کربلا گواہی دے ۔ افتخار عارف

کربلا گواہی دے

فاطمہ کی بیٹی نے
باپ کی شجاعت کو
صبر سے بدل ڈالا
بھائی کی رفاقت کا
حق ادا کیا کیسا

کربلا گواہی دے
باب شہر حکمت سے
خیمہ گاہ نصرت تک
محضر شہادت تک
کیسے کیسے نام آئے
کیا عجب مقام آئے
حق کی پاسداری کو
فرض جاننے والے
راہ حق میں کام آئے
ساتھ ساتھ تھی زینب

کربلا گواہی دے

پھر وہ شام بھی آئی
جب بہن اکیلی تھی
اک سفر ہوا انجام
ریگ گرم مقتل پر
چند بے کفن لاشے
بھائیوں بھتیجوں کے
گودیوں کے پالوں کے
ساتھ چلنے والوں کے
ساتھ دینے والوں کے
کچھ جلے وئے خیمے
کچھ ڈرے ہوئے بچے
جن کا آسرا زینب
جن کا حوصلہ زینب

کربلا گواہی دے

مشہد مقدس سے
اک نیاسفر آغاز
اک سفر ہوا انجام
جس کی ایک منزل شام
شام شامِ مظلومی
اور وہ خطبہ زینب
پھر تو بر سر دربار
پوچھنے لگی دنیا
ظلم کی کہانی میں
داستاں سرا وں کے
حاشیئے کہاں تک ہیں
سوچنے لگی دنیا
منبر سلونی کے
سلسلے کہاں تک ہیں
خیر کے تحفظ پر
گھر لٹانے والوں کے
حو صلے کہاں تک ہیں
وقت نے گواہی دی
جبر کے مقابل میں
مصحف شہادت کا
آخری ورق زینب

یہ جو درد محکم ہے
یہ بھی اک گواہی ہے
یہ جو آنکھ پر نم ہے
یہ بھی اک گواہی ہے
یہ جو فرش ماتم ہے
یہ بھی اک گواہی ہے

افتخار عارف​
 

صائمہ شاہ

محفلین
یہ جو درد محکم ہے
یہ بھی اک گواہی ہے
یہ جو آنکھ پر نم ہے
یہ بھی اک گواہی ہے
یہ جو فرش ماتم ہے
یہ بھی اک گواہی ہے
 
Top