کراچی نامہ

سیما علی

لائبریرین
جوڑیا بازار
تحریر : اقبال اے رحمن صاحب
ہندوستان کے صوبے گجرات کی ایک چھوٹی سی بندرگاہ کا نام " جوڑیا " ہے، اس بندرگاہ پر جہاز تو نہیں لگتے بڑی لانچوں کے زریعے سامان کی نقل و حمل ہوتی ہے، یہاں سے ناریل اور اس سے بنی مصنوعات جیسے رسّی اور اسطرح کی دیگر چیزیں، اسکے علاوہ گڑ اور خام چینی جوڑیا کی مصنوعات کے طور ہر پسند کئے جانے کے سبب لانچوں کے زریعے پورے ہندوستان میں سپلائی کی جاتی تھیں، کراچی میں اسکی ی بڑھتی ہوئی مانگ جوڑیا کے بیوپاریوں کو بھی کراچی کھینچ لائی، اسطرح کی مصنوعات کی فروخت کے لئے انہوں نے جونا مارکیٹ سے نزدیک تر جس علاقے میں کاروبار کا آغاز کیا شروع میں جوڑیا والوں کا بازار کہلایا اور آگے جاکر بر بنائے اختصار جوڑیا بازار ہوگیا اور ایسا مشہور ہوا کہ پورا بازار ہی جوڑیا بازار کے نام سے معروف ہوگیا۔۔

crv84rl.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
کراچی کے پارسی عاشق

سیٹھ ایڈلجی ڈنشا 18 مئی 1842 کو کراچی میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق پارسی خاندان سے تھا۔ وہ برطانوی فوج کے لیے ٹھیکیداری کاکام کرتے تھے، ان کے کاروبار کو 1878 سے 1881 کے دوران ہونے والی دوسری افغان جنگ کے دوران عروج حاصل ہوا۔ اس کام سے جو دولت کمائی وہ انھوں نے زمینوں اور کارخانوں میں لگادی، وہ قسمت کے دھنی تھے۔

اس کاروبار میں بھی انھیں خوب کامیابی حاصل ہوئی اور 19ویں صدی کے آخری دور میں اس وقت کے کراچی کی زمینوں کے بڑے حصے کے وہ واحد مالک ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے جو پیسہ کمایا اسے فلاحی اور خیراتی کاموں میں دل کھول کر خرچ کیا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں 1899 میں آرڈر آف دی انڈین ایمپائر دینے کا اعلان کیا گیا اورانھیں یہ ایوارڈ یکم مارچ 1900 میں ملکہ وکٹوریہ کی جانب سے دیا گیا۔ ان کے بیٹے نادر شا ایڈلجی ڈنشا نے بھی ان کے مشن کو جاری رکھا۔

سندھ کے جھومر کراچی کو ایک یادگار شہر بنانے میں پارسیوں کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کی تعمیرات اوران کے بنائے ہوئے اداروں کے نام کی گونج آج بھی ہمیں سنائی دیتی ہے ۔پارسیوں کو جدید تعلیم کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ تھا۔ وہ اپنی کاروباری اور انتظامی صلاحیتوں کے سبب انگریزوں کا دل جیت چکے تھے اور جانتے تھے کہ اگر انھوںنے ابتدائی عمر سے ہی بچوں کی تعلیم پر توجہ نہ دی تو ان کی نئی نسل ترقی نہ کرسکے گی ۔

اس بات کو محسوس کرتے ہوئے یہ سیٹھ شاپورجی ہرمزجی سپاری والا اور ان کا خاندان تھا جس نے 1859ء میں بائی ویرجی سپاری والا اسکول کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ اسکول جو اس وقت پارسی بالک شالہ ( بچوں کا مکتب) کہلاتا تھا، دادا بھائی پالن جی پے ماسٹر کے گھر میں قائم کیا گیا تھا ، کراچی میں پارسی کمیونٹی کی آبادی بڑھی تو بالک شالہ کی عمارت چھوٹی پڑگئی ۔ شاپورجی ہرمزجی اپنی بیگم کے عاشق زار تھے۔ وہ 1869ء میں سورگ سدھار گئیں تو شاپورجی نے مئی 1870ء میں اسکول کو دس ہزار روپے کی خطیر رقم عطیہ کی ۔

شرط صرف یہ رکھی کہ اسکول ان کی سورگ باشی پتنی بائی ویر بائی جی کے نام سے منسوب ہوگا۔ اسکول کے ٹرسٹی حضرات کو اس بات پر بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔اُس وقت کے دس ہزار روپے آج کے لاکھوں روپوں کے برابر تھے۔

ستمبر 1870ء میں بائی ویر بائی جی کے نام سے منسوب اس تعلیمی ادارے کا افتتاح سندھ کے کمشنر سرولیم میری ویدر نے کیا اور پارسی کمیونٹی کے ایک محترم فرد جمشید جی فرام جی ماسٹر ،اس کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے ۔اکتوبر 1904ء میں اس تعلیمی ادارے کے بنیاد گزار سیٹھ شاپورجی ہرمزجی کے بیٹے سیٹھ خورشید جی سپاری والا نے کراچی کی مشہور سڑک وکٹوریہ روڈ پر اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا جس میں آج بھی یہ اسکول قائم ہے ۔

