کشمیریوں کے لیے خیرِمستور : مقبوضہ کشمیر کا آرٹیکل 370

سڑسٹھ برس قبل شیخ عبداللہ اور پنڈت نہرو نے مذموم مفادات پورے کرنے کی خاطر جو قانونی حربہ اپنایا تھا،آج وہ بھارتی آمریت کے سامنے نہتے کشمیری عوام کا طاقتور ہتھیار بن چکا
27مئی 2014ء کو اودھم پور (جموں)سے کامیاب ہونے والے بی جے پی رہنما‘جیتندر سنگھ وفاقی وزیر بنائے گئے۔ بعدازاں موصوف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ’’مودی حکومت جلد آئین کے آرٹیکل 370پر بحث کا آغاز کرے گی تاکہ اس کی خامیاں سامنے آ سکیں۔‘‘


بھارتی آئین کے درج بالا آرٹیکل نے ریاست مقبوضہ جموں و کشمیر کو خصوصی خود مختار درجہ دے رکھا ہے۔جیسے ہی وفاقی وزیر کا بیان بذریعہ میڈیا عام ہوا،مقبوضہ کشمیر میں ہلچل مچ گئی۔وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے بیان دیا کہ اگر یہ آرٹیکل ختم ہوا،تو مقبوضہ کشمیر بھارت سے الگ ہو جائے گا۔دیگر کشمیری لیڈروں نے بھی مودی سرکارکو آڑے ہاتھوں لیا اور واویلا مچایا کہ آرٹیکل 370کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا جائے۔
سوال یہ ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی اور دیگر ہندو انتہا پسند جماعتوں (سنگھ پریوار)کے لیے یہ آرٹیکل کیوں اتنی اہمیت رکھتا ہے ؟ دراصل یہی آرٹیکل دنیا والوں پہ آشکارا کرتا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر متنازع علاقہ ہے اور یہ ریاست بھارت میں شامل نہیں۔ چونکہ اکھنڈ بھارت کی تشکیل انتہا پسند ہندوئوں کا دیرینہ خواب ہے، سواس کی راہ میں آرٹیکل 370 بہت بڑی رکاوٹ کی حیثیت اختیار کر چکا۔ مزید براں یہ آرٹیکل 370ہی ہے جس کی مخالفت کرتے ہوئے مشہور انتہا پسند ہندو لیڈر،شیام پرساد مکرجی جموں میں ہلاک ہوئے ۔موصوف نے 1951ء میں ایک سیاسی جماعت، جن سنگھ قائم کی جو سنگھ پریوار یا آر ایس ایس (راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ)کا سیاسی روپ تھا۔اسی پارٹی کے بطن سے بھارتی جنتا پارٹی نے جنم لیا جو اب بھارت کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن چکی۔ آج آرٹیکل 370ہی کے باعث ریاست جموں و کشمیر بھارت کا جزو لائینفک نہیں بن سکتی۔ عجیب بات یہ کہ سڑسٹھ سال قبل کشمیری رہنما شیخ عبداللہ اور بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو نے حبِ جاہ اور دولت شہرت و عزت کی خاطر اس آرٹیکل کو تخلیق کیا تھا۔آرٹیکل 370کی داستان حقیقتاً آگ کے شعلوں اور خون کی چھینٹوں سے لتھڑی ہوئی ہے۔


جموں میں مسلمانوں کی نسل کشی
