کرتارپور: ایک قدیم مذموم منصوبہ اور شورش کاشمیری کی پیش گوئی

جاسم محمد

محفلین
کرتارپور: ایک قدیم مذموم منصوبہ اور شورش کاشمیری کی پیش گوئی
04/12/2019 اویس حفیظ

جب سے کرتارپور راہداری کا افتتاح ہوا ہے، اس حوالے سے پھیلائے جانے والی ”مصدقہ“ افواہوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پہلے یہ تاثر عام کیا گیا کہ یہ راہداری قادیانیوں کے لیے بنائی جا رہی ہے۔ پھر چند ایک علمائے دین کے بیانات اور پھر شورش کاشمیری کی ”پیش گوئی“ کا سلسلہ شروع ہو گیا، اب چند روز قبل ایک وڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک سکھ کرتارپور منصوبے کو ”آشکار“ کر رہا ہے۔ اس سے قبل نوجوت سنگھ سدھو کی قادیانیوں کے ساتھ تصویریں سامنے آنے پر بھی خوب ڈنکے بجائے گئے اور حکومت کو قادیانی نواز ”ثابت“ کر دیا گیا۔

سب سے پہلے شورش کاشمیری کی پیش گوئی کا ذکر: کرتارپور کے حوالے سے شورش کاشمیری کی کتاب ”تحریکِ ختم نبوت“ کے باب ”قادیانی جاسوس“ کے صفحہ نمبر 224 کا بالخصوص حوالہ دیا جا رہا ہے جس میں سکھ قادیانی گٹھ جوڑ اور کرتارپور کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے پہلے شورش صاحب کی تحریر ملاحظہ ہو:

”یورپ کی نظریاتی و استعماری طاقتیں نہ تو اسلام کو بطور طاقت زندہ رکھنے کے حق میں ہیں اور نہ اس کی نشاۃ ثانیہ چاہتی ہیں۔ ہندوستان کی خوشنودی کے لئے پاکستان ان کی بندر بانٹ کے منصوبہ میں ہے۔ وہ اس کو بلقان اور عرب ریاستوں کی طرح چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے سامنے مغربی پاکستان کا بٹوارہ ہے، وہ پختونستان، بلوچستان، سندھودیش اور پنجاب کو الگ الگ ریاستیں بنانا چاہتی ہیں۔ ان کے ذہن میں بعض سیاسی روایتوں کے مطابق کراچی کا مستقبل سنگاپور اور ہانگ کانگ کی طرح ایک خودمختار ریاست کا ہے۔

خدا نخواستہ اس طرح تقسیم ہو گئی تو پنجاب ایک محصور صوبہ ہو جائے گا، جس طرح مشرقی پاکستان کا غصہ مغربی پاکستان میں صرف پنجاب کے خلاف تھا، اسی طرح پختونستان، بلوچستان اور سندھو دیش کو بھی پنجاب سے ناراضی ہو گی، پنجاب تنہا رہ جائے گا تو عالمی طاقتیں سکھوں کو بھڑکا کر مطالبہ کرا دیں گی کہ مغربی پنجاب ان کے گوروؤں کا مولد، مسکن اور مرگھٹ ہے لہٰذا اُن کا اس علاقہ پر وہی حق ہے جو یہودیوں کا فلسطین (اسرائیل) پر تھا، اور انہیں وطن مل گیا۔

عالمی طاقتوں کے اشارے پر سکھ حملہ آور ہوں گے، اس کا نام شاید پولیس ایکشن ہو۔ جانبین میں لڑائی ہوگی لیکن عالمی طاقتیں پلان کے مطابق مداخلت کرکے اس طرح لڑائی بند کرا دیں گی کہ پاکستانی پنجاب، بھارتی پنجاب سے پیوست ہوکر سکھ احمدی ریاست بن جائے گا جس کا نقشہ اس طرح ہو گا کہ صوبہ کا صدر سکھ ہوگا تو وزیراعلیٰ قادیانی۔ اگر وزیراعلیٰ سکھ ہوگا تو صدر قادیانی! اسی غرض سے استعماری طاقتیں قادیانی امت کی کھلم کھلا سر پرستی کر رہی ہیں۔

