کراچی میں طالبانائزیشن کا خوف بھارت اور امریکہ کی ایماء پر پھیللایا جارہا ہے ۔۔۔؟؟؟؟

زین

لائبریرین
اخوندازادہ جلال نورزئی
کوئٹہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن عزیز پاکستان داخلی و خارجی سطح پر سخت بحرانات کا سامنا کئے ہوا ہے، ایک شورش بپا ہے ، چار سو بد نظمی اور غیر یقینی صورتحال نے گھیر رکھا ہے ، سرحد و فاٹا میں باقاعدہ جنگ شروع ہے ، بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک پروان چڑھ رہی ہے ، زمین کا کوئی ٹکڑا ایسا نہیں رہا کہ جس سے متعلق اطمینان کا اظہار کیا جائے۔عروس البلاد کراچی وادی مہران سندھ کا در الخلافہ ہے ،اس بڑے صنعتی و تجارتی شہر پر متحدہ قومی موومنٹ اپنا حق جتاتی ہے ۔ مختلف قسم کی افراتفری، ہنگامہ آرائی اور قتل و غارت کے گہرے زخم اس شہر نے سہے ہیں لیکن کیا ان زخموں کی ٹھیس اور تکلیف سے فقط شہر کراچی بے چین اور تڑپ رہا ہے ؟ ہر گز نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ کراچی تو انسانوں کا سمندر ہے اگر دور افتادہ کسی تحصیل اور چک میں بھی عدم تحفظ ہو تو اس سے پورا ملک اور اس کے رہنے والے افسردہ غمناک اور مضطرب ہوں گے۔ 1985کے بعد کا کراچی انتہائی بھیانک چہرہ رکھتا ہے ، مردم کشی اور درندگی کی دردناک اوروحشت ناک مثالیں ا س شہر میں قائم ہوچکی ہیں ۔ صوبہ بلوچستان کا اس شہر سے گہرا تجارتی تعلق ہے اس صوبے کے ٹرانسپورٹر،مزدور اورتاجر طبقے کا کراچی کے حالات کے اتار چڑھائو سے براہ راست تعلق ہے وہاں کی نفع و نقصان سے یہاں کے لوگ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ نا عاقبت اندیش مفاد پرست حکمرانوں کی مصلحتوں اور ناقص پالیسیوں اور حکمت عملیوں کے باعث فاٹا سوات میں جس لا حاصل جنگ کا سلسلہ شروع کر رکھا گیا ہے اس کا دائرہ اب وسیع ہو کر پورے ملک میں پھیل چکا ہے ۔ افغانستان میں موجود امریکہ ، بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ اور اشتراک کار کے باعث ملک کی سلامتی مشکوک ٹھہری ہے ۔ بھارت کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی و صنعتی مرکز ممبئی کے دو بڑے ہوٹلوں سمیت آٹھ مختلف مقامات پر مسلح گروہوں کا بیک وقت حملے کے بعد وزیراعظم من موہن سنگھ،نے قدرے محتاط انداز میں جبکہ بھارتی میڈیااور وزیر خارجہ پرناب مکھرجی نے کھل کر پاکستان کے اس میں ملوث ہونے کا الزام لگایا اورمیڈیا پر الزامات کا طوفان کھڑا کردیا گیا ۔
سوال یہ ہے کہ اسی بھارت نے پاکستان میں کیا کچھ نہیں کیا ؟ بھارت نے سندھ ، سرحد و بلوچستان کے قوم پرستوں کے ساتھ الگ الگ ترجیحات اور مقاصد کے تحت تعلقات قائم کر رکھے ہیں ، موجودہ مذہبی انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی عالمی پروپیگنڈے میں یہا ں کے قوم پرستوں کا اتفاق قدرے مشترک ہے تاہم ان کے درمیان قربت عارضی اور مفادات پر مبنی ہے ۔
بلوچ و پشتون قوم پرست اس لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت دور کھڑے ہیں جبکہ ایم کیو ایم کا تو انداز ہی بہت نرالہ ہے ۔ دراصل بھارت نے ممبئی کے حالیہ واقعہ کے بعد پاکستان میں بھیانک کھیل کی بساط بچھائی ہے اس بازی میں امریکہ کا پورا تعاون انہیں حاصل ہے ۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان قبائلی علاقوں میں جلد مفاہمت اور مذاکرات کا آغاز کرے اور اس جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرلے۔ ہمارے عسکری قیادت کو اب اس امر کا پوری طرح ادراک ہے کہ قبائلی علاقوں میں ملٹری آپریشن کا سارا فائدہ امریکہ بھارت اور افغان پھٹو حکومت کو حاصل ہورہا ہے اسی ادراک کے تحت عسکری حکام نے بھارت کی جانب سے کشیدگی بڑھانے کی صورت میں قبائلی علاقوں میںتعینات فوجیوں کو ہٹا کر بھارتی سرحد پر لگانے کی دھمکی دی ہے ۔ یہ دھمکی دراصل امریکہ کو بھی ہے جو اس پورے کھیل اور تماشے میں مرکزی کردار کا حامل ہے۔ قبائلی علاقوں بلوچستان میں’’ را ‘‘ملوث ہے ۔ کراچی میں طالبانائزیشن کے شوشہ کا آئیڈیا بھی سرحد پار سے آیا ہے ۔ پچھلے چند دنوںسے کراچی میں نا خوشگوار واقعات نے سر اٹھا رکھا ہے صاف بات ہے کہ طالبانائزیشن کے نام پر ایک مرتبہ پھر نسلی و لسانی فسادات جلائو گھیرائو اور خون ریزی کا ایک طویل بازار گرم رکھنے کی منصوبہ بندی تیار کرلی گئی ہے ، اغیار کی چال پیوست ہے اگر کراچی میں فساد کی چنگاری کو ہوادی گئی تو اس کی ذد میں بلوچستان بھی آجائے گا بالخصوص یہاں کے پشتون حصے میں رد عمل پیدا ہوگا، سرحد کے ساتھ تو اس معاملے کا براہ راست تعلق ہے ۔ 1985ء کے واقعات سے کوئٹہ، چمن ،پشین ، ژوب ، لورالائی اور دیگر علاقوں کے لوگ متاثر ہوئے تھے ۔ یہاں کے لوگ بڑی تعداد میں کراچی اور محنت مزدوری کرتے ہیں ۔ اس وقت ان کی چھابڑیاں،ہوٹل ، ریڑھیاں نذر آتش کی گئی تھیں،بے گناہ لوگ قتل ہوئے اوراب حالیہ واقعات کے بعد بھی بہت سارے لوگ اپنا کاروبار چھوڑ کر اپنے گھروں کو آچکے ہیں۔ بلوچستان کی پشتون قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ’’ کراچی میں ایم کیو ایم کے مسلح کارکنوں کی جانب سے پشتون عوام خصوصاً ہوٹل کے کاروبار سے منسلک پشتون افراد کے خلاف دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں انہیں کراچی سے بے دخل کرنے کی سازش تیار کی گئی ہے اور گزشتہ دو عشروں سے کراچی میں پشتون عوام ، ٹرانسپورٹروں اور محنت مزدوری کرنے والے بے گناہ افراد کے خلاف کارروائی کی جارہی ہیں ، ان کے مطابق لندن میں ہونے والی آل پارٹی کانفرنس میں ایم کیو ایم کو متفقہ طور پر دہشت گرد تنظیم ڈیکلیئر کیا لہٰذا مرکزی و صوبائی حکومتیں ان کے خلاف کارروائی کریں ۔‘‘
اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں خواہ کوئی بھی شخص ہو ا، کی جان و مال عزت و آبرو محفوظ نہیں، شہر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ، سیاسی کارکنوں کو قتل کیا جارہا ہے تاہم نسلی و لسانی فسادات اس تناظر میں ایک خوفناک اضافہ ہے ۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس ضمن میں تشویشناک منظر کشی کی ہے ، عمران خان کوئٹہ کے دورے پر آئے ہوئے تھے ،زلزلہ سے متاثرہ علاقے زیارت کا دورہ کیا ، کوئٹہ میں اے پی ڈی ایم کے کنوینر اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی سے ملاقات کی ، وکلاء اور نیوز کانفرنس سے خطاب کیا ۔ کوئٹہ کی ضلعی کچہری میں وکلاء سے اپنے خطاب میں عمران خان نے توجہ دلائی کہ کراچی میں ایم کیو ایم شہریوں کو مسلح کررہی ہے اور گزشتہ آٹھ سالوں سے اب تک اسلحہ کے چالیس ہزار لائسنس جاری کئے گئے ہیں اور اب طالبانائزیشن کے نام پر پشتو ن مہاجر اقوام کو لڑایا جارہا ہے اور اس خون ریزی کا الطاف حسین فائدہ اٹھائیں گے ۔ یہ واضح رہے کہ کراچی میں اگر پشتونوں اور مہاجروں کے پاس اسلحہ کی بہتات ہے تو یہ خلاف قانون عمل ہے ۔حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ بلا تمیز و تفریق شرپسندوںکا ہاتھ روکیں اور ان کو شہر کا امن و سکون غارت کرنے اور کھل کھیلنے کی اجازت نہ دے اور قانون کی بالا دستی قائم رکھنے کے لیے بہر صورت اقدامات اٹھائیں۔
