کرتے ہیں محبت سب ہی مگر

معین الدین

محفلین
کرتے ہیں محبت سب ہی مگر

آدهی رات کو جب دنیا والے
جب خوابوں میں کهو جاتے ہیں
ایسے میں محبت کے روگی
یادوں کے چراغ جلاتے ہیں
کرتے ہیں محبت سب ہی مگر
ہر دل کو صلہ کب ملتا ہے
آتی ہیں بہاریں گلشن میں
ہر پهول مگر کب کهلتا ہے
میں رانجها نہ تها تو ہیر نہ تهی
ہم اپنا پیار نبها نہ سکے
یوں پیار کے خواب بہت دیکهے
تعبیر مگر ہم پا نہ سکے
ہم نے تو چاہا بہت لیکن
تو رکهہ نہ سکی وعدوں بهرم
اب رہ رہ کے یاد آتا ہے
جو تو نے کیا اس دل پہ ستم
پردہ جو ہٹا دوں چہرے سے
تجهے لوگ کہیں گے ہرجائی
مجبور ہوں میں دل کے ہاتهوں
منظور نہیں تیری رسوائی
سوچا ہے کہ اپنے ہونٹوں پر
میں چپ کی مہر لگا لونگا
میں تیری سلگتی یادوں سے
اب اس دل کو بہلا لونگا
کرتے ہیں محبت سب ہی مگر...!!
 
Top