کراچی کی ترقی میں پارسیوں نے جو ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا اس کے بارے میں مشہور محقق اور دانش ور اختر بلوچ نے ایک کمال مضمون لکھا تھا جس میں انھوں نے بابائے کراچی جمشید نسروان جی کا بڑی محبت سے ذکر کیا تھا۔ کراچی اور اس کے لوگوں سے ان کی محبت کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ کراچی کے باسیوں سے ان کی محبت کی دلیل ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک کراچی میونسپلٹی کے صدر رہے۔

کراچی شہر میں بسنے والے لوگوں کے لیے ان کی خدمات کا کوئی شمار نہیں۔ وہ نہ صرف انسانوں سے پیار کرتے تھے بلکہ کسی جانور کو بھی دکھ یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ معروف ادیب اجمل کمال اپنی مرتبہ کتاب کراچی کی کہانی میں جمشید کے بارے میں پیر علی احمد راشدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’میں (علی محمد راشدی) 1930 کے آس پاس میں بندر روڈ حالیہ ایم اے جناح روڈسے گذر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتہ پیدل ایک گدھے کو لے کر جانوروں کے اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر کار ڈرائیور پیچھے چلاتا آرہا تھا۔

تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔ جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹی کرائی۔ ڈاکٹر کو بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کریں تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے۔ چارے کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرادی۔ دوسری طرف گدھے کے مالک کو ہدایت کی کہ جب تک گدھا پوری طرح صحت یاب نہ ہو جائے اور گاڑی میں جوتنے کے قابل نہ ہو جائے۔ اس وقت تک وہ اپنی مزدوری کا حساب ان سے لیا کرے۔ یہ کہتے ہی کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے۔

جناب یہ تو جمشید کے دور میں شہر میں جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے ایک حقیقت تھی۔ آج اسی کراچی میں حال یہ ہے کہ اگر کوئی انسان کسی حادثے میں زخمی ہو جائے تو اسے اسپتال پہنچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ کیا لوگ تھے جو کراچی شہر میں بیمار یا زخمی جانوروں کا بھی خیال رکھتے تھے۔سائیں جی ایم سید ،جمشید نسروانجی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی والی تحریک میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا۔

حاتم علوی اپنے ایک مضمون لکھتے ہیں کہ جس وقت جمشید نے کراچی میونسپلٹی کی صدارت سنبھالی اس وقت سڑکوں کی لمبائی چودہ میل تھی لیکن جب جمشید نے اپنا عہدہ چھوڑا تو اس وقت کراچی میں 76 میل لمبی پکی سڑکیں موجود تھیں۔ ان سڑکوں پر تار کول کی تہہ بچھائی گئی تھی، جس کے سبب یہ سڑکیں چمکتی ہوئی نظر آتی تھیں۔

کبول موٹوانی جو کئی برس تک ان کے سیکریٹری رہے، انھوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے ’’جمشید مذہب کے اعتبار سے زرتشتی تھے، لیکن ان کی داخلی اور خارجی زندگی تمام مذاہب کے ظاہری اختلافات سے بلند تھی۔ ان کا سادہ ذاتی فلسفہ محبت، اتحاد اور دوستی کی بنیادوں پر قائم تھا اور اس کا عملی اظہار اپنے ارد گرد کے تمام انسانوں کی خدمت سے ہوتا تھا ۔ ان کا فیض، ذات پات اور مذہب کی تخصیص کے بغیر سب لوگوں تک پہنچتا تھا۔ وہ سیکڑوں افراد اور خاندانوں کی متواتر مالی امداد کرتے تھے۔

ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو وہ اپنی دراز سے فہرست بر آمد کرتے، کراچی میں رہنے والے خاندانوں کے نام نقد روپوں کے لفافے بناکر بھیجتے اور کراچی اور ہندوستان کے باہر کے خاندانوں کو منی آرڈر اور چیک کے ذریعے رقمیں بھیجتے۔ جب میں نے ان کے سیکریٹری کی ذمے داری سنبھالی توانھوں نے کمال مہربانی سے اس کام کا انتظام میرے سپرد کردیا اور گویا مجھے بھی اپنی نیکیوں میں حصے دار بنالیا۔ ہندوستان اور باہر کے اداروں اور تنظیموں کو دی جانے والی رقمیں زیادہ بڑی ہوتی تھیں۔ لگ بھگ 50 لاکھ روپے کی۔ یہ تمام سخاوت اس قدر راز داری سے کی جاتی تھی کہ لوگوں کے دلوں میں محض تشکر کے جذبے کے سوا جمشید نے اس کا کوئی مادی نشان نہیں چھوڑا۔‘‘

جمشید نے عمر بھر شادی نہیں کی، نہایت سادہ زندگی گزاری۔ ہمیشہ کینوس کے جوتے پہنے کیونکہ چمڑے کے جوتے پہننے کا مطلب کسی جانور کی توہین تھا۔ سندھ لیجیسیلٹو اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وہ بہ مشکل اس شرط پر راضی ہوئے کہ کسی سے ووٹ نہیں مانگا جائے گا۔ انتخابی اخراجات مقررہ حد سے تجاوز نہیں کریں گے اور ان کا باقاعدہ حساب رکھا جائے گا۔ وہ کامیاب ہوئے اور اتنی بھاری اکثریت سے کہ ان کے دوست بھی حیران رہ گئے۔

