کس حقارت سے کس کراہت سے ٭ راحیلؔ فاروق

کس حقارت سے کس کراہت سے
پھر پکارا گیا ہوں ہرجائی

ایک لعنت ہے اس تخاطب میں
کہ ہر اس آدمی پہ پڑتی ہے
جسے حق سے عطا ہوئیں آنکھیں
ایسی آنکھیں کہ حسن دیکھ سکیں
دیکھتے دیکھتے کبھی نہ تھکیں
جنھیں ہر شکل میں نظر آئے
وہ تجلی کہ ہوش اڑا جائے
ہر کسی میں جمال ہوتا ہے
دیکھ لیں تو یہ حال ہوتا ہے

پھر پکارا گیا ہوں ہر جائی

پھر کھڑا ہوں اسی تعجب میں
کیسے ٹھہرا ہے لائقِ نفرین
دل وہ دل جس میں عشق زندہ ہے
جس کے نزدیک ہر کوئی ہے حسین
ہر کسی میں ہے شانِ محبوبی
اس کی یہ خوبی اس کی وہ خوبی
جس نے ہر ایک کو جگہ دی ہے
جس نے سب کو خدا بنایا ہے
پھر سے وہ مسجد آج اجڑتی ہے
دل وہ دل آج پھر سے خالی ہے
دل وہ دل آج پھر پرایا ہے

پھر پکارا گیا ہوں ہرجائی

کیا ستم ہے خدائے حسن و عشق
کیا ہوئے ہائے ہائے حسن و عشق
میں تو سمجھا وفا نبھانے کو
لوگ کہتے ہیں قید خانے کو
دل کو پتھر بنا لیا جائے
آنکھ کو پھوڑ ہی دیا جائے
کیا یہی چیز ہے وفا داری
آدمی حسن سے ہو انکاری
کس طرح کے یہ لوگ ہیں توبہ
حسن کا کفر اور میں توبہ

پھر پکارا گیا ہوں ہرجائی

سوچتا ہوں کہ یوں تو یوں ہی سہی
للہ الحمد دل کا خوں ہی سہی
خوف کیوں کھائیے ملامت سے
باز کیوں آئیے محبت سے
ہاں وفا دار مت کہو مجھ کو
چھوڑ دو مجھ کو چھوڑ دو مجھ کو
میں کسی کو کبھی نہ چھوڑوں گا
حسن کا دل کبھی نہ توڑوں گا

للہ الحمد اے دل آرائی
پھر پکارا گیا ہوں ہرجائی

راحیل فاروق​
 
Top