کشمیر پاکستان کی شہ رگ تھی؟

کشمیر پر ظلم و استبداد کا ایک اور سال گزر گیا۔ 5اگست 2019 کو بھارت نے اپنے آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کر دیا جس کے مطابق کشمیر کو الگ ریاست کا درجہ ختم کر دیا گیا اور اسے بھارت کے اندر انتظامی طور پر ضم کر دیا گیا۔ کشمیریوں کے لئے یہ حکم ظلم و زیادتی پر مبنی ہے۔ وہاں لاک ڈاون تھا۔ دنیا سے کوئی رابطہ نہیں۔ بیماروں کے لئے ادویات و علاج ناپید۔ گھروں میں بند، اشیاء ضروریہ کا کال۔ گھروں سے بچے غائب کئے جارہے۔ بیٹیاں اغوا ہو رہی۔ پھر ان آہوں اور سسکیوں کا قہر پوری دنیا پر آیا اور سب نے دیکھا کہ لاک ڈاون کیا ہوتا ہے؟ خوراک کی قلت کیا ہوتی ہے؟ علاج بروقت نا ملے تو کیا ہوتا ہے؟
5 فروری کی طرح ہم 5 اگست بھی منانے لگ جائیں گے مگر عملی اقدام کا ہم سے مطالبہ نا کیا جائے۔ ہم دھوپ سینک لیں گے ، ٹیویٹر پر ٹرینڈ بنا کر، ترانے بنا کر بھارت کے دانت کھٹے کریں گے مگر ہمیں عملی قدم اٹھانے کا نہ کہا جائے۔ میں آج آپ کو اپنی کشمیر سے محبت کی کہانی سناتی ہوں یہ شاید 80 کی دھائی تک کی نسل جان اور سمجھ سکے۔

"کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے" یہ وہ جملہ ہے جو ہم بچپن سے سنتے اور مانتے آئے ہیں۔ کشمیر کی محبت ہمیں نصاب کے ساتھ پڑھائی اور بڑھائی گئی۔ میں بہت بچپن کو سوچتی ہوں تو سکول کی پہلی جماعت کی اگر کوئی یاد روشن ہے وہ ہمارے سینئر طالب علم کا وہ نغمہ "پیاری ماں مجھ کو تیری دعا چاہیئے۔ جب شہادت ملے مجھ کو کشمیر میں اور کیا چاہیئے"

