کرکٹ بمقابلہ کینسر: شوکت خانم سے رتھ سٹراس تک کا سفر

جاسم محمد

محفلین
کرکٹ بمقابلہ کینسر: شوکت خانم سے رتھ سٹراس تک کا سفر
محمد صہیب بی بی سی اردو ڈاٹ کام
  • 2 گھنٹے پہلے
_108323236_befunky-collage-1.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES/IMRAN KHAN OFFICAL
Image captionسٹراس کی اہلیہ کی وفات دسمبر سنہ 2017 میں 46 برس کی عمر میں ہوئی تھی

جمعرات کو انگلینڈ اور آسٹریلیا کے مابین لارڈز میں کھیلے جانے والے دوسرے ایشز ٹیسٹ کا دوسرے دن اینڈریو سٹراس کی آنجہانی اہلیہ رتھ سٹراس کے نام کیا گیا ہے۔

اس کے تحت رتھ کی یاد میں کرکٹ کے گھر ’لارڈز کو سرخ کرنے‘ کی مہم چلائی گئی ہے تاکہ رتھ سٹراس فاؤنڈیشن کے لیے امداد اکھٹی کی جا سکے۔

کھلاڑیوں کے یونیفارم پر ان کے نام اور نمبر سرخ رنگ سے لکھے گئے ہیں اور انھیں سرخ رنگ کی اعزازی ٹوپیاں بھی دی گئی ہیں۔

اس کے علاوہ اس مہم کا مقصد ان کی وفات کا باعث بننے والے پھیپھڑوں کے کینسر کی اس قسم کے بارے میں آگاہی ہے جس کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں اور اس کے علاج سے متعلق تحقیق کے لیے امداد جمع کرنا بھی ہے۔

سٹراس کی اہلیہ کی وفات دسمبر سنہ 2017 میں 46 برس کی عمر میں ہوئی تھی۔ سٹراس نے بی بی سی کے ریڈیو پروگرام ٹیسٹ میچ سپیشل میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سب اسی فریب میں جیتے ہیں کہ ہمیں ہمیشہ زندہ رہنا ہے اور ہم میں سے وہ لوگ جو کینسر سے جنگ کرتے ہوئے مریضوں کے ساتھ ہوتے ہیں ہمیں اندازہ ہوتا ہے موت تو ہمارا ہر جگہ پیچھا کرتی ہے۔‘

کینسر نے اس سے پہلے مشہور امپائر ڈیوڈ شیپرڈ اور نیوزی لینڈ کے سابق کپتان اور معروف کھلاڑی مارٹن کرو کی بھی جان لی تھی۔

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ کینسر کے مرض سے متعلق امداد اور آگاہی کے لیے کرکٹ کے ذریعے مہم چلائی گئی ہو۔

_108322943_gettyimages-50985155.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionنومبر سنہ 1989 کو انڈیا کے خلاف قذافی سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے ایک میچ میں عمران خان نے کینسر ہسپتال کے لیے امداد اکھٹی کرنے کی ٹھانی

شوکت خانم اور عمران خان

عمران خان کی والدہ شوکت خانم کو سنہ 1984 میں کینسر کا مرض لاحق ہوا اور وہ فروری سنہ 1985 کو چل بسیں۔

ایسے میں انھوں نے کرکٹ کے ذریعے امداد اکھٹی کر کے پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا فلاحی کینسر ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا۔

عمران خان نے جب سنہ 1987 میں کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا اور پھر اسے واپس لیا تو اس کی ایک وجہ شوکت خانم ہسپتال کے لیے امداد اکھٹی کرنا بھی تھا۔ 10 نومبر سنہ 1989 کو انڈیا کے خلاف قذافی سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے ایک میچ میں انھوں نے کینسر ہسپتال کے لیے امداد اکھٹی کرنے کی ٹھانی۔

سنہ 1992 میں پاکستان کی ٹیم کی جیت کا محرک بھی شوکت خانم ہسپتال تھا۔ انگلینڈ سے ورلڈ کپ کا فائنل جیتنے کے بعد بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ یہ فتح شوکت خانم ہسپتال بنانے کے خواب کی تعمیل میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔

