اٹھا لایا تجھے
زندۂ جاوید کر ڈالا تجھے
جیسے کوئی بت تراش
اپنے بت کو زندگی کے نور سے تاباں کرے
اس کو برگ و بار دینے کے لیے
اپنے جسم و روح کو عریاں کرے!
میرے بوسے روح کا اظہار تھے
روح جو اظہار ہی سے زندہ و تابندہ ہے
ہے اسی اظہار سے حاصل مجھے قربِِ حیات،
روح کا اظہار کیسے بھول جاؤں؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
آنکھوں کے جال

آہ تیری مد بھری آنکھوں کے جال!
میز کی سطحِ درخشندہ کو دیکھ
کیسے پیمانوں کا عکسِ سیم گوُں
اس کی بے اندازہ گہرائی میں ہے ڈوبا ہوا
جیسے میری روح، میری زندگی
تیری تابندہ سیہ آنکھوں میں ہے
مَے کے پیمانے تو ہٹ سکتے ہیں یہ ہٹتی نہیں!

قہوہ خانے کے شبستانوں کی خلوت گاہ میں
آج کی شب تیرا دُزدانہ ورود!
عشق کا ہیجان، آدھی رات اور تیرا شباب
تیری آنکھ اور میرا دل
عنکبوت اور اس کا بے چارہ شکار!
(تیرے ہاتھوں میں مگر لرزش ہے کیوں؟
کیوں ترا پیمانہ ہونٹوں سے ترے ہٹتا نہیں!
خام و نَو آموز ہے تُو ساحرہ!
کر رہی ہے اپنے فن کو آشکار
اور اپنے آپ پر تجھ کو یقیں حاصل نہیں!)
پھر بھی ہے تیرے فسوں کے سامنے مجھ کو شکست
میرے تخیلات، میری شاعری بیکار ہیں!

اپنے سر پر قمقموں کے نور کا سیلاب دیکھ
جس سے تیرے چہرے کا سایہ ترے سینے پہ ہے
اس طرح اندوہ میری زندگی پر سایہ ریز
تیری آنکھوں کی درخشانی سے ہے
سایہ ہٹ سکتا ہے، غم ہٹتا نہیں!

آہ تیری مد بھری آنکھوں کے جال!
دیکھ وہ دیوار پر تصویر دیکھ
یہ اگر چاہے کہ اس کا آفرینندہ کبھی
اس کے ہاتھوں میں ہو مغلوب و اسیر
کیسا بے معنی ہو یہ اس کا خیال،
اس کو پھر اپنی ہزیمت کے سوا چارہ نہ ہو!
تو مری تصویر تھی
میرے ہونٹوں نے تجھے پیدا کیا
آج لیکن میری مدہوشی کو دیکھ
میں کہ تھا خود آفرینندہ ترا
پا بجولاں میرے جسم و روح تیرے سامنے
اور دل پر تیری آنکھوں کی گرفتِ نا گزیر،
ساحری تیری، خداوندی تری!
عکس کیسا بھی ہو فانی ہے مگر
یہ نگاہوں کا فسوں پایندہ ہے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
گناہ

آج پھر آ ہی گیا
آج پھر روح پہ وہ چھا ہی گیا
دی مرے گھر پہ شکست آ کے مجھے!
ہوش آیا تو میں دہلیز پہ افتادہ تھا
خاک آلودہ و افسردہ و غمگین و نزار
پارہ پارہ تھے مری روح کے تار
آج وہ آ ہی گیا
روزنِ در سے لرزتے ہوئے دیکھا میں نے
خرم و شاد سرِ راہ اُسے جاتے ہوئے
سالہا سال سے مسدود تھا یارانہ مرا
اپنے ہی بادہ سے لبریز تھا پیمانہ مرا
اس کے لَوٹ آنے کا امکان نہ تھا
اس کے ملنے کا بھی ارمان نہ تھا
پھر بھی وہ آ ہی گیا
کون جانے کہ وہ شیطان نہ تھا
بے بسی میرے خداوند کی تھی!
 

