کرکٹ کی دنیا کے معروف کھلاڑی محمد یوسف (یوسف یوحنا) کا قبول اسلام

کرکٹ کی دنیا کے معروف کھلاڑی محمد یوسف (یوسف یوحنا) کا قبول اسلام
اکتوبر 2005 میں شائع ہونے والا انٹرویو


ایں سعادت بزوربازونیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ

یقیناً یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے کہ وہ جس کو چاہے عطا فرمادے، کھیلوں کی دنیا میں باکسنگ کے عالمی چیمپین امریکہ کے محمد علی دور حاضر میں شاید پہلے کھلاڑی تھے، جنھیں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حقانیت سے روشناس کرایا، اور اب محمد یوسف (سابق یوسف یوحنا ) کو کرکٹ کی دنیا میں سب سے پہلے یہ اعزاز بخشا کہ نہ صرف وہ خود ایمان کی نعمت سے سرفراز ہوئے بلکہ اپنی شریک حیات کو بھی اس دولت سے مالا مال کیا، وہ کافی عرصہ تک اپنے قبول اسلام کے اعلان کو محض اس لئے ٹالتے رہے کہ ان کی خواہش تھی کہ ان کے والدین بھی اس اعزاز میں ان کے شریک ہوں، مگر جب یہ ممکن نہ ہو سکا تو آخر یوسف یوحنا نے اپنے محمد یوسف اور اہلیہ تانیہ کے فاطمہ بننے کے راز کو بے نقاب کرنے کا مشکل فیصلہ بھی کر ہی ڈالا۔

یوسف ۲۸/اگست ۱۹۷۴ء کو لاہور میں پیدا ہوئے اور ریلوے ہیڈ کوارٹر گڑھی شاہوکے علاقہ میں اپنے بچپن کے دن گذارے، اسے اوائل عمری ہی سے تعلیم اور روزگار کے بجائے کرکٹ سے جنون کی حد تک دل چسپی تھی، علاقہ میں اسے ’کا کا‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، اس کے والد اگر چہ نہایت غریب تھے مگر ان کی خواہش تھی کہ بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے، مگر بیٹے کے تیور کچھ اور ہی تھے، والد نے مارپیٹ کر دیکھ لیا، مگر کچھ اثر نہ ہوا، آخر تنگ آ کر والد نے ٹیلر نگ کا کام سکھانے کے لئے ایک درزی کی دوکان پر شاگرد رکھوا دیا مگر ؎

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

یوسف یہاں سے بھی اکثر غائب ہو جاتا اور تلاش پر اس کا سراغ کرکٹ گراونڈ میں ملتا، والد نے تنگ آ کر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا اور پھر آخر ایک دن اس کا شوق، محنت اور لگن رنگ لائی، اور ترقی کی منزل لیں طے کرتا ہو ا ایک دن وہ قومی کرکٹ ٹیم میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو گیا اور 1997-98میں ڈربن میں جنوبی افریقہ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں کھیلتے ہوئے ٹیسٹ کیپ حاصل کی، جس کے بعد سے وہ اب تک 59ٹیسٹ میچ کھیل کر 4272رن اسکور کر چکاہے، جب کہ 195ایک روزہ میچوں میں 8714رن بنا کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواچکاہے۔