بات شروع ہوئی تھی ایڈلجی ڈنشا سے جو آج سے 172 سال پہلے 18 مئی کو پیدا ہوئے تھے۔ جنھوں نے سندھ کے سب سے بڑے شہرکراچی کے لیے اپنا سب کچھ وقف کردیا تھا۔ انھوں نے 12 اسپتال تعمیر کرائے لیکن ڈنشا خاندان کا سب سے بڑا تحفہ نادر شا ایڈلجی ڈنشا انجینئرنگ یونیورسٹی ہے جو این ای ڈی کے نام سے معروف ہے۔

اس ادارے کے زیادہ تر طالب علموں کو بھی یہ نہیں معلوم ہوگا کہ ان کا وہ کون محسن ہے جس نے یہ ادارہ بنایا تھا۔ کراچی، تقسیم سے قبل بھی اس خطے کا ایک ترقی یافتہ شہر تھا، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہاں کے رہنے والے ہندو، پارسی،عیسائی اور مسلمان سب اس کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے۔ اب اس شہر کو نظر لگ گئی ہے۔ پرانے وارث کب کے جاچکے ، سندھ کا جھومر کراچی ایسے وارثوں کا منتظر ہے جو اس کے عاشق بھی ہوں۔
زاہدہ حنا
 

یاسر شاہ

محفلین
کراچی کے پارسی عاشق

سیٹھ ایڈلجی ڈنشا 18 مئی 1842 کو کراچی میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق پارسی خاندان سے تھا۔ وہ برطانوی فوج کے لیے ٹھیکیداری کاکام کرتے تھے، ان کے کاروبار کو 1878 سے 1881 کے دوران ہونے والی دوسری افغان جنگ کے دوران عروج حاصل ہوا۔ اس کام سے جو دولت کمائی وہ انھوں نے زمینوں اور کارخانوں میں لگادی، وہ قسمت کے دھنی تھے۔

اس کاروبار میں بھی انھیں خوب کامیابی حاصل ہوئی اور 19ویں صدی کے آخری دور میں اس وقت کے کراچی کی زمینوں کے بڑے حصے کے وہ واحد مالک ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے جو پیسہ کمایا اسے فلاحی اور خیراتی کاموں میں دل کھول کر خرچ کیا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں 1899 میں آرڈر آف دی انڈین ایمپائر دینے کا اعلان کیا گیا اورانھیں یہ ایوارڈ یکم مارچ 1900 میں ملکہ وکٹوریہ کی جانب سے دیا گیا۔ ان کے بیٹے نادر شا ایڈلجی ڈنشا نے بھی ان کے مشن کو جاری رکھا۔

سندھ کے جھومر کراچی کو ایک یادگار شہر بنانے میں پارسیوں کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کی تعمیرات اوران کے بنائے ہوئے اداروں کے نام کی گونج آج بھی ہمیں سنائی دیتی ہے ۔پارسیوں کو جدید تعلیم کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ تھا۔ وہ اپنی کاروباری اور انتظامی صلاحیتوں کے سبب انگریزوں کا دل جیت چکے تھے اور جانتے تھے کہ اگر انھوںنے ابتدائی عمر سے ہی بچوں کی تعلیم پر توجہ نہ دی تو ان کی نئی نسل ترقی نہ کرسکے گی ۔

اس بات کو محسوس کرتے ہوئے یہ سیٹھ شاپورجی ہرمزجی سپاری والا اور ان کا خاندان تھا جس نے 1859ء میں بائی ویرجی سپاری والا اسکول کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ اسکول جو اس وقت پارسی بالک شالہ ( بچوں کا مکتب) کہلاتا تھا، دادا بھائی پالن جی پے ماسٹر کے گھر میں قائم کیا گیا تھا ، کراچی میں پارسی کمیونٹی کی آبادی بڑھی تو بالک شالہ کی عمارت چھوٹی پڑگئی ۔ شاپورجی ہرمزجی اپنی بیگم کے عاشق زار تھے۔ وہ 1869ء میں سورگ سدھار گئیں تو شاپورجی نے مئی 1870ء میں اسکول کو دس ہزار روپے کی خطیر رقم عطیہ کی ۔

شرط صرف یہ رکھی کہ اسکول ان کی سورگ باشی پتنی بائی ویر بائی جی کے نام سے منسوب ہوگا۔ اسکول کے ٹرسٹی حضرات کو اس بات پر بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔اُس وقت کے دس ہزار روپے آج کے لاکھوں روپوں کے برابر تھے۔

ستمبر 1870ء میں بائی ویر بائی جی کے نام سے منسوب اس تعلیمی ادارے کا افتتاح سندھ کے کمشنر سرولیم میری ویدر نے کیا اور پارسی کمیونٹی کے ایک محترم فرد جمشید جی فرام جی ماسٹر ،اس کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے ۔اکتوبر 1904ء میں اس تعلیمی ادارے کے بنیاد گزار سیٹھ شاپورجی ہرمزجی کے بیٹے سیٹھ خورشید جی سپاری والا نے کراچی کی مشہور سڑک وکٹوریہ روڈ پر اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا جس میں آج بھی یہ اسکول قائم ہے ۔

