امجد اسلام امجد کس کو معلوم تھا ( امجد اسلام امجد )

ظفری

لائبریرین
یونہی چلتے ہوئے راستوں میں کئی ہمسفر جو ملے
اور بچھڑتے گئے
آتے جاتے ہوئے موسموں کی طرح
آپ ہی اپنی گردِ سفر ہوگئے
نہ کبھی میں نے پھر مُڑ کے دیکھا اور نہ سوچا کبھی
وہ کہاں کھو گئے
جو گئے، سو گئے
پھر یہ کیسے ہوا !
یونہی اک اجنبی، دیکھتے دیکھتے
دل میں اُترا، دل میں سما سا گیا
اور دھنک رنگ سپنے جگا سا گیا
جیسے بادل کوئی، بےارادہ یونہی، میری چھت پہ رُکا
اور برسے بنا اس پہ ٹھہرا رہا
کیا تماشا ہوا، سامنے تھی ندی اور کوئی تشنہِ لب
اس کو تکتا گیا اور پیاسا رہا

ایک لمحے میں سمٹے گی یہ داستاں
کس کو معلوم تھا !
تم ملو گے مجھے اس طرح بےگماں
کس کو معلوم تھا​
 
Top