بعض مستند خبروں کے مطابق سر ظفراللہ خاں لندن میں بھارتی نمائندوں سے پُخت و پُز کر چکے ہیں۔ قادیانی اس طرح اپنے نبی کا مدینہ (قادیان) حاصل کر پائیں گے جو ان کا شروع دن سے مطمح نظر ہے اور سکھ اپنے بانی گورو نانک کے مولد میں آ جائیں گے، یہی دونوں کے اشتراک کا باعث ہوگا۔ قادیانی عالمی استعمار سے اپنی ریاست کا وعدہ لے چکے ہیں اور اس کے عوض عالمی استعمار کے گماشتہ کی حیثیت سے اسرائیل کی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے وہ مسلمانوں کی صف میں رہ کر عرب ریاستوں کی بیخ کنی اور مخبری کے لئے افریقہ کی بعض ریاستوں میں مشن رچا کے بیٹھے ہیں اور حیفا (اسرائیل) میں حکومت یہود کے مشیر برائے اسلامی ممالک ہیں۔

وہ پاکستان میں حکمران جماعت کے ہاتھوں سرحد و بلوچستان کی نمائندہ جماعت کو پٹوا کر پنجاب و سندھ میں اسلامی ذہن کے قتلِ عمد سے موعودہ استعماری صوبہ کی آبیاری کر رہے ہیں۔ اور اس وقت طاقتوں کی معرفت اسرائیل اور ہندوستان کے آلہ کار ہیں اور یہ ہے ان کا سیاسی چہرہ جس سے ان کا داخلی وجود ظاہر ہوتا ہے“۔

اس ساری پیش گوئی کا آغاز ہوتا ہے (خاکم بدہن) پاکستان کے بٹوارے سے۔ یعنی پاکستان کی جگہ پانچ آزاد ریاستوں کراچی، سندھو دیش، پختونستان، بلوچستان اور پنجاب کے تشکیل پا جانے کے بعد سے۔ چونکہ باقی چار آزاد ریاستوں کا غصہ پنجاب پر ہے، اس لیے سکھ عالمی طاقتوں کے اشارے پر پنجاب پر حملہ آور ہوں گے اور پنجاب ہتھیا کر ایک سکھ قادیانی ریاست بنا دیں گے۔ کیا اس میں سے دس فیصد پر بھی عمل ہوا؟ شورش صاحب نے صرف اپنا خدشہ ظاہر کیا تھا اور اس میں کوئی مبالغہ ہرگز نہ تھا، بلوچستان کی پختون بیلٹ اور صوبہ سرحد کا افغانستان سے الحاق تو ایک عرصے تک ہمارا مسئلہ رہا۔ کے پی کے ہمارے بعض سیاستدان آج بھی یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ افغان بارڈر تو صرف ایک لکیر ہے، ہم آج بھی خود کو افغانستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔

جب سرحد کا نام ”خیبر پختونخوا“ رکھا گیا تو اس وقت بھی یہ بازگشت سنائی دی کہ یہ صوبہ سرحد کو ”پختونستان“ بنانے کی عالمی سازش کا حصہ ہے۔ اگر یہ سب کچھ عالمی سازش کا حصہ ہے تو پختونستان کی بنیاد تو پیپلز پارٹی نے (صوبے کا نام تبدیل کر کے ) رکھی اور اس کے ہاتھ مسلم لیگ نواز نے مضبوط کیے (اٹھارہویں ترمیم منظور کروا کر)۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ محض سازشی تھیوریاں ہیں۔ جب کچھ جانب سے مذکورہ بالا تحریر کا منطقی جواب دیا جانے لگا تو ایک ”خفیہ وڈیو“ منظر عام پر آئی۔