کراچی کی ترقی میں پارسیوں نے جو ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا اس کے بارے میں مشہور محقق اور دانش ور اختر بلوچ نے ایک کمال مضمون لکھا تھا جس میں انھوں نے بابائے کراچی جمشید نسروان جی کا بڑی محبت سے ذکر کیا تھا۔ کراچی اور اس کے لوگوں سے ان کی محبت کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ کراچی کے باسیوں سے ان کی محبت کی دلیل ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک کراچی میونسپلٹی کے صدر رہے۔

کراچی شہر میں بسنے والے لوگوں کے لیے ان کی خدمات کا کوئی شمار نہیں۔ وہ نہ صرف انسانوں سے پیار کرتے تھے بلکہ کسی جانور کو بھی دکھ یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ معروف ادیب اجمل کمال اپنی مرتبہ کتاب کراچی کی کہانی میں جمشید کے بارے میں پیر علی احمد راشدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’میں (علی محمد راشدی) 1930 کے آس پاس میں بندر روڈ حالیہ ایم اے جناح روڈسے گذر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتہ پیدل ایک گدھے کو لے کر جانوروں کے اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر کار ڈرائیور پیچھے چلاتا آرہا تھا۔

تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔ جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹی کرائی۔ ڈاکٹر کو بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کریں تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے۔ چارے کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرادی۔ دوسری طرف گدھے کے مالک کو ہدایت کی کہ جب تک گدھا پوری طرح صحت یاب نہ ہو جائے اور گاڑی میں جوتنے کے قابل نہ ہو جائے۔ اس وقت تک وہ اپنی مزدوری کا حساب ان سے لیا کرے۔ یہ کہتے ہی کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے۔

جناب یہ تو جمشید کے دور میں شہر میں جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے ایک حقیقت تھی۔ آج اسی کراچی میں حال یہ ہے کہ اگر کوئی انسان کسی حادثے میں زخمی ہو جائے تو اسے اسپتال پہنچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ کیا لوگ تھے جو کراچی شہر میں بیمار یا زخمی جانوروں کا بھی خیال رکھتے تھے۔سائیں جی ایم سید ،جمشید نسروانجی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی والی تحریک میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا۔

حاتم علوی اپنے ایک مضمون لکھتے ہیں کہ جس وقت جمشید نے کراچی میونسپلٹی کی صدارت سنبھالی اس وقت سڑکوں کی لمبائی چودہ میل تھی لیکن جب جمشید نے اپنا عہدہ چھوڑا تو اس وقت کراچی میں 76 میل لمبی پکی سڑکیں موجود تھیں۔ ان سڑکوں پر تار کول کی تہہ بچھائی گئی تھی، جس کے سبب یہ سڑکیں چمکتی ہوئی نظر آتی تھیں۔

کبول موٹوانی جو کئی برس تک ان کے سیکریٹری رہے، انھوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے ’’جمشید مذہب کے اعتبار سے زرتشتی تھے، لیکن ان کی داخلی اور خارجی زندگی تمام مذاہب کے ظاہری اختلافات سے بلند تھی۔ ان کا سادہ ذاتی فلسفہ محبت، اتحاد اور دوستی کی بنیادوں پر قائم تھا اور اس کا عملی اظہار اپنے ارد گرد کے تمام انسانوں کی خدمت سے ہوتا تھا ۔ ان کا فیض، ذات پات اور مذہب کی تخصیص کے بغیر سب لوگوں تک پہنچتا تھا۔ وہ سیکڑوں افراد اور خاندانوں کی متواتر مالی امداد کرتے تھے۔

ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو وہ اپنی دراز سے فہرست بر آمد کرتے، کراچی میں رہنے والے خاندانوں کے نام نقد روپوں کے لفافے بناکر بھیجتے اور کراچی اور ہندوستان کے باہر کے خاندانوں کو منی آرڈر اور چیک کے ذریعے رقمیں بھیجتے۔ جب میں نے ان کے سیکریٹری کی ذمے داری سنبھالی توانھوں نے کمال مہربانی سے اس کام کا انتظام میرے سپرد کردیا اور گویا مجھے بھی اپنی نیکیوں میں حصے دار بنالیا۔ ہندوستان اور باہر کے اداروں اور تنظیموں کو دی جانے والی رقمیں زیادہ بڑی ہوتی تھیں۔ لگ بھگ 50 لاکھ روپے کی۔ یہ تمام سخاوت اس قدر راز داری سے کی جاتی تھی کہ لوگوں کے دلوں میں محض تشکر کے جذبے کے سوا جمشید نے اس کا کوئی مادی نشان نہیں چھوڑا۔‘‘

جمشید نے عمر بھر شادی نہیں کی، نہایت سادہ زندگی گزاری۔ ہمیشہ کینوس کے جوتے پہنے کیونکہ چمڑے کے جوتے پہننے کا مطلب کسی جانور کی توہین تھا۔ سندھ لیجیسیلٹو اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وہ بہ مشکل اس شرط پر راضی ہوئے کہ کسی سے ووٹ نہیں مانگا جائے گا۔ انتخابی اخراجات مقررہ حد سے تجاوز نہیں کریں گے اور ان کا باقاعدہ حساب رکھا جائے گا۔ وہ کامیاب ہوئے اور اتنی بھاری اکثریت سے کہ ان کے دوست بھی حیران رہ گئے۔

