کربلا کا واقعہ

61ھ کے آغاز میں حسین بن علی {رض} اپنے ساتھیوں اقرباء کے ساتھ مکہ و عراق کے درمیان علاقے میں کوفے کی طرف جارہے تھے ۔ ابو مخنف روایت کرتے ہیں ابو جناب سے ، وہ حدی بن حرملتہ سے ، وہ عبیداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن شمعل اسدی سے ۔ یہ دونوں حضرات کہتے ہیں کہ حسین {رض} چلتے چلتے جب مقام اشرف میں ٹھہرے تو آپ نے لڑکوں کو سحری کے وقت کہا خوب پانی طلب کرلو
پھر آپ دن چڑھنے تک چلتے رہے ۔ اس وقت آپ نے ایک آدمی کو تکبیر کہتے ہوئے سنا ۔ آپ نے اس سے پوچھا تو نے کیوں تکبیر کہی ؟
اس نے کہا میں نے کھجور کا درخت دیکھا ہے
قبیلہ اسد کے دو آدمیوں نے کہا یہاں تو کبھی کسی نے کھجور کا درخت نہیں دیکھا
حسین {رض} نے پوچھا پھر تم کیا سمجھتے ہو ؟ ۔ اس نے کیا دیکھا ؟
ان دونوں نے کہا گھوڑ سوار آرہے ہیں
آپ نے پوچھا کیا کوئی ایسا ٹھکانہ نہیں ہے جسے پشت کی پیچھے رکھ کر ہم ان لوگوں سے صحیح مقابلہ کرسکیں ؟
انہوں نے کہا مقام دوحسم ہے
آپ بائیں طرف سے چل کر وہاں پہنچے ۔ خیمے لگانے کا حکم دیا وہ لگائے گئے ۔
ایک ہزار شہسوار حر بن یزید تمیمی کے ساتھ آئے ۔ جو ابن زیاد کے بھیجے ہوئے لشکر کا مقدمۃ الجیش تھے ۔ ظہر کے وقت وہ آپ کے مقابلے کے لیے کھڑے ہوئے ۔
حسین {رض} اور ان کے ساتھی تلواریں لگائے ہوئے تھے ۔
آپ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا خود بھی سیراب ہوجائیں اور اپنے گھوڑوں کو بھی پانی پلادیں اور دشمن کے گھوڑوں کو بھی پانی پلادیں
ظہر کے وقت آپ نے حجاج بن مسروق جعفر کو اذان دینے کا حکم دیا ۔ اس نے اذان دی ۔ آپ نکلے جسم پر ایک ازار ایک چادر تھی اور پاؤں میں جوتے تھے ۔
اپنے ساتھیوں اور دشمنوں سب کو خطاب کرکے اپنے آنے پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اہل کوفہ نے ان کی طرف لکھا تھا کہ ان کا کوئی امام نہیں اگر آپ پاس آئیں گے تو ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اور آپ کے ساتھ قتال کریں گے ۔
جماعت کا وقت ہوا تو آپ نے حر سے کہا تم اپنے اصحاب کو نماز پڑھاؤ گے ؟
اس نے کہا آپ نماز پڑھا لیں ہم آپ کے پیچھے نماز پڑھ لیں گے
اور نماز پڑھا کر آپ اپنے خیمے میں داخل ہوئے اور آپ کے اصحاب آپ کے پاس جمع ہوگئے ۔
حر اپنے لشکر کی طرف چلا گیا ۔ دونوں فریق تیار تھے ۔
( واللہ اعلم )
 
عصر کا وقت ہوا تو حسین {رض} نے نماز پڑھائی ۔ نماز کے بعد آپ نے خطبہ دیا جس میں اپنی اطاعت و فرمانبرداری کی ترغیب دی اور اپنے دشمنوں سے قطع تعلق کے بارے میں کہا ۔
حر نے آپ سے کہا ہم نہیں جانتے یہ خطوط کیسے ہیں اور نہ ان کے لکھنے والوں کو جانتے ہیں ۔
آپ نے خطوں سے بھری ہوئی دو تھیلیاں لاکر اس کے سامنے پھیلا دیں اور ان میں سے کچھ خطوط پڑھے ۔
حر نے کہا ہم ان لوگوں میں سے نہیں جنہوں نے آپ کو خط لکھے ہیں ۔ ہمیں تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہر صورت میں آپ کو عبیداللہ بن زیاد کے پاس لے جائیں
آپ نے کہا موت اس وقت زیادہ قریب ہے
آپ نے اپنے ساتھیوں کو سوار ہونے کا حکم دیا ۔ وہ سب سوار ہوئے ۔ عورتیں بھی سوار ہوگئیں ۔ جب واپس پلٹنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے راستہ روک لیا ۔
آپ نے حر سے کہا تیری ماں تجھ پر روئے ۔ تو کیا چاہتا ہے ؟
حر نے کہا اللہ کی قسم اگر تیرے علاوہ عرب میں سے اور کوئی یہ بات کہتا اور اس کی وہی حالت ہوتی جو تیری ہے میں یقینا اس سے بدلہ لیتا اور اس کی ماں کو نہ چھوڑتا لیکن تیری ماں کا تذکرہ اچھائی ہی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے ۔
لوگوں نے باہم گفتگو اور سوال جواب کئے ۔
حر نے آپ سے کہا مجھے آپ سے جنگ کا نہیں کہا گیا ۔ مجھے تو صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ کو ہر صورت میں ابن زیاد کے سامنے پیش کروں ۔ اگر تم یہ نہیں چاہتے تو کوفہ اور مدینہ کے علاوہ اور راستہ پکڑ لو اور تم یزید کی طرف لکھو میں ابن زیاد کی طرف لکھوں ۔ شاید اللہ تعالی کوئی راستہ کھول دے ، جس میں میرے لئے اس آزمائش سے عافیت ہو ۔
اور اس کے بعد آپ عذیب اور قادسیہ کے راستے سے دائیں طرف ہوکر چلنے لگے ۔
حر بن یزید آپ کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا کہتا جاتا اے حسین میں تمہیں تمہاری جان کے معاملے میں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر تم نے جنگ کی تو میرے خیال میں تم ضرور قتل کر دیے جاؤ گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو میرے خیال میں تم ضرور ہلاک ہو جاؤ گے ۔
آپ نے کہا کیا تم مجھے موت سے ڈراتے ہو ؟ ۔ میں وہی بات کہتا ہوں جو اخوالاوس نے کہی تھی جب کہ وہ رسول اللہ {ص} کی مدد کے لیے جارہا تھا راستے میں چچا زاد سے ملاقات ہوئی اور اس نے کہا کہاں جارہے ہو قتل کردیے جاؤ گے ، اخوالاوس نے یہ شعر پڑھے " میں ضرور جاؤں گا اور موت جوان کے لیے عار نہیں ہے جب کہ حق نیت رکھتا ہو اور مسلمان ہونے کی حالت میں جہاد کرے اور نیک لوگوں کی اپنی جان سے ہمدردی کرے اور زندہ رہ کر ذلیل ہونے کے خوف کو چھوڑ دے "
حر نے جب یہ سنا تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک طرف ہوکر چلنے لگا ۔
( واللہ اعلم )
 
عذیب الھجانات پہنچے تو کوفہ سے چار سوار آتے ہوئے دکھائی دیے جو نافع بن ہلال کے گھوڑے الکامل کو سامنے کرکے بچتے ہوئے آرہے تھے ۔ وہ کوفہ سے آپ کا قصد کرتے ہوئے آئے ۔ ان کا رہبر طرماح بن عدی گھوڑے پر سوار تھا اور یہ شعر پڑھ رہا تھا " اے میری اونٹنی میری ڈانٹ سے نہ ڈر اور طلوع فجر سے پہلے تیار ہوجا ۔ بہترین سواروں اور بہترین ساتھیوں کے ساتھ یہاں تک کہ تو پہنچ جائے ایسے شخص کے پاس جو کریم الافضل بزرگ ، شرافت والا اور کشادہ سینے والا ۔ جسے اللہ بہترین کام کے لیے لے کر آیا ۔ پھر اسے باقی رکھا زمانہ کے باقی رہنے تک "
حر نے ارادہ کیا کہ ان سواروں اور حسین {رض} کے درمیان رکاوٹ ڈالے لیکن آپ نے اسے منع کردیا ۔ جب وہ پہنچے تو آپ نے پوچھا اپنے پیچھے لوگوں کی خبر دو ۔
اس میں سے مجمع بن عبداللہ عامری نے کہا لوگوں کے سردار آپ کے خلاف ہیں ۔ اس لیے کہ انہیں خوب رشوت دے کر ان کی بوریاں بھر دی گئی ہیں ۔ ان کی محبت اور خیر خواہی حاصل کرلی گئی ہے ۔ بقیہ لوگوں کے دل تو آپ کی طرف ہیں لیکن ان کی تلواریں آپ کے خلاف اٹھی ہوئی ہیں ۔
آپ نے فرمایا کیا تمہیں میرے قاصد کے متعلق کوئی علم ہے ؟
انہوں نے پوچھا آپ کا قاصد کون ہے ؟
آپ نے فرمایا بن مسہر الصید اوی ۔
انہوں نے کہا ہاں ، حصین بن نمیر نے اسے پکڑ کر ابن زیاد کے پاس بھجوادیا ہے اور ابن زیاد نے اسے حکم دیا کہ وہ آپ اور آپ کے باپ پر لعنت کرے تو اس نے آپ کی اور آپ کے باپ کی تعریف کی اور ابن زیاد اور اس کے باپ پر لعنت کی اور لوگوں کو آپ کی مدد کرنے کی دعوت دی اور انہیں آپ کی آمد کی اطلاع دی تو ابن زید کے حکم سے اسے محل کے اوپر سے پھینک دیا گیا اور وہ فوت ہوگئے ۔
حسین {رض} کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی " فَمِنْ۔هُ۔مْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٝ وَمِنْ۔هُ۔مْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ { پھر ان میں سے بعض تو اپنا کام پورا کر چکے اور بعض منتظر ہیں } " ۔ پھر آپ نے اس کے لیے دعا کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ جنت کو اس کا ٹھکانہ بنادے اور قیامت کے بعد ہم دونوں کو جنت الفردوس میں جمع فرمادے ۔
پھر الطرماح بن عدی نے حسین {رض} سے کہا اپنا حال تو دیکھیے ، آپ کے ساتھ کیا ہے ؟ ۔ چند لوگوں کے سوا کسی کو میں آپ کے ساتھ نہیں دیکھ رہا اور جن لوگوں کو میں آپ کے ساتھ ساتھ چلتا دیکھ رہا ہوں وہ آپ کے ساتھیوں کہ ہم پلہ ہیں اور یہ کیسے ہوگا ۔ جب کہ کوفہ کا بیرونی علاقہ گھوڑوں اور فوجیوں سے بھرا ہوا ہے ۔ جو ضرور آپ پر حملہ آور ہونگے ۔ اللہ کے نام پر میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ اگر آپ کے بس میں ہے تو ایک بالشت بھی ان کی طرف قدم نہ اٹھائیں اور اگر آپ نے کسی شہر میں اترنے کا ارادہ کیا ہے تو اللہ تعالی اس کے ذریعے آپ کو غسان وحمیر کے بادشاہوں اور نعمان بن المنذر اور سوداوراحمر سے بچائے گا ، اللہ کی قسم اگر کبھی ہمیں ذلت و رسوائی نے دوچار کردیا تو میں آپ کے ساتھ چلتا رہوں گا یہاں تک کہ آپ کو بستی میں اتاروں گا پھر آپ قبیلہ طئی کے " باجا " اور " سلمی " کے قبائل کے نوجوانوں کی طرف پیغام بھیجنا پھر اس کے مطابق جتنا آپ چاہیں ہمارے ساتھ قیام کرنا ۔ میں قبیلہ طئی کے دس ہزار لوگوں کا سردار ہوں ۔ آپ کے آگے اپنی تلواروں سے لڑائی کریں گے ۔ اللہ کی قسم وہ کبھی آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے اور وہ یہ سب منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے ۔
حسین {رض} نے اس سے کہا اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے
مگر آپ نے اپنے فیصلہ سے رجوع نہیں فرمایا ۔ تو الطرماح نے حسین {رض} کو الوداع کہا ۔
( واللہ اعلم )
 
