کس دن تری شنوائی اے دیدہء تر ہو گی؟ (کالم از شاہد ملک)

عاطف بٹ

محفلین
شاہد ملک (روزنامہ پاکستان لاہور، 16 دسمبر 2012ء)​
انسانی زندگی کے کچھ مشاہدے ایسے ہیں جن کی پیمائش وزن، حجم اور وقت کے حساب سے نہیں ہو سکتی۔ فیض احمد فیض کے لہجے میں بات کروں تو گندم کے کھیت، سفیدے کے درخت، دلہن کا آنچل اور بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ انہی نوادرات میں شمار ہوں گے۔ پھر بھی اس سے یہ مراد نہ لیجئے کہ مَیں محض ان جمالیاتی علامتوں کی بات کر رہا ہوں جو تخلیق کے سر چشمے سے پھوٹتی ہیں۔ نہیں، اس سچائی کا دوسرا پہلو وزن ، حجم اور زمانی دورانیہ کی گرفت میں نہ آنے والے وہ المیے بھی ہیں جو روئیدگی کے عمل کو روک دیتے ہیں اور سفیدے کے درختوں اور دلہن کے آنچل کو ڈھونڈنے والی بینائی اسی طرح قطرہ قطرہ زائل ہونے لگتی ہے، جیسے:​
قید میں یعقوب نے گو ، لی نہ یوسف کی خبر​
لیکن آنکھیں روزن دیوار زنداں ہو گئیں​
پچھلے موسم گرما میں میرے معمر ہم وطن ڈاکٹر محمد خلیل چشتی بھارت میں بیس سالہ جبری قیام کے بعد عارضی طور پر لوٹے تو سب پاکستانی ان کی مستقل گھر واپسی کا خوا ب دیکھنے لگے تھے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اب یہ خواب حقیقت بن رہا ہے۔ مائیکرو بیالوجی میں ایڈنبرا یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کے حامل خلیل چشتی کے صبر کا طویل امتحا ن 1992ءمیں شروع ہوا، جب راجستھان کے شہر اجمیر شریف میں اپنے ہی ایک رشتہ دار کو گولی مار دینے کے الزام میں انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ کیا ڈاکٹر صاحب کی گرفتاری ان کے پاکستانی ہونے کے سبب تھی؟ اس کا جواب کچھ بھی ہو، لیکن یہ المناک کہانی قانونی جھمیلوں، تفتیشی حربوں، انصاف میں تاخیری رکاوٹوں اور انسانی تعلقات کی ان پیچیدگیوں سے بھی عبارت ہے، جن سے سرحد کے آرپار دونوں ممالک کے شہری آشنا ہیں۔
اس واردات کا پس منظر جاننے کے لئے ذرا سی تفصیل درکار ہے۔ آزادی سے پہلے ہی ایک بھائی کو آبائی شہر اجمیر میں چھوڑ کر بڑے بھائی کے ہمراہ کراچی آ بسنے والے خلیل چشتی بھارت میں اپنے عزیز و اقارب کو کبھی نہ بھولے، چنانچہ بعد ازاں سعودی عرب میں ملازمت کے دوران انہوں نے جن لوگوں کے لئے روزگار کا بندوبست کیا، ان میں ادریس نام کا ایک رشتہ دار بھی تھا، جس نے اپنی نوکری کے خاتمے کے لئے ڈاکٹر چشتی کو قصوروار سمجھ لیا ۔ کچھ عرصے بعد ادریس اجمیر میں مارا گیا، جہاں ڈاکٹر صاحب اپنے بھائی کے گھر مہمان تھے۔ ان کے بھتیجے کا کہنا ہے: ”ایک شادی میں معمولی تنازعے کے بعد، ایک ہجوم نے گھر پر ہلہ بول کر عورتوں سے بدتمیزی کی تو ہم لوگ بھی کارروائی کرنے پر اتر آئے۔ گولی مَیں نے چلائی تھی، مگر مَیں نابالغ تھا، انہوں نے پاکستانی ہو تے ہوئے چاچا کو پکڑ لیا۔۔۔“ ریکارڈ کو درست رکھا جائے تو آخری ڈیڑھ دو برس کو چھوڑ کر ڈاکٹر خلیل چشتی کے لئے پابندیوں کے یہ بیس برس معروف معنوں میں اسیری نہیں تھی۔ دراصل، گرفتاری کے بعد ضمانت ہوتے ہی وہ جیل سے باہر آ گئے اور انہیں ایک ایسے مقام پر رکھا گیا، جہاں ان کے بھائی کی زرعی زمین تھی، مگر اس دوران وہ ہر دو ہفتے بعد پولیس سٹیشن میں حاضری دینے کے پابند رہے۔ کہانی کو نیا رخ دوہزاردس میں ملا، جب کینیڈا میں مقیم ان کی بیٹی نے بھارت کے چیف جسٹس سے تحریری استدعا کی کہ ان کے والد کے مقدمے کا فیصلہ جلد کیا جائے۔ ماتحت عدالت نے اٹھارہ برس سے لٹکا ہوا یہ فیصلہ 31 جنوری 2011ء کو سنادیا۔ ڈاکٹر چشتی جرم کے مرتکب پائے گئے اور جیل چلے گئے۔ اب ہماری حکومتی کوشش کا مرحلہ آتا ہے، جس نے ان کی عارضی آمد کو ممکن بنایا اور اب مستقل واپسی ہو رہی ہے۔ یہاں پہنچ کر محمد خلیل چشتی کی داستان غم ختم ہوجانی چاہئے، مگر وہ جو شہزاد احمد نے کہا تھا:
نوید موسم گل تو خزاں سے آئے گی​
جو لٹ چکی ہے وہ دولت خزاں سے آئے گی​
اخبار ”انڈین ایکسپرس“ نے اس مد میں دکھوں کا ایک اشاریہ مرتب کیا ہے۔ ہر واقعہ ایک ایسا سنگ میل ہے، جہاں سے ڈاکٹر صاحب کی بیوی، بیٹا اور پا نچ بیٹیاں قافلہ سالار کے بغیر ہی متاع ہستی کا بوجھ اٹھائے زندگی کا سفر طے کر رہی ہیں۔ دوہزار سات میں جب آمنہ بیٹی کی شادی ہوئی تو بوڑھے سائنسداں کی محرومی کا اندازہ تقریب کی اس تصویر سے لگایا جا سکتا ہے جس کا پرنٹ نکلوانے سے پہلے خلیل چشتی نے اپنا فوٹو اس پر چسپاں کروا لیا تھا۔ بعد کی صبحوں کا آغاز اسی تصویر پر نظر ڈال کر ہوتا رہا۔ تین سال بعد یہ آمنہ ہی تھی، جس نے باپ کی رہائی کے لئے بھارتی چیف جسٹس کے در پر دستک دی۔ اخبار نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ان بیس برسوں میں ڈاکٹر چشتی نے ترتیب وار ڈائری لکھنے کے علاوہ جن عربی تصانیف کے انگریزی تراجم کئے، ان میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا منظوم دیوان بھی ہے۔
ڈاکٹر خلیل چشتی بھارت میں جس صورت حال سے دوچار رہے، کیا پاکستان آئے ہوئے کسی بھارتی باشندے کے ساتھ بھی حالات کا تسلسل یہی ہو سکتا تھا؟ محتاط صحافیانہ تجربے کی روشنی میں میرا جواب ”ہاں“ میں ہے۔ یہی نہیں، بلکہ مَیں تو یہ بھی عرض کروں گا کہ یہ ترتیب وار المیہ بھارت میں کسی بھارتی باشندے اور پاکستان میں خود کسی پاکستانی شہری کے ساتھ بھی پیش آ سکتا تھا۔ ”سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال“ کی خبر کو تیرہ سال ہو گئے ہیں، مگر بنیادی حقائق یاد ہیں۔ جائے واردات راوی روڈ کا وہ چھوٹا سا گھر، جس میں ہمسایوں کی ”جھات“ پڑتی تھی، نیلے رنگ کے پلاسٹک ڈرم، جن میں بارہ چودہ سال کا بچہ سما ہی نہیں سکتا، ان کے اندر ایک بد رنگ سا محلول جو خدا معلوم تیزاب تھا یا موبل آئل، اس میں ہڈی کے نہایت چھوٹے ٹکڑے، جن کے بارے میں کیمیکل اگزامینر طے نہ کر سکا کہ یہ انسانی ہڈی ہے۔
اچھا، یہ تو تھیں برآمدگیاں، آلہء قتل اور جائے وقوعہ۔ ٹرائل کورٹ میں مجھ سمیت کم از کم ایک درجن صحافی موجود رہے، مگر استغاثہ کے گواہوں کی تعداد اکثر و بیشتر کئی درجن یومیہ تھی۔ یاد رہے کہ ان میں کوئی عینی شاہد نہیں تھا، جبکہ یکے بعد دیگرے مقرر ہونے والے تین تفتیشی افسروں میں سے صرف ایک کے قلمی اندراجات آنکھوں کو تر کرسکے۔ کئی اخبار نویس ساتھی تصدیق کریں گے کہ باقی دو افسروں میں سے ایک کے ”زخمی“ ہاتھ پر پٹی بندھی تھی اور دوسرے کی قوت تحریر ”اعصابی مرض“ کے باعث ”قابل دست اندازیء پولیس“ نہیں تھی۔ کہانی کی کون کون سی کڑیاں آپس میں ملیں اور کون سی نہیں، یہ سوال ان لوگوں کے لئے رہ گئے، جن کے پاس سوچنے کے لئے بہت وقت ہوتا ہے۔ وگرنہ ایک بڑے اور ایک چھوٹے ملزم کو سزائے موت سنادی گئی اور اس کے لئے ایسے طریق کار کی نشاندہی کی گئی، جس کی نظیر پہلے موجود نہیں تھی۔
