کرامت علی شہیدی : عمربھر عشق کے آزار نے سونے نہ دیا

عمر بھر عشق کے آزار نے سونے نہ دیا
ہائے ہائے دلِ بیمار نے سونے نہ دیا
نالہ کش ایک رہا ایک کراہتا صبح
جان ریش و دلِ افگار نے سونے نہ دیا
خواب میں شکل دکھاتا وہ مقرر مجھ کو
شوق کے طالع بیدار نے سونے نہ دیا
عیش کی شب بھی مِرے بخت کو آجاتی نیند
اُسکی پازیب کی جھنکار نے سونے نہ دیا
میرے مرقد پہ کہا کِس نے قیامت ہے قریب
یاد آکر تِری رفتار نے سونے نہ دیا
رت جگے ہوتے رہے ہیں کہ بڑھے غم کی عمر
ایک شب دردِ دلِ زار نے سونے نہ دیا
میں نے سونے نہ دیا شام سے اُس کوشبِ وصل
صبح تک ضد سے مجھے یار نے سونے نہ دیا
نیشِ غم نے رگِ مژگاں سے نکالا یہ لہو
مجھ کو راتوں مِرے غمخوار نے سونے نہ دیا
میکشو سرخ ہیں آنکھیں جو تمھاری شاید
شب تمھیں ساقیِ سرشارنے سونے نہ دیا
خوف تھا اُس کو شہیؔدی تِری بد مستی کا
شب جو ہم بِرہوں کو عیّار نے سونے نہ دیا
 
Top