آپ حسین {رض} وہاں سے چل پڑے ، جب رات ہونے لگی تو آپ نے نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق پانی جمع کرلیں ۔ پھر رات کو چلتے رہے اور سفر کے دوران آپ کو اونگھ آنے کی وجہ سے سر جھٹکے کھانے لگا اور آپ " اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ " اور " الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ " کہتے ہوئے بیدار ہوئے پھر آپ نے فرمایا میں نے ایک گھڑ سوار کو دیکھا ہے جو کہہ رہا ہے کہ لوگ چل رہے ہیں اور موتیں ان کی طرف چل رہی ہیں پس مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ ہماری ہی جانیں ہیں جن کی موت کی خبر ہمیں دی گئی ہے ۔ جب صبح صادق ہوئی تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو فجر کی نماز پڑھائی اور جلدی سے سوار ہوگئے ۔ سفر کے دوران بائیں طرف چلتے رہے یہاں تک کہ نینوا پہنچ گئے ۔ وہاں پہنچنے پر دیکھا کہ ایک سوار کمان کندھے پر رکھے ہوئے کوفہ سے آرہا ہے اور اس نے آکر حر بن یزید کو سلام کیا لیکن حسین {رض} کو سلام نہیں کیا ۔ اور اس نے حر بن یزید کو ابن زیاد کا خط دیا ۔ جس کا مضمون یہ ہے کہ وہ سفر کے دوران کسی بستی اور قلعے میں اترے بغیر عراق تک حسین {رض} کے ساتھ رہے ۔ یہاں تک کہ اس کے قاصد اور اس کی فوجیں اس کے پاس پہنچ جائیں ۔
یہ 2 محرم 61ھ جمعرات کا دن تھا جب اگلے دن کی صبح ہوئی تو عمر بن سعد بن ابی وقاص چار ہزار فوج کے ساتھ آیا اور ابن زیاد نے عمر بن سعد بن ابی وقاص کو فوج کے ساتھ ویلم کی طرف بھیجا تھا ۔ اور وہ کوفہ کے باہر خیمہ زن ہوگیا ۔
جب ابن زیاد کو حسین {رض} کا معاملہ پیش آیا تو اس نے عمر بن سعد بن ابی وقاص کو حکم دیا کہ کہ حسین {رض} کی طرف روانہ ہوجائیں اور ان سے فارغ ہونے کے بعد ویلم کی طرف چلے جانا ۔ عمر بن سعد نے ابن زیاد سے اس بات کی معافی چاہی تو ابن زیاد نے ان سے کہا اگر تو چاہے تو میں تجھے معاف کردیتا ہوں اور ان شہروں کی حکومت سے تجھے معزول کردیتا ہوں جن شہروں پر میں نے تجھے حاکم بنایا ہے ۔
عمر بن سعد نے کہا مجھے اس بارے میں غور و فکر کرنے کا موقع فراہم کر دیجئے ۔
اس بارے میں وہ جس سے بھی مشورہ کرتے وہ اسے حسین {رض} کی طرف جانے سے روکتا ۔ حتی کہ ان کے بھانجے حمزہ بن مغیرہ بن شعبہ نے ان سے کہا حسین {رض} کی طرف جانے سے بچنا ۔ وگرنہ اپنے پروردگار کی نافرمانی کر بیٹھو گے ۔ اور اپنی قرابت داری ختم کردوگے ۔ اللہ کی قسم اگر تم ساری زمین کی حکومت سے بےدخل ہوجاؤ تو یہ بات تمہیں زیادہ محبوب ہونی چاہیے بنسبت اس بات کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالی سے اس حال میں ملاقات کرو کہ آپ کے ہاتھ حسین {رض} کے خون سے رنگین ہوں ۔
( واللہ اعلم )
 
اپنے بھانجے کے مشورہ کو پسند کرتے ہوئے کہا انشاءاللہ میں ایسا ہی کرونگا پھر ابن زیاد نے عمر بن سعد کو معزول کردینے اور قتل کردینے کی دھمکی دی تو وہ حسین {رض} کی طرف روانہ ہوگئے ۔ پھر اس مقام سے عمر بن سعد نے حسین {رض} کی طرف قاصد بھیجے کہ آپ کیوں آئے ہیں ؟
آپ {رض} نے فرمایا اہل کوفہ نے مجھے خطوط لکھے ہیں کہ میں ان کے پاس کوفہ آجاؤں ۔ اب جبکہ انہوں نے مجھے ناپسند کیا ہے تو میں مکہ واپس چلا جاتا ہوں اور تم کو چھوڑ دیتا ہوں
جب عمر بن سعد کو یہ اطلاع ملی تو اس نے کہا مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی مجھے آپ کے ساتھ جنگ کرنے سے بچائے گا اور اس نے یہ بات ابن زیاد کو بھی لکھ بھیجی ۔ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو جواب میں لکھا کہ حسین {رض} اور اس کے ساتھیوں کے لیے پانی بند کردیا جائے جیسا امیرالمومنین عثمان بن عفان {رض} کے ساتھ کیا گیا تھا ۔ نیز حسین {رض} اور ان کے ساتھیوں کو پیشکش کرو کہ وہ امیرالمومنین یزید بن معاویہ کی بیعت کرلیں تو یہی ہماری رائے ہے
عمر بن سعد کے ساتھیوں نے حسین {رض} کے ساتھیوں کو پانی سے روکنا شروع کردیا ۔ ان کے ایک دستے کا سالار عمرو بن الحجاج تھا ۔ آپ {رض} نے اس کے لیے پیاس کی بدعا کی تو یہ شخص پیاس کی شدت سے مرگیا ۔ پھر حسین {رض} نے عمر بن سعد سے مطالبہ کیا کہ وہ دونوں فوجوں کے درمیان آپ سے ملاقات کرے ۔
دونوں میں سے ہر ایک تقریبا بیس سواروں کے ساتھ آیا اور دونوں نے طویل گفتگو کی یہاں تک کہ رات کا ایک حصہ گزگیا اور کسی کو معلوم نہ تھا کہ دونوں نے کیا بات کی لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ {رض} نے اس سے مطالبہ کیا کہ ہم دونوں ایک ساتھ یزید بن معاویہ کے پاس شام چلتے ہیں اور دونوں فوجوں کو آمنے سامنے کھڑا چھوڑ دیتے ہیں
عمر بن سعد نے کہا اس صورت میں ابن زیاد میرے گھر کو تباہ و برباد کردے گا ۔
حسین {رض} نے فرمایا میں اس گھر کو تیرے لیے اس سے بھی خوبصورت رنگ میں تعمیر کردوں گا ۔
عمر بن سعد نے کہا وہ میری جائیداد کو ضبط کرلے گا ۔
حسین {رض} نے فرمایا میں تجھے حجاز کےمال میں سے اس جائیداد سے سے بھی بہتر عطا کروں گا ۔
( واللہ اعلم )
 