1947ء میں جب بھارت اور پاکستان وجود میں آئے،تو دونوں ممالک میں 565ریاستیں موجود تھیں۔برطانوی منصوبے کے مطابق ہر ریاست کو بھارت یا پاکستا ن میں شمولیت اختیار کرنی تھی۔جموں و کشمیر‘حیدر آباد دکن اورجونا گڑھ اس لحاظ سے منفرد ریاستیں تھیں کہ ا ن کے حکمران ہندو یا مسلم تھے،جبکہ عوام مسلم یا ہندو ۔اسی باعث ان تینوں ریاستوں میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ بھارت نے جونا گڑھ اور حیدر آباد دکن پر یہ کہہ کر قبضہ کر لیا کہ وہاں ہندو بکثرت ہیں۔ لیکن جموں و کشمیر کی 75فیصد آبادی مسلمان تھی جو گزشتہ ایک صدی سے ڈوگرا راج کے مظالم سہتی آ رہی تھی۔ آزادی کے وقت مہاراجہ ہری نگھ جموں و کشمیر کو بھارت میں شامل کرنا چاہتا تھا۔مسئلہ یہی سامنے آیا کہ ریاست میں مسلمان بکثرت آباد ہیں۔سو اس کی ایما پہ ڈوگرا فوج نے مسلم آبادی کی نسل کشی کرنے کا منصوبہ بنا لیا تاکہ ہندوئوں کی تعداد بڑھ سکے۔منصوبے کا آغاز جموں سے ہوا جہاں ہندو و سکھ بھی خاصی تعداد (39فیصد)میں بستے تھے۔چناں چہ اوائل اکتوبر 1947ء سے ڈوگرا فوجی جموں کے نہتے و غریب مسلمانوں پہ پل پڑے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ ڈوگروں نے چند ہفتوں میں دو لاکھ سے زائد مسلمان شہید کر ڈالے۔ یہ مسلم کشی کا نہایت بھیانک واقعہ ہے ۔افسوس کہ اس پہ کم ہی لکھا گیا۔ کشمیری مسلمانوں کو بچانے کے لیے ہی پاکستانی منصوبے کے مطابق 22اکتوبر 1947کو ہزار ہا وزیرستانی قبائلیوں نے ریاست جموں و کشمیر پر دھاوا بول دیا۔وادی کشمیر میں تعینات ڈوگرا فوج پٹھان لشکر کو دیکھتے ہی رفوچکر ہو گئی۔مہاراجہ ہری سنگھ نے مملکت کو ہاتھ سے جاتا دیکھا ،تو 26اکتوبر کو اپنی ریاست بھارت میں شامل کر دی۔ اگلے ہی دن بھارتی فوج ریاست میں داخل ہو گئی۔ بھارتی فوج نفری و اسلحے میں بدتر تھی۔پھر ناتجربے کار قبائلیوں سے بھی بعض تزویراتی غلطیاں سرزد ہوئیں۔نتیجتہً بھارتی فوج نے قبائلیوں اور بعدازاں پاکستانی فوجیوں کو سری نگر میں داخل نہ ہونے دیا۔یوں جموں و کشمیر کے بڑے حصے پر بھارتیوں کا قبضہ ہو گیا۔
آرٹیکل 370
دراصل وزیر اعظم بھارت، پنڈت نہرو کے اجداد کشمیر سے تعلق رکھتے تھے۔سو انہوں نے بھر پور کوششیں کیں کہ یہ ریاست بھارتی وفاق کا حصہ بن جائے۔مگر تقسیم ہند کے برطانوی منصوبے کی رو سے بھارت ریاست کو زبردستی شامل نہیں کر سکتا تھا …یہ فیصلہ کرنے کا اختیارصرف ریاستی عوام کے پاس تھا۔(بحوالہ لارڈ مائونٹ بیٹن کا خط بنام مہاراجہ ہری سنگھ۔)کشمیری رہنما، شیخ عبداللہ اور پنڈت نہرو گہرے دوست تھے۔ شیخ عبداللہ ڈوگرا تسلط سے جموں و کشمیر کی آزادی چاہتے تھے، اسی لیے وہ کئی برس ہری سنگھ حکومت کے زیر عتاب رہے۔ جب بھی شیخ صاحب گرفتار ہوتے، پنڈت نہرو ہی ان کی ضمانت کراتے۔ایک بار تو پنڈت صاحب کو ڈوگرا حکومت نے گرفتار کر لیا اور وہ بڑی مشکل سے رہا ہو ئے۔ نئے کھیل کا آغاز جب مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارتی قبضہ ہوا تو اچانک شیخ عبداللہ کے خیالات بدل گئے ۔اب وہ ریاست کا بلا شرکت غیرے حکمران بننے کے خواب دیکھنے لگے۔پنڈت نہرو کو ان خوابوں سے یوں رغبت محسوس ہوئی کہ شیخ عبداللہ کی حمایت و سعی سے ریاست بھارت کا حصہ بن سکتی تھی۔اسی لیے دونوں رہنما اپنے اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر کوئی طریقہ تلاش کرنے لگے…اس طرح آرٹیکل 370وجود میں آیا۔ یہ دونوں رہنمائو ں کی ذہنی تخلیق ہے جسے ایک قانونی ماہر،گوپال سوامی آئنگر نے آئینی نکات میں بیان کیا۔ یہ آرٹیکل17اکتوبر 1949کو بھارتی آئین کا حصہ بنا ۔اس کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کو خاطر خواہ خود مختاری حاصل ہو گئی۔ حتی کہ بھارتی عوام صرف خصوصی پرمٹ لے کر ہی ریاست میں داخل ہو سکتے تھے۔ انتہا پسند ہندو رہنما شروع سے آرٹیکل 370کی مخالفت کرنے لگے۔حکمران طبقے میں ان کی قیادت سردار ولبھ بھائی پٹیل کے پاس تھی۔ اسی لیے سردار پٹیل نے خوب زور لگایا کہ بھارتی آئین ساز اسمبلی اس آرٹیکل کو منظور نہ کرسکے۔مگر گاندھی جی کے قتل سے انتہا پسند ہندو رہنما کمزورہو گئے۔اس سازگار ماحول سے پنڈت نہرو نے فائدہ اٹھایا اور آرٹیکل اسمبلی سے منظور کرا لیا۔ پنڈت نہرو نے انتہا پسند ہندو رہنمائوں کو یہ کہہ کر مطمئن کرنا چاہا تھا:’’آرٹیکل 370برف کے مانند ہے۔یہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پگھل جائے گا۔‘‘دراصل پنڈت نہرو کو اُمید تھی کہ بھارت سے قربت رکھنے کے باعث دھیرے دھیرے کشمیری مسلمان بھارتی تہذیب و تمدن میں رچ بس جائیں گے۔تاہم انتہا پسندوں نے ان کی منطق تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ یاد رہے،پنڈت نہرو نے 26اکتوبر 1947ء کو اس شرط پہ بھارتی فوج سری نگر بھجوائی تھی کہ مہاراجا ہری سنگھ اقتدار شیخ عبداللہ کے حوالے کر دے گا۔
شیخ صاحب جموں و کشمیر کے بلا شرکت غیرے حاکم
سو 30 اکتوبر سے شیخ صاحب جموں و کشمیر کے بلا شرکت غیرے حاکم بن گئے۔انھوں نے خود کو وزیراعظم کہلوایا اور ٹھاٹ باٹ سے حکومت کرنے لگے۔ گو شیخ عبداللہ کیمونسٹ و سیکولر تھے تاہم ان کی کابینہ میں شامل بعض جوشیلے وزرا نے اعلان کر دیا کہ ریاست میں اسلامی حکومت قائم ہو چکی۔ اس خبر سے خصوصاً جموں میں مقیم ڈوگرا راجپوت اور برہمن پنڈت بہت جزبز ہوئے جو پچھلے ایک سو برس کے دوران خود کو ریاست کے جدی پشتی حکمران سمجھنے لگے تھے۔ وہ کیسے گوارا کر سکتے تھے کہ زیر دست چلے آ رہے شریف و مسکین کشمیری عوام ان کے والی بن جائیں؟ کشمیری ہندوئوں کی تحریک اسی لیے شیخ عبداللہ کی حکومت کو بدنام کرنے کی خاطر ہندو پروپیگنڈا کرنے لگے کہ وہ ان پہ مظالم ڈھا رہی ہے۔مسلم غنڈوں نے ان کی دکانیں لوٹ لی ہیں اور ہندوئوں کو بہ جبر مسلمان بنایا جا رہا ہے۔یہ جھوٹا پروپیگنڈا کرنے میں جموں وکشمیر کی انتہا پسند ہندو جماعت ’’پرجا پریشد‘‘کے رہنما پیش پیش تھے۔یہ جماعت 9 نومبر 1947ء کو ریاست کے انتہا پسند ہندو رہنمائوں مثلاً پنڈت پریم ناتھ ڈوگرا،بلراج مدہو ک ، مادھو راہو خچر،جگدیش اپرول وغیرہ نے قائم کی تھی۔مدعا یہ تھا کہ ریاستی ہندوئوں کو اسلامی حکومت کے خلاف ابھارا جائے۔1951ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں پہلے ریاستی انتخابات منعقد ہوئے۔یہ الیکشن شیخ عبداللہ کی پارٹی،نیشنل کانفرنس نے جیتے ۔گو پارٹی پہ دھونس دھاندلی کرنے کی الزمات لگے مگر وہ ریاستی حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔اسی الیکشن کے ذریعے آئین ساز اسمبلی وجود میں آئی۔اس نے ریاستی آئین تشکیل دیا،نیز آرٹیکل 370کو بھارتی آئین کا مستقل حصہ بنا ڈالا۔