مظلوم ورثاء کو یہ انصاف گھر کی دہلیز پر نہیں، سیشن کورٹ لاہور کے احاطے میں ملا تھا، البتہ سزا پر عمل درآمد کے لئے جیل حکام کو رسمی کارروائی کی کھیچل نہ کرنا پڑی۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی جاوید اقبال اور اس کا ساتھی کوٹھڑی میں پھندے سے لٹکے ہوئے پائے گئے۔ کچھ لوگوں نے اسے مکافات عمل کا نام دیا اور کچھ یہ کہہ کر ایک طرف ہو گئے کہ ”یہ خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہوا“.... پھر بھی مجھے روزنامہ ”جنگ“ میں دو قسطوں میں شائع ہونے والا ڈاکٹر اسلم ڈوگر کا وہ باتصویر مضمون نہیں بھولتا، جس میں انہوں نے جاوید اقبال کے ہاتھ کا پرنٹ بغور دیکھنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا تھا کہ اس شخص کی موت غیر فطری تو ہوگی، لیکن سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہو سکے گا۔
مقام شکر ہے کہ ڈاکٹر خلیل چشتی کے بارے میں ایسی کوئی پیش گوئی سامنے نہیں آئی تو کیا اس بزرگ پاکستانی کو شیکسپئرین ٹریجڈی کا روایتی ہیرو قرار دے دیا جائے جو کئی کرداروں کو اپنے سمیت ایک ایسے طویل عمل کے ذریعے تباہی سے ہمکنار کرتا ہے جس کی ابتدا خود اس سے سر زد ہونے والی غلطی سے ہوا کرتی ہے۔ محض کسی کا ناحق مارا جانا شیکسپئر والے معنوں میں ”المیہ“ نہیں، حادثہ ہے۔ اس کے مقابلے میں انسانی فہم و فراست کی معمولی سی غلطی، پھر اور کرداروں کا رد عمل، خارجی عوامل کے اثرات، پوری واقعاتی زنجیر کی حرکت، جس کا آخری سرا ایک حشر آسا تباہی کے فلیتے کو آگ دکھا دے۔ یہ اور کھیل ہے، کیونکہ اس کی لپیٹ میں، ہیرو سمیت، قصور وار اور بے قصور سب طرح کے لوگ آ جاتے ہیں۔ ٹریجڈی کا تاثر ہیرو کی ابتدائی غلطی اور آخری تباہی کے عدم تناسب ہی کا نام ہے۔
خلیل چشتی کے المیے کو لیں تو اس میں ہیرو کی ابتدائی غلطی کا نام و نشان دور دور تک نہیں ملے گا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ شیکسپئیرین ٹریجڈی کو زندگی کی وقعت کا احساس اجاگر کرنا چاہئے، جبکہ ڈاکٹر صاحب کا المیہ زندگی ضائع ہو جانے کے تاثر کو ابھار رہا ہے۔ یہ تاثر تو اسی روز زائل ہو سکتا ہے، جب ہم اہل صفا، مردود حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے۔ اور کیوں نہ بٹھائے جائیں جبکہ یہی وہ لمحہ ہے جس میں اقبال کی محشر کی گھڑی اور فیض کی صبح انقلاب ایک ہی مطلع سے پھوٹیں گی۔ آپ اتفاق کریں گے کہ یہی ڈاکٹر خلیل چشتی کے دیدہء تر کی شنوائی کا دن ہے:
کب جان لہو ہوگی، کب اشک گہر ہوگا​
کس دن تری شنوائی اے دیدہء تر ہوگی​
کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامت جانانہ​
کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہوگی​
 
Top