راوی کہتا ہے کہ عمر بن سعد نے اس بات کو اور اس پیشکش کو پسند نہیں کیا ۔ بعض مورخین کہتے ہیں کہ حسین {رض} نے عمر بن سعد سے تین باتوں میں سے ایک کا مطالبہ کیا ۔ یا تو وہ یزید کے پاس چلے جاتے ہیں یا وہ حجاز واپس چلے جاتے ہیں یا کسی سرحد پر جاکر ترکوں سے جنگ کرتے ہیں ۔
عمر بن سعد نے ابن زیاد کی طرف خط میں یہ باتیں لکھ کر بھیج دیں ۔ جب ابن زیاد نے یہ باتیں پڑھیں تو کہا بہت اچھا ، میں ان باتوں کو قبول کرتا ہوں ۔
پس شمر بن ذی الجوشن اٹھا اور کہنے لگا اللہ کی قسم ایسا نہیں ہوگا ۔ جب تک کہ حسین {رض} کے ساتھی ابن زیاد کے حکم کو قبول نہ کرلیں ۔ پھر کہنے لگا اللہ کی قسم مجھے اطلاع ملی ہے کہ حسین {رض} اور عمر بن سعد دونوں فوجوں کے درمیان بیٹھ کر رات کا اکثر حصہ باہم گفتگو کرتے ہیں ۔
ابن زیاد نے اسے کہا تمہاری رائے بہت اچھی ہے
ابو مخنف نے روایت کی ہے کہ عبدالرحمان بن جندب نے عقبہ بن سمعان کے حوالہ سے مجھے بتایا کہ عقبہ بن سمعان نے کہا کہ میں مکہ سے شہید ہونے تک حسین {رض} کے ساتھ رہا ہوں ۔ اللہ کی قسم آپ {رض} نے میدان کارزار میں جو بات بھی کی ہے میں نے اسے سنا ہے ۔ آپ {رض} نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ آپ {رض} یزید کے پاس جاتے ہیں ۔اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھتے ہیں ۔ اور نہ ہی آپ {رض} نے یہ مطالبہ کیا کہ آپ کسی سرحد کی طرف جاتے ہیں ۔ بلکہ آپ {رض} نے دو باتوں میں سے ایک کا مطالبہ کیا کہ یا تو وہ جہاں سے آئے ہیں وہاں واپس چلے جاتے ہیں اور یا آپ {رض} کو وسیع و عریض زمین میں جانے کے لیے چھوڑ دیں تاکہ وہ دیکھیں کہ لوگوں کی حکومت ان کے پاس آتی ہے ؟
پھر ابن زیاد نے شمر بن ذی الجوشن کو بھیجا اور کہا اگر حسین {رض} اور ان کے ساتھی میرے حکم کو قبول کرلیں تو ٹھیک ہے وگرنہ عمر بن سعد کو ان کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دو ، اگر عمر بن سعد میرے حکم کی خلاف ورزی کرے تو اسے قتل کردینا ۔ اور ان کی جگہ تم ہی لوگوں کا امیر بن جانا ۔
ابن زیاد نے حسین {رض} کے ساتھ جنگ کرنے میں سستی کرنے پر عمر بن سعد کو دھمکی آمیز خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ اگر وہ حسین {رض} کو اس کے پاس نہیں لایا تو شمر بن ذی الجوشن ، حسین {رض} کے اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ جنگ کرے گا ۔ بلاشبہ وہ مخالفین ہیں ۔
اور عبید اللہ بن ابی المحل نے اپنی پھوپھی ام البنین بنت حرام کے بیٹوں کے لیے امان طلب کی جو علی {رض} کی پشت سے تھے ۔ اور وہ بیٹے عباس ، عبداللہ ، جعفر اور عثمان تھے ۔ ابن زیاد نے ان کے لیے امان کی تحریر لکھ دی اور عبیداللہ بن المحل نے اپنے غلام کرمان کے ہاتھ وہ تحریر بھیج دی ۔ جب کرمان نے انہیں پروانہ امان پہنچا دیا تو انہوں نے کہا ہم ابن سمیہ کی امان نہیں چاہتے بلکہ ابن سمیہ کی امان سے بہتر امان چاہتے ہیں ۔
جب شمر بن ذی الجوشن ابن زیاد کا خط لے کر عمر بن سعد کے پاس آیا تو عمر بن سعد نے کہا اللہ تیرے گھر کو تباہ کرے اور جو کچھ تو لایا ہے اس کا برا کرے ۔ اللہ کی قسم میں تجھے وہ شخص خیال کرتا ہوں جس نے ابن زیاد کو ان باتوں سے برگشتہ کردیا ہے جن تین باتوں کا حسین {رض} نے مطالبہ کیا تھا ۔اور میں نے وہ تین باتیں ابن زیاد کو پیش کی تھیں ۔
شمر نے عمر بن سعد سے کہا مجھے بتاؤ تم کیا کرنے والے ہو ؟ کیا تم ان سے جنگ کروگے یا پھر ان کے مقابلہ کے لیے مجھے میدان میں آنے کا موقع دو گے ؟
عمر بن سعد نے شمر سے کہا اللہ تعالی کبھی تم کو عظمت نصیب نہ کرے ۔ میں خود ہی اس کام کو سرانجام دوں گا ۔
( واللہ اعلم )
 
چنانچہ عمر بن سعد نے شمر کو پیدل فوج کا سالار بنادیا اور اس نے 9 محرم بروز جمعرات شام کے وقت بڑی تیزی سے ان پر حملہ کیا اور شمر نے کھڑے ہوکر کہا ہمارے بھانجے کہاں ہیں ؟
تو حضرت علی {رض} کے بیٹے عباس ، عبداللہ ، جعفر اور عثمان اس کے پاس آگئے ۔
شمر نے کہا تم امان میں ہو ۔
انہوں نے کہا اگر تو ہمیں اور نواسہ رسول حسین {رض} کو امان دے تو بہت اچھا ہے ورنہ ہمیں تمہاری امان کی ضرورت نہیں
راوی کہتا ہے کہ پھر عمر بن سعد نے فوج میں اعلان کیا اے اللہ کے سواروں سوار ہوجاؤ تمہاری بہادری پر خوشخبری ہو
پس وہ سوار ہوگئے اور نماز عصر کے بعد ان کی طرف آہستہ آہستہ بڑھتے گئے ۔ حسین {رض} اپنے خیمے کے سامنے اپنی تلوار کو گود میں رکھے بیٹھے تھے کہ آپ کو اونگھ آگئی اور آپ کے سر کو جھٹکا لگا ۔ آپ کی ہمشیرہ نے شور سنا تو آگے بڑھ کر آپ {رض} کو بیدار کیا ۔ بیدار ہونے کے بعد حسین {رض} نے فرمایا میں نے خواب میں رسول اللہ {ص} کو دیکھا ، آپ نے مجھَ فرمایا ہے کہ آپ یقینا شام کو ہمارے پاس آجاؤ گے ۔
یہ سن کر ہمشیرہ نے اپنے ہی چہرے پر تھپڑ مارا اور کہنے لگیں ہائے میری ہلاکت ،
آپ {رض} نے فرمایا اے میری بہن آپ کے لیے ہلاکت نہیں ، پرسکون ہوجائیے ارحم الراحمین آپ پر رحم فرمائے گا
آپ {رض} کے بھائی عباس بن علی نے آپ سے فرمایا اے میرے بھائی کچھ لوگ آپ سے ملنے آئے ہیں
آپ نے فرمایا کہ ان کے پاس جاکر پوچھو وہ کیا چاہتے ہیں
چنانچہ بیس سواروں کے ساتھ عباس بن علی ان کے پاس گئے اور پوچھا تمہیں کیا کام ہے ؟
انہوں نے کہا امیر کا حکم آیا ہے یا تو تم اس کا حکم تسلیم کرو یا ہم تم سے جنگ کریں گے ۔
عباس نے کہا تھوڑی دیر تم اپنی جگہ پر ٹھہرو ، میں جاکر حسین {رض} کو بتاتا ہوں ۔
عباس واپس حسین {رض} کو خبر دینے گئے ۔ آپ کے سوار ساتھی وہیں کھڑے رہے اور آپس میں بحث و تکرار اور ایک دوسرے کی ملامت کرنے لگے ۔ حسین {رض} کے ساتھیوں نے کہا تم کس قدر برے لوگ ہو ، تم اپنی نبی کی اولاد اور اپنے زمانہ کے بہترین لوگوں کو قتل کرنا چاہتے ہو ۔
پھر عباس بن علی واپس آگئے حسین {رض} کی طرف سے اور کہا حسین {رض} یہ چاہتے ہیں کہ تم لوگ آج شام کو واپس چلے جاؤ تاکہ وہ آج رات اپنے معاملے میں غور فکر کرسکیں ۔
عمر بن سعد نے شمر بن ذی الجوشن سے پوچھا تمہاری کیا رائے ہے
شمر نے کہا تم امیر ہو اور قابل عمل رائے تمہاری ہی ہے
عمرو بن الحجاج بن سلمہ زبیدی نے کہا سبحان اللہ ، اللہ کی قسم اگر ویلم کا کوئی شخص تم سے اس بات کا مطالبہ کرتا تو اس کا قبول کرنا ضروری ہوتا
قیس بن اشعت نے کہا جو بات انہوں نے آپ سے پوچھی ہے اس کا جواب دو ، میری زندگی کی قسم کل صبح کو وہ تم سے ضرور جنگ کریں گے
یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا ۔ عباس بن علی جب واپس حسین {رض} کے پاس پہنچے تو حسین {رض} نے ان سے کہا واپس جاکر انہیں آج شام واپس کردو تاکہ ہم آج رات کو اپنے رب کی نماز پڑھ لیں اور اس سے دعا و استغفار کرلیں ، اللہ تبارک و تعالی کو میرے متعلق معلوم ہے کہ میں نماز اور اس کی کتاب کی تلاوت اور دعا استغفار کو پسند کرتا ہوں ۔
( واللہ اعلم )
 