گذشتہ دنوں اخبارات میں یوسف کے قبول اسلام کی خبر شائع ہوئی تو اس نے کہا کہ وہ اپنے قبول اسلام کا اعلان کھلے بندوں کرے گا چنانچہ ہفتہ کے دن ۱۷/ستمبر کو قذافی اسٹیڈیم لاہور میں جاری کرکٹ ٹریننگ کیمپ کے دوران اس نے ٹیلیوزن کے سابق اداکار محمد نعیم بٹ کی امامت میں اپنے دیگر ساتھیوں کپتان انضمام الحق، شاہد آفریدی اور عبدالرزاق وغیرہ کے ہمراہ کھلے عام نماز مغرب با جماعت ادا کر کے اپنے قبول اسلام کے راز سے پردہ اٹھایا، محمد یوسف نے باقاعدہ دین حق کو قبول کرنے کا اعلان کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ الحمد للہ میں مسلمان ہوں اور میں نے مسلمان ہو کر اپنے ذہن سے بہت بڑا بوجھ اتار دیا ہے، اگر چہ میں نے تین سال قبل اسلام قبول کر لیا تھا لیکن چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر اعلان نہیں کر سکا تھا۔میں چاہتا تھا کہ میرے والدین اور دوسرے گھر والے میرے ساتھ اسلام قبول کرنے کا اعلان کریں جن کو میں اعتماد میں لینے کی کوشش کرتا رہا لیکن وہ نہیں مانے، جب کہ میری اہلیہ مان گئی اور ہم نے بچوں کے ہمراہ اسلام قبول کر لیا مجھے اپنے گھروالوں کی فکر ضرور ہے لیکن اللہ پر بھی یقین ہے کہ وہ جو بھی کر ے گابہتر کرے گا، اگر مسلمان حضور پاک ﷺ کی سیرت پر عمل کرنا شروع کر دیں تو خدا کی قسم پاکستان سمیت دنیا بھر میں کوئی بھی غیر مسلم نہیں رہے گا۔انھوں نے کہا کہ میں کہیں چھپا ہو ا نہیں ہوں، کھلے عام پھر تا ہوں میرے اسلام قبول کرنے میں میرے دوستوں کرکٹر زکا بہت بڑا ہاتھ ہے جو مجھے اسلام کی تعلیمات دیتے رہے، آج الحمد للہ میں اور میری اہلیہ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ پوری دنیا کو ہدایت دے، کر کٹر محمد یوسف نے کہا کہ مجھ پر کسی قسم کا دباؤنہیں اور نہ کسی کا ڈر وخوف ہے، میں نے سیدھا راستہ اپنایا ہے، اس پر مجھے فخر ہے، میں نے دو ماہ قبل عمر ہ کی سعادت بھی حاصل کی ہے اور غیر ملکی دوروں کے دوران نمازیں بھی پڑھتا تھا، انھوں نے کہا کہ فی الحال میں قرآن پاک کا ترجمہ پڑھ رہا ہوں، جب کہ عربی پڑھنے کیلئے وہ حافظ قرآن کی رہنمائی لے رہے ہیں، ایک سوال کے جواب میں محمد یوسف نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ جب مجھے موت آئے تو مجھے کلمہ طیبہ نصیب ہو، میں نے اپنی اہلیہ اور بچوں کو بھی دینی تعلیم دلانا شروع کر دی ہے آخر میں انھوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ میرے والد ین کو بھی اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

محمد یوسف کی اہلیہ فاطمہ بھی اپنے اور اپنے شوہر کے فیصلہ پر بہت فرحاں اور شاداں اور مطمئن ہیں، صحافیوں کے رابطے پر فاطمہ نے بتایا کہ ہم نے کسی دباؤکے تحت اسلام قبول نہیں کیا بلکہ ہم جب سے مسلمان ہوئے ہیں دل کا بوجھ ختم ہو گیا ہے اور بے حد سکون محسوس کر رہے ہیں، ہماری زندگی میں ان تبدیلوں سے کسی قسم کا خوف نہیں۔

فاطمہ نے مزید کہا کہ محمد یوسف عیسائی ہوتے ہوئے بھی آدھے مسلمان تھے، ان کے زیادہ تر تعلقات مسلمانوں کے ساتھ تھے ان کے دوست احباب بھی زیادہ تر مسلمان تھے اور ان کے ساتھ بیٹھنا اٹھنا تھا اور وہ اپنے دوستوں کی بہت قدر کرتے تھے، اسلامی کتابیں اور قرآن پاک کی تفسیریں بھی وہ بہت شوق سے پڑھتے تھے، اب میں نے بھی اسلام قبول کر لیا ہے، اپنی زندگی کی ان تبدیلوں سے ہمیں کسی قسم کا خوف نہیں ہے، میں اپنے شوہر کے ساتھ ہوں اور کسی بھی مخالفت کا سامنا کر نے کو تیار ہوں ہماری زندگی میں سادگی اور قناعت آ چکی ہے، میں بھی نماز پڑھتی ہوں اور قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھنے اور سمجھنے کی پوری کوشش کر رہی ہوں۔