بات شروع ہوئی تھی ایڈلجی ڈنشا سے جو آج سے 172 سال پہلے 18 مئی کو پیدا ہوئے تھے۔ جنھوں نے سندھ کے سب سے بڑے شہرکراچی کے لیے اپنا سب کچھ وقف کردیا تھا۔ انھوں نے 12 اسپتال تعمیر کرائے لیکن ڈنشا خاندان کا سب سے بڑا تحفہ نادر شا ایڈلجی ڈنشا انجینئرنگ یونیورسٹی ہے جو این ای ڈی کے نام سے معروف ہے۔

اس ادارے کے زیادہ تر طالب علموں کو بھی یہ نہیں معلوم ہوگا کہ ان کا وہ کون محسن ہے جس نے یہ ادارہ بنایا تھا۔ کراچی، تقسیم سے قبل بھی اس خطے کا ایک ترقی یافتہ شہر تھا، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہاں کے رہنے والے ہندو، پارسی،عیسائی اور مسلمان سب اس کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے۔ اب اس شہر کو نظر لگ گئی ہے۔ پرانے وارث کب کے جاچکے ، سندھ کا جھومر کراچی ایسے وارثوں کا منتظر ہے جو اس کے عاشق بھی ہوں۔
زاہدہ حنا
کیا عمدہ مضمون ہے ماشاء اللہ۔


میں پیر علی احمد راشدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’میں (علی محمد راشدی) 1930 کے آس پاس میں بندر روڈ حالیہ ایم اے جناح روڈسے گذر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتہ پیدل ایک گدھے کو لے کر جانوروں کے اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر کار ڈرائیور پیچھے چلاتا آرہا تھا۔
خالہ یہ پیر علی محمد راشدی میرے والد صاحب کے سگے ماموں تھے۔
 

سیما علی

لائبریرین
خالہ یہ پیر علی محمد راشدی میرے والد صاحب کے سگے ماموں تھے۔
پھر تو بھانجے آپ قابلِ صد احترام خاندان سے ہیں ماشاء اللہ !!
جیتے رہیے آمین
جیتا رہے پہ میکائیل یاد آگئے Nova you called me cheetar اب ہمُ پریشان ایسا ہم نے کب کہا سمجھ ہی نہ آئے کیا کہہ رہے ہیں بہت مشکل سے بوجھا ہم ماں بیٹی نے کیا فرما رہے ہیں 😂😂😂😂😂😂
 

یاسر شاہ

محفلین
پھر تو بھانجے آپ قابلِ صد احترام خاندان سے ہیں ماشاء اللہ !!
جیتے رہیے آمین
جیتا رہے پہ میکائیل یاد آگئے Nova you called me cheetar اب ہمُ پریشان ایسا ہم نے کب کہا سمجھ ہی نہ آئے کیا کہہ رہے ہیں بہت مشکل سے بوجھا ہم ماں بیٹی نے کیا فرما رہے ہیں 😂😂😂😂😂😂
بس جی اللہ تعالیٰ چاہتے تو خر بھی پیدا کر سکتے تھے ۔ہم نے درخواست تو نہیں کی تھی یہ محض ان کا فضل و عطا ہے
تفاخر کی چیز تو ہے نہیں۔
 
کیا عمدہ مضمون ہے ماشاء اللہ۔



خالہ یہ پیر علی محمد راشدی میرے والد صاحب کے سگے ماموں تھے۔
کراچی پر پارسیوں کے نقوش کچھ اس قدر گہرے ہیں کہ بے ساختہ یہ مصرع زبان پر آگیا

گلی گلی مری یاد بچھی ہے، پیارے رستہ دیکھ کے چل


ایک نام جس کا تذکرہ ہمیں اس مختصر مضمون میں نظر نہیں آیا وی شاید جہانگیر کوٹھاری ہیں، جن کے نام سے موسوم جہانگیر کوٹھاری پریڈ اور جہانگیر پارک آج بھی ان کی یاد دلاتے ہیں۔ ایک بلڈر نے جہانگیر کوٹھاری پریڈ کا ستیا ناس مار دیا ورنہ یہ پریڈ کراچی کی پہچان تھی۔

اسی طرح جہانگیر پارک کے سامنے ایک خوبصورت بلڈنگ ایڈلجی ڈنشا ڈسپنسری بھی عظمت رفتہ کی یاد دلا رہی ہے۔

زاہدہ حنا کا کمال نہ صرف پارسیوں پر یہ مضمون ہے بلکہ اسی موضوع پر ان کا خوبصورت ناولٹ " نہ جنوں رہا نہ پری رہی" پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، اور ہمارے پسندیدہ ترین فن پاروں میں سے ایک ہے۔
 
کراچی کے پارسی عاشق

سیٹھ ایڈلجی ڈنشا 18 مئی 1842 کو کراچی میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق پارسی خاندان سے تھا۔ وہ برطانوی فوج کے لیے ٹھیکیداری کاکام کرتے تھے، ان کے کاروبار کو 1878 سے 1881 کے دوران ہونے والی دوسری افغان جنگ کے دوران عروج حاصل ہوا۔ اس کام سے جو دولت کمائی وہ انھوں نے زمینوں اور کارخانوں میں لگادی، وہ قسمت کے دھنی تھے۔

