کشمیر ہو، غزہ ہو، یا پھر ہو میانمار

اساتذہِ کرام جناب محمد یعقوب آسی صاحب اور جناب الف عین صاحب اور دیگر صاحبانِ علم و محفلین سے گزارش ہے کہ غزل کی کوتاہیوں بارے نشاندہی فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔​
کشمیر ہو، غزہ ہو، یا پھر ہو میانمار
دنیا لہو سے ہو گئی مسلم کےلالہ زار
کڑھتا ہے دل یہ میرا تو اشکوں سے آنکھ نم
جُز اسکے پاس کچھ نہیں میرے، میں شرمسار
دولت تو بے بہا ہے یوں اہلِ عرب کے پاس
فاروق سا رہا نہ کوئی اب وفا شعار
حالت ہے ایسی اپنے ہی اعمال کے سبب
کردار اپنا جو ہوا پستی سے ہمکنار
بادل یہ ظلمتوں کے چھٹیں روشنی ہو پھر
مولا کرم کی بھیک دے تیرا ہے اختیار
سختی سے اس خزاں کی تو احمدؔ نہ ہو ملول
امید رکھ، چمن میں کبھی لوٹے گی بہار
 
یہ غزل نہیں ہے، غزلیہ اسلوب میں نظم ہے۔
اس پر محنت کیجئے، بہت عمدہ نظم بنے گی۔ اس میں ایک شعر ایک مضمون کی قید ہٹا دیجئے۔
ایسی نظموں میں تشنگی اور عجزِ بیان کی گنجائش نہیں ہوا کرتی۔ مضامین اگر زیادہ پھیل جاتے ہیں تو نظم کو ایک سے زیادہ حصوں میں تقسیم کر لیجئے؛ قطعہ بند، ترکیب بند، ترجیع بند وغیرہ کا میدان بہت کھلا ہے۔ ہیئت سے قطع نظر؛ شکوہ، جواب شکوہ، طلوعِ اسلام، ساقی نامہ، مسجدِ قرطبہ جیس نظموں کو سامنے رکھئے۔
کوشش کیجئے کہ آپ کے الفاظ آپ کے ملی افکار کے نمائندہ ہوں۔
بات چونکہ امت کی ہو رہی ہے وہ بھی آج کے حالات کے تناظر میں، سو، اس کو محسوساتی سطح پر مضبوط تر ہونا چاہئے۔
 
یہ غزل نہیں ہے، غزلیہ اسلوب میں نظم ہے۔
اس پر محنت کیجئے، بہت عمدہ نظم بنے گی۔ اس میں ایک شعر ایک مضمون کی قید ہٹا دیجئے۔
ایسی نظموں میں تشنگی اور عجزِ بیان کی گنجائش نہیں ہوا کرتی۔ مضامین اگر زیادہ پھیل جاتے ہیں تو نظم کو ایک سے زیادہ حصوں میں تقسیم کر لیجئے؛ قطعہ بند، ترکیب بند، ترجیع بند وغیرہ کا میدان بہت کھلا ہے۔ ہیئت سے قطع نظر؛ شکوہ، جواب شکوہ، طلوعِ اسلام، ساقی نامہ، مسجدِ قرطبہ جیس نظموں کو سامنے رکھئے۔
کوشش کیجئے کہ آپ کے الفاظ آپ کے ملی افکار کے نمائندہ ہوں۔
بات چونکہ امت کی ہو رہی ہے وہ بھی آج کے حالات کے تناظر میں، سو، اس کو محسوساتی سطح پر مضبوط تر ہونا چاہئے۔
راہنمائی فرمانے کے لئے بہت بہت شکریہ استادِ محترم آپ کے ارشادات کی روشنی میں کوشش کروں گا اس کو نظم میں تبدیل کرنے کی۔ ویسے غزل ہاتھ نہیں آ رہی اب تک نہ جانے نظم کے لوازمات پورے کر پاؤں گا کہ نہیں۔
 
غزلیہ نظم میں بھی ایک سہولت ہے کہ
آپ دو تین چار بیت ایک قافیے میں کہیں، اگلے دو تین چار کسی اور قافیے میں اگلے کسی اور قافیے میں؛ بحر ایک ہی رہے۔ چاہیں تو ایسے ہر "بند" کے آخر میں ایک بیت ایسا لے آئیں جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں، یہ ضروری بھی نہیں۔
یعنی آپ پر غزل والی ساری پابندیاں نہیں ہیں۔
 