حسین {رض} نے اس رات اپنے گھر والوں کو وصیت کی اور رات کے پہلے حصے میں اپنے ساتھیوں سے خطاب کیا ۔ اللہ تعالی کی حمد و ثناء کرنے کے بعد فصیح و بلیغ الفاظ میں اس کے رسول پر درود پڑھا اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا جو شخص آج رات اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانا چاہتا ہے میری طرف سے اسے اجازت ہے ۔ یقینا دشمن کو صرف میں ہی مطلوب ہوں ۔
مالک بن نضر نے کہا مجھ پر قرض ہے اور میرے اہل و عیال بھی ہیں
آپ {رض} نے فرمایا آج کی رات نے تمہیں ڈھانپ لیا ہے پس تم اسے پازیب بنا لو اور تم میں سے ہر شخص میرے اہل بیت کے کسی مرد کا ہاتھ پکڑے پھر تم اس رات کی تاریکی میں سطح زمین پر اپنے اپنے ملکوں اور شہروں میں چلے جاؤ ، بلاشبہ دشمن کو میں ہی مطلوب ہوں ۔ کاش وہ دوسروں کی تلاش سے غافل ہوکر مجھے تکلیف دیتے ۔ لہذا تم لوگوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ ابھی چلے جاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالی کشادگی کردے ۔
یہ سن کر آپ {رض} کے بیٹوں ، بھائیوں اور بھتیجوں نے آپ {رض} سے کہا کہ آپ کے بعد ہماری کوئی زندگی نہیں اور آپ کے بارے میں اللہ تعالی ہمیں وہ نہ دکھائے جسے ہم ناپسند کرتے ہیں
حسین {رض} نے فرمایا اے بنی عقیل تمہارے بھائی مسلم کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تمہارے لئے کافی ہے ۔ جاؤ میری طرف سے تمہیں اجازت ہے
تو انہوں نے کہا لوگ کیا کہیں گے ہم نے اپنے شیخ اور سردار اور بہترین چچاؤں کے بیٹوں کو چھوڑ دیا ہے اور ہم نے دنیاوی زندگی کی رغبت میں ان کے ساتھ ایک تیر نہ چلایا ۔ اور نہ ان کے ساتھ نیزہ مارا ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ تلوار چلائی ہے ۔ اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں کریں گے بلکہ ہم اپنے جان و مال اور اہل و عیال کو آپ پر قربان کردیں گے اور آپ کے ساتھ مل کر جنگ کریں گے یہاں تک کہ آپ کی گھاٹ پر آجائیں گے ۔ آپ کے بعد زندگی کا کوئی مزہ نہیں ہے ۔
مسلم بن عوسجہ اسدی اور سعید بن عبداللہ حنفی نے بھی ایسی ہی باتیں کیں کہ اللہ کی قسم ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالی کو معلوم ہوجائے کہ ہم نے رسول اللہ {ص} کی غیر موجودگی میں آپ {رض} کی حفاظت کی ہے ۔ اللہ کی قسم اگر مجھے معلوم ہو کہ میں آپ کی حفاظت میں ایک ہزار مرتبہ قتل ہونگا اور اللہ اس قتل کے ذریعے آپ سے اور آپ کے اہل بیت کے ان نوجوانوں سے مصیبت دور کردے گا تو میں اس بات کو پسند کرلوں گا ۔ حالانکہ یہ صرف ایک ہی قتل ہے ۔
آپ {رض} کے ساتھیوں نے بھی اس سے ملتی جلتی گفتگو کی ۔ انہوں نے کہا اللہ کی قسم ہم آپ سے جدا نہ ہونگے اور ہماری جانیں آپ پر قربان ہونگیں اور ہم آپ کو اپنے سینوں ، اپنی پیشانیوں، اپنے ہاتھوں اور اپنے جسموں سے بچائیں گے اور جب ہم قتل ہوجائیں گے تو اپنے اوپر لازم ہونے والے حق کو پورا کردیں گے ۔
آپ {رض} کے بھائی عباس نے کہا اللہ تعالی ہمیں آپ کی موت نہ دکھائے اور ہمیں آپ کے بعد زندگی کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اور عباس کے ساتھیوں نے عباس کی اس بات پر موافقت کی ۔
( واللہ اعلم )
 
ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ حارث بن کعب اور ابوالضحاک نے علی بن حسین زین العابدین سے روایت کی ہے کہ جس رات کی صبح کو میرے والد شہید ہوئے میں اس کی شام کو بیٹھا ہوا تھا اور میرے والد اور ان کے ساتھی جب خیمے میں چلے جاتے تو میری پھوپھی زینب میری تیمارداری کرتیں اور آپ {رض} کے پاس ابوذرغفاری {رض} کا غلام حوی بھی تھا جو آپ کی تلوار کو درست کر رہا تھا ۔ اور میرے والد نے چند اشعار پڑھے ۔
" اے زمانہ تیرے دوست ہونے پر افسوس ہے تیرے کتنے ہی صبح شام ہیں اور کتنے ہی اپنے اپنے مقتول ہونے والے ساتھی کو چاہنے والے ہیں اور زمانہ عوض پر قناعت نہیں کرتا اور معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور ہر زندہ اس راستے پر چلنے والا ہے ۔ ( ترجمہ ) "
آپ {رض} نے ان اشعار کو دو تین مرتبہ دہرایا یہاں تک کہ میں نے ان کو یاد کرلیا ۔ اور میں آپ کے مقصد کو سمجھ گیا ۔ پس آنسوؤں نے میرا گلا گھونٹ دیا ۔ میں وہ اشعار دہرانے لگا پھر میں نے خاموشی اختیار کرلی ۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ مصیبت نازل ہوچکی ہے ۔ میری پھوپھی پریشانی کے عالم میں کھڑی ہوگئیں ۔ اور کہنے لگیں ہائے افسوس حسین شہید نہ کئے جاتے ۔ کاش موت آج میری زندگی ختم کردیتی ۔ میری ماں فاطمہ {رض} اور میرے باپ علی {رض} اور میرے بھائی حسن {رض} فوت ہوگئے ہیں ۔ اے چلے جانے والوں کے جانشین اور باقی رہنے والوں کے مددگار ۔
حسین {رض} نے زینب {رض} کی طرف دیکھا اور فرمایا اے میری بہن شیطان آپ کے حوصلے کو ختم نہ کردے
وہ کہنے لگیں اے میرے پیارے بھائی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ نے اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کردیا ہے ۔ زینب {رض} نے اپنے چہرے پر طمانچے مارے اور بےہوش ہوگئیں ۔
حسین {رض} نے آپ کے پاس آکر چہرے پر پانی ڈال کر فرمایا اے میری بہن اللہ سے ڈرو اور صبر کرو ۔ اور اللہ کی رحمت سے اچھی امید رکھو اور اس بات کو ذہن میں رکھو کہ اہل زمین مر جائیں گے اور اہل آسمان بھی باقی نہیں رہیں گے ۔ اللہ تعالی کی ذات اقدس کے علاوہ ہر چیز فنا اور ہلاک ہونے والی ہے ۔ جس ذات نے مخلوق کو اپنی قدرت سے پیدا کیا ہے وہی ذات ان کو اپنی قوت اور غلبے سے مارے گا اور انہیں دوبارہ زندہ کرکے میدان محشر میں لائے گا ۔ ہم اس ہی کی عبادت و بندگی کرتے ہیں جو وحدہ لاشریک ہے اور یکتا ہے اور جان لو میرا باپ مجھ سے بہتر تھا اور میری ماں مجھ سے بہتر تھی اور میرا بھائی مجھ سے بہتر تھا ۔ میرے لئے اور ان کے لئے اور ہر مسلمان کے لئے رسول اللہ {ص} کی ذات میں اچھا نمونہ ہے ۔
آپ {رض} نے اپنی بہن کو تنبیہ فرمائی کہ ان کے مرنے کے بعد ان باتوں میں سے کسی کا ارتکاب نہ کرنا
پھر حسین {رض} نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں ،یرے پاس واپس بھیج دیا ۔ اور آپ اپنے ساتھیوں کے پاس چلے گئے اور ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے خیموں کو ایک دوسرے کے نزدیک کرلیں کہ ایک کی رسیاں دوسرے میں داخل ہوجائیں ۔ اور ایک سمت کے علاوہ دشمن کے لیے اپنے پاس آنے کا خطرہ نہ رہنے دیں
حسین {رض} اور آپ کے ساتھیوں نے پوری رات نماز پڑھتے ، استغفار کرتے اور گڑگڑاتے ہوئے دعا کرتے گزاری اور ان کے دشمن کے محافظوں کے گھوڑے ان کے ارد گرد چکر لگاتے رہے ، جن کا لیڈر عزرہ بن قیس احمسی تھا ۔
اس رات حسین {رض} اس آیت کریمہ کو بار بار پڑھ رہے تھے " اور کافر یہ نہ سمجھیں کہ ہم جو انہیں مہلت دیتے ہیں یہ ان کے حق میں بھلائی ہے ، ہم انہیں مہلت اس لیے دیتے ہیں کہ وہ گناہ میں زیادتی کریں ، اور ان کے لیے خوار کرنے والا عذاب ہے ۔ اللہ مسلمانوں کو اس حالت پر رکھنا نہیں چاہتا جس پر تم اب ہو جب تک کہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے ، "
( واللہ اعلم )
 