فرخ منظور

لائبریرین
عہدِ وفا

تُو مرے عشق سے مایوس نہ ہو
کہ مرا عہدِ وفا ہے ابدی!
شمع کے سائے سے دیوار پہ محراب سی ہے
سالہا سال سے بدلا نہیں سائے کا مقام
شمع جلتی ہے تو سائے کو بھی حاصل ہے دوام
سائے کا عہدِ وفا ہے ابدی!
تُو مری شمع ہے، میں سایہ ترا
زندہ جب تک ہوں کہ سینے میں ترے روشنی ہے
کہ مرا عہدِ وفا ہے ابدی!

ایک پتنگا سرِ دیوار چلا جاتا ہے
خوف سے سہما ہوا، خطروں سے گھبرایا ہوا
اور سائے کی لکیروں کو سمجھتا ہے کہ ہیں
سرحدِ مرگ و حیات اس کے لیے!
ہاں یہی حال مرے دل کی تمناؤں کا ہے
پھر بھی تُو عشق سے مایوس نہ ہو
کہ مرا عہدِ وفا ہے ابدی!

ہاں مرا عہدِ وفا ہے ابدی،
زندگی ان کے لیے ریت نہیں، دھوپ نہیں
ریت پر دھوپ میں گر لیٹتے ہیں آ کے نہنگ
قعرِ دریا ہی سے وابستہ ہے پیمان ان کا
ان کو لے آتا ہے ساحل پہ تنوع کا خمار
اور پھر ریت میں اک لذتِ آسودگی ہے!
میں جو سر مست نہنگوں کی طرح
اپنے جذبات کی شوریدہ سری سے مجبور
مضطرب رہتا ہوں مدہوشی و عشرت کے لیے
اور تری سادہ پرستش کی بجائے
مرتا ہوں تیری ہم آغوشی کی لذت کے لیے
میرے جذبات کو تو پھر بھی حقارت سے نہ دیکھ
اور مرے عشق سے مایوس نہ ہو
کہ مرا عہدِ وفا ہے ابدی!
 

فرخ منظور

لائبریرین
شاعرِ درماندہ

زندگی تیرے لیے بسترِ سنجاب و سمور
اور میرے لیے افرنگ کی دریوزہ گری
عافیت کوشیِ آبا کے طفیل،
میں ہوں درماندہ و بے چارہ ادیب
خستۂ فکرِ معاش!
پارۂ نانِ جویں کے لیے محتاج ہیں ہم
میں، مرے دوست، مرے سینکڑوں اربابِ وطن
یعنی افرنگ کے گلزاروں کے پھول!
تجھے اک شاعرِ درماندہ کی امید نہ تھی
مجھ سے جس روز ستارہ ترا وابستہ ہوا
تُو سمجھتی تھی کہ اک روز مرا ذہنِ رسا
اور مرے علم و ہنر
بحر و بر سے تری زینت کو گہر لائیں گے!
میرے رستے میں جو حائل ہوں مرے تیرہ نصیب
کیوں دعائیں تری بے کار نہ جائیں
تیرے راتوں کے سجود اور نیاز
(اس کا باعث مرا الحاد بھی ہے!)

اے مری شمعِ شبستانِ وفا،
بھول جا میرے لیے
زندگی خواب کی آسودہ فراموشی ہے!
تجھے معلوم ہے مشرق کا خدا کوئی نہیں
اور اگر ہے، تو سرا پردۂ نسیان میں ہے
تُو "مسرت" ہے مری، تو مری "بیداری" ہے
مجھے آغوش میں لے
دو "انا" مل کے جہاں سوز بنیں
اور جس عہد کی ہے تجھ کو دعاؤں میں تلاش
آپ ہی آپ ہویدا ہو جائے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
دریچے کے قریب

جاگ اے شمعِ شبستانِ وصال
محفلِ خواب کے اس فرشِ طرب ناک سے جاگ!
لذتِ شب سے ترا جسم ابھی چور سہی
آ مری جان، مرے پاس دریچے کے قریب
دیکھ کس پیار سے انوارِ سحر چومتے ہیں
مسجدِ شہر کے میناروں کو
جن کی رفعت سے مجھے
اپنی برسوں کی تمنا کا خیال آتا ہے!

