کراچی کے خانہ بدوش باگڑی

t.gif

20081014114810baghri_woman203.jpg

زیادہ تر لوگ پھلوں کے ٹھیلے لگاتے ہیں۔
برسوں فکر معاش میں بھٹکنے کے بعد حالات نے انہیں ملک کے سب سے بڑے شہر کی طرف دھکیل دیا تھا لیکن کراچی کی تیز رفتار زندگی انہیں پھر اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے۔
لیکن کراچی یونیورسٹی کے داخلی راستے کے سامنے گزشتہ دو دہائیوں سے قائم جھگیوں میں رہائش پذیر خانہ بدوش باگڑی قبیلے کے یہ ایک ہزار سے زائد خاندان اس بار مزاحمت کر رہے ہیں۔
کراچی شہری حکومت اور پولیس کی جانب سے ان خانہ بدوشوں کو موجودہ جگہ خالی کرنے کے لیے کہا گیا ہے اور ان کا مندر اور جھگیاں مسمار کردی گئی ہیں۔
قبیلے کے مکھیا سیارام کا کہنا ہے کہ وہ انیس سو پینسٹھ میں کراچی آئے تھے اور انہوں نے بولٹن مارکیٹ پر ٹھکانہ بنایا مگر کچھ عرصے کے بعد انہیں وہاں سے بےدخل کردیا گیا۔ اس کے بعد بلوچ ہوٹل، عیدگاہ اور جیل چورنگی کے علاقوں سے بھی انہیں ہٹایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے کراچی میونسپل کارپوریشن اور اب شہری حکومت اور پولیس حکام آتے ہیں اور گھروں میں توڑ پھوڑ کرکے چلے جاتے ہیں۔ وہ غریب لوگ ہیں کیا کرسکتے ہیں کیونکہ ان کی کوئی سننے والاہی نہیں۔

t.gif

20081014114654baghri_hut203.jpg

باگڑیوں کو کبھی کہیں جمنے نہیں دیا گیا۔
لیکن کراچی شہری حکومت کی جانب سے ان پر زمین پر قبضے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔
قدرتی ہوا اور روشنی کے علاوہ ان لوگوں کے پاس اور کوئی بنیادی سہولیت نہیں جبکہ پینے کا پانی آس پاس کی آبادی سے مانگ کر حاصل کیا جاتا ہے۔
نوجوان پرمانند باگڑی کہتے ہیں کہ گھروں اور بنگلوں میں وہ پانی کے لیے صدا لگاتے ہیں، کوئی رحم کھاکر پانی دے دیتا ہے تو کوئی دھتکار دیتا ہے۔
اس علاقے میں ایک این جی او کی جانب سے جھونپڑی سکول قائم کیا گیا تھا جس میں بچوں نے دو جماعتیں تعلیم حاصل کی تھی۔ شریمتی بھاگی بتاتی ہیں کہ حکام نے اس اسکول کو بھی ناجائز تعمیر قرار دیکر توڑ دیا جس وجہ سے بچے تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔
باگڑی قبیلے کے یہ افراد پھل، سبزیاں اور کھلونے فروخت کرتے ہیں اور شام کو بچے شہر کے چوراہوں پر پھول اور گجرے بیچنے کا کام کرتے ہیں۔

t.gif

20081014114707baghri_kids203.jpg

بچوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں۔
شریمتی بیگی حکومت سے خفا ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان حکومت ہندوؤں سے ناراض ہے تو انہیں ہندوستان بھیج دیا جائے۔’ یہاں جگہ نہیں ملتی، کھانا نہیں ملتا، ٹھیلا لگانے نہیں دیتے، پینے کا پانی تک نہیں دیتے آخر ہم کہاں جائیں۔‘
شریمتی بیگی کا کہنا ہے کہ وہ قبضہ کرنے والے لوگ نہیں پیٹ پالنے والے ہیں اگر حکومت انہیں رعایتی قیمت پر زمین فراہم کرے اور قسطوں میں پیسے وصول کرے تو وہ ادائیگی کے لیئے تیار ہیں
کوڈو باگڑی بھی ان کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے حکام انہیں’بچوں کا گزر بھی نہیں کرنے دیتے، کہاں جائیں جنگل میں جاکر رہیں یا بھوکے مریں۔‘
ہر سال یہ لوگ بلوچستان کے علاقے میں واقع مذہبی عبادت گاھ ہنگلاج ماتا کے درشن کرنے پیدل جاتے ہیں جبکہ اس کچی بستی میں انہوں نے ایک پکا مندر بھی بنایا تھا جو کچھ روز قبل شہری حکومت نے تجاوزات قرار دیکر توڑ دیا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے غریبوں کو مکانات فراہم کرنے کے لیے سکیموں کا اعلان کیا ہے تاہم ان لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھی یہ اعلان سنے ہیں مگر ان کے پاس کوئی پوچھنے بھی نہیں آیا ہے۔
 
Top