داغ کس مصیبت سے بسر ہم شبِ غم کرتے ہیں ۔

کس مصیبت سے بسر ہم شب غم کرتے ہیں
رات بھر ہائے صنم ہائے صنم کرتے ہیں

برسوں ترساتے ہیں جب تیغ علم کرتے ہیں
کس تکلف سے وہ تکلیف ستم کرتے ہیں

دل کو ہو لاگ تو ہو کچھ کسی صورت کا لگاؤ
لطف کیسا کے وہ اب جور بھی کم کرتے ہیں

اشک خوں خجلت عصیاں سے نہیں بے تاثیر
نار دوزخ کو یہ گلزار ارم کرتے ہیں

ڈر ہے منہ پھیرے دم ذبخ نہ خنجر اس کا
پڑھ کے ہم سورۂ اخلاص کو دم کرتے ہیں

شوخ تم شیفتہ ہم دونوں ہیں بے چین مگر
پھر ذرا صبر جو کرتے ہیں تو ہم کرتے ہیں

آپ کو دوست کے مرنے کی خوشی، یاں یہ حال
کوئی دشمن بھی جو مرتا ہے تو غم کرتے ہیں

ہائے اس کشتے کی تربت کا مقدر جس کو
سجدے مٹ مٹ کر ترے نقشِ قدم کرتے ہیں

ہمی بدنام ہیں جھوٹے بھی ہمی ہیں بیشک
ہم ستم کرتے ہیں اور آپ کرم کرتے ہیں

خوف ہے ان کو یہاں تک تو ہم آغوشی کا
میری تصویر کے بھی ہاتھ قلم کرتے ہیں

بانکپن کرتی ہیں فتنوں سے نگاہیں تیری
حال محشر سے یہی نقشِ قدم کرتے ہیں

مجھ سے کہتا ہے یہ احسان جتا کر ظالم
ہم سوا تیرے کسی پر بھی ستم کرتے ہیں

جن کو تم داغ بڑا عہد شکن کہتے تھے
لو مبارک ہو وہ پھر قول قسم کرتے ہیں

داغ دہلوی​
 
Top