بلوچستان میں مسلح مزاحمتی تنظیمیں حرکت میں ہیں اب ان کا نشانہ تیل و گیس تلاش کرنے والی کمپنیوں کے اہلکار اور مشینری ہے بلوچستان کی حکومت نے بھلے ان کمپنیوں کو تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے مگر تخریبی واردات کسی بھی وقت روہنما ہوسکتے ہیں اور ہر وقت نقصان کا اندیشہ موجود ہے ۔حال ہی میں مزاحمتی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قلات میں معدنیات لے جانے والے ٹرکوں پر حملوں کا دعویٰ کیا ہے ان کے بقول چار ٹرکوں کے محض ٹائر برسٹ کئے گئے مگر اس تنبیہ کے باوجود سیندک اور دیگر علاقوں سے معدنیات لے جانے کا سلسلہ جاری ہے اگر یہ عمل نہ روکا گیا تو آئندہ ٹرک ڈرائیوروں کو نشانہ بنایا جائے گا ۔ وفاقی حکومت اپنے طورو انداز میں مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے کی سعی کررہی ہے ، روڈ میپ دیا گیا ہے مصالحتی جرگے منعقد کئے گئے ہیں گزشتہ روز اسلام آباد میں بے نظیر بھٹو مصالحتی کمیٹی کے زیر اہتمام بلوچتان کے وفاقی وزراء، صوبائی کابینہ اور اراکین اسمبلی کا جرگہ ایوان صدر میں منعقد ہوا ۔ صدر آصف علی زرداری نے تجویز کیا کہ بلوچستان اسمبلی وفاق کو تجاویز بھیجے اور ان تجاویز کے ذریعے اپنا نقطہ نظر وفاق تک پہنچائے بلوچستان اسمبلی اس ضمن میں قرارداد منظور کرے جسے پارلیمنٹ میں پیش کرکے اس پر قانون سازی کرائی جائے گی یہاں اس امر پر تکرار کرتے ہیں یہ کہ ہم وفاقی صوبائی حکومت کی نیت و اخلاص پر ہرگز شک نہیں کرتے بلکہ اس معروضی حقیقت کی جانب توجہ مبذول کراتے چلے آرہے ہیں کہ مفاہمت تجاویز اور حل ومفاہمت کے لیے ان قوتوں سے گفت و شنید کی جائے جن کا عوام میں اثر موجود ہے جو فی الواقعی حکومت کے ساتھ کسی نتیجہ پر پہنچنے پر قادر ہیں ،اشارہ مزاحمتی گروہوں اورقوم پرست جماعتوں کی جانب ہے ،گویا ان کے بغیر بات چیت او رمفاہمت نتیجہ خیز ہونا نا ممکن ہے۔ اگر بلوچستان اسمبلی اور وفاقی حکومت باہم کسی مرحلے و نتیجے پر متفق بھی ہو بھی جاتی ہیںتو تب بھی حالات جوں کے توں ہی رہیں گے کیونکہ مذکورہ قوتیں ان فیصلوں کو خاطر میں نہیں لائیں گی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کسی موقع پر کہا کہ وہ بلوچ لبریشن آرمی کو نہیں جانتے ہیں ،ان کی خدمت میں عرض ہے کہ نوابزادہ بالاچ کی پہلی برسی کے موقع پر مری کیمپ ہزار گنجی میں خلاف توقع بڑا اجتماع انجمن اتحاد مری کے زیر اہتمام منعقد ہوا ،اس اجتماع میں سی ڈیز تقسیم کی گئیں جو بی ایل اے کی مسلح کارروائیوں پر مبنی تھیں جن میں بلوچستان کے شہر مچھ پر راکٹ داغتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔اس واقعہ میں آٹھ افراد ہلاک اور دو درجن کے قریب افراد زخمی ہوئے تھے ۔ مچھ کے اس واقعہ کو پیپلز پارٹی بلوچستان نے فرنٹیئر کور کی کارستانی قرار دیا ، مشیر داخلہ رحمان ملک کو باقاعدہ شکایت کی گئی کہ ایف سی نے مچھ شہر پر راکٹ فائر کئے ۔ بہر حال مذکورہ سی ڈی کے بعد وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی پر یہ بات عیاں ہوچکی ہوگی کہ بی ایل اے کون ہے اور ان کا دائرہ اثر کہاں تک ہے چنانچہ ممبئی اور کراچی کے حالیہ واقعات کے بعد حکومت کو اس جانب فوری توجہ دینی ہوگی تاکہ خارجی قوتیں اپنے ناپاک عزائم میں سرخرو نہ ہوں اور طالبانائزیشن کا خوف دراصل امریکہ اور بھارت کی ایماء پر پھیلایا گیا ہے ۔
 
Top