جوں جوں مسلمانوں کی حکومت مستحکم ہوئی،جموں کے ہندوئوں میں کھلبلی مچ گئی۔اب وہ کھلم کھلا شیخ عبداللہ حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے لگے تاکہ ہندو راج واپس لا سکیں۔اواخر 1952ء میں ان کا احتجاج بہت بڑھ گیا اور اس کی گونج پورے بھارت میں سنی جانے لگی۔انہی دنوں یہ نعرہ سننے کو ملا:’’ایک دیش دو ودھان،دو پردھان،دو نشان نہیں چلیں گے،نہیں چلیں گے۔‘‘(ایک ملک میں دو حکومتیں،دو حکمران اور دو جھنڈے نہیں چلیں گے۔)اسی دوران ڈاکٹر پرساد مکر جی انتہا پسند سیاسی جماعت،جان سنگھ کی بنیاد رکھ چکے تھے۔اکھنڈ جماعت کی داعی اس پارٹی کے رہنمائوں کو ازحد غصہ تھا کہ جموں و کشمیر اب تک ان کی مملکت کا حصّہ بن سکا۔سو پارٹی نے آرٹیکل 370کے خاتمے کو اپنا پہلا سیاسی ،مذہبی و جنگی فریضہ قرار دے ڈالا۔ اب پرساد مکر جی،مولی چند شرما،ہردیال دیوگن اور جن سنگھ کے دیگر رہنما دہلی کی سڑکوں پہ نکل آئے اور آرٹیکل کے خلاف پُرتشدد مظاہرے کرنے لگے۔ان کی حمایت پا کر کشمیری ہندوئوں کے حوصلے بھی بلند ہو گئے۔اب وہ زیادہ شدت سے شیخ عبداللہ کو نشانہ بنانے لگے۔انھوں نے جموں شہر میں سبھی سرکاری عمارات سے ریاستی جھنڈے اتار پھینکے اور بھارت کے ترنگے لہرا دئیے۔ ہندوئوں کی تخریب کارانہ سرگرمیوں نے قدرتاً وزیراعظم شیخ عبداللہ کو چراغ پا کر دیا۔مسلمان گذشتہ ایک صدی سے ان کے مظالم سہتے چلے آرہے تھے۔اب طاقت و اختیار پا کر کشمیری مسلم رہنما ہندوئوں کی من مانیاں برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ حکومت نے ریاستی پولیس کو ہدایت دی کہ شر پسندوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔سو ایک دن جموں شہر میں پولیس نے انتہاپسند ہندوئوں کے جلوس پہ گولی چلا دی۔تین ہندو غنڈے مارے گئے۔اس واقعے نے جلتی پہ تیل چھڑکنے جیسا کام کیا ۔اب بھارت بھر سے انتہا پسند ہندو جماعتوں کے کارکن جموں پہنچنے لگے تاکہ وہاں کے ہندوئوں کا ساتھ دے سکیں۔29جون 1952ء کو پرساد مکر جی کی اپیل پہ ’’یوم ِکشمیر بچائو‘‘منایا گیا۔6مارچ 1953ء کو پرساد مکرجی نے شیخ عبداللہ کے خلاف طبل جنگ بجا دیا۔اب جن سنگھ کے کارکن پورے بھارت میں آرٹیکل 370ختم کرانے کی خاطر جلوس نکالنے اورمظاہرے کرنے لگے۔9مئی کو پرساد مکر جی جموں و کشمیر جانے ریل پہ سوار ہوئے۔جن سنگھ کے کئی نوجوان رہنما بھی ہمراہ تھے ۔ان میں سے اٹل بہاری واجپائی نے عالمی شہرت پائی۔ دوران سفر ریل مختلف نعروں مثلاً ’’پرمٹ سسٹم توڑ دو ‘‘اور ‘‘کہاں ملیں گے ،جموں میں‘‘وغیرہ سے گونجتی رہی۔جب انتہا پسند ہندوئں کی یہ ٹولی 11مئی کو جموں شہر کے نزدیک پہنچی،تو ریاستی پولیس نے پرساد مکر جی پہ دھاوا بول دیا۔وہ پھر سری نگر جیل میں مقید کر دیئے گئے۔ شیخ عبداللہ انتہا پسند ہندو لیڈر کو سبق سکھانا چاہتے تھے،لہذا انھیں تاریک و تنگ کوٹھری میں رکھا گیا۔