کسی کو دے کے دل کوئی نوانجِ فغاں کیوں ہو

عاطف سعد

محفلین
السلام علیکم
1530ieq.jpg
 
آخری تدوین:
شہکار کی عمدگی میں تو کوئی کلام نہیں مگر ایک غلطی ہو گئی۔ نقصان اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ غلطی عنوان اور مطلع کے مصرعِ اولیٰ میں ہے۔
غالبؔ کا مصرع یوں ہے:
کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجَ فُغاں کیوں ہو؟
نوا نج بے معنیٰ ہے۔ بہت اچھا ہو گا کہ آپ عنوان کی تدوین فرمائیں اور اس شہ پارے کی بھی تدوین کر کے دوبارہ آویزاں کر دیں!
ڈیزائن کی خوبی پہ ڈھیروں داد قبول کیجیے۔
 

عاطف سعد

محفلین
دوستو۔۔۔ میں نے سات سال پہلے اردو سیکھی تھی اور اب تک سیکھ رہا ہوں، غلطیوں کی نشاندہی کے لئے آپ سب کا ممنون ہوں۔
جہاں جہاں نشاندہی کی گئی وہاں سے درست کر دیا ہے
آپ سب کا بہت شکریہ
 

عاطف سعد

محفلین
اچھی سیکھ رہے ہو یار ! سات سال میں ہی غالب پر پہنچ گئے !
میں تو بچپن سے سیکھ رہا ہوں مگر اقبال اور غالب کا تک پہنچنے میں بارہ سال لگ گئے تھے۔
نہیں، میں میر تقی میر تک بھی پہنچا ہوں، آپ لوگ سکولوں میں اردو پڑھتے ہیں، گھر میں بولتے ہیں اس لئے آپ جاننے والے اس زبان کی قدر نہیں کرتے، میں نے دن رات ایک کیا ہے، اسلام پریزینٹیشن کمیٹی والوں کا سر کھایا ہے۔
یہ فطری بات ہے کہ انسان جس بارے میں جانتا ہے اس کی اسے فکر نہیں ہوتی اور جس بارے میں نہیں جانتا اس بارے اس کی فکر ، جستجو میں بدل جاتی ہے
 
Top