ابن زیاد کے پہرہ داروں میں سے ایک شخص نے جب ان آیات کو سنا تو وہ کہنے لگا اللہ کی قسم ہم پاک ہیں اور اللہ نے ہمیں آپ سے ممتاز کیا ہے ۔
راوی فرماتے ہیں کہ میں نے اس کو پہچان لیا ۔ اور میں نے زید بن حضیر سے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے یہ کون ہے ؟
انہوں نے کہا معلوم نہیں ہے ۔
میں نے کہا یہ ابوحرب سبیعی عبیداللہ بن شمیر ہے اور یہ بڑا ہنس مکھ ، مذاق کرنے والا ، معزز اور بہت بہادر شخص تھا ۔
اور سعید بن قیس کئی دفعہ اسے قید کرکے اپنے خیمے میں لایا تو یزید بن حصین نے اسے کہا اے فاسق تو کب سے پاکیزہ لوگوں کے ہم پلہ ہوا ہے ؟
اس نے فورا جواب دیا آپ پر ہلاکت نازل ہو ، آپ کون ہیں ؟
اس نے کہا میں یزید بن حصین ہوں
اس نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور کہا اے اللہ کے دشمن اللہ کی قسم تو ہلاک ہوگیا ہے ، وہ کیوں تیرے قتل کا خواہاں ہے ؟
میں نے اسے کہا اے ابوحراب کیا یہ ہوسکتا ہے کہ تو اپنے بڑے بڑے گناہوں سے توبہ کرے ؟ ۔ اللہ کی قسم ہم ہی پاکیزہ لوگ ہیں اور بلاشبہ تم لوگ خبیث ہو ۔
اس نے کہا بات اسی طرح ہے اور میں اس کی گواہی دیتا ہوں ۔ تیرا برا ہو ، کیا تجھے معرفت فائدہ نہیں دیتی ؟
راوی بیان کرتا ہے جو دستہ ہماری حفاظت کررہا تھا اس کے امیر عزرہ بن قیس نے اسے ڈانٹا تو وہ ہمارے پاس سے چلا گیا ۔
مورخین نے بیان کیا ہے کہ جب عمر بن سعد نے جمعہ کے دن دس محرم کو اپنے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھائی ، بعض کا قول ہے کہ وہ ہفتہ کا دن تھا ۔ جب نماز پڑھائی تو وہ جنگ کے لیے کھڑا ہوگیا ۔ اسی طرح حسین {رض} نے بھی اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی جن میں 33 آدمی سوار اور 40 آدمی پیدل تھے ۔
نماز سے واپس آکر آپ {رض} نے ان کی صف بندی کی اور آپ نے اپنے میمنہ پر زہیر بن القین اور میسرہ پر حبیب بن المطہر کو امیر مقرر کیا اور اپنے بھائی عباس بن علی کو جھنڈا دے دیا اور خیموں کو عورتوں سمیت اپنے پس پشت رکھا ۔ حسین {رض} کے حکم سے ان عورتوں نے اپنے خیموں کے پیچھے خندق کھودی اور اس میں لکڑیاں وغیرہ پھینک کر آگ لگادی تاکہ پیچھے سے کوئی شخص ان کے خیموں میں نہ آجائے ۔
( واللہ اعلم )
 
عمر بن سعد نے اپنے میمنہ پر عمرو بن الحجاج الذبیدی اور میسرہ پر شمر بن ذی الجوشن کو امیر مقرر کیا ۔ ذی الجوشن کا نام شرجیل بن الاعور بن عمرو بن معاویہ تھا جو بنی الضباب بن الکلاب کے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا ۔ اور سواروں پر عزرہ بن قیس الحمسی پیادوں پر اثبت بن ربعی کو امیر مقرر کیا اور اپنے غلام وردان کو جھنڈا دے دیا ۔ اس جگہ لوگ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوگئے ۔ حسین {رض} نصب کئے ہوئے خیمے میں واپس آگئے اور اس میں غسل کیا اور چونے کی مالش کی اور بہت سی کستوری کی خوشبو لگائی ۔ آپ کے بعد کچھ امراء آئے اور انہوں نے بھی آپ کی طرح غسل کیا اور خوشبو لگائی ۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا اس وقت میں یہ کیا ہورہا ہے ؟
بعض نے کہا اس معاملہ کو چھوڑیئے ، اللہ کی قسم اس وقت میں یہ کام بےکار نہیں
یزید بن حصین نے کہا اللہ کی قسم میری قوم کے لوگوں کو معلوم ہے کہ میں نے جوانی اور بڑھاپے میں بےکار کام کو پسند نہیں کیا ۔ لیکن اللہ کی قسم میں اس بات سے خوش ہوں جس کام کو ہم کرنے والے ہیں ۔ اللہ کی قسم ہمارے درمیان اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں کے درمیان صرف اتنا ہی فاصلہ ہے کہ یہ لوگ ہم پر حملہ کریں اور ہمیں قتل کردیں ۔
پھر حسین {رض} اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور قرآن پاک کو لے کر اپنے آگے رکھ دیا ۔ پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر لوگوں کی طرف منہ کرکے دعا کرنے لگے ۔ اے اللہ تو میرے لیے ہر مصیبت میں قابل بھروسہ اور سختی میں میری امید ہے
حسین {رض} نے اعلان کیا اے لوگوں میں تمہیں جو نصحیت کرنے لگا ہوں اسے غور سے سنو ۔
سب لوگ خاموش ہوگئے آپ {رض} نے اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا اے لوگوں تم میری بات مانو اور مجھ سے انصاف کرو تم اس سے بڑے سعادت مند بن جاؤ گے اور تمہارے لیے مجھ پر کوئی حجت نہ ہوگی اور اگر تم میری بات کو قبول نہ کرو تو پھر " اب تم سب مل کر اپنا کام مقرر کرو اور اپنے شریکوں کو جمع کرو پھر تمہیں اپنے کام میں شبہ نہ رہے تو پھر وہ کام میرے ساتھ کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو ۔ " اور " بے شک میرا حمایتی اللہ ہے جس نے کتاب نازل فرمائی ، اور وہ نیکو کاروں کی حمایت کرتا ہے ۔ "
حسین {رض} نے سورۃ الاعراف اور سورۃ یونس کی یہ آیات تلاوت کیں ۔
آپ {رض} کی بہنوں اور بیٹیوں نے جب یہ آیات سنیں تو بلند آواز میں رونے لگیں ۔ اس موقع پر حسین {رض} نے فرمایا اللہ تعالی ابن عباس کو اپنے رحم سے دور نہ کرے
کیونکہ انہوں نے حسین {رض} کو یہ مشورہ دیا تھا کہ آپ عورتوں کو اس سفر میں ساتھ نہ لے جائیں اور حکومت کے منتظم ہونے تک انہیں مکہ میں چھوڑ جائیں ۔
( واللہ اعلم )
 
پھر حسین {رض} نے اپنے بھائی عباس کو بھیجا تو انہوں نے ان عورتوں کو خاموش کرایا ۔
آپ {رض} فرمانے لگے اپنے نفوس کو ٹٹولو اور ان کا محاسبہ کرو ۔ کیا میرے جیسے شخص سے جنگ کرنا تمہارے لیے مناسب ہے ؟ ۔ میں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا ہوں ۔ اور روئے زمین پر میرے علاوہ نبی کی بیٹی کا کوئی بیٹا موجود نہیں ۔ علی {رض} میرے باپ ، جعفر ذوالجناحین میرے چچا اور حمزہ سید الشہداء میرے باپ کے چچا ہیں ۔ رسول اللہ {ص} نے مجھے اور میرے بھائی سے فرمایا کہ ہم دونوں جنت میں نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ پس اگر تم میری بات کی تصدیق کرو تو یہ حق ہے ۔ اور اللہ کی قسم جب سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ جھوٹ سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے تو میں نے جھوٹ بولنے کا ارادہ ہی نہیں کیا ۔ اگر آپ میری بات نہیں مانتے تو رسول اللہ کے صحابہ ابوسعید {رض} ، سہل بن سعد {رض} ، زید بن ارقم {رض} اور انس بن مالک {رض} سے پوچھ لو ۔ وہ تمہیں اس بارے میں بتائیں گے ۔ تم ہلاک ہوجاؤ گے ۔ کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے ؟ ۔
اس موقع پر شمر بن ذی الجوشن نے کہا یہ کنارے پر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ، جو یہ کہتے ہیں کہ میں اسے جانتا ہوں
حبیب بن مظاہر نے شمر سے کہا اے شمر اللہ کی قسم تو کناروں پر اللہ کی عبادت کرتا ہے اور اللہ کی قسم حسین {رض} جو بیان کرتے ہیں وہ ہمیں بھی معلوم ہے ۔ اللہ نے تیرے دل پر مہر لگا دی ہے
حسین {رض} نے فرمایا مجھے واپس جانے دو ، میں اپنے وطن کی طرف واپس چلا جاتا ہوں
انہوں نے کہا آپ کو اپنے چچا زاد بھائیوں کا فیصلہ قبول کرنے سے کس نے روکا ہے ؟
آپ {رض} نے فرمایا میں ہر متکبر سے جو قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتا ، اپنے اور تمہارے رب کی پناہ مانگتا ہوں
آپ نے اپنی سواری کو بٹھایا ۔ عقبہ بن سمعان نے آپ کے حکم سے سواری کی ٹانگ باندھ دی
پھر فرمایا مجھے بتاؤ ، کیا تم مجھے اپنے کسی مقتول کی وجہ سے تلاش کرتے ہو ؟ جس کو میں نے قتل کیا ہے ۔ یا میں نے تمہارا مال کھایا ہے ؟ یا کسی کو زخم پہنچانے کی وجہ سے مجھے تلاش کرتے ہو ؟
راوی بیان کرتا ہے وہ آپ سے بات نہیں کرتے تھے ۔
آپ {رض} نے آواز دی اے شبعت بن ربعی ، اے حجار بن البجر ، اے قیس بن اشعت ، اے زید بن الحارث کیا تم نے مجھے نہیں لکھا تھا کہ پھل پک چکے ہیں اور صحن سرسبز ہوچکا ہے ، آپ ہمارے پاس آئیں بلاشبہ آپ ایک جمع شدہ فوج کے پاس آئیں گے ۔
انہوں نے کہا ہم نے خط نہیں لکھے
حسین {رض} نے فرمایا سبحان اللہ ۔ اللہ کی قسم تم نے خط لکھے ہیں ۔ اے لوگوں اگر مجھے ناپسند کرتے ہو تو مجھے چھوڑ دو میں تم کو چھوڑ کر واپس چلا جاتا ہوں ۔
( واللہ اعلم )
 