سیمگوں ہاتھوں سے اے جان ذرا
کھول مَے رنگ جنوں خیز آنکھیں!
اسی مینار کو دیکھ
صبح کے نور سے شاداب سہی
اسی مینار کے سائے تلے کچھ یاد بھی ہے
اپنے بیکار خدا کی مانند
اونگھتا ہے کسی تاریک نہاں خانے میں
ایک افلاس کا مارا ہوا ملّائے حزیں
ایک عفریت____ اُداس
تین سو سال کی ذلت کا نشاں
ایسی ذلت کہ نہیں جس کا مداوا کوئی!

دیکھ بازار میں لوگوں کا ہجوم
بے پناہ سَیل کے مانند رواں!
جیسے جنات بیابانوں میں
مشعلیں لے کر سرِ شام نکل آتے ہیں،
ان میں ہر شخص کے سینے کے کسی گوشے میں
ایک دلہن سی بنی بیٹھی ہے
ٹمٹماتی ہوئی ننھی سی خودی کی قندیل
لیکن اتنی بھی توانائی نہیں
بڑھ کے ان میں سے کوئی شعلۂ جوّالہ بنے!
ان میں مفلس بھی ہیں بیمار بھی ہیں
زیرِ افلاک مگر ظلم سہے جاتے ہیں!

ایک بوڑھا سا تھکا ماندہ سا رہوار ہوں میں!
بھوک کا شاہ سوار
سخت گیر اور تنومند بھی ہے؛
میں بھی اس شہر کے لوگوں کی طرح
ہر شبِ عیش گزر جانے پر
بہرِ جمع خس و خاشاک نکل جاتا ہوں
چرخِ گرداں ہے جہاں
شام کو پھر اسی کاشانے میں لوٹ آتا ہوں
بے بسی میری ذرا دیکھ کہ میں
مسجدِ شہر کے میناروں کو
اس دریچے میں سے پھر جھانکتا ہوں
جب انہیں عالمِ رخصت میں شفق چومتی ہے!​
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
رقص

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں
ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو
رقص گہ کے چور دروازے سے آ کر زندگی
ڈھونڈ لے مجھ کو، نشاں پا لے مرا
اور جرم عیش کرتے دیکھ لے!

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
رقص کی یہ گردشیں
ایک مبہم آسیا کے دور ہیں
کیسی سرگرمی سے غم کو روندتا جاتا ہوں میں!
جی میں کہتا ہوں کہ ہاں،
رقص گہ میں زندگی کے جھانکنے سے پیشتر
کلفتوں کا سنگریزہ ایک بھی رہنے نہ پائے!

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی میرے لیے
ایک خونیں بھیڑیے سے کم نہیں
اے حسین و اجنبی عورت اسی کے ڈر سے میں
ہو رہا ہوں لمحہ لمحہ اور بھی تیرے قریب
جانتا ہوں تو مری جاں بھی نہیں
تجھ سے ملنے کا پھر امکاں بھی نہیں
تو مری ان آرزوؤں کی مگر تمثیل ہے
جو رہیں مجھ سے گریزاں آج تک!

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
عہدِ پارینہ کا میں انساں نہیں
بندگی سے اس در و دیوار کی
ہو چکی ہیں خواہشیں بے سوز و رنگ و ناتواں
جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں
زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں!
اس لیے اب تھام لے
اے حسین و اجنبی عورت مجھے اب تھام لے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
بیکراں رات کے سنّاٹے میں

تیرے بستر پہ مری جان کبھی
بے کراں رات کے سنّاٹے میں
جذبۂ شوق سے ہو جاتے ہیں اعضا مدہوش
اور لذّت کی گراں باری سے
ذہن بن جاتا ہے دلدل کسی ویرانے کی
اور کہیں اس کے قریب
نیند، آغاز ِ زمستاں کے پرندے کی طرح
خوف دل میں کسی موہوم شکاری کا لیے
اپنے پر تولتی ہے، چیختی ہے
بے کراں رات کے سنّاٹے میں!

تیرے بستر پہ مری جان کبھی
آرزوئیں ترے سینے کے کہستانوں میں
ظلم سہتے ہوئے حبشی کی طرح رینگتی ہیں!

