کراچی

سیما علی

لائبریرین
واللہ کراچی ھے عجب شام و سحر م
یہ بات نہیں پائی کسی اور نگر میں


ہیں خوب زمانے میں کئی شہر بھی لیکن
جچتا ہی نہیں اور کوئی میری نظرمیں

حالات ھوں جیسے بھی یہاں جیسے گزر ھو
جنت ھے کراچی کی مگر میری نظر میں

اے شہر کراچی تیرا احسان ہے مجھ پر
فردوس بریں تیری ہر اک را ہگزر میں

ھے مقبرہءِ قائداعظم بھی یہیں تو
یہ شہرھےصد رشکِ قمرمیری نظرمیں

اجداد کی قربانیاں دے کر تو ملا ھے
تو ہی صلہ ءِ عمر ھے حیدر کی نظر میں


---- ذوالفقار حیدر
 

سیما علی

لائبریرین
کُجھ لوک، بہتّہ خور ، نیں ، کُجھ ڈاکو ، چور ، نیں!
کُجھ ، شکل مومناں ، وِی نیں ، وِچّوں کجھ ، ہور ، نیں!

ویلھے جے ہون ، بچّیاں نُوں ، روٹی کیویں کھوان!
دِل میرا ، میری جان ، کراچی ، لہولہان!
 

سیما علی

لائبریرین
شہرِ کراچی یاد تو ہو گا ، تیرے شب بیداروں میں
مرزا رسا ؔچغتائی بھی تھا، یار ہمارا یاروں میں
 

سیما علی

لائبریرین
تخاطب ہے تجھ سے خیال اور کا ہے
یہ نکتہ وفا میں بڑے غور کا ہے

وہ خلوت میں کچھ اور جلوت میں کچھ ہے
کرم اس کا مجھ پر عجب طور کا ہے

مرا چہرہ بھی میرا چہرہ نہیں ہے
یہ احسان مجھ پر مرے دور کا ہے

یہ نفرت محبت کا رد عمل ہے
کہ مجھ سے تقاضا ترے جور کا ہے

نئے دور کی ابتدا کا ہے ضامن
کہ دل آئنہ گوشۂ ثور کا ہے

کراچی میں بھی معتبر ہو رہا ہے
سخن میں جو انداز لاہور کا ہے

قتیل شفائی
 

سیما علی

لائبریرین
جب روشنی چمکی تو اٹھایا سر ساحل
مٹی کے پیالے میں تھا سونا سر ساحل

پانی پہ مکاں جیسے مکیں اور کہیں غم
کچھ ایسے نظر آئی تھی دنیا سر ساحل

جب طے ہو ملاقات اس آشفتہ سری سے
تم اور ہی کچھ رنگ پہننا سر ساحل

کشتی میں نظر آئی تھی جنت کی تجلی
پتوار اٹھاتے ہی میں بھاگا سر ساحل

اب قوم اتارے کوئی سینے پہ ہمارے
پہلے تو اتارا تھا صحیفہ سر ساحل

میں ہاتھ بڑھاتا تو بھلا کیسے بڑھاتا
تصویر میں تھے ساغر و مینا سر ساحل

ہم لوگ کراچی کے عجب لوگ ہیں صاحب
کھانا ہے سمندر میں تو پینا سر ساحل

اُسامہ امیر
 

سیما علی

لائبریرین
کلیوں کو میرے پھول مرے آشیان کو
تاڑا ہے صاعقوں نے مرے گلستان کو

اک خانۂ خدا تجھے سونپا تھا اے صنم
کرتا ہے کون ترک پھر ایسے مکان کو

طوبیٰ قدان شہر کراچی نے سربسر
سر پر اٹھا کے رکھا ہے اس آسمان کو

پیر فلک ہے سینے میں پتھر ترا کہ دل
کل خاک میں ملا دیا کیسے جوان کو

جنت دکھا دی شیخ کو ساقی نے جیتے جی
حضرت سلام کر گئے پیر مغان کو

جھوٹی سہی ملی ہے محبت مجھے ضرور
آباد رکھے حق مرے ان دوستان کو

کیا کیا زبانوں کو لیے دامن میں بیٹھی ہے
یارب عطا ہوں وسعتیں اردو زبان کو

ھاوی مومن آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
رحم کر اے خدا، کراچی میں
جانے کیا گل نیا کھلائے گا

رقصِ بادِ صبا، کراچی میں
موسمِ گُل کا یہ اشارہ ہے

اک بدلتی فضا، کراچی میں
اس کراچی کو جیتنے کے لیے
شاہد اقبال شاہد
 

سیما علی

لائبریرین
پھر مرے شہر پہ قبضہ جمانے آئے تھے
تجھے جو قائد ملت ہرانے آئے تھے
انھی نے شہر کا امن و اماں بھی لوٹ لیا
جو میرے شہر میں دولت کمانے آئے تھے
یہ کہہ رہے ہیں کہ ہتھیار ان کا زیور ہے
انھیں خبر نہیں کس کو ڈرانے آئے تھے
نہتے لوگوں پہ جو گولیاں چلاتے ہیں
یہاں وہ گاؤں سے ویگن چلانے آئے تھے
یہ اپنے اپنے علاقوں سے بھاگ کر عارف
کراچی شہر میں کیا گل کھلانے آئے تھے
عارف شفیق
 

