غالب کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو

کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو​
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو​
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں​
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو​
کِیا غم خوار نے رسوا، لگے آگ اس محبّت کو​
نہ لاوے تاب جو غم کی، وہ میرا راز داں کیوں ہو​
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا​
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو​
قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم​
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو​
یہ کہہ سکتے ہو "ہم دل میں نہیں ہیں" پر یہ بتلاؤ​
کہ جب دل میں تمہیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو​
غلط ہے جذبِ دل کا شکوہ دیکھو جرم کس کا ہے​
نہ کھینچو گر تم اپنے کو، کشاکش درمیاں کیوں ہو​
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے​
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو​
یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں​
عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو​
کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی​
بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو​
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو غالبؔ​
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو​
 

سید زبیر

محفلین
شکریہ سرکار !غالب کا اتنا خوبصورت کلام شریک محفل کرنے کا
بہت خوب
قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
 

طارق شاہ

محفلین
کسی کو دے کے دل، کوئی نوا سَنجِ فُغاں کیوں ہو!
نہ ہو جب دل ہی سینے میں، تو پھرمُنْہ میں زباں کیوں ہو!
وہ اپنی خُو نہ چھوڑیںگے، ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سُبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ "ہم سے سرگراں کیوں ہو"!
کِیا غم خوار نے رُسوا، لگے آگ اِس محبّت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی، وہ میرا رازداں کیوں ہو!
وفا کیسی، کہاں کا عِشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل، تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو!
قفس میں مجھ سے رُودادِ چمن کہتے، نہ ڈر ہمدم!
گِری ہے جس پہ کل بجلی، وہ میرا آشیاں کیوں ہو!
یہ کہہ سکتے ہو، "ہم دل میں نہیں ہیں"، پر یہ بتلاؤ
کہ جب دل میں تمہیں تم ہو، توآنکھوں سے نہاں کیوں ہو!
غلط ہے جذبِ دل کا شِکوہ، دیکھوجرم کِس کا ہے
نہ کھینْچو گرتم اپنے کو، کشاکش درمیاں کیوں ہو!
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو!
یہی ہے آزمانا، تو ستانا کِس کو کہتے ہیں
عدو کے ہو لیے جب تم، تو میرا امتحاں کیوں ہو!
کہا تم نے کہ "کیوں ہو غیر کے مِلنے میں رُسوائی"
بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، پھرکہیو، کہ ہاں، کیوں ہو!
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو، غالبؔ
تِرے بے مہر کہنے سے، وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو!
اسداللہ خاں غالب

سبحان اللہ !
کیا ہی کہنے صاحب!
تشکّر یہاں شیئر کرنے پر

بہت خوش رہیں
 
Top