ایک لمحے کے لیے دل میں خیال آتا ہے
تو مری جان نہیں
بلکہ ساحل کے کسی شہر کی دوشیزہ ہے
اور ترے ملک کے دشمن کا سپاہی ہوں مَیں
ایک مدّت سے جسے ایسی کوئی شب نہ ملی
کہ ذرا روح کو اپنی وہ سبک بار کرے!
بے پناہ عیش کے ہیجان کا ارماں لے کر
اپنے دستے سے کئی روز سے مفرور ہوں مَیں!
یہ مرے دل میں خیال آتا ہے
تیرے بستر پہ مری جان کبھی
بے کراں رات کے سنّاٹے میں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
شرابی

آج پھر جی بھر کے پی آیا ہوں میں
دیکھتے ہی تیری آنکھیں شعلہ ساماں ہو گئیں!
شکر کر اے جاں کہ میں
ہوں درِ افرنگ کا ادنیٰ غلام
صدرِ اعظم یعنی دریوزہ گرِ اعظم نہیں،
ورنہ اک جامِ شرابِِ ارغواں
کیا بجھا سکتا تھا میرے سینۂ سوزاں کی آگ؟
غم سے مرجاتی نہ تُو
آج پی آتا جو میں
جامِ رنگیں کی بجائے
بے کسوں اور ناتوانوں کا لہو؟
شکر کر اے جاں کہ میں
ہوں درِ افرنگ کا ادنیٰ غلام!
اور بہتر عیش کے قابل نہیں!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
انتقام

اُس کا چہرہ، اُس کے خدّ و خال یاد آتے نہیں
اک شبستاں یاد ہے
اک برہنہ جسم آتش داں کے پاس
فرش پر قالین، قالینوں پہ سیج
دھات اور پتھر کے بت
گوشۂ دیوار میں ہنستے ہوئے!
اور آتش داں میں انگاروں کا شور
اُن بتوں کی بے حسی پر خشمگیں؛
اُجلی اُجلی اونچی دیواروں پہ عکس
اُن فرنگی حاکموں کی یادگار
جن کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں
سنگِ بنیادِ فرنگ!

اُس کا چہرہ اُس کے خدوخال یاد آتے نہیں
اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے
اجنبی عورت کا جسم،
میرے ’’ہونٹوں‘‘ نے لیا تھا رات بھر
جس سے اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام
وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
اجنبی عورت

ایشیا کے دور افتادہ شبستانوں میں بھی
میرے خوابوں کا کوئی روماں نہیں!
کاش اک دیوارِ ظلم
میرے ان کے درمیاں حائل نہ ہو!
یہ عماراتِ قدیم
یہ خیاباں، یہ چمن، یہ لالہ زار،
چاندنی میں نوحہ خواں
اجنبی کے دستِ غارت گر سے ہیں
زندگی کے ان نہاں خانوں میں بھی
میرے خوابوں کا کوئی روماں نہیں!

کاش اک "دیوارِ رنگ"
میرے ان کے درمیاں حائل نہ ہو!
یہ سیہ پیکر برہنہ راہرو
یہ گھروں میں خوبصورت عورتوں کا زہرخند
یہ گزر گاہوں پہ دیو آسا جواں
جن کی آنکھوں میں گرسنہ آرزوؤں کی لپک
مشتعل، بے باک مزدوروں کا سیلابِِ عظیم!
ارضِ مشرق، ایک مبہم خوف سے لرزاں ہوں میں
آج ہم کو جن تمناؤں کی حرمت کے سبب
دشمنوں کا سامنا مغرب کے میدانوں میں ہے
اُن کا مشرق میں نشاں تک بھی نہیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
خود کشی

کر چکا ہوں آج عزمِ آخری ۔۔۔
شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
چاٹ کر دیوار کو نوکِ زباں سے ناتواں
صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند؛
رات کو جب گھر کا رخ کرتا تھا میں
تیرگی کو دیکھتا تھا سرنگوں
منہ بسورے، رہگزاروں سے لپٹتے، سوگوار
گھر پہنچتا تھا میں انسانوں سے اُکتایا ہوا
میرا عزمِ آخری یہ ہے کہ میں
کود جاؤں ساتویں منزل سے آج!
آج میں نے پا لیا ہے زندگی کو بے نقاب!
آتا جاتا تھا بڑی مدت سے میں
ایک عشوہ ساز و ہرزہ کار محبوبہ کے پاس
اُس کے تختِ خواب کے نیچے مگر
آج میں نے دیکھ پایا ہے لہو
تازہ و رخشاں لہو،
بوئے مَے میں بوئے خوں الجھی ہوئی!
وہ ابھی تک خواب گہ میں لوٹ کر آئی نہیں
اور میں کر بھی چکا ہوں اپنا عزمِ آخری!
جی میں آئی ہے لگا دوں ایک بے باکانہ جست
اس دریچے میں سے جو
جھانکتا ہے ساتویں منزل سے کوئے بام کو!

شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
چاٹ کر دیوار کو نوکِ زباں سے ناتواں
صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند
آج تو آخر ہم آغوشِ زمیں ہو جائے گی!
 

فرخ منظور

لائبریرین
شبابِ گریزاں

مئے تازہ و ناب حاصل نہیں ہے
تو کر لوں گا دُردِ تہِ جام پی کر گزارا!

مجھے ایک نورس کلی نے
یہ طعنہ دیا تھا:
تری عمر کا یہ تقاضا ہے
تو ایسے پھولوں کا بھونرا بنے
جن میں دوچار دن کی مہک رہ گئی ہو

یہ سچ ہے وہ تصویر،
جس کے سبھی رنگ دھندلا گئے ہوں
نئے رنگ اُس میں بھرے کون لا کر
نئے رنگ لائے کہاں سے ؟

ترے آسماں کا،
میں اک تازہ وارد ستارا سہی،
جانتا ہوں کہ، اس آسماں پر
بہت چاند، سورج، ستارے ابھر کر
جو اک بار ڈوبے تو ابھرے نہیں ہیں
فراموش گاری کے نیلے افق سے،
اُنہی کی طرح میں بھی
نا تجربہ کار انساں کی ہمت سے آگے بڑھا ہوں،
جو آگے بڑھا ہوں،
تو دل میں ہوس یہ نہیں ہے
کہ اب سے ہزاروں برس بعد کی داستانوں میں
زندہ ہو اک بار پھر نام میرا!
یہ شامِ دلآویز تو اک بہانہ ہے،
اک کوششِ ناتواں ہے
شبابِ گریزاں کو جاتے ہوئے روکنے کی
وگرنہ ہے کافی مجھے ایک پل کا سہارا،
ہوں اک تازہ وارد، مصیبت کا مارا
میں کر لوں گا دُردِ تہ جام پی کر گزارا!
 

فرخ منظور

لائبریرین
حیلہ ساز

کئی تنہا برس گزرے
کہ اس وادی میں، ان سر سبز اونچے کوہساروں میں،
اٹھا لایا تھا میں اُس کو،
نظر آتا ہے گاڑی سے وہ سینے ٹوریم اب بھی
جہاں اُس سے ہوئی تھیں آخری باتیں:
"تجھے اے جان، میری بے وفائی کا ہے غم اب بھی؟
محبت اُس بھکارن سے؟
وہ بے شک خوبصورت تھی،
مگر اُس سے محبت، آہ نا ممکن!
محبت گوشت کے اُس کہنہ و فرسودہ پیکر سے؟
ہوسناکی؟
"میں اک بوسے کا مجرم ہوں
فقط اک تجربہ منظور تھا مجھ کو
کہ آیا مفلسی کتنا گرا دیتی ہے انساں کو!"

نہ آیا اعتماد اُس کو مری اس حیلہ سازی پر،
بس اپنی ناتواں، دلدوز آنکھوں سے
پہاڑوں اور اُن پر تُند و سر افراختہ چیلوں کو وہ تکتی رہی پیہم:
"یہ دیکھو ایک اونچے پیڑ کا ٹہنا
پہاڑی میں بنا لی اس نے اپنی راہ یوں جیسے
چٹان اس کے لیے کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی!"

زمانے بھر پہ تاریکی سی چھائی ہے
مگر وہ یاد کے روزن سے آتی ہے نظر اب بھی
مجھے بھولی نہیں وہ بے بسی اُس کی نگاہوں کی
اور اُس کی آخری باتیں ہیں یاد اب تک!

مگر میں اس لیے تازہ افق کی جستجو میں ہوں
کہ اُس کی یاد تک روپوش ہو جائے؟
 
Top