غزلیہ نظم میں بھی ایک سہولت ہے کہ
آپ دو تین چار بیت ایک قافیے میں کہیں، اگلے دو تین چار کسی اور قافیے میں اگلے کسی اور قافیے میں؛ بحر ایک ہی رہے۔ چاہیں تو ایسے ہر "بند" کے آخر میں ایک بیت ایسا لے آئیں جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں، یہ ضروری بھی نہیں۔
یعنی آپ پر غزل والی ساری پابندیاں نہیں ہیں۔
جی بہت بہتر استادِ محترم کوشش کروں گا اس مضمون کو نظم کرنے کی۔
 
جی بہت بہتر استادِ محترم کوشش کروں گا اس مضمون کو نظم کرنے کی۔
دیا جلا کے چوک میں رکھنے والی بات ہے، کچھ باتیں آپ کے اشعار کے حوالے سے اور کچھ عمومی، وہی جو میں اکثر کہتا رہتا ہوں، یاد دلاتا چلوں۔

اولین یہ ہے کہ ۔۔۔ اظہار کے درجنوں پیرائے ہیں؛ میں نے شعر ہی کا انتخاب کیوں کیا؟ جمالیات کے لئے، اپنی بات کو عمدہ اور مؤثر بنا کر پیش کرنے کے لئے۔ جمالیات کے پھر کئی انداز ہیں؛ ان میں سے ایک ہے اوزان کا نظام اور اس سے ہم آہنگی۔ شعر کا منصب محض عروضی پابندیوں کو نبھانا نہیں، اس کا منصب و مقصد اس سے کہیں آگے ہے۔ عروض کو ایک معاون کے طور پر لیجئے مقصود کے طور پر نہیں۔ جہاں عروضی قواعد پورے ہو گئے، وہاں شعر بھی مکمل ہو گیا؟ نہیں! شعر اس سے آگے کا مرحلہ ہے۔
 
کشمیر ہو، غزہ ہو، یا پھر ہو میانمار
دنیا لہو سے ہو گئی مسلم کےلالہ زار

لفظ "یا" کی بندش دو حرفی ہی اچھی لگتی ہے۔ "یا" استبدال کا ہے تو ہمارے پاس اس کا متبادل لفظ "کہ" موجود ہے، اس کو یک حرفی باندھنا ہی اچھا لگتا ہے (میں نے بھی کہیں کہیں دو حرفی باندھا ہے؛ اس پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے، تاہم یہ موقع نہیں)۔ آپ کے مصرعے میں "یَپھِر" ادا ہو رہا ہے۔ مجھے تو اچھا نہیں لگتا، پسند اور ترجیح اپنی اپنی۔

یہاں دوسری بات لالہ زار والی ہے۔ معروف معانی میں لالہ زار مسرت کا مظہر ہے جو اِس شعر کا منشا ہرگز نہیں۔ اگر آپ یہاں طنزاً لالہ زار کہہ رہے ہیں تو شعر کے سیاق و سباق میں اس طنز کا شائبہ ہونا چاہئے۔
 
کڑھتا ہے دل یہ میرا تو اشکوں سے آنکھ نم
جُز اسکے پاس کچھ نہیں میرے، میں شرمسار

مضمون بڑا ہے اور آپ کے اس شعر میں الفاظ کا "بے جا اسراف" ہے۔ دل یہ میرا، اشکوں سے؛ جز اس کے (اس کے کو الگ الگ لکھا کریں)، اور آخر شرمسار کو "ہوں" بھی میسر نہیں ہوا۔ میرا دل کڑھتا ہے، میں کڑھتا ہوں، آنکھ نم کہہ دیا تو اشک از خود مذکور ہو گئے؛ میرے پاس اور کچھ نہیں یا کچھ بھی نہیں ۔۔ کفایتِ لفظی کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ پھر ایک چیز ملائمت ہے، شعر پڑھنے میں جھٹکا نہ لگے۔ ورنہ جمالیات تو گئی!
 
دولت تو بے بہا ہے یوں اہلِ عرب کے پاس
فاروق سا رہا نہ کوئی اب وفا شعار

یہاں کچھ سطحیت سی آ گئی ہے۔ برونائی دارالسلام کا احوال شاید آپ نے نہیں دیکھا سنا؛ ہمارے اپنے "بڑے لوگ" ہیں۔ خیر! یہ میرا موضوع نہیں، نظم کا ہے؛ جیسے آپ مناسب سمجھیں، شعر کی طرف آتے ہیں۔
یوں ۔۔ دب گیا، اس کی تو سرے سے ضرورت ہی نہیں تھی۔ یہاں امت کے حوالے سے اہلِ عرب کو جوارِ حرم کے باسی کہا جاتا تو شعر کی تاثیر بڑھ جاتی۔ فاروق آپ کا نام بھی ہے، شعر بھی آپ کا ہے، قاری کا ذہن آپ کی طرف مڑ جائے تو وفاشعاری کا دعویٰ آپ کا ہوا؟ آپ کا مقصود سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں؛ اس میں کوئی اشتباہ نہیں رہنا چاہئے۔
 