اس کاروبار میں بھی انھیں خوب کامیابی حاصل ہوئی اور 19ویں صدی کے آخری دور میں اس وقت کے کراچی کی زمینوں کے بڑے حصے کے وہ واحد مالک ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے جو پیسہ کمایا اسے فلاحی اور خیراتی کاموں میں دل کھول کر خرچ کیا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں 1899 میں آرڈر آف دی انڈین ایمپائر دینے کا اعلان کیا گیا اورانھیں یہ ایوارڈ یکم مارچ 1900 میں ملکہ وکٹوریہ کی جانب سے دیا گیا۔ ان کے بیٹے نادر شا ایڈلجی ڈنشا نے بھی ان کے مشن کو جاری رکھا۔

سندھ کے جھومر کراچی کو ایک یادگار شہر بنانے میں پارسیوں کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کی تعمیرات اوران کے بنائے ہوئے اداروں کے نام کی گونج آج بھی ہمیں سنائی دیتی ہے ۔پارسیوں کو جدید تعلیم کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ تھا۔ وہ اپنی کاروباری اور انتظامی صلاحیتوں کے سبب انگریزوں کا دل جیت چکے تھے اور جانتے تھے کہ اگر انھوںنے ابتدائی عمر سے ہی بچوں کی تعلیم پر توجہ نہ دی تو ان کی نئی نسل ترقی نہ کرسکے گی ۔

اس بات کو محسوس کرتے ہوئے یہ سیٹھ شاپورجی ہرمزجی سپاری والا اور ان کا خاندان تھا جس نے 1859ء میں بائی ویرجی سپاری والا اسکول کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ اسکول جو اس وقت پارسی بالک شالہ ( بچوں کا مکتب) کہلاتا تھا، دادا بھائی پالن جی پے ماسٹر کے گھر میں قائم کیا گیا تھا ، کراچی میں پارسی کمیونٹی کی آبادی بڑھی تو بالک شالہ کی عمارت چھوٹی پڑگئی ۔ شاپورجی ہرمزجی اپنی بیگم کے عاشق زار تھے۔ وہ 1869ء میں سورگ سدھار گئیں تو شاپورجی نے مئی 1870ء میں اسکول کو دس ہزار روپے کی خطیر رقم عطیہ کی ۔

شرط صرف یہ رکھی کہ اسکول ان کی سورگ باشی پتنی بائی ویر بائی جی کے نام سے منسوب ہوگا۔ اسکول کے ٹرسٹی حضرات کو اس بات پر بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔اُس وقت کے دس ہزار روپے آج کے لاکھوں روپوں کے برابر تھے۔

ستمبر 1870ء میں بائی ویر بائی جی کے نام سے منسوب اس تعلیمی ادارے کا افتتاح سندھ کے کمشنر سرولیم میری ویدر نے کیا اور پارسی کمیونٹی کے ایک محترم فرد جمشید جی فرام جی ماسٹر ،اس کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے ۔اکتوبر 1904ء میں اس تعلیمی ادارے کے بنیاد گزار سیٹھ شاپورجی ہرمزجی کے بیٹے سیٹھ خورشید جی سپاری والا نے کراچی کی مشہور سڑک وکٹوریہ روڈ پر اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا جس میں آج بھی یہ اسکول قائم ہے ۔

کراچی کی ترقی میں پارسیوں نے جو ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا اس کے بارے میں مشہور محقق اور دانش ور اختر بلوچ نے ایک کمال مضمون لکھا تھا جس میں انھوں نے بابائے کراچی جمشید نسروان جی کا بڑی محبت سے ذکر کیا تھا۔ کراچی اور اس کے لوگوں سے ان کی محبت کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ کراچی کے باسیوں سے ان کی محبت کی دلیل ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک کراچی میونسپلٹی کے صدر رہے۔

کراچی شہر میں بسنے والے لوگوں کے لیے ان کی خدمات کا کوئی شمار نہیں۔ وہ نہ صرف انسانوں سے پیار کرتے تھے بلکہ کسی جانور کو بھی دکھ یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ معروف ادیب اجمل کمال اپنی مرتبہ کتاب کراچی کی کہانی میں جمشید کے بارے میں پیر علی احمد راشدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’میں (علی محمد راشدی) 1930 کے آس پاس میں بندر روڈ حالیہ ایم اے جناح روڈسے گذر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتہ پیدل ایک گدھے کو لے کر جانوروں کے اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر کار ڈرائیور پیچھے چلاتا آرہا تھا۔

تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔ جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹی کرائی۔ ڈاکٹر کو بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کریں تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے۔ چارے کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرادی۔ دوسری طرف گدھے کے مالک کو ہدایت کی کہ جب تک گدھا پوری طرح صحت یاب نہ ہو جائے اور گاڑی میں جوتنے کے قابل نہ ہو جائے۔ اس وقت تک وہ اپنی مزدوری کا حساب ان سے لیا کرے۔ یہ کہتے ہی کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے۔