راوی بیان کرتا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ حسین {رض} کی طرف بڑھنے لگے اور ان میں سے تقریبا تیس سواروں کی ایک ٹولی آپ {رض} کی فوج کی طرف سمٹ آئی جن میں ابن زیاد کی فوج کے ہر اول دستہ کا امیر حر بن یزید بھی شامل تھا اس نے اس سلوک کے بارے میں حسین {رض} سے معذرت کی جو سلوک وہ آپ کے ساتھ کرچکے تھے اور کہا اگر مجھے ان باتوں کا علم ہوتا تو میں آپ {رض} کے ساتھ ہزید کے پاس جاتا ۔
حسین {رض} نے اس کی معذرت قبول کرلی ۔ پھر اس نے حسین {رض} کے ساتھیوں کے آگے ہوکر عمر بن سعد کو مخاطب کرکے کہا تم ہلاک ہوجاؤ ۔ کیا تم رسول اللہ {ص} کی بیٹی کے بیٹے کی پیش کردہ تین باتوں میں سے ایک بات بھی قبول نہیں کرتے ؟ ۔ اگر وہ مجھے پیشکش کرتے تو میں قبول کرلیتا ۔
راوی بیان کرتا ہے کہ حسین {رض} کے ساتھیوں میں سے زبیر بن القیس اپنے گھوڑے پر ہتھیاروں سے مسلح ہوکر باہر نکلے اور کہا اے کوفہ والوں اللہ تعالی کے ٰعذاب سے ڈرو ۔ مسلمان پر اپنے مسلمان بھائی کی خیر خواہی کرنا فرض ہے اور ہم ابھی تک بھائی بھائی ہیں اور ایک دین پر ہیں اور جب تک ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار نہ چلے ہم ایک ملت ہیں اور جب تلوار چلے گی تو عصمت ختم ہوجائے گی اور تم ایک جماعت ہونگے اور ہم ایک جماعت ۔ اللہ نے ہمیں اور تمہیں اپنے نبی کی اولاد کے ذریعے سے آزمایا ہے تاکہ اللہ ہماری اور تمہاری عملی کیفیت کو دیکھے ۔ ہم آپ کو حسین {رض} کی مدد کرنے اور ابن زیاد کی مدد چھوڑنے کی طرف دعوت دیتے ہیں اور تم لوگوں نے ابن زیاد کے عمومی اقتدار میں برائی کے علاوہ کچھ نہیں پایا ۔ وہ تمہاری آنکھوں میں سلائی پھیرتے ہیں ۔ تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹتے ہیں اور تمہارا مثلہ کرتے ہیں ۔ تمہارے بہترین آدمیوں کو اور قاریوں کو جیسے حجر بن عدی اور ان کے ساتھی یا ہانی بن عروۃ جیسے لوگوں کو قتل کرتے ہیں ۔
راوی کہتا ہے کہ انہوں نے زبیر بن القیس کو گالیاں دیں اور ابن زیاد کی تعریف کی اور اس کے لیے دعا کی اور کہنے لگے ہم جب تک تمہارے سردار اور اس کے ساتھیوں کو قتل نہ کردیں ہم باز نہیں آئیں گے
زبیر بن القیس نے کہا بلاشبہ فاطمہ {رض} کا بیٹا سمیعہ کے بیٹے کے مقابلے زیادہ محبت اور مدد کا مستحق ہے ۔ اگر تم نے ان کی مدد نہ کی تو میں تمہیں ان کے قتل سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں ۔ حسین {رض} اور ان کے چچا زاد یزید بن معاویہ کے درمیان سے ہٹ جاؤ ۔ وہ جہاں جانا چاہیں جانے دو ۔ بلاشبہ حسین {رض} کے قتل کے بغیر بھی یزید تمہاری اطاعت سے راضی ہوجاَئے گا ۔
( واللہ اعلم )
 
راوی بیان کرتا ہے کہ شمر بن ذی الجوشن نے اسے تیر مارا اور کہا اللہ تجھے خاموش کرائے ، تو خاموش ہوجا ، تو نے اپنی باتوں سے ہمیں تنگ کردیا ہے ۔
زبیر نے اس سے کہا اے اپنی ایڑیوں پر پیشاب کرنے والے میں تجھ سے بہتر ہوں ۔ تو تو ایک جانور ہے ۔ اللہ کی قسم میرا خیال ہے کہ کتاب اللہ میں سے دو آیتیں بھی نہیں پڑھ سکتا ۔ تجھے قیامت والے دن ذلت و رسوائی اور درد ناک عذاب کی بشارت ہو ۔
شمر نے اس سے کہا اللہ تجھے اور تیرے سردار کو عنقریب ہلاک کرنے والا ہے
زبیر نے اس سے کہا کیا تو مجھے موت سے ڈراتا ہے ؟ ۔ پھر زبیر لوگوں کے پاس آئے اور بلند آواز میں کہا اے خدا کے بندوں یہ دیہاتی بےوقوف تمہیں تمہارے دین کے بارے میں دھوکہ نہ دے ۔ اللہ کی قسم ان لوگوں کو محمد {ص} کی شفاعت نصیب نہ ہوگی جنہوں نے آپ کی اولاد کا خون بہایا ہے اور ان کے مددگاروں اور ان کے حریم کا دفاع کرنے والوں کو قتل کیا ہے ۔
حر بن یزید نے عمر بن سعد سے کہا اللہ آپ کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے کیا آپ حسین {رض} شخص سے جنگ کرنے والے ہیں
اس نے کہا ہاں اللہ کی قسم ایسی جنگ کہ جس کے معمولی حصہ سے جسموں سے سر ساقط ہوجائیں گے اور ہاتھ بکھر جائیں گے
حر بن یزید چونکہ کوفہ کے بڑے بہادروں میں سے تھا اس نے حسین {رض} کی طرف ہونے کا فیصلہ کیا ۔ اس کے ایک ساتھی نے جب اس فیصلہ پر ملامت کی تو حر نے کہا اللہ کی قسم ، اپنے نفس کو جنت اور جہنم کے درمیان کا اختیار دوں تو میں جنت کے علاوہ کسی اور چیز کو اختیار نہیں کروں گا خواہ میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں یا جلا دیا جائے ۔
پھر وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر حسین {رض} سے جا ملا ۔ آپ سے معذرت کی پھر دشمنوں سے مخاطب ہوا اور کہا اے کوفے والوں تمہاری مائیں تمہیں گم پائیں گی ، تم حسین {رض} کو اپنے پاس بلاتے ہو اور وہ جب تمہارے پاس آتے ہیں تو تم انہیں بےیار و مددگار چھوڑ دیتے ہو ۔ تم نے گمان کیا تھا کہ تم حسین {رض} کی حفاظت میں اپنی جانیں لڑاؤ گے اور اب تم نے انہیں قتل کرنے کے لیے ان پر حملہ کردیا ۔ اور تم نے اللہ کی اس وسیع و عریض علاقوں میں جانے سے روک دیا ۔ تم حسین {رض} اور دریائے فرات کے بہتے ہوئے پانی کے درمیان حائل ہوگئے ۔ جس پانی کو یہود و نصاری تک پیتے ہیں ۔ تم رسول اللہ {ص} کی اولاد کے بارے میں بدترین فرد ہو ۔ اگر آج اس کام سے توبہ نہ کی اور رجوع نہ کیا تو اللہ تعالی روز قیامت تمہیں سیراب نہیں کرے گا ۔
( واللہ اعلم )
 
راوی بیان کرتا ہے کہ عمر بن سعد نے آگے بڑھ کر اپنے غلام سے کہا اے درید اپنے جھنڈے کو قریب کرو
اس نے قریب کیا تو عمر بن سعد نے اپنی آستینیں چڑھائیں اور تیر مارتے ہوئے کہا میں ان لوگوں پر تیر مارنے والا پہلا شخص ہوں
راوی بیان کرتا ہے کہ ان لوگوں نے آپس میں تیراندازی کی ۔ زیاد کے غلام یسار اور عبیداللہ کے غلام سالم نے باہر نکل کر کہا کون مقابلہ کرے گا ؟
تو حسین {رض} سے اجازت لے کر عبیداللہ بن عمرالکلمی ان دونوں کے مقابلے میں نکلے اور انہوں نے پہلے یسار کو اور پھر اس کے بعد سالم کو قتل کردیا مگر اس مقابلے کے دوران سالم نے تلوار مار کر ان کے بائیں ہاتھ کی انگلیاں اڑادیں
پھر سامنے سے عبداللہ بن حوزہ نامی شخص آگے بڑھا یہاں تک کہ حسین {رض} کے سامنے کھڑا ہوکر آپ سے کہنے لگا اے حسین {رض} آپ کو دوزخ کی بشارت ہو
حسین {رض} نے اس سے کہا تو ہلاک ہوجائے ۔ میں اپنے رحیم اور شفیع پروردگار کے پاس جارہا ہوں اور تو زیادہ دوزخ کا مستحق ہے ۔
حسین {رض} نے اس سے اس کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا میں ابن حوزہ ہوں
حسین {رض} نے اپنا ہاتھ اٹھا کر فرمایا اے اللہ اسے آگ میں داخل فرما
ابن حوزہ نے یہ سن کر آپ پر چڑھائی کا ارادہ کیا تو اس کو لے کر گھوڑا جولانی کرنے لگا ۔ مسلم بن عوسجہ نے اس پر حملہ کرکے اسے تلوار ماری ۔ اور اس کے پاؤں ، پنڈلی اور ران کٹ گئی ۔ اس کا گھوڑا اسے لے کر دوڑ پڑا اور وہ جس پتھر کے قریب سے گزرتا اس سے اس کے سر میں چوٹ لگتی یہاں تک کہ وہ مرگیا ۔
پھر ابن زیاد کی فوج کے میمنہ کے امیر عمرو بن الحجاج نے حملہ کردیا اور کہنے لگا جو دین سے خارج ہوگیا اور جماعت کو چھوڑ دیا اس سے جنگ کرو
حسین {رض} نے کہا اے حجاج تو ہلاک ہوجائے ۔ کیا تو لوگوں کو میرے خلاف کر رہا ہے ؟ کیا ہم دین سے خارج اور تو اس پر قائم ہے ؟ جب ہماری روحیں ہمارے جسموں سے جدا ہوجائیں گی تو جلد ہی تجھے علم ہوجائے گا کہ کون دوزخ میں داخل ہونے کا مستحق ہے ۔
عمرو بن الحجاج نے اس حملے میں مسلم بن عوسجہ کو شدید زخمی کردیا ۔ وہ اس وقت آخری سانسوں میں تھے ۔ حبیب بن مطہر نے ان سے کہا تمہیں جنت کی بشارت ہو
انہوں نے کمزور آواز میں کہا اللہ تعالی تمہیں بھلائی کی بشارت دے
حبیب بن مطہر نے کہا اگر مجھے علم نہ ہوتا کہ میں تمہارے پیچھے آنے والا ہوں تو میں تمہاری وصیت کو ادا کرتا
مسلم بن عوسجہ نے حسین {رض} کی طرف اشارہ کرکے ان سے کہا میں تمہیں ان کے متعلق وصیت کرتا ہوں کہ تم ان کی حفاظت کرتے ہوئے مرنا
حسین {رض} چل کر مسلم بن عوسجہ کے پاس گئے اور ان کے لئے رحمت کی دعا کی یہ حسین {رض} کے ساتھیوں میں سے قتل ہونے والے پہلے شخص تھے ۔
( واللہ اعلم )
 