شوکت خانم کی ویب سائٹ کے مطابق انھیں نے ورلڈکپ فائنل کے چھ ہفتوں میں تقریباً 15 لاکھ ڈالر اکھٹے کیے اور پانچ سال کی مہم بالآخر رنگ لائی اور سنہ 1994 میں پاکستان کا سب سے بڑا کینسر ہسپتال قائم ہوا۔ یہ ہسپتال ہر سال کینسر کے تقریباً 75 فیصد مریضوں کو مفت علاج فراہم کرتا ہے۔

_108323183_gettyimages-630735992.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionجین میکگراتھ سنہ 2008 میں وفات پا گئیں لیکن ان کے شوہر نے اس فاؤنڈیشن کو آگے بڑھایا اور کرکٹ کے ذریعے امداد اکھٹی کرنے کی ٹھانی

جین میکگراتھ اور میکگراتھ فاؤنڈیشن

آسٹریلوی فاسٹ بولر گلین میکگراتھ کی اہلیہ جین میکگراتھ چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہو گئی تھیں۔ آغاز میں علاج کے بعد وہ کینسر سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھیں لیکن انھیں اس مرض کا سامنا دوبارہ کرنا پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔

اس دوران جین کی ’بریسٹ کیئر نرس‘ کی بدولت انھیں اور ان کے شوہر کو بہت فائدہ ہوا۔ جین نے مکگراتھ فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کے لیے ایک بیغام میں لکھا تھا کہ ’میری بریسٹ کیئر نرس نے مجھے جین مکگراتھ بننے کا موقع دیا جو ایک دوست، ماں اور بیوی بھی تھی صرف ایک کینسر کی مریضہ نہیں تھی۔‘

وہ سنہ 2008 میں وفات پا گئیں لیکن ان کے شوہر نے اس فاؤنڈیشن کو آگے بڑھایا اور کرکٹ کے ذریعے امداد اکھٹی کرنے کی ٹھانی۔

اس سسلے میں سڈنی میں کھیلے جانے والے آسٹریلیا کے پِنک ٹیسٹ کا تیسرا دن جین مکگراتھ ڈے کہلاتا ہے جس میں کھلاڑی گلابی ٹوپیاں پہنتے ہیں اور میکگراتھ فاؤنڈیشن کے لیے امداد بھی اکھٹی کرتے ہیں۔

آج بھی مکگراتھ فاؤنڈیشن چھاتی کے کینسر کے مریضوں کو بریسٹ کیئر نرسوں کی سہولت فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

گلین مکگراتھ نے اینڈریو سٹراس کے ساتھ بی بی سی ریڈیو کے ٹیسٹ میچ سپیشل کے میزبان جاناتھن ایگنیو کو ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ 'کھیل تمام سرحدیں پار کر لیتا ہے اور اس میں لوگوں کو اکھٹا کرنے کی صلاحیت ہے۔ میرے لیے یہ دن بہت معنی رکھتا ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کھیل میں کتنی طاقت ہے۔'

_108323185_gettyimages-916533178.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionہر سال جوہانسبرگ ایکیڈیمک ہسپتال کے بریسٹ کیئر کلینک میں تقریباً 350 ایسی خواتین کا علاج کیا جاتا ہے جو چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہوتی ہیں

جنوبی افریقہ کا ’پِنک ون ڈے‘


ہر سال چھاتی کے کینسر سے متعلق آگاہی کے لیے جنوبی افریقہ کی ٹیم گلابی رنگ کے لباس میں ملبوس ہو کر ایک روزہ میچ کھیلتے ہیں اور امداد اکھٹی کرتے ہیں۔

یہ امداد شیرلوٹ میزیکے جوہانسبرگ ایکیڈیمک ہسپتال کے بریسٹ کیئر کلینک کو جاتی ہے جہاں ہر سال تقریباً 350 ایسی خواتین کا علاج کیا جاتا ہے جو چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہوتی ہیں۔

کرکٹ جنوبی افریقہ نے سنہ 2011 سے مومنٹم اور سی جی ایل نامی سپانسرز کے ساتھ مل کر اس میچ کا انعقاد کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔ پچھلے سال ایک محتاط اندازے کے مطابق اس میچ سے تقریباً 17 لاکھ ڈالر اکھٹے کیے گئے تھے۔
 
Top