جناب یہ تو جمشید کے دور میں شہر میں جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے ایک حقیقت تھی۔ آج اسی کراچی میں حال یہ ہے کہ اگر کوئی انسان کسی حادثے میں زخمی ہو جائے تو اسے اسپتال پہنچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ کیا لوگ تھے جو کراچی شہر میں بیمار یا زخمی جانوروں کا بھی خیال رکھتے تھے۔سائیں جی ایم سید ،جمشید نسروانجی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی والی تحریک میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا۔

حاتم علوی اپنے ایک مضمون لکھتے ہیں کہ جس وقت جمشید نے کراچی میونسپلٹی کی صدارت سنبھالی اس وقت سڑکوں کی لمبائی چودہ میل تھی لیکن جب جمشید نے اپنا عہدہ چھوڑا تو اس وقت کراچی میں 76 میل لمبی پکی سڑکیں موجود تھیں۔ ان سڑکوں پر تار کول کی تہہ بچھائی گئی تھی، جس کے سبب یہ سڑکیں چمکتی ہوئی نظر آتی تھیں۔

کبول موٹوانی جو کئی برس تک ان کے سیکریٹری رہے، انھوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے ’’جمشید مذہب کے اعتبار سے زرتشتی تھے، لیکن ان کی داخلی اور خارجی زندگی تمام مذاہب کے ظاہری اختلافات سے بلند تھی۔ ان کا سادہ ذاتی فلسفہ محبت، اتحاد اور دوستی کی بنیادوں پر قائم تھا اور اس کا عملی اظہار اپنے ارد گرد کے تمام انسانوں کی خدمت سے ہوتا تھا ۔ ان کا فیض، ذات پات اور مذہب کی تخصیص کے بغیر سب لوگوں تک پہنچتا تھا۔ وہ سیکڑوں افراد اور خاندانوں کی متواتر مالی امداد کرتے تھے۔

ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو وہ اپنی دراز سے فہرست بر آمد کرتے، کراچی میں رہنے والے خاندانوں کے نام نقد روپوں کے لفافے بناکر بھیجتے اور کراچی اور ہندوستان کے باہر کے خاندانوں کو منی آرڈر اور چیک کے ذریعے رقمیں بھیجتے۔ جب میں نے ان کے سیکریٹری کی ذمے داری سنبھالی توانھوں نے کمال مہربانی سے اس کام کا انتظام میرے سپرد کردیا اور گویا مجھے بھی اپنی نیکیوں میں حصے دار بنالیا۔ ہندوستان اور باہر کے اداروں اور تنظیموں کو دی جانے والی رقمیں زیادہ بڑی ہوتی تھیں۔ لگ بھگ 50 لاکھ روپے کی۔ یہ تمام سخاوت اس قدر راز داری سے کی جاتی تھی کہ لوگوں کے دلوں میں محض تشکر کے جذبے کے سوا جمشید نے اس کا کوئی مادی نشان نہیں چھوڑا۔‘‘

جمشید نے عمر بھر شادی نہیں کی، نہایت سادہ زندگی گزاری۔ ہمیشہ کینوس کے جوتے پہنے کیونکہ چمڑے کے جوتے پہننے کا مطلب کسی جانور کی توہین تھا۔ سندھ لیجیسیلٹو اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وہ بہ مشکل اس شرط پر راضی ہوئے کہ کسی سے ووٹ نہیں مانگا جائے گا۔ انتخابی اخراجات مقررہ حد سے تجاوز نہیں کریں گے اور ان کا باقاعدہ حساب رکھا جائے گا۔ وہ کامیاب ہوئے اور اتنی بھاری اکثریت سے کہ ان کے دوست بھی حیران رہ گئے۔

بات شروع ہوئی تھی ایڈلجی ڈنشا سے جو آج سے 172 سال پہلے 18 مئی کو پیدا ہوئے تھے۔ جنھوں نے سندھ کے سب سے بڑے شہرکراچی کے لیے اپنا سب کچھ وقف کردیا تھا۔ انھوں نے 12 اسپتال تعمیر کرائے لیکن ڈنشا خاندان کا سب سے بڑا تحفہ نادر شا ایڈلجی ڈنشا انجینئرنگ یونیورسٹی ہے جو این ای ڈی کے نام سے معروف ہے۔

