کس قدر گہرائیاں ہیں اس ندی سی آنکھ میں

میاں وقاص

محفلین
کس قدر گہرائیاں ہیں اس ندی سی آنکھ میں
عکس کالا ہو گیا ہے، اس کی نیلی آنکھ میں

میں سمندر بھی رہا ہوں جب تلک سینے میں تھا
"بوند ہوں پانی کی میں محبوس اپنی آنکھ میں"

وہ چمکتا ہی رہے گا جس کا دامن صاف ہے
کس طرح شفاف ہوں میں اس کی میلی آنکھ میں

آئنے میں عکس اپنا دیکھتا ہوں کب میاں
دل نے رکھی ہے کوئی تصویر میری آنکھ میں

اب تو مٹھی میں ہی لگتے ہیں زمین و آسماں
کل جہاں کی وسعتیں ہیں اتنی چھوٹی آنکھ میں

اس قدر طغیانیاں آئیں نہیں پہلے کبھی
آؤ آؤ، ڈوب جاؤ، آج میری آنکھ میں

دھند آور یہ مناظر دیکھنے ہیں کب تلک
ایک شعلہ سا بھی ہو میری ٹھٹھرتی آنکھ میں

سامنے لاتا ہوں میں قوس و قزح تیرے، مگر
رنگ ٹھہریں کہاں، تیری مچلتی آنکھ میں

لوگ آنکھوں کو چرا لیتے ہیں، جانے کس طرح
میں لیے پھرتا ہوں اپنی آپ بیتی آنکھ میں

محو_سجدہ ہو گئی ہیں جا بجا پلکیں مری
دیوتا رہتا ہے جیسے کوئی میری آنکھ میں

ہم اگر شاہین یاں سے کر بھی لیں گے ہجرتیں
پر، وہی منظر رہیں گے میری تیری آنکھ میں

حافظ اقبال شاہین
 
Top