سیما علی

لائبریرین
ملی نہ فرصت آرائش بیاباں بھی
کہ ہم یہاں بھی ترے بام و در بناتے ہیں

عدو ہواؤ کراچی کے لوگ ہارے نہیں
جو گھر گراؤ وہ بار دگر بناتے ہیں
جمیل الدین عالی
 

سیما علی

لائبریرین
طوبیٰ قدان شہر کراچی نے سربسر
سر پر اٹھا کے رکھا ہے اس آسمان کو

پیر فلک ہے سینے میں پتھر ترا کہ دل
کل خاک میں ملا دیا کیسے جوان کو
ہادی مومن آبادی
 

جاسمن

لائبریرین
ہم سے جس کے طور ہوں بابا دیکھو گے دو ایک ہی اور
کہنے کو تو شہر کراچی بستی دل زدگاں کی ہے

ابن انشاء
 

جاسمن

لائبریرین
ہم کو یورپ میں کراچی کی فضا یاد رہی
وہی گرمی ، وہی مرطوب ہوا یاد رہی
جمیل الدین عالی
 

جاسمن

لائبریرین
شہرِ کراچی یاد تو ہو گا ، تیرے شب بیداروں میں
مرزا رسا ؔچغتائی بھی تھا، یار ہمارا یاروں میں
 

سیما علی

لائبریرین
کراچی کی بس
یہ بس جو واقعی تھی کئی سال سے علیل
مشکل سے ایک گھنٹے میں چلتی تھی چار میل
مالک نے بھی یہ سوچ کے دے دی تھی اس کو ڈھیل
اب اس کی زندگی کے ہیں لمحے بہت قلیل
اب تو کسی کلرک سے اچانک یہ جا ملے
کچھ بیمہ کمپنی سے ہمیں بھی صلا ملے
ممکن نہ تھا کہ بس سے ہمارا ملے مزاج
جمہوریت ہے ہم کو پسند اور اسے نراج
مشکل تو یہ ہے بس کا معاون ہے کل سماج
ایسے میں کیا بلند ہو آواز احتجاج
گھبرا کے ہم تو آرٹ کی دنیا میں کھو گئے
جب تک ملیر آیا کئی شعر ہو گئے
دلاور فگار
 

سیما علی

لائبریرین
کراچی کا قبرستان
اے کراچی ملک پاکستان کے شہر حسیں
مرنے والوں کو جہاں ملتی نہیں دو گز زمیں

قبر کا ملنا ہی ہے اول تو اک ٹیڑھا سوال
اور اگر مل جائے اس پر دخل ملنا ہے محال

ہے یہی صورت تو اک ایسا بھی دن آ جائے گا
آنے والا دور مردوں پر مصیبت ڈھائے گا

مرد ماں بسیار ہوں گے اور جائے قبر تنگ
قبر کی تقسیم پر مردوں میں چھڑ جائے گی جنگ

سیٹ قبرستان میں پہلے وہ مردے پائیں گے
جو کسی مردہ منسٹر کی سفارش لائیں گے

کارپوریشن کرے گا اک ریزولیوشن یہ پاس
کے ڈی اے اب مرنے والوں سے کرے یہ التماس

آپ کو مرنا ہے تو پہلے سے نوٹس دیجیے
یعنی جرم انتقال ناگہاں مت کیجیے

کچھ مہینے کے لیے ہو جائے گی تربت الاٹ
اس کے بعد آئے گا نوٹس چھوڑ دیجے یہ پلاٹ

تربت شوہر میں اس کی اہلیہ سو جائے گی
محو حیرت ہوں کہ تربت کیا سے کیا ہو جائے گی

ایک ہی تابوت ہوگا اور مردے آٹھ دس
آپ اسے تابوت کہیے یا پرائیویٹ بس

ایک ہی تربت میں سو جائیں گے محمود و ایاز
دور ہو جائے گا فرق بندہ و بندہ نواز

شاعر مرحوم جب زیر مزار آ جائے گا
دوسرے مردوں کو ہیبت سے بخار آ جائے گا

اس سے یہ کہہ کر کریں گے اور مردے احتجاج
ہم کو ہوتا ہے تمہاری شاعری سے اختلاج

خامشی شہر خموشاں میں ہے دستور ازل
تم یہاں بھی چھیڑ دو گے غیر مطبوعہ غزل

ہم کہیں گے سو رہو آرام کرنا فرض ہے
تم کہو گے ہو چکا آرام مطلع عرض ہے

سرخیاں یہ ہوں گی ''جنگ'' و ''حریت'' میں ''ڈان'' میں
ڈال لی ہیں جھگیاں مردوں نے قبرستان میں

رات دو مردوں نے ہنگامہ کیا زیر مزار
ایک مردہ جیل میں ہے دوسرا مردہ فرار

ایک مردہ بھاگ اٹھا تھا چھوڑ کر گور و کفن
قبر پر مرحوم کی ہے قبضۂ کسٹوڈین

برتری جاتی رہی حفظ مراتب مٹ گیا
ایک مردہ اک پولس والے کے ہاتھوں پٹ گیا

رات اک تربت پہ دو مردوں میں سودا پٹ گیا
ایک مردہ پانچ سو پگڑی کے لے کر ہٹ گیا

ہم تو سمجھے تھے ہمیں ہیں اس جہاں میں بے قرار
اس جہاں والوں کو بھی ملتی نہیں راہ فرار

صرف زندوں ہی کو فکر عیش و آسائش نہیں
اب تو اس دنیا میں مردوں کی بھی گنجائش نہیں
دلاور فگار
 
Top