مصطفیٰ زیدی کراہتے ہوئے دل

غزل قاضی

محفلین
کراہتے ہوئے دِل​
مَیں اسپتال کے بستر پہ تم سے اتنی دُور​
یہ سوچتا ہُوں کہ ایسی عجیب دُنیا میں​
نہ جانے آج کے دن کیا نہیں ہُوا ہو گا​
کِسی نےبڑھ کے ستارے قفس کیے ہوں گے​
کسی کے ہات میں مہتاب آگیا ہو گا​
جلائی ہوں گی کِسی کے نفَس نے قِندیلیں​
کِسی کی بزم میں خورشید ناچتا ہو گا​
کِسی کو ذہن کا چھوٹا سا تازیانہ بہت​
کسی کو دل کی کشاکش کا حوصلہ ہو گا​
نہ جانے کِتنے ارادے اُبھر رہے ہوں گے​
نہ جانے کِتنے خیالوں کا دل بڑھا ہو گا​
تمھاری پُھول سی فطرت کی سِطح نرم سے دُور​
پہاڑ ہوں گے ، سمندر کا راستہ ہو گا​
یہ ایک فرض کا ماحَول ، فرض کا سنگیت​
یہ اسپتال کے آنسُو ، یہ اسپتال کی رِیت​
مرے قریب بہت سے مریض اور بھی ہیں​
پُکارتی ہُوئی آنکھیں ، کراہتے ہُوے دِل​
بہت عزیز ہے اِن سب کو زندگی اپنی​
"یہ اپنی زیست کا احساس کیسی نعمت ہے "​
مگر مجھے یہی الجھن کہ زندگی کی یہ بھیک​
جو مِل گئی بھی تو کِتنی ذرا سی بات مِلی​
کِسی کے ہات مہتاب آگیا بھی تو کیا​
کسی کے قدموں میں سُورج کا سرجُھکا بھی تو کیا​
ہُوا ہی کیا جو یہ چھوٹی سی کائنات مِلی ؟​
مرے وجُود کی گہری ، خموش ویرانی​
تمھیں یہاں کے انّدھیرے کا عِلم کیا ہو گا​
تمھیں تو صرف مقّدر سے چاند رات مِلی​
مصطفیٰ زیدی​
( شہر ِ آزر )​
 
Top