یہ وڈیو چند سکھوں کی ہے جو کرتارپور کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں۔ خفیہ انداز میں بنائے جانے والی اس وڈیو میں ایک سکھ بتا رہا ہے کہ ”کرتارپور بارڈر تین دن سکھوں کے لیے وقف ہے اور تین دن قادیانیوں کے لیے“۔ اب اس وڈیو میں نہ تو اس سکھ شخص کا کوئی تعارف ہے کہ یہ کون ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ وہ کس بنیاد پر یہ بات کر رہا ہے۔ یہ سب محض اس کا گمان تھا کیونکہ جس کسی نے بھی کرتارپور کا دورہ کیا ہے، اسے حالات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ کرتارپور سے قادیانیوں کو (اگر وہ یہ راستہ استعمال کرنا چاہیں تو بھی) ذرہ برابر کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ کرتارپور ”ون وے گیٹ وے“ ہے اور یہ جو قیاس ہے کہ یہاں سے قادیانیوں کو قادیان کا راستہ فراہم کیا جا رہا ہے، سوائے سوئے ظن کے کچھ نہیں کیونکہ کوئی بھی پاکستانی یہاں سے بھارتی حدود میں داخل نہیں ہو سکتا۔

ویسے بھی یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ اس وقت قادیانی ربوہ سے براستہ امرتسر قادیان جاتے ہیں اور یہ تمام راستہ بہترین سڑکوں پر مشتمل ہے جبکہ لاہور سے نارووال تک سڑک جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ربوہ سے لاہور 170 کلومیٹر اور لاہور سے قادیان کا فاصلہ براستہ امرتسر تقریباً 102 کلومیٹر ہے جبکہ براستہ نارروال جانے کے لیے پہلے لاہور سے نارووال جانے پڑے گا یعنی 145 کلومیٹر نارووال اور 44 کلومیٹر نارووال سے قادیان یعنی 185 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔

اب بھلا کوئی 102 کلومیٹر کا فاصلہ چھوڑ کر 185 کلومیٹر والا راستہ کیوں اختیار کرے گا؟ ویسے بھی اب تک یہ راہداری پاکستان نے کھولی ہے، بھارت نے نہیں۔ قادیانی اگر ویزا لے کر بھی نارووال پہنچ جاتے ہیں تو بھی انہیں کرتارپور بارڈر سے بھارت میں داخلہ نہیں ملے گا۔ اس وقت صرف واہگہ۔ اٹاری بارڈر کراسنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ کھوکھرا پار۔ مناباؤ بارڈر ٹرین کی گزرگاہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، پاک بھارت تعلقات چونکہ چہار موسم کشیدہ رہتے ہیں اس لیے راہداریاں یا کراسنگ بارڈر جو بنائے بھی گئے، کچھ عرصہ بعد بند کر دیے گئے۔

اب جبکہ فروری 2019 ء سے پاک بھارت تجارت بھی معطل ہے، کسی نئے کراسنگ پوائنٹ کا تو خیال بھی محال ہے۔ اگر دربار کرتارپور صاحب کی بات کی جائے تو یہاں نارووال کی طرف سے تو کوئی بھی پاکستانی اپنا شناختی کارڈ دکھا کر جا سکتا ہے مگر بھارت سے صرف سکھ داخل ہوں گے اور وہ بھی محض گوردوارے کی حد تک۔ وہ گوردوارے سے نکل کر پاکستانی حدود میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ دونوں جانب بائیو میٹرک ویری فیکیشن کاؤنٹرز ہیں۔

جب آپ گوردوارے کی پارکنگ میں داخل ہوں گے تو وہاں شناختی کارڈ کی تصدیق اور بائیو میٹرک ویری فیکیشن کے بعد آپ کو آر ایف آئی ڈی کارڈ ایشو کیا جائے گا جسے ہمہ وقت پہنے رکھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر گوردوارے میں داخلہ ممکن نہیں۔ جس طرح بھارتی شہری گوردوارے سے پاکستان میں داخل نہیں ہو سکیں گے، اس طرح پاکستانی بھی بھارت میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ اس لیے اس راہداری سے قادیانیوں کو قطعاً کوئی فائدہ نہ ہو سکے گا۔ یہ جو عوام میں مشہور ہے کہ یہاں سے ”بھارتی ایجنٹ“ بنا ویزے پاکستان میں داخل ہو جائیں گے، محض لاعلمی کا شاخسانہ ہے۔