اس ادارے کے زیادہ تر طالب علموں کو بھی یہ نہیں معلوم ہوگا کہ ان کا وہ کون محسن ہے جس نے یہ ادارہ بنایا تھا۔ کراچی، تقسیم سے قبل بھی اس خطے کا ایک ترقی یافتہ شہر تھا، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہاں کے رہنے والے ہندو، پارسی،عیسائی اور مسلمان سب اس کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے۔ اب اس شہر کو نظر لگ گئی ہے۔ پرانے وارث کب کے جاچکے ، سندھ کا جھومر کراچی ایسے وارثوں کا منتظر ہے جو اس کے عاشق بھی ہوں۔
زاہدہ حنا
اور پھر دور کیوں جائیے، کراچی کی آواز اردشیر کاوس جی کو کون بھول سکتا ہے۔ کئی سال تک گلاس ٹاور کے خلاف مقدمہ لڑتے رہے کہ اس نے بلڈنگ بناتے وقت ذیلی سڑک اور فٹ پاتھ کی زمین بھی ہتھیا لی ہے۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
زاہدہ حنا کا کمال نہ صرف پارسیوں پر یہ مضمون ہے بلکہ اسی موضوع پر ان کا خوبصورت ناولٹ " نہ جنوں رہا نہ پری رہی" پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، اور ہمارے پسندیدہ ترین فن پاروں میں سے ایک ہے۔
بھیا ہم نے نہیں پڑھا ۔۔۔ضرور پڑھیں گے ۔۔زاہدہ صاحبہ کا انداز ہمیں بہت پسند ہے ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
گلی گلی مری یاد بچھی ہے، پیارے رستہ دیکھ کے چل
ایک زمانے میں بھیا اُنکے صدر میں بہت فلیٹ تھے ۔صبح بیٹھے اپنے فلیٹ کی آخری سیڑھی پر چاک سے کچھ ڈرائینگ بنارہے ہوتے ہم کالج جانے کی جلدی میں اور بھی سہیلیاں ہوتیں ۔۔جو کبھی غلطی سے کسی کا پاؤں اُس سیڑھی پر پڑجاتا جہاں وہ نشان بنا ہوتا ۔۔۔تو اسقدر ناراضگی کا اظہار کرتے ۔۔یقیناً کچھ Myth ہوگی۔😊😊😊😊کھانا بہت اچھا بناتے ہیں ۔۔۔ہماری پوسٹنگ ہوٹل میڑوپول کلب روڈ برانچ میں بھی رہی ہے ۔۔۔آجتک بھیا ہم نے میڑوپول کی بیکری سے اچھی چکن پیٹیز کہیں نہیں کھائیں !!!پارسی بیکنگ بہت بہترین ہے ۔۔۔
 
ایک زمانے میں بھیا اُنکے صدر میں بہت فلیٹ تھے ۔صبح بیٹھے اپنے فلیٹ کی آخری سیڑھی پر چاک سے کچھ ڈرائینگ بنارہے ہوتے ہم کالج جانے کی جلدی میں اور بھی سہیلیاں ہوتیں ۔۔جو کبھی غلطی سے کسی کا پاؤں اُس سیڑھی پر پڑجاتا جہاں وہ نشان بنا ہوتا ۔۔۔تو اسقدر ناراضگی کا اظہار کرتے ۔۔یقیناً کچھ Myth ہوگی۔😊😊😊😊
جی ہاں بہنا! صدر میں ان کی خوبصورت عبادت خانہ کی عمارت بھی تھی۔ گزرتے ہوئےبس کی کھڑکی سے اس کی سیڑھیوں پر چاک سے بنے پھول دیکھتے جو ابھی تک ذہن پر نقش ہیں۔
 
کھانا بہت اچھا بناتے ہیں ۔۔۔ہماری پوسٹنگ ہوٹل میڑوپول کلب روڈ برانچ میں بھی رہی ہے ۔۔۔آجتک بھیا ہم نے میڑوپول کی بیکری سے اچھی چکن پیٹیز کہیں نہیں کھائیں !!!پارسی بیکنگ بہت بہترین ہے ۔۔۔
اس بیکری کا نام زبان پر آتے آتے رہ جاتا ہے۔ اسی طرح صدر میں پریرا ز بیکری کے آئٹمز بھی خاصے کی چیز تھے۔
 

سیما علی

لائبریرین
جی ہاں بہنا! صدر میں ان کی خوبصورت عبادت خانہ کی عمارت بھی تھی۔ گزرتے ہوئےبس کی کھڑکی سے اس کی سیڑھیوں پر چاک سے بنے پھول دیکھتے جو ابھی تک ذہن پر نقش ہیں۔
گاڑی دیکھنا ہے تو پارسیوں کی دیکھیں بھیا ہمارے ساتھ آفس می بہرام لیموں والا تھے ۔۔اسقدر سُتھرا اور نفیس بندہ !!!!ہم سے خاصے جونئیر انتہائی باادب و باذوق اب کینڈا چلے گئیے!!کئی مرتبہ اتفاق ہو ا اُنکی گاڑی میں بیٹھنے کا کیونکہ کبھی گاڑی نہ ہوتی تو کہتے میم آپکو ہم ڈراپ کر دیں گے واقعی اندر باہر سے اتنی صاف گاڑی ہم نے کسی کی نہیں دیکھی ۔۔۔
 
آخری تدوین:
ایک زمانے میں بھیا اُنکے صدر میں بہت فلیٹ تھے ۔صبح بیٹھے اپنے فلیٹ کی آخری سیڑھی پر چاک سے کچھ ڈرائینگ بنارہے ہوتے ہم کالج جانے کی جلدی میں اور بھی سہیلیاں ہوتیں ۔۔جو کبھی غلطی سے کسی کا پاؤں اُس سیڑھی پر پڑجاتا جہاں وہ نشان بنا ہوتا ۔۔۔تو اسقدر ناراضگی کا اظہار کرتے ۔۔یقیناً کچھ Myth ہوگی۔😊😊😊😊کھانا بہت اچھا بناتے ہیں ۔۔۔ہماری پوسٹنگ ہوٹل میڑوپول کلب روڈ برانچ میں بھی رہی ہے ۔۔۔آجتک بھیا ہم نے میڑوپول کی بیکری سے اچھی چکن پیٹیز کہیں نہیں کھائیں !!!پارسی بیکنگ بہت بہترین ہے ۔۔۔
یاد آگیا! فلریز بیکری
 
Top