ایاز صدیقی کریں گے نقدِ حسرت کا شمار آہستہ آہستہ

مہ جبین

محفلین
کریں گے نقدِ حسرت کا شمار آہستہ آہستہ
اتاریں گے تمنا کا ادھار آہستہ آہستہ
یقیں میری وفا پر اُن کو آتے آتے آئے گا
چھٹے گا بے یقینی کا غبار آہستہ آہستہ
ابھرتا ہے کوئی چہرہ طلوعِ مہر کی صورت
بناتا ہے مصور شاہکار آہستہ آہستہ
تبسم دھیرے دھیرے ان کے ہونٹوں پر ابھرتا ہے
وہ سنتے ہیں مِرے دل کی پکار آہستہ آہستہ
شبِ غم چٹکیاں لیتی ہے انکی یاد رہ رہ کر
ہلاتے ہیں وہ سازِ دل کے تار آہستہ آہستہ
مِرا زخمِ تمنا بنتے بنتے پھول بنتا ہے
اترتی ہے مِرے دل میں بہار آہستہ آہستہ
زمانہ جبر کی صورت بدلتا ہے مگر کم کم
عطا ہوتا ہے مجھ کو اختیار آہستہ آہستہ
رہا ہے قرن ہا قرن آفتابِ ارتقا روشن
رخِ ہستی پہ آیا ہے نکھار آہستہ آہستہ
ابھی کچھ اور ایاز اشکوں سے اسکی آبیاری کر
کہ پھل دیتا ہے نخلِ انتظار آہستہ آہستہ
ایاز صدیقی
 
Top