پھر یہ سوال بڑی شدت سے اٹھایا جاتا ہے کہ بھارت کے ساتھ کشیدہ حالات کے باوجود کرتارپور کیوں کھولا گیا تو اس کا درست علم تو حکومت کو ہو گا مگر گمانِ غالب یہی ہے کہ یہ بھارت کے سینے پر مونگ دلنے کی ایک کوشش ہے کیونکہ آئندہ سال سکھوں کا (بھارتی) پنجاب کے حوالے سے ٹونٹی ٹونٹی ریفرنڈم منعقد ہو رہا ہے جس میں سکھ بھارت کے ساتھ اپنے مستقبل پر نظر ثانی کریں گے۔ اس کے لیے اگست 2020 ء میں پوری دنیا میں سکھوں کی ووٹ رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہوگا جبکہ نومبر میں ریفرنڈم ہوگا۔

اگرچہ اس ریفرنڈم سے فوری طور پر تو کچھ نہیں ہونے والا مگر بھارت کے لیے سبکی کا ایک نیا میدان ضرور کھلنے والا ہے کیونکہ صاف نظر آ رہا ہے کہ سکھ آزاد خالصتان کے حق میں ووٹ دیں گے اور 1947 ء میں بھارت (ہندوؤں ) کا ساتھ دینے پر تاسف کا اظہار کریں گے۔ اس موقع پر سکھوں کو کرتارپور کا تحفہ دینا جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت کی جانب سے سکھوں کو مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کیا جا رہا ہے۔

پہلے کرتارپور کے افتتاح کے موقع پر بھارت کے پاسپورٹ کے نام پر سکھوں کو تنگ کرنا شروع کیا، جس پر انہوں نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو خط لکھا اور عمران خان نے ایک سال کے لیے پاسپورٹ کی شرط کو موقوف کر دیا۔ مگر سکھوں کی مشکلات اب بھی ختم نہیں ہوئیں اور انہیں بھارت سرکار کی جانب سے تنگ کیا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت سے کرتارپور آنے والے سکھوں کی تعداد چند سو تک محدود ہے۔ تاہم اس بارڈر سے بھارت کی رات کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔

خالصتان موومنٹ کے روح رواں سردار پتونت سنگھ نے کچھ عرصہ قبل کینیڈا میں ایک پریس کانفرنس میں بھارتی ملٹری انٹیلی جنس کی ایک رپورٹ کا ذکر کیا تھا جس کے مطابق بھارتی آرمی کے تمام اہم مراکز کو خبردار کیا گیا کہ وہ سکھ فوجیوں پر کڑی نظر رکھیں اور اس کا ثبوت اس کے کچھ ہفتوں بعد بھارتی فوج کے اسپیشل سروسز گروپ کے سکھ کمانڈو دھرمندر سنگھ اور ایک سکھ پولیس افسر کی گرفتاری اور ان سے خالصتان تحریک کے پوسٹرز اور اسلحہ ملنے کی خبریں سامنے آنے سے مل گیا۔

علاوہ ازیں سکھ مذہبی رہنماؤں نے بھارتی فوج میں موجود سکھوں کو اکال تخت سے یہ ہدایت بھی جاری کر رکھی ہے کہ اگر وہ پاکستان پہ فائرنگ کریں گے تو ان کے سکھ دھرم سے خارج ہونے کا خطرہ ہے۔ کیونکہ پاکستان کا شہر ان کے پہلے گورو اور سکھ دھرم کے بانی گورو نانک کا جنم اور مرن استھان ہے اور سکھ مذہب اجازت نہیں دیتا کہ کوئی سکھ اپنے مقدس استھان کی طرف گولی چلائے۔ گزشتہ دنوں سامنے آنے والی بھارتی ملٹری انٹیلی جنس کی رپورٹ کہ بھارتی فوج میں مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر افسران اور جوان ایک دوسرے کے قریب آنے سے کترانے لگے ہیں جبکہ سپاہیوں کے ساتھ افسران ذاتی غلاموں جیسا سلوک روا رکھتے ہیں جس کے باعث بھارتی سپاہی ذہنی طور پر غلام بن کر رہ گئے ہیں، کو خالصتان تحریک کی تیزی اور کرتارپور راہداری کے افتتاح کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو یہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ کرتارپور کے حوالے سے ابہام پھیلانے میں کس کا فائدہ ہے اور یہ کہ اس وقت خطرہ پاکستانی پنجاب کو لاحق ہے یا بھارتی پنجاب کو۔
 
Top