مورخین نے بیان کیا ہے کہ شمر بن ذی الجوشن نے میسرہ پر حملہ کردیا ۔ اور اس نے حسین {رض} کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو آپ کے گھڑ سوار ساتھیوں نے آپ کا اچھا دفاع کیا اور اس کی زبردست مدافعت کی ۔ شمر بن ذی الجوشن نے عمر بن سعد سے تیر انداز دستے کا مطالبہ کیا تو اس نے تقریبا پانچ سو جوانوں کو اس کے پاس بھیج دیا ۔ وہ تیر انداز حسین {رض} اور ان کے ساتھیوں پر تیر اندازی کرنے لگے ۔ انہوں نے سب کو زخمی کردیا ۔ جب انہوں نے حر بن یزید کے گھوڑے کو زخمی کردیا تو تو وہ تلوار ہاتھ میں لئے نیچے اترے اور شیر کی مانند دھاڑ کر کہنے لگے اگر تم مجھے زخمی کر بھی دو تو میں شریف زادہ ہوں اور میں عیال دارشیر سے زیادہ بہادر ہوں
راوی کہتا ہے کہ عمر بن سعد نے ان خیموں کو اکھاڑنے کا حکم دیا جو حسین {رض} نے اعلی حکمت عملی کے تحت نصب کئے تھے ۔ اور وہ خیمے عمر بن سعد کے لئے رکاوٹ بن رہے تھے ۔ مگر جو شخص بھی ان خیموں کو اکھاڑنے کی کوشش کرتا تو حسین {رض} کے ساتھی اس کو قتل کردیتے ۔ آخر کار عمر بن سعد نے ان خیموں کو جلانے کا حکم دے دیا ۔ حسین {رض} نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا ان کو جلانے دو ، بلاشبہ یہ لوگ ان کی آگ سے گزرنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ شمر بن ذی الجوشن حسین {رض} کے پاس آکر کہنے لگا میرے پاس آگ لاؤ تاکہ ان خیموں میں جو کچھ ہے میں اس سمیت جلادوں ۔ خیموں میں موجود عورتیں چلا اٹھیں اور خیموں سے باہر نکل آئیں ۔ پھر خیموں کو جلادیا گیا ۔
حسین {رض} نے کہا شمر اللہ تجھے آگ سے جلائے
شبث بن ربعی شمر کے پاس آیا اور اس نے اسے کہا میں نے تیرے قول و فعل اور اس موقف سے برا مقام نہیں دیکھا ۔ کیا تو عورتوں کو ڈرانا چاہتا تھا ؟
حمید بن مسلم نے بیان کیا ہے کہ میں نے شمر سے کہا سبحان اللہ یہ بات تیرے لئے مناسب نہیں ہے ۔ کیا تم اپنی ذات پر دو باتیں جمع کرنا چاہتے ہو ؟ تم اللہ کا عذاب بھی دیتے ہو اور بچوں اور عورتوں کو قتل بھی کرتے ہو ۔ اللہ کی قسم تمہارا مردوں کو قتل کرنے سے تمہارا امیر قتل نہیں ہوگا ۔
زبیر بن القین نے حسین {رض} کے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ شمر بن ذی الجوشن پر حملہ کیا ۔ اور اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ۔ اس حملے کے دوران ابو عزۃ الضبابی جو شمر کے ساتھیوں میں سے تھا اس کو قتل کردیا گیا ۔
چونکہ حسین {رض} کے ساتھیوں کی تعداد کم تھی اس لئے جب بھی ان میں سے کوئی قتل ہوجاتا تو نمایاں ہوجاتا جبکہ ابن زیاد کے ساتھیوں میں سے بہت سے لوگ قتل ہوئے مگر ان کی کثرت کی وجہ سے نمایاں نہ ہوتے ۔
( واللہ اعلم )
 
جب ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا تو حسین {رض} نے فرمایا انہیں حکم دو کہ وہ جنگ سے رک جائیں تاکہ ہم نماز پڑھ لیں
اہل کوفہ میں سے ایک شخص جس کا نام بدیل بن صریم اور تعلق بنی غطفان سے تھا ، اس نے کہا آپ کی یہ بات قبول نہیں ہوگی
تو حبیب بن مطہر نے اس سے کہا کہ تو ہلاک ہوجائے ، کیا تیری بات قبول ہوگی اور آل رسول کی بات قبول نہ ہوگی ؟
حبیب بن مطہر نے اس سے خوب مقابلہ کیا یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوگیا
حبیب بن مطہر بولے میں حبیب ہوں اور میرا باپ مطہر ہے ، جو جنگ کا شہسوار اور جنگوں کو بھڑکانے والا ہے ، تم بڑی تعداد والے مگر ہم تم سے زیادہ وفادار اور صابر ہیں ۔ ہم محبت کے لحاظ سے اعلی اور حق کے لحاظ سے نمایاں ہیں ، اور تم سے زیادہ ثابت قدم اور پاکباز ہیں
پھر حبیب بن مطہر پر بنو تمیم کے ایک شخص نے حملہ کیا اور نیزے سے انہیں زخمی کردیا جس پر وہ گر پڑے ۔ جب دوبارہ اٹھنے کی کوشش کی تو حصین بن نمیر نے ان کے سر پر تلوار ماری ، تمیمی شخص نے پاس آکر ان کا سر کاٹ دیا ، جسے بعد میں وہ ابن زیاد کے پاس لے گیا
ابومخنف نے بیان کیا ہے کہ محمد بن قیس نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب حبیب بن مطہر قتل ہوئے تو اس بات نے حسین {رض} کو کمزور کردیا ، اس موقع پر آپ نے فرمایا میں نے اپنے آپ کو کھو دیا
حر بن یزید نے حسین {رض} سے کہا میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک میں قتل نہ ہوجاؤں ، آپ پر آنچ نہ آنے دوں گا ۔ آج کے دن سامنے آکر مصیبت کا سامنا کروں گا اور تلوار کے ساتھ انہیں کاٹنے والی ضربیں لگاؤں گا کیونکہ نہ ہم دشمن سے کمزور ہیں اور نہ بےیارو مددگار ہیں
حر بن یزید اور زہیر بن القین نے مل کر دشمنوں کے حملوں کا سامنا کیا مگر پھر کچھ جوانوں نے حر بن یزید پر حملہ کرکے انہیں قتل کردیا
زہیر بن القین بڑی جرات مندی سے لڑتا رہا اس نے دشمنوں کے کئی لوگ مارے ، اس مقام پر زہیر بن القین نے رجزیہ اشعار پڑھے
میں زہیر ہوں القین کا بیٹا ہوں ، میں تمہیں تلوار سے حسین {رض} سے دور کردوں گا
راوی بیان کرتا ہے کہ زہیر بن القین نے حسین {رض} سے کہا آپ آگے بڑھیے اور ہادی و مہدی بن کر رہنمائی کیجئے ، آج آپ اپنے نانا محمد {ص} ، بھائی حسن {رض} ، والد علی {رض} اور شجاع ذوالجناحین اور اللہ تعالی کے شیر زندہ شہید سے جاملیں گے
( واللہ اعلم )
 