دن میں صرف ایک مہمان انھیں مل سکتا تھا۔پرساد مکر جی مختلف عوارض میں مبتلا تھے۔دوران اسیری ان کی طبیعت اتنی خراب ہوئی کہ وہ پھر سنبھل نہ سکی۔موصوف 23جون 1953ء کو دوران قید ہی چل بسے۔اب مکر جی کے مداحوں نے آسمان سر پہ اٹھا لیا۔واویلا مچایا کہ شیخ عبداللہ نے انھیں زہر دے دیا۔تاہم طبی معائنے سے یہ خبر جھوٹی ثابت ہوئی۔ بہرحال پرساد مکر جی کی پُراسرار موت سے وزیراعظم پنڈت نہرو انتہا پسند ہندو رہنمائوں کے دبائو میں آ گئے۔وہ چاہتے تھے کہ شیخ عبداللہ کی حکومت ختم کر دی جائے۔اُدھر شیخ صاحب کو اپنا اقتدار جاتا محسوس ہوا ،تو وہ کشمیر کی آزادی کے بلند آہنگ نعرے لگانے لگے۔اس امر نے پنڈت نہرو کو عجب کشمکش میں ڈال دیا۔آخر دو ماہ بعد 8اگست کو پنڈت نہرو نے بزور ان کی حکومت ختم کر ڈالی۔ یوں دونوں رہنمائوں کا ہنی مون اختتام کو پہنچا۔ ہندو انتہا پسندوں کو پچکارنے و دلاسے دینے کے لیے پنڈت نہرو نے ریاستی وزیراعظم کا عہدہ ختم کر دیا اور اس کی جگہ وزیراعلی آن دہمکا۔ نیز پرمٹ سسٹم بھی ختم ہوا۔یہ بھارتی حکومت کا پہلا وار تھا جو جموں و کشمیر ریاست کو اپنے ماتحت لانے کی خاطر ہوا۔اس کے بعد مختلف صدارتی و سرکاری آرڈینینسوں کے ذریعے جموں و کشمیر کی خود مختاری محدود سے محدود تر کرنے کا سلسلہ ِبد شروع ہو گیا۔یہ طریق ِواردات اب بھی جاری و ساری ہے۔
 
"
آئیے ذرا آرٹیکل 370 کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔ اِس آرٹیکل سے متعلق بھارت کی آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عظیم شاعر اور مفکر مولانا حسرت موہانی نے 17 ِ اکتوبر 1949 کو سوال پیدا کیا تھا: ”یہ امتیاز آخر کیوں روا رکھا جا رہا ہے؟“

اِس سوال کا جواب وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے معتمد ِ خاص ، اور ریاست جموں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کے سابق دیوان، اور اُس وقت کے وزیر بے محکمہ گوپالا سوامی آئینگر نے دیا تھا۔ آئینگر نے کہا تھا کہ ” کئی ایک وجوہات کی بنا پر جموں کشمیر، دیگر ریاستوں کی طرح بھارت میں مدغم ہونے کو تیار نہیں۔جموں کشمیر پر بھارت ، پاکستان کے ساتھ بر سر ِپیکار رہا ہے، اور اب اگرچہ جنگ بندی ہوچکی ہے تاہم حالات ہنوز ”غیر معمولی اور خلاف ِ معمول “ ہیں۔ریاست کے کچھ حصے ابھی باغیوں اور دشمن کے قبضے میں ہیں۔ کشمیر کے تنازعے کو اقوام متحدہ میں لے جانے کے باعث بین الاقوامی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور یہ اُلجھاؤ اُس وقت تک سلجھ نہیں سکتا جب تک کشمیر کا مسئلہ اطمینان کے ساتھ حل نہیں ہو جاتا۔ جموں کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کیذریعے کشمیریوں کی مرضی جاننے کے بعد ہی ریاست کے آئین اور انڈین یونین کے ریاست پر دائرہ کار کا تعین ہو سکے گا۔“