حالت ہے ایسی اپنے ہی اعمال کے سبب
کردار اپنا جو ہوا پستی سے ہمکنار
دونوں مصرعوں کا مضمون ایک ہی ہے؛ اسی کی تکرار ہے الفاظ مختلف ہو گئے بس۔ ہم کنار عام طور پر کامیابی کے معانی میں لیا جاتا ہے؛ آپ اس کے الٹ معانی لے سکتے ہیں مگر لفظ کو اجنبی نہیں لگنا چاہئے۔ یا ایسا نہ لگے کہ اسے کوئی معانی جبراً پہنائے گئے ہیں۔
 
بادل یہ ظلمتوں کے چھٹیں روشنی ہو پھر
مولا کرم کی بھیک دے تیرا ہے اختیار
اوپر جو کردار کی بات کی، وہ تشنہ رہ گئی۔ ظلمتوں کے بادل چھٹیں بات پوری ہو گئی، روشنی ہو پھر ۔۔ ان کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
دوسرا مصرع بہت ڈھیلا ہے۔ مناجات میں جو خود سپردگی اور یہاں مضمون کی مناسبت سے شرمندگی مطلوب ہے وہ نہیں آ پائی۔ پہلا آدھا مصرع جو بچتا ہے اس کو کام میں لائیے۔
 

arifkarim

معطل
کشمیر ہو، غزہ ہو، یا پھر ہو میانمار
ان علاقوں میں کیا مشترک ہے؟
دولت تو بے بہا ہے یوں اہلِ عرب کے پاس
یہاں امت کے حوالے سے اہلِ عرب کو جوارِ حرم کے باسی کہا جاتا تو شعر کی تاثیر بڑھ جاتی۔
امت کی جو تعریف ہمارے برصغیر میں کی جاتی ہے وہ مسلم دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتی۔
 
سختی سے اس خزاں کی تو احمدؔ نہ ہو ملول
امید رکھ، چمن میں کبھی لوٹے گی بہار

یہاں تُو مراد ہے یا تو؟ اس سے قطع نظر یوں لگتا ہے کہ نظم کو ارادی طور پر لپیٹ لیا گیا۔ پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ؛ بعینہٖ وہی مضمون۔ یہاں اقبال نے پوری نظم کہہ دی کہ اس عنوان کا جواز فراہم کرنا تھا۔ لوٹے گی؛ ے گئی! حروف کو گرانا آپ کا اختیار ہے مگر بھائی آپ کا خوش ذوق قاری بھی آپ پر کچھ حق رکھتا ہے۔
 
ان علاقوں میں کیا مشترک ہے؟
مسلمانوں کی نسل کشی
امت کی جو تعریف ہمارے برصغیر میں کی جاتی ہے وہ مسلم دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتی۔
اور محترم آپ حفظِ مراتب کا خیال رکھیئے آپ نے چھیڑ چھاڑ کرنی ہے تو ہم حاضر ہیں ۔استاد محترم کے ساتھ اس طرح کی گفتگو ہمیں پسند نہ آئی آپ کی اور یہ کچھ ہم سے برداشت نہ ہو سکے گا۔
 
مسلمانوں کی نسل کشی

اور محترم آپ حفظِ مراتب کا خیال رکھیئے آپ نے چھیڑ چھاڑ کرنی ہے تو ہم حاضر ہیں ۔استاد محترم کے ساتھ اس طرح کی گفتگو ہمیں پسند نہ آئی آپ کی اور یہ کچھ ہم سے برداشت نہ ہو سکے گا۔

یہ جملہ آپ نے جس کے جواب میں لکھا ہے، وہ تبصرہ دکھائی نہیں دے رہا۔ تاہم یہ تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی نسل کُشی ہو رہی ہے۔ میانمار میں یہی کچھ تو ہوا ہے،گجرات میں بھی، غزہ میں بھی! ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
اور
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

ہمیں خبردار بھی کیا گیا کہ وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ اس کے باوجود اگر ہم خود ان کے در پر جبیں سائی کریں گے تو فلاح کہاں سے آئے گی؟ بات دور چلی جائے گی، یہاں تو فلاح کے معانی تک بدل گئے ہیں!۔
 
