ٹائپنگ مکمل کربلا : صفحہ 58

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
KarBala%20-%2000060.gif
 

کاشفی

محفلین
کربلا : صفحہ 58

بلال: اماں جان خدا نہ کرے کہ میری نیت میں فرق آئے۔ میں تو صرف بات کہہ رہا تھا۔ آج سارا شہر زیاد کو دعائیں دے رہا ہے۔

(توعہ چپکے سے کھانا نکال کر مسلم کو دے آتی ہے)

بلال: حضرت حسین علیہ السلام اب تشریف نہ لائیں تو اچھا ہو۔ ناحق فتنہ و فساد پیدا ہوگا۔ ان کا آنا اب مناسب نہیں۔

توعہ: اچھا منہ دھو۔ کچھ کھانا تو کھا۔ یا زیاد نے دعوت بھی کردی۔

بلال: خدا مجھے اس کی دعوت سے بچائے۔ کھانا لا

(توعہ اس کے سامنے کھانا نکال کر لاتی ہے اور ایک پیالے میں کچھ لے کر چپکے سے حضرت مسلم کو دے آتی ہے۔)

بلال: یہ پچھواڑے کی طرف بار بار کیوں‌جارہی ہو اماں جان؟

توعہ: کچھ نہیں‌بیٹا یوں ہی ایک ضرورت سے چلی گئی تھی۔

بلال: حضرت مسلم پر نہ جانے کیا گزری۔

(بلال کھانا کھا کر چارپائی پر لیٹتا ہے ۔ توعہ ایک بستر لے کر چپکے سے چلی جاتی ہے اور حضرت مسلم کی چارپائی پر بچھا دیتی ہے۔)

بلال: اماں تم پھر ادھر گئیں۔ اور کچھ لے کر گئیں، آخر ماجرا کیا ہے۔ کوئی مہمان تو نہیں آیا ہے۔

توعہ: بیٹا مہمان آتا تو کیا اس کے لئے یہاں جگہ نہ تھی۔

بلال: مگر کوئی نہ کوئی بات ہے ضرور۔ کیا مجھ سے بھی چھپانے کی ضرورت ہے۔
 

کاشفی

محفلین
کربلا : صفحہ 58

توعہ: تم سوؤ۔ تمہیں اس کی کیا فکر پڑی ہے۔

بلال: جب تک نہ بتلاؤ گی، میں‌نہ سوؤں گا۔

توعہ؛ کسی سے کہو گے تو نہیں؟

بلال: تمہیں مجھ پر بھی اعتبار نہیں

توعہ: قسم کھا

بلال: خدا کی قسم جو کسی سے کہوں۔

توعہ: (بلال کے کان میں) حضرت مسلم ہیں۔

بلال: یہ تم نے کیا غضب کیا۔ اماں زیاد کو خبر مل گئی تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔

توعہ: خبر کیسے ہوجائے گی میں تو کہوں‌ گی نہیں۔ ہاں تیرے دل کی بات نہیں جانتی۔ کرتی کیا ایک تو مسافر دوسرے سے حضرت حسین علیہ السلام کے بھائی۔ دل میں‌جگہ ہے ۔ تو گھر میں کیسے نہ ہوتی۔

بلال: (دل میں) اماں نے مجھے یہ راز بتا دیا بڑی غلطی کی۔ میں‌نے جبر کر کے پوچھا۔ مجھ سے بھی غلطی ہوئی۔ اب حرص رفعت کو کیونکر مایوس رکھوں۔، ایک دار سے ایک سلطنت ہاتھ آتی ہو تو ایسا کون ہاتھ ہے جو نہ اٹھ جائے گا ایک بار زبان کھولنے سے اگر زندگی کے سارے حوسلے ساری تمنائیں پوری ہوتی ہوں تو وہ کون زبان ہے جو خاموش رہ جائے گی۔ اے دل گمراہ نہ ہو تونے سخت قسمیں کھائی ہیں۔ لعنت کا طوق گردن میں نہ ڈال۔ لیکن ہوگا تو وہی جو مقدر میں ہے اگر حضرت مسلم کی تقدیر میں‌بچنا لکھا ہے ۔ تو بچیں گے چاہے ساری دنیا ان کی دشمن ہو جائے۔ مرنا لکھا ہے تو مریں گے چاہے ساری دنیا دوست ہو جائے۔
 
Top