انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اس وقت ہر جانب زبردست بے چینی پائی جاتی ہے
انڈيا کے زیر انتظام کشمیر میں حالات دن بدن بدتر ہوتے جا رہے ہیں جہاں انتظامیہ نے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ان حالات میں ایک کشمیری طالب علم کیا سوچتا ہے؟
بی بی سی نے ایسے ہی ایک کشمیری طالب علم سے موجودہ صورتحال سے متعلق بات چیت کی تو انھوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنے تجربات بتائے۔
ان کا کہنا تھا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم کشمیری طالب علم کشمیر میں ہی محفوظ نہیں۔ تقریباً نو سالوں سے میں یہی سب دیکھ رہا ہوں۔
سنہ 2008 کے بعد سے ہمیشہ میں نے یہی بحران دیکھا ہے۔ بچپن سے ہی اس طرح کے حالات دیکھتے رہنے سے دماغ میں یہی چلتا رہتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
یہاں ایسے حالات بن گئے ہے کہ نوجوان اب اپنے گھروں سے نہیں نکل سکتے، طلبا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔ فوج سکولوں اور کالجوں تک میں گھس جاتی ہے۔ ایسے حالات انڈیا کی دوسری ریاستوں میں تو نہیں ہیں، پھر کشمیر میں ایسا کیوں ہے؟'
فوج کو کسی کو بھی قتل کرنے کا حق حاصل ہے لیکن کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا۔ آخر کیوں؟ ہم تو کشمیر میں امن چاہتے ہیں۔
یہاں سبھی کو مستقبل کی فکر ہے لیکن گھر سے باہر نکلنے تک میں ہمیں ڈر لگتا ہے۔ کوئی آکر یہاں کا منظر دیکھے تو خوف محسوس کرے گا۔
ہم طلبا کو کسی نے کچھ کرنے پر مجبور نہیں کیا، کسی نے اکسایا نہیں ہے۔ طالب علم خود سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور اپنی آواز اٹھا رہے ہیں۔
اور جہاں تک انٹرنیٹ پر پابندی کی بات ہے تو کہیں اور ایسی پابندی کیوں نہیں ہے؟
تصویر کے کاپی رائٹ AFP
دہلی میں تو کوئی بغیر انٹرنیٹ کے رہ بھی نہیں پائے گا۔ یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ سکول کالج کھلے رہتے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، سکول کالج بند کرنے سے نوجوانوں میں مزید ہلچل پیدا ہوتی ہے۔
ان کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے طلبا کو اور زیادہ پریشانیاں ہو رہی ہیں۔
امن کے قیام کا انحصار اب اس بات پر ہے کہ آخر حکومت نوجوانوں کے تئیں کس طرح کی پالیسیاں اپناتی ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انڈین سکیورٹی فورسز کی جانب سے ہونے والی مبینہ زیادتیوں سے متعلق حال ہی میں کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شائع ہوئی ہیں جس میں نیم فوجی دستے نوجوانوں پر مظالم ڈھاتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔
پولیس نے بعض معاملات میں فوج کے خلاف مقدمات بھی درج کیے ہیں۔
انڈیا: ’کشمیر میں فوج کسی کو بھی قتل کرے کوئی سوال نہیں کرتا‘ - BBC Urdu
انڈيا کے زیر انتظام کشمیر میں حالات دن بدن بدتر ہوتے جا رہے ہیں جہاں انتظامیہ نے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ان حالات میں ایک کشمیری طالب علم کیا سوچتا ہے؟
بی بی سی نے ایسے ہی ایک کشمیری طالب علم سے موجودہ صورتحال سے متعلق بات چیت کی تو انھوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنے تجربات بتائے۔
ان کا کہنا تھا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم کشمیری طالب علم کشمیر میں ہی محفوظ نہیں۔ تقریباً نو سالوں سے میں یہی سب دیکھ رہا ہوں۔
سنہ 2008 کے بعد سے ہمیشہ میں نے یہی بحران دیکھا ہے۔ بچپن سے ہی اس طرح کے حالات دیکھتے رہنے سے دماغ میں یہی چلتا رہتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟


یہاں ایسے حالات بن گئے ہے کہ نوجوان اب اپنے گھروں سے نہیں نکل سکتے، طلبا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔ فوج سکولوں اور کالجوں تک میں گھس جاتی ہے۔ ایسے حالات انڈیا کی دوسری ریاستوں میں تو نہیں ہیں، پھر کشمیر میں ایسا کیوں ہے؟'
فوج کو کسی کو بھی قتل کرنے کا حق حاصل ہے لیکن کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا۔ آخر کیوں؟ ہم تو کشمیر میں امن چاہتے ہیں۔
یہاں سبھی کو مستقبل کی فکر ہے لیکن گھر سے باہر نکلنے تک میں ہمیں ڈر لگتا ہے۔ کوئی آکر یہاں کا منظر دیکھے تو خوف محسوس کرے گا۔
ہم طلبا کو کسی نے کچھ کرنے پر مجبور نہیں کیا، کسی نے اکسایا نہیں ہے۔ طالب علم خود سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور اپنی آواز اٹھا رہے ہیں۔
اور جہاں تک انٹرنیٹ پر پابندی کی بات ہے تو کہیں اور ایسی پابندی کیوں نہیں ہے؟
تصویر کے کاپی رائٹ AFP
دہلی میں تو کوئی بغیر انٹرنیٹ کے رہ بھی نہیں پائے گا۔ یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ سکول کالج کھلے رہتے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، سکول کالج بند کرنے سے نوجوانوں میں مزید ہلچل پیدا ہوتی ہے۔
ان کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے طلبا کو اور زیادہ پریشانیاں ہو رہی ہیں۔
امن کے قیام کا انحصار اب اس بات پر ہے کہ آخر حکومت نوجوانوں کے تئیں کس طرح کی پالیسیاں اپناتی ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انڈین سکیورٹی فورسز کی جانب سے ہونے والی مبینہ زیادتیوں سے متعلق حال ہی میں کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شائع ہوئی ہیں جس میں نیم فوجی دستے نوجوانوں پر مظالم ڈھاتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔
پولیس نے بعض معاملات میں فوج کے خلاف مقدمات بھی درج کیے ہیں۔
انڈیا: ’کشمیر میں فوج کسی کو بھی قتل کرے کوئی سوال نہیں کرتا‘ - BBC Urdu