نصف شب کا عمل ہے، اجازت چاہتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ استادِ محترم اتنے مفصل طریقے سے اصلاح کرنے کے لئے
اور میری غلطیوں کے حوالے سے میرا ہی ایک شعر ہے کہ
میرا یہ عجز ہے کہ میں عاجز زباں سے ہوں
اس عاجزی نے کر دیا ہے مجھ کو بے نوا
 
یہ جملہ آپ نے جس کے جواب میں لکھا ہے، وہ تبصرہ دکھائی نہیں دے رہا
12 نمبر مراسلہ ہے استادِ محترم
یہاں تو فلاح کے معانی تک بدل گئے ہیں!۔
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
 

arifkarim

معطل
مسلمانوں کی نسل کشی
مسلمانوں کی نسل کشی تو عراق میں داعش کے ہاتھوں، شام میں حزب اللہ کے ہاتھوں اور یمن میں سعودیوں کے ہاتھوں کب کی ہو رہی ہے، البتہ ہمیں یہ تب ہی نظر آتا جب یہ نسل کشی غیر مسلم کریں۔

اور محترم آپ حفظِ مراتب کا خیال رکھیئے آپ نے چھیڑ چھاڑ کرنی ہے تو ہم حاضر ہیں ۔استاد محترم کے ساتھ اس طرح کی گفتگو ہمیں پسند نہ آئی آپ کی اور یہ کچھ ہم سے برداشت نہ ہو سکے گا۔
جناب ہم نے ہرگز کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ ہم صرف یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ کشمیر، فلسطین، میانمار جیسے الگ اور منفرد علاقوں میں ایسا کیا مشترک ہے جس کے بارہ میں آپ لکھ رہے ہیں۔

یہ جملہ آپ نے جس کے جواب میں لکھا ہے، وہ تبصرہ دکھائی نہیں دے رہا۔ تاہم یہ تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی نسل کُشی ہو رہی ہے۔ میانمار میں یہی کچھ تو ہوا ہے،گجرات میں بھی، غزہ میں بھی! ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
متفق۔ اسمیں کافی حد تک قصور مسلمانوں کا بھی ہے جو بیرونی طاقتوں کیخلاف متحد ہونے کی بجائے آپس میں ہی لڑتے مرتے رہتے ہیں۔ شام میں ہونے والی 4 سالہ خانہ جنگی کے دوران 2 لاکھ سے زائد معصوم شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اگر یہ نسل کشی نہیں ہے تو پھر ہمیں نہیں معلوم کہ نسل کشی کسے کہتے ہیں زیک

ہمیں خبردار بھی کیا گیا کہ وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ اس کے باوجود اگر ہم خود ان کے در پر جبیں سائی کریں گے تو فلاح کہاں سے آئے گی؟ بات دور چلی جائے گی، یہاں تو فلاح کے معانی تک بدل گئے ہیں!۔
ممالک کے مابین دوستیاں، دشمنیاں نہیں ہوتیں، اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔
 
مسلمانوں کی نسل کشی تو عراق میں داعش کے ہاتھوں، شام میں حزب اللہ کے ہاتھوں اور یمن میں سعودیوں کے ہاتھوں کب کی ہو رہی ہے، البتہ ہمیں یہ تب ہی نظر آتا جب یہ نسل کشی غیر مسلم کریں۔
100 فیصد متفق ہمیں وہ بھی نظر آ رہا ہے
جناب ہم نے ہرگز کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ ہم صرف یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ کشمیر، فلسطین، میانمار جیسے الگ اور منفرد علاقوں میں ایسا کیا مشترک ہے جس کے بارہ میں آپ لکھ رہے ہیں۔
میں نے چھیڑ چھاڑ اس حوالے سے کہا ہی نہیں تھا۔
اور جس حوالے سے کہا تھا آپ نے وہی حرکت دوبارہ کی استادِ محترم کے مراسلوں کا اقتباس لے کر جرح کی خاطر۔ جس سے میں نے آپ کو منع کیا تھا کہ یہ اصلاح سخن کا سیکشن ہے۔ اور میں اساتذہ سے یہاں اصلاح لینے کے لئے آیا ہوں آپ کی تشرف آوری کی قطعا ضرورت نہ تھی یہاں پر۔ کہ یہ باتیں کسی اور زمرے میں بھی ہو سکتی ہیں۔
اور آخر میں
لگتا ہے آپ کی اوپر والی منزل بالکل خالی ہے اور آپ کو کسی نے تمیز نام کی چیز سے روشناس نہیں کرایا۔
 
Top