المختصر بھارت کو یہ توقع تھی کہ ایک نہ ایک دن جموں کشمیر دیگر ریاستوں کی طرح انڈین یونین میں مدغم ہو جائے گا، اِسی وجہ سے اِس ّرٹیکل کے عنوان کے ساتھ ”عارضی شرائظ“ کے الفاظ شامل کیے گئے تھے۔لیکن یہ تو جبھی ممکن ہوتاکہ ریاست میں امن قائم ہوتا اور لوگوں کو آزادنہ طور پر اظہار رائے کا موقعہ دیا جاتا۔مگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ تسلسل کے ساتھ وقتاً فوقتاً جاری کیے گئے صدارتی احکامات کے باعث آرٹیکل370 کی شکل صورت مسخ ہو چکی ہے
۔آج بھارت کا شاہد ہی کوئی ادارہ ہو گا جس کا دائرہ کار جموں کشمیر تک نہ ہو۔ دیگر کئی ایک ریاستوں اور کشمیر کی حیثیت میں فرق اب صرف اتنا رہ گیا ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کے جاری کردہ 1927 اور1932 کے قوانین جن سے پشتینی باشندگان ریاست کی حیثیت کا تعین ہوتا ہے، انڈین یونین میں ہنگامی صورت حالات کے تحت لگائی جانے ایمرجنسی کا جموں کشمیر پر اطلاق نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ریاست کا نام اور اِس کی جغرافیائی حدود تبدیل کی جا سکتی ہیں، علاوہ ازیں وہ سب کچھ جو انڈین یونین پر لاگو ہے، ریاست پر بھی لاگو ہے۔ اور آرٹیکل370 کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت محض نام کی رہ گئی ہے۔

آخری سوال یہ ہے کہ کیا آرٹیکل 370 ریاست میں علیحدگی پسندانہ رجحانات کو پروان چڑھانے کا باعث ہے ؟ اِس کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آرٹیکل 370 کشمیری عوام کو کیا دیتا ہے۔ اِس آرٹیکل کے تحت کشمیریوں کو حکومتی امور کی انجام دہی کے لیے موزوں آزادی ملتی ہے جس کے باعث وہ اپنے آپ کو، اپنی شناخت کو اور اپنی حیثیت کو اور اپنے مستقبل کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ یہ لوگوں کو جہاں بہت زیادہ با اختیار بناتا ہے وہی انہیں لائق ِ احتساب ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ یہ آرٹیکل مرکز کے پاس ارتکاز اختیارات کی راہ کی بڑی رکاوٹ ہے۔

اِس آرٹیکل کے باعث جموں کشمیر کے بھارتی قومی زندگی کے دھارے میں شمولیت اور ریاست کی خواہش ِ حق ِ خود حکمرانی کے مابین کسی تضاد کا باعث نہیں۔علیحدگی پسندی کے رجحانات اس وقت جنم لیے ہیں جب لوگوں میں احساس محرومی و بیگانگی کثرت سے پید ا ہونے لگتا ہے۔ارتکاز اختیارات کو کم کرنے کا ہر طریقہ لوگوں کو بخوشی قومی دھارے میں شرکت کے لیے ابھارتا ہے۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کے لوگوں میں اگر آزادی، خو د مختاری اورعلیحدگی پسندی کے رجحانات گھر کر چکے ہیں تو اِس کا باعث آرٹیکل 370 نہیں بلکہ تسلسل کے ساتھ جاری ہونے والے صدارتی احکامات ہیں جن کے باعث اِس آرٹیکل کی اصل روح کو مسخ کر دیا گیا ہے۔ مودی سرکار کی بقا اِس آرٹیکل کے اصل صورت میں نفاذ میں ہے نہ کہ اِس کی تنسیخ میں۔
محمد نذیر تبسم … بریڈفورڈ جنگ
بھارتی دستور کی اس شق پر کم از کم ساٹھ برسوں سے اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔ دستور کی شق 370 کے تحت بنیادی تقاضا تھا کہ کشمیر کا الگ سپریم کورٹ ہو، الگ صدر اور الگ وزیر اعظم ہو، لیکن برسوں سے ایسا نہیں کیا جا رہا ہے۔
 
Top