محمد یوسف اور ان کی اہلیہ فاطمہ کے قبول اسلام کے بعد کے بیانات کا ایک بار پھر مطالعہ کریں تو احساس ہو گا کہ وہ دونوں کسی خوف اور ہر قسم کی مخالفت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی بات کرتے ہیں، جس کی بظاہر کوئی وجہ نہیں مگر اس صورت حال پر لاہور کے آرچ بشپ لارنس جے سارترکا ردّ عمل پڑھیں تو اس خوف کی وجہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی وہ کہتے ہیں کہ یوسف کا اسلام قبول کرنا اس کا ذاتی فیصلہ تھا اور مذہب ہر شخص کا بنیادی حق ہے لیکن اگر اس پر پریشر ڈالا گیا ہے تو یہ افسوسناک ہے، ہمیں یوسف پر فخر تھا کہ وہ پاکستانی ٹیم میں اقلیتوں کی نمائندگی کرتا تھا، سب اس کی اچھی پر فارمنگ سے خوش تھے، لیکن اب اس لئے مایوسی کی بات ہے کہ ہمارا نمائندہ نہیں رہا، تا ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ زیادہ کامیاب ہو اور ہر میدان میں اچھا کر دارادا کرے محمد یوسف کی جان کو خطرہ کے حوالہ سے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس کے چاہنے والے بہت پریشان اور غصہ میں ہیں، اس لئے کچھ بھی ہو سکتا ہے، وہ نوجوانوں کا آئیڈیل تھا جو یوسف کے مسلمان ہونے پر جذباتی ہیں، اس لئے کچھ بھی ہو سکتا ہے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، اقلیت میں ہونے کے باوجود آرچ بشپ نے جس طرح یوسف کے لئے کھلم کھلا دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا ہے اور قبول اسلام کے نتائج کچھ بھی ہو سکنے کا جو عندیہ انھوں نے دیا ہے، اسکے سلسلہ میں کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ اس بیان کا نوٹس لے اور نومسلم محمد یوسف اور اس کے اہل خانہ کے جان و مال کے تحفظ کے لئے موثر و بروقت اقدامات کرے، یوسف کا قبول اسلام اور اس کا اعلان جہاں اپنی جگہ ایک مسرت آ گیں اقدام ہے وہیں اس کا یہ پہلوبھی خاصہ اطمینان بخش ہے کہ یوسف کے اعلانیہ نماز کی باجماعت ادائیگی کے بعد کرکٹر ساتھیوں، کرکٹ بورڈ کے ملازمین حتیٰ کہ صحافیوں نے بھی نماز با جماعت میں شرکت شروع کر دی ہے، جب کہ اس سے پہلے ان میں اکثر نماز کے وقت ادھر ادھر گھومتے رہتے تھے، اس کے ساتھ ہی ایک فکر انگیز پہلوجس کی طرف یوسف نے صحافیوں کی موجودگی میں اشارہ کنایہ میں بات کی ہے اور اس کے قریبی دوستوں کے مطابق بھی محفلوں میں وہ اکثر اس کا تذکرہ کرتے ہیں، کہ اگر وہ مسلمانوں کے کر دار کو دیکھتا تو اس کے پاس اسلام قبول کرنے کا کوئی جواز نہیں تھاکیونکہ مسلمان اور غیر مسلموں کے کر دار میں کوئی نمایاں فرق اس نے محسوس نہیں کیا، یہ تو اسلام کی تعلیمات ہیں جنھوں نے اسے حق تک پہنچنے اور اسے قبول کرنے میں اس کی رہنمائی کی، یوسف اور اس کے ساتھیوں کی بجا طور پر یہ تمنا ہے کہ کاش مسلمانوں کا کر دار بھی اس قابل ہو سکے کہ غیر مسلم اس سے متاثر ہو کر اسلام کی جانب کشش محسوس کریں، بہر حال اللہ تعالیٰ کا شکر اس امر پر ضرور ادا کرنا چا ہئے کہ اس نے بچپن سے لے کر ٗکر کٹ کے میدان تک یوسف کو ایسے ساتھی میسر کئے جنھوں نے اسے اسلام اور قرآن کی تعلیمات کو سمجھنے اور انھیں اختیار کرنے کی جانب متوجہ کئے رکھا، جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آخر کار یوسف کو قبول حق کی توفیق بخشی۔

کرکٹ کے شائقین اور مبصرین اس امر پر بھی اطمینان کا اظہار کرتے اور اس پر متعلقہ حلقوں کو متوجہ کرنے پر زور دیتے ہیں کہ جب سے پاکستان کی ٹیم کو دین سے محبت رکھنے والے کھلاڑی میسر آئے ہیں، ٹیم کی میچ فکسنگ اور بیرون ملک بے راہ روی کے چلن کے الزامات سے جان چھوٹ گئی ہے اور بہت سی کامیابیوں نے قومی ٹیم کے قدم چومے ہیں، اس لئے کرکٹ اور دوسرے قومی کھیلوں کے ارباب بست وکشاد کو ٹیم کے سلیکشن کے وقت کھلاڑیوں کی فنی کارکر دگی کے ساتھ ذاتی کر دار کی پختگی کو بھی اہمیت دینی چاہئے، تاکہ بعد ازاں پیش آنے والی بہت پریشانیوں سے چھٹکارہ مل سکے۔


مستفاد از ماہ نامہ’ ارمغان‘اکتوبر ۲۰۰۵ء
 

شمشاد

لائبریرین
شریک محفل کرنے کا شکریہ۔

منظور صاحب اچھا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ جاری رکھیئے گا۔
 
ماشاءاللہ بھائی محمد یوسف صاحب مسجد میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
998034_316594598487034_150023987_n.jpg
 
Top