کلامِ غالب کا فنی و جمالیاتی مطالعہ۔ ذکا صدیقی۔ تبصرے تجاویز

الف عین

لائبریرین
جیسا کہ میں نے لکھا ہے کہ نظم طباطبائی کی شرح کے نسخے میں اور ذکا کی اس کتاب میں منقول شرح طباطبائی کے متن میں فرق محسوس ہوا تھا۔
اب غور کیا تو معلوم ہوا کہ کسی نسخے میں ’استدراک‘ کے نام سے حواشیہ بھی زائد دئے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ہی شعر کا دونوں کتب میں شرح:


شعرِ غالب:

گریہ نکالے ہے تری بزم سے مجھ کو
ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے

شرح طباطبائی، نسخہ محسن حیدر آبادی:
یہ وزن مانوس اوزان میں سے نہیں ہے ، اس وجہ سے کاتب نے اپنے وزن مانوس کی طرف پہلے مصرع کو کھینچ لیا ہے اور سب نسخوں میں ’ تری ‘ بغیر ’ یا ‘ چھپا ہوا ہے ، لیکن اس میں یہ قباحت ہے کہ دوسرا رکن فاعلات ہونا چاہئے ، اس کی جگہ پر مفقلن ہو جاتا ہے تو ضرور ہے کہ ’ تیری ‘ کہا ہو گا ، مصنف نے اور اس صورت میں وزن مستقیم رہتا ہے کہ ’ تیری ‘ میں سے آخر کی ’ ی ‘ کو گرادیں اور درمیان کی ’ ی ‘ باقی رکھیں ۔

شرح طباطبائ، منقول از ذکا صدیقی:
یہ وزن مانوس اوزان میں سے نہیں ہے ۔ اس وجہ سے کاتب نے اپنے وزنِ مانوس کی طرف پہلے مصرع کو کھینچ لیا ہے ۔ اور سب نسخوں میں ’ تری ‘ بغیر ’ یا ‘ چھپا ہوا ہے ، لیکن اس میں قباحت ہے کہ دوسرا رکن فاعلاتُ ہونا چاہیے تھا ۔ اس کی جگہ پر مفتعلن ہو جاتا ہے۔ تو ضرور ہے کہ’ تیری ‘ کہا ہوگا مصنف نے ، اور اس صورت میں و ز ن مستقیم رہتا ہے کہ ’ تیری ‘ میں سے آخر کی ’ ی ‘ کو گرا دیں اور درمیان کی ’ ی ‘ باقی رکھیں ۔
( استدراک :۔ ’ بحر کا نام ہے منسرح مطوی منحور ۔ ’ چراغِ سخن ‘ میں زحافِ نحر کا ذکر ہے ۔ یہ اصطلاح ’ میزان الافکار ‘ اور ’ حدایق البلاغت ‘میں نہیں ملی ۔ مگر بات صحیح ہے ۔ دوسروں نے کچھ اور نام رکھا ہے ۔ اس بحر کی اصل دایرے میں مستفعلن مفعولات چار بار ہے۔ مستفعلن زحافِ طی سے مفتعلن ہو گیا اور مفعولات زحافِ نحر سے فع رہ گیا ۔ اس طرح وزن مفتعلن فع پیدا ہوا ۔ اس کا نام ہوا بحر منسرح مطوی منحور،غالبؔ کے مصرع :گریہ نکالے ہے تری بزم سے مجھ کو ‘ پرنظمؔطباطبائی نے اپنی شرح میں مفصل نوٹ لکھا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب ان کا یہ ہے کہ دوسرے رکن میں فاعلات ُپیدا کرنے کے لیے ’ تیری ‘ کی آخری ’ ی ‘ گرا کر ’ تے رِ ‘ پڑھنا چاہیے۔ یعنی اس طرح تقطیع کرو۔گری ن کا ۔۔ ۔۔۔۔۔۔! مفتعلن ۔ لے ہ تے رِ ! فاعلاتُ ۔ بزم سے مجھ ! مفتعلن ۔ کو ! فع’ تیری ‘ پڑھنے سے جو وزن پیدا ہوتا ہے وہ ’ مفتعلن مفتعلن مفتعلن فع ، منسرح کا وزن نہیں ہے ۔ یہ سب ارکان رجز کے ہو جاتے ہیں ۔ یہ وزن مانوس ہے ، خوش آیند ہے ، غلط نہیں معلوم ہوتا ۔ مگر قباحت یہ ہے کہ ساری غزل تو بحرِ منسرح میں ہے اور اسی کا ایک مصرع بحرِ رجز میں ‘ ۔ (حبیب الرحمٰن الصدّیقی میرٹھی ، ’ مکاتیبِ حبیب ‘ ، مکتوب بنام ذکاؔ صدّیقی ،ص ۸۴ )

ذکا میں حوالے سے لگتا ہے کہ یہ استدراک خود ذکا کا ہے۔ وارث اور دوسرے سخن وران کا کیا خیال ہے اس ضمن میں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ اعجاز صاحب۔

بحر منسرح مثمن مطوی منحور اتنی نا مانوس بحر بھی نہیں ہے اور کافی کلام مل جاتا ہے اس میں۔ چراغِ سخن کا صحیح ذکر کیا ہے ذکاء صاحب، میں نے یہ بحر اور یہ زحاف (نحر) اس کتاب میں دیکھا ہے بلکہ اسکا ذکر بحر الفصاحت میں بھی ہے۔

اس بحر کا وزن

مُفتَعِلُن فاعلات مُفتَعِلُن فع ہے۔

اب غالب کی غزل دیکھتے ہیں

آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
طاقتِ بیدادِ انتظار نہیں ہے

آ کِ مری - مُفتَعِلُن
جان کو قَ - فاعلات
رار نہی - مُفتَعِلُن
ہے - فع

طاقتِ بے - مُفتَعِلُن
دادِ انتِ - فاعلات
ظار نہی - مُفتَعِلُن
ہے - فع

یعنی یہ غزل منسرح مطوی منحور میں ہی ہے، اب مذکور شعر (یا مصرع) دیکھتے ہیں۔

گریہ نکالے ہے تیری بزم سے مجھ کو

گر یَ نکا - مُفتَعِلُن
لے ہ تے رِ - فاعلات
بزم سے مُج - مُفتَعِلُن
کو - فع

یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ شعر میں:

-لفظ "تیری" چاہیئے نا کہ "تری" یعنی پہلی "ی" ہر صورت میں چاہیئے۔
- لفظ "تیری" کی آخری "ی" تقطیع میں سے گرا کر "رِ" پڑھا جائے گا۔
- لفظ "تیری" کو "تری" کرنے سے اس مصرع کا وزن "مفتعلن مفتعلن مفتعلن فع" ہو جاتا ہے اور یوں بحر بدل جاتی ہے۔
- اگر کسی نسخے میں "تیری" کی جگہ "تری" لکھا ہے تو اسے کاتب کی غلطی محمول کرنا چاہیئے۔


میری ناچیز رائے میں نظم طباطبائی کی بات بالکل درست ہے کہ شعر میں وزن پورا کرنا کیلیئے لفظ "تیری" ہونا چاہیئے نا کہ "تری"۔

والسلام
 
Top