کراچی کا امن اور ن لیگ - زاہد مغل

الف نظامی

لائبریرین
2013 تک کراچی میں ہر روز تقریبا دس سے پندرہ لاشیں گرتی تھیں، نجانے کتنی ماؤں کے لعل زندگی کی جنگ ہارتے، کتنی بیویوں کے سہاگ اجڑتے، کتنی بہنوں و بیٹیوں کے سہارے مٹ جاتے۔ خوف کا عالم یہ تھا کہ لوگ اس امر پر خوش ہوا کرتے تھے کہ بچہ صبح کو گھر سے گیا اور شام کو ٹھیک گھر واپس آگیا، ہر کھاتے پیتے فرد کو یہ دھڑکا لگا رھتا کہ نجانے کب اس کے گھر "بھتے کی پرچی" کا نزول ہونے والا ہے، کب اس کے لعل کو اغوا کیا جانے والا ہے۔ پانچ سال بعد کراچی کی صورت حال یکسر مختلف ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف فوج کا کمال ہے۔ اگر یہ صرف فوج کا کمال ہے تو 2013 سے قبل بھی تو یہی فوج تھی، کیوں نہیں کرلیا اس نے یہ کمال؟ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اس سے پہلے فوج اس قتل عام پر خوش تھی؟ فوج و رینجرز کو ایسے آپریشن کرنے کے لئے ملکی سطح پر جس سیاسی سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے، اسے وہ سیاسی سپورٹ و سپیس ن لیگ نے فراہم کی، ورنہ "زرداری و الطاف گٹھ جوڑ" کے آگے سندھ میں یہ کچھ نہیں کرپاتی تھی۔ میں پھر عرض کردوں، کراچی میں ہر روز درجن زندگیوں کے چراغ ٹارگٹ کلنگ سے گل ہوجاتے تھے، یہ ایک دو دن کی روداد نہیں بلکہ سالہا سال کا قصہ تھا جس کا نشانہ پشتو اور اردو بولنے والی برادری تھی۔ زرداری صاحب خاموشی کے ساتھ "سب کو خوش رکھنے" کی پالیسی اختیار کرکے چپ سادھے بیٹھے رہے اور لوگوں نے کہا کہ
"واہ جی واہ کیا زبردست سیاست دان ہے یہ، ایک زرداری سب پہ بھاری"۔
 
Top