راوی کہتا ہے کہ حسین {رض} کے ساتھیوں میں ایک نافع بن ہلال الجملی بھی تھے ۔ جنہوں نے اپنے تیروں پر کچھ تحریر کر رکھا تھا اور وہ اپنے تیروں کو زہر آلود کرکے دشمنوں پر پھینکا کرتے تھے ۔ دشمنوں سے لڑتے ہوئے وہ یہ اشعار پڑھ رہے تھے " ان کا سوفار میرا ہدف ہے ، نفس کی مخالفت کا کچھ حاصل نہیں ، میں جملی ہوں اور علی {رض} کے دین پر ہوں " جب وہ زخمی ہوئے اور ان کے دونوں بازو ڈھلک گئے ۔ پھر انہیں گرفتار کرکے عمر بن سعد کے پاس لے جایا گیا
نافع کو زخمی حالت میں دیکھ کر عمر بن سعد نے کہا تو ہلاک ہو ۔ تجھے یہ سب کچھ کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا ؟
نافع نے جواب دیا میرے رب کو میری مراد کا علم ہے ۔ پھر کہا اللہ کی قسم میں نے تیرے کئی لوگ زخمی کئے اور بارہ آدمیوں کو قتل کیا اور میں اپنے آپ کو اس بات پر ملامت نہیں کرتا ۔ اگر میرے بازو باقی ہوتے تو تم مجھے قیدی نہیں بناسکتے تھے
جب شمر بن ذی الجوشن نے عمر بن سعد کو نافع کو قتل کرنے کا حکم دیا تو وہ بولے اسے تو تو خود میرے پاس لایا ہے اگر چاہتا ہے تو خود اسے قتل کردے
شمر اٹھا اور اپنی تلوار تانی تو نافع نے اس سے کہا اللہ کی قسم اے شمر اگر تو مسلمان ہوتا تو ہمارا خون اپنی گردن میں لے کر اللہ تعالی سے ملاقات کرنا تجھے گراں گزرتا ۔ اللہ کا شکر ہے جس نے ہماری موت اپنی مخلوق میں سے بدترین انسانوں کے ہاتھوں مقدر کی ۔
اس کے بعد شمر نے نافع کو قتل کردیا
پھر شمر بن ذی الجوشن نے کئی آدمیوں کے ساتھ حسین {رض} اور ان کے باقی بچے ساتھیوں پر ایک بھرپور حملہ کیا ۔ اور حسین {رض} کے ساتھیوں کو اندازہ ہوگیا کہ اب ان کے اندر اپنی جانوں اور حسین {رض} کی جان کی حفاظت کی طاقت نہیں ہے ، تو اس لئے انہوں نے آپ {رض} سے پہلے قتل ہوجانے کو پسند کرلیا
عذرہ غفاری کے بیٹے عبدالرحمان اور عبداللہ نے حسین {رض} کے پاس آکر کہا آپ پر سلامتی ہو
آپ {رض} نے کہا تم دونوں کو خوش آمدید ہو ۔ میرے قریب آجاؤ
چنانچہ وہ قریب ہوگئے اور آپ کے نزدیک رہ کر جنگ کرنے لگے ۔ آپ {رض} کے دیگر ساتھی جو چند رہ گئے تھے وہ بھی آپ کے پاس آکر آپ کے دفاع میں جنگ کرنے لگے
اس وقت حسین {رض} نے اپنے ساتھیوں کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی آپ لوگوں کو متقیوں کی بہترین جزا دے ۔
آپ کے ساتھی بھی آپ پر سلامتی بھیجتے اور جنگ کرتے رہے ۔ حتی کہ وہ قتل ہوگئے
( واللہ اعلم )
 
حسین {رض} کے ساتھیوں نے آپ کے دفاع میں جنگ لڑی یہاں تک کہ سب ختم ہوگئے سوائے سوید بن عمرو بن ابی مطاع کے ۔ ان کے علاوہ باقی رہ گئے بنی ابو طالب میں سے وہ لوگ جو آپ {رض} کے اہل تھے ۔ آپ کے اہل میں سے سب سے پہلے قتل ہونے والوں میں تھے اٹھارہ سالہ علی اکبر بن حسین بن علی ۔ لیلی بنت ابی مرہ ان کی والدہ کا نام تھا ۔ مره بن‌ منقذ بن نعمان العبدی جب حسین {رض} کو قتل کرنے کے غرض سے آگے بڑھا تو علی اکبر اپنے والد کو بچانے کے لئے درمیان میں آگئے
علی بن حسین نے کہا میں علی بن حسین بن علی ہوں ، بیت اللہ کی قسم ہمیں حضور {ص} سے زیادہ قرابت کا تعلق ہے ۔ اللہ کی قسم متبنی کا بیٹا ہمارے اوپر حکومت نہیں کرسکتا ، تم آج میرے والد کا کیسا خیال کرتے ہو ؟
پس جونہی علی اکبر نے نیزہ چلایا تو دشمنوں نے انہیں گھیر لیا اور مره بن‌ منقذ نے نیزہ مار کر قتل کردیا
حسین {رض} نے فرمایا جن لوگوں نے تجھے قتل کیا ہے ان پر اللہ کی لعنت ۔ یہ لوگ اللہ تعالی اور اس کی حرام کردہ چیزوں کی بےحرمتی میں کس قدر جری ہیں ۔
راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد زینب بنت علی جو فاطمہ {رض} کے بطن سے تھیں آئیں اور علی اکبر پر جھک گئیں جبکہ وہ مقتول پڑے تھے ۔ کہنے لگیں ہائے میرے بھائی ، ہائے میرے بھتیجے
حسین {رض} نے زینب کو ہاتھ سے پکڑ کر الگ کردیا
علی اکبر کے بعد آپ {رض} کے چچازاد بھائی چودہ سالہ عبداللہ بن مسلم بن عقیل کو قتل کیا گیا ۔ اس کے بعد عبداللہ بن جعفر کے دونوں بیٹوں عون اور محمد جن کی والدہ زینب بنت علی اور نانی فاطمہ {رض} تھیں کو قتل کیا گیا اور پھر قاسم بن حسن بن ابی طالب قتل ہوئے
مورخین نے لکھا ہے کہ حسین {رض} دن بھر تن تنہا ٹھہرے رہے ۔ جو بھی آپ کے پاس آتا چھوڑ کر واپس چلا جاتا تھا اور وہ آپ کو اپنے ہاتھوں قتل کرنا ناپسند کرتا ۔ یہاں تک کہ بنی بداء کا مالک بن بشیر نامی ایک شخص آپ {رض} کے پاس آیا اور اس نے آپ کے سر پر تلوار ماری جس سے آپ کا سر زخمی ہوگیا اور خون بہنے لگا
( واللہ اعلم )
 
راوی کا بیان ہے کہ پھر حسین {رض} تھک کر چور ہوگئے اور آکر اپنے خیمے کے دروازے پر بیٹھ گئے ۔ آپ کی اولاد میں سے آپ کے پاس ایک بچہ لایا گیا ۔ جسے عبداللہ کہا جاتا تھا ۔ آپ نے اسے گود میں لیا ، چوما ، سونگھا اور الوداع کہا ۔ اور اپنے اہل خانہ کو وصیت کرنے لگے ۔ لیکن اتنے میں بنی اسد کے ایک شخص جسے ابن موقد النار کہا جاتا ہے ، اس نے تیر مار کر عبداللہ کو قتل کردیا ۔ آپ {رض} نے عبداللہ کے خون کو ہاتھ میں لیا اور آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا اے ہمارے پروردگار اگر آپ نے ہم سے آسمانی امداد کو روک لیا ہے تو اسے وہ چیز بنا جو بہتر ہو ، اور ظالموں سے ہمارا انتقام لے ۔
اتنی دیر میں عمر بن سعد کے لشکر میں شامل عبداللہ بن عقبہ غنوی نے ابوبکر بن حسین کو تیر مار کر قتل کردیا
پھر حسین {رض} کے بھائی اور علی بن ابی طالب کے بیٹے عبداللہ ، عباس ، عثمان ، جعفر اور محمد یہ تمام قتل ہوئے
حسین {رض} کی پیاس شدت اختیار کرگئی اور آپ نے کوشش کی کہ دریائے فرات کے پانی پر پہنچ کر پانی پی لیں ۔ مگر آپ نے نہ صرف اس کی طاقت نہ پائی بلکہ دشمنوں نے بھی اس سے روک لیا ۔ پھر آپ نے فرات کے اس حصہ کی جانب جانے لگے جہاں تھوڑا بہت پانی تھا اور پینے کے قابل تھا تو ایک شخص جسے حصین بن تمیم کہا جاتا تھا آپ کے تالو میں تیر مار کر آرپار کردیا ۔ حسین {رض} نے اس تیر کو اپنے تالو سے کھینچا تو خون بہہ پڑا ۔ آپ نے خون کو دونوں ہاتھوں میں لیا اور خون بھرے ہاتھوں کو آسمان کی جانب اٹھا کر فرمایا اے اللہ ان کی تعداد کو شمار کر اور انہیں الگ الگ کرکے قتل کر اور زمین پر ان میں سے کسی کو نہ چھوڑ ۔
راوی بیان کرتا ہے کہ جب عمر بن سعد ، حسین {رض} کے قریب ہوا تو زینب نے اس سے کہا اے عمر کیا ابو عبداللہ تیرے دیکھتے دیکھتے قتل ہونگے ؟
تو وہ روپڑا اور اس نے اپنا چہرہ پھیر لیا
ابومخنف نے بیان کیا ہے کہ الصقعب بن زبیر نے حمید بن مسلم کے حوالے سے مجھے بیان کیا کہ حسین {رض} جوانوں پر حملہ کرنے لگے اور کہنے لگے کیا تم میرے قتل کو پسند کرتے ہو ؟ اللہ کی قسم مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی تمہاری اذیت سے مجھے عزت دے گا ۔ پھر اللہ تم سے میرا بدلہ لے گا کہ تمہیں احساس بھی نہ ہوگا ۔ اور اللہ کی قسم اگر تم نے مجھے قتل کردیا تو اللہ تمہارے درمیان آپس میں جنگ اور خون بہانا ڈال دے گا ۔ پھر تم سے راضی نہ ہوگا ۔ حتی کہ تمہیں دوہرا عذاب دے گا ۔
راوی بیان کرتا ہے کہ آپ {رض} دن کا بڑا حصہ ٹھہرے رہے ۔ یہاں تک کہ شمر بن ذی الجوشن نے اپنے ساتھیوں کو آواز دی کہ تم ان کے قتل میں کس بات کا انتظار کررہے ہو ؟
پس زرعہ بن شریک تمیمی نے آپ {رض} کی طرف بڑھ کر آپ کے کندھے پر تلوار ماری ۔ پھر سنان بن انس بن عمرو نخعی نے آپ کو نیزہ مارا ۔ پھر گھوڑے سے اتر کر آپ کا سر کاٹ دیا اورخولی بن یزید اصبحی کو دے دیا
( واللہ اعلم )
 
Top