جس قصبے سے میرا تعلق ہے اس کے قریب اس وقت جہادی ٹریننگ کیمپ ہوا کرتا تھا( تب تک جہاد دہشت گردی نہیں ہوتا تھا) وہاں سے اکثر مجاہدین کو سکول میں مدعو کیا جاتا تھا۔ہم انہیں بہت عقیدت احترام اور محبت سے دیکھتے۔ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کی فلمیں جہادی نغموں کے ساتھ دکھائی جاتی تھیں۔ " دل دل ہے کشمیر جان جان پاکستان" جیسے نغموں نے ذہن میں پختہ کر دیا تھا کہ کشمیر ہماری رگ جاں ہے اور " آج نہیں تو اگلی شام ہند کا ہو گا کام تمام"
ہمارے سکول میں ایک بچہ داخل ہوا اسامہ مجاہد نام تھا۔ اس کی عمر 10/ 12 سال کے لگ بھگ ہو گی۔ اس کے والد جہاد کشمیر میں شہید ہو چکے تھے۔ وہ سکول بھی پڑھ رہا تھا اور جہاد کی ٹریننگ بھی لے رہا تھا۔ اس کے لئے اساتذہ اور طلبہ کے دل میں محبت ہی محبت تھی۔ ہمارا سکول ٹرپ جانا تھا سب نے آزاد کشمیر جانے کا مطالبہ کیا۔ پھر دریا نیلم اور وادی نیلم کے سامنے کھڑے ہمیں بتایا گیا کہ یہاں سے کشمیریوں کی لاشیں تیرتی آتی ہیں۔ یہ سب دیکھ کر ہمارا خون جوش مارتا کہ کاش ہم کشمیر کو آزادی دلا سکیں ۔۔۔
پی ٹی وی پر جب خبریں نشر ہوتیں تو اہم خبر کے بعد دوسرے نمبر پر کشمیر کی خبریں ہوا کرتی تھیں۔ کشمیر ٹائم کے نام سے کشمیر کے حالات سے آگاہی کے لئے پروگرام ہوتا تھا۔ اس میں ایک سگمنٹ تھا "آئینہ ان کو دکھایا" جو ہم بچے ہونے کے باوجود بہت شوق سے دیکھتے تھے۔ اس کا ایک جملہ " پھر نہ کہنا ہمیں خبر نا ہوئی " اب بھی ذہن میں تازہ ہے۔ اخبار میں بھی کشمیر کی خبریں بیک پیج پر ہوا کرتی تھیں۔۔ ٹی وی ڈراموں میں "انگار وادی" "محاصرہ" "لاگ" ہوا کرتے تھے۔ اس وقت تمام پاکستانی کشمیر کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد محسوس کرتے تھے۔
پھر یوں ہوا کہ کشمیر کی خبریں کم ہوتی گئیں۔ پہلے خبرنامے کے آخر میں اور پھر غائب کر دی گئیں۔ اخبار میں کہیں اندر کے صفحے پر چلی گئیں۔ جہاد دہشت گردی قرار پایا ہوں تو جہاد کشمیر اور جہاد افغان پر فخر کرنے والے بڑے نام صفائیاں دیتے نظر آئے۔ آمریت کے بدترین دور میں " سب سے پہلے پاکستان " کا نعرہ بلند ہوا تو سب کچھ دھندلاتا چلا گیا۔ کشمیر کے ساتھ وہ وابستگی نہیں رہی جیسی رہا کرتی تھی۔ جہاد کے فلسفے کو ہی مسخ کر دیا تو کس طرح بچوں کو سکھایا جاتا کہ کشمیر پاکستان کے لئے کیا حیثیت رکھتا ہے۔ 5 فروری کی روح سے کوئی واقف نا رہا ہاں اس دن چھٹی ہوتی ہے سرکاری تعطیلات کا ایک دن ہے۔ جذباتی عمر گزری تو بہت کچھ واضح ہونے لگا۔ یونیورسٹی کے پروفیسر صاحب سے کشمیر، لداخ اور شمالی علاقہ جات پر مفصل لیکچر کے بعد میں نے پوچھا کہ ہماری حکومت کیوں نہیں چاہتی کشمیر کی آزادی حالانکہ دعوے تو بہت ہیں وعدے تو بہت ہیں ؟ ان کا جملہ بہت تیکھا تھا کہنے لگے ہماری مثال یوں ہے " نہ کھیلیں گے نا کھیلنے دیں گے"

کشمیر کا مقدمہ ہم بہت سے مقدمات کی طرح مذاکرات کی نظر کر چکے ہیں۔ ہمیں توفیق ہوئی تو جمعہ کو ایک آدھ گھنٹہ دھوپ سیکنے کی۔ ان کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے اسلام آباد میں لاک ڈاون کلاک لگا دی۔ حسین و جمیل وزیراعظم نے تقریر کر لی اور ۔۔۔۔ کچھ ترانے بنا لئے۔ ہم نے کشمیر کو یک لخت نہیں کھویا۔ ہم نے بہت کوشش سے محنت سے کھویا ہے کشمیر۔ ہماری نسل شاید وہ آخری نسل ہے جس کے خون میں کشمیر کی محبت شامل تھی آنے والی نسلوں کو کیا معلوم کہ کیسے ہمیں کشمیر کی محبت پلائی گئی تھی۔
میں جب سوچتی ہوں کہ کیسے آج بھی وہ مائیں بہنیں ہماری منتظر ہیں جن سے ہمارا وعدہ تھا" میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن، ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن" وہ منتظر آنکھیں ہمیں شرم سے پانی پانی کر رہی ہیں ۔ وہ ہم سے کہتی ہیں کہ ہم اپنے پیاروں کو سبز ہلالی پرچم میں دفناتے رہے ہیں مگر تم کہاں ہو؟ وہ ہم سے پوچھ رہی ہیں تم تو کہتے تھے " کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے" کیا کسی نے ایسا وجود دیکھا ہے جو شہ رگ کے کٹ جانے پر باقی رہ سکے؟؟؟؟
 
Top