کتاب سادہ رہےگی کب تک - مرتضیٰ برلاس

نیلم

محفلین
کتاب سادہ رہے گی کب تک؟؟
کبھی تو آغاز باب ہو گا۔۔۔
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی،،
کبھی تو انکا حساب ہوگا۔۔۔۔
سحر کی خوشیاں منانے والو۔۔
سحر کے تیور بتا رہے ہیں۔۔۔
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی،،
کہ سانس لینا عذاب ہو گا۔۔۔۔۔
وہ دن گیا جب کہ ہر ستم کو،،
ادائے محبوب سمجھ کے چپ تھے،،
اٹَھے گی ہم پر جو اینٹ کوئی۔۔۔
تو پتھر اسکا جواب ہو گا۔۔۔۔۔۔
سکون صحرا میں بسنے والو۔۔
ذرا رتوں کا مزاج سمجھو۔۔
جو آج کا دن سکوں سے گزرا۔۔
تو کل کا موسم خراب ہو گا۔۔۔۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
نیلم مرتضیٰ برلاس کی ایک اچھی غزل بطور انتخاب ارسال کرنے پر شکریہ۔
دو تین اغلاط کے علاوہ تم نے اس غزل کے ہر مصرعے کو دو حصوں میں توڑ ڈالا ہے۔۔۔نیز آخری شعر بھی موجود نہیں۔
مکمل غزل یوں ہے:
کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا​
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی، کبھی تو ان کا حساب ہو گا​
وہ دن گئے جب کہ ہر ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چپ تھے​
اٹھی جو اب ہم پہ اینٹ کوئی تو اس کا پتھر جواب ہو گا​
سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں​
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا عذاب ہو گا​
سکوتِ صحرا میں بسنے والو، ذرا رُتوں کا مزاج سمجھو​
جو آج کا دن سکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ہو گا​
نہیں کہ یہ صرف شاعری ہے، غزل میں تاریخِ بے حسی ہے​
جو آج شعروں میں کہہ دیا ہے، وہ کل شریکِ نصاب ہو گا​
مرتضٰی برلاس​
 

مہ جبین

محفلین
سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا محال ہو گا

بہت خوب انتخاب شیئر کرنے کے لئے نیلم اور فاتح کا شکریہ
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میری پسندیدہ غزلوں میں سے ایک

فاتح بھائی اس شعر کا قافیہ باقی اشعار سے فرق نہیں ہے؟
سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا محال ہو گا
 

فاتح

لائبریرین
میری پسندیدہ غزلوں میں سے ایک

فاتح بھائی اس شعر کا قافیہ باقی اشعار سے فرق نہیں ہے؟
سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا محال ہو گا
میری غلطی تھی۔۔۔ "عذاب" کی بجائے "محال" لکھ دیا۔
 

نیلم

محفلین
نیلم مرتضیٰ برلاس کی ایک اچھی غزل بطور انتخاب ارسال کرنے پر شکریہ۔
دو تین اغلاط کے علاوہ تم نے اس غزل کے ہر مصرعے کو دو حصوں میں توڑ ڈالا ہے۔۔۔ نیز آخری شعر بھی موجود نہیں۔
مکمل غزل یوں ہے:
کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا​
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی، کبھی تو ان کا حساب ہو گا​
وہ دن گئے جب کہ ہر ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چپ تھے​
اٹھی جو اب ہم پہ اینٹ کوئی تو اس کا پتھر جواب ہو گا​
سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں​
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا عذاب ہو گا​
سکوتِ صحرا میں بسنے والو، ذرا رُتوں کا مزاج سمجھو​
جو آج کا دن سکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ہو گا​
نہیں کہ یہ صرف شاعری ہے، غزل میں تاریخِ بے حسی ہے​
جو آج شعروں میں کہہ دیا ہے، وہ کل شریکِ نصاب ہو گا​
مرتضٰی برلاس​
بہت شکریہ بھائی:)
 

محمدخواص

محفلین
نیلم مرتضیٰ برلاس کی ایک اچھی غزل بطور انتخاب ارسال کرنے پر شکریہ۔
دو تین اغلاط کے علاوہ تم نے اس غزل کے ہر مصرعے کو دو حصوں میں توڑ ڈالا ہے۔۔۔نیز آخری شعر بھی موجود نہیں۔
مکمل غزل یوں ہے:
کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی، کبھی تو ان کا حساب ہو گا

وہ دن گئے جب کہ ہر ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چپ تھے
اٹھی جو اب ہم پہ اینٹ کوئی تو اس کا پتھر جواب ہو گا

سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا عذاب ہو گا

سکوتِ صحرا میں بسنے والو، ذرا رُتوں کا مزاج سمجھو
جو آج کا دن سکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ہو گا

نہیں کہ یہ صرف شاعری ہے، غزل میں تاریخِ بے حسی ہے
جو آج شعروں میں کہہ دیا ہے، وہ کل شریکِ نصاب ہو گا
مرتضٰی برلاس​
لاجواب بہت خوب
 
Top