کتاب:ایک تھی سارا- امرتا پریتم

نور وجدان

لائبریرین
جلتے ہوئے حروف

میں نے آسمان سے ایک تارا ٹوٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ بہت تیزی سے آسمان کے ذہن میں ایک جلتی ہوئی لکیر کھینچتا ہوا۔۔۔۔ لوگ کہتے ہیں تو سچ ہی کہتے ہوں گے کہ انہوں نے کئی بار ٹوٹے ہوئے ستاروں کی گرم راکھ زمین پر گرتے دیکھی ہے۔۔۔۔۔ میں نے بھی اس تارے کی گرم راکھ اپنے دل کے آنگن میں برستی ہوئی دیکھی ہے ۔

جس طرح اور تاروں کے نام ہوتے ہیں، اسی طرح جو تارا میں نے نونتے دیکھا اس کا بھی ایک نام تھا۔۔۔۔ سارا شگفتہ اس تارے کے ٹوٹتے وقت آسمان کے ذہن میں جو لمبی اور جلتی ہوئی لکیر کھینچ گئی تھی، وہ لکیر سارا شگفتہ کی نظم تھی۔

نظم زمین پر گری تو خدا جانے اس کے کتنے ٹکڑے ہوا میں کھو گئے۔ لیکن جو راکھ میں نے ہاتھ سے چھو کر دیکھی تھی اس میں کتنے ہی جلتے ہوئے حروف تھے جو میں نے اٹھا اٹھا کر کاغذوں پر رکھ لیے...
نہیں جانتی خدا نے ان کاغذوں کو بددعا کیوں دی ہے کہ آپ ان پر کتنے ہی جلتے ہوئے حروف رکھدیں وہ کاغذ نہیں جلتے...

جن لوگوں کے پاس احساس ہے، جلتے ہوئے حروف پڑھتے ہوئے ان کے احساس سلگنے لگتے ہیں مگر کوئی کاغذ نہیں بنتا۔ شاید یہ بددعا نہیں ہے۔ ۔ ۔ ہے بھی تو اسے بددعا نہیں کہنا چاہئے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہوتا تو خدا جانے دنیا کی کتنی کتابیں اپنے حروف کی آگ سے جل گئی ہوتیں ۔

 

نور وجدان

لائبریرین
مینا بازار

سارا کی نظم کے کچھ لفظ ہوا میں کھڑے تھے۔ ع - -ز - - -- ت کی ب ---ہ---- ق - - -س-- میں ہیں- -- اور وہ لفظ جس طرف دیکھ رہے تھے وہاں ایک بہت لمبا بازار دکھائی دے رہا تھا .....صدیوں تک لمبا۔۔۔

وہاں طرح طرح کے لوگ نظر آ رہے تھے۔ مرد بھی عورتیں بھی۔ ۔ ۔ ۔ ان کے پیرہن سے لگتا تھا کہ ہر پیرہن کی وضع قطع کڑھائی سلائی اور رنگ الگ الگ صدیوں کے ہیں......

کچھ دکانوں پر نظر گئی میں نے دیکھا ---- طرح طرح کے زیورات بھی بک رہے تھے۔ سنہرے تابوت بھی ، ریشم کے کفن بھی اور وہاں ہاتھوں کی مہندی، مانگ کا سیندور اور کناری والے گھونگھٹ بھی بک رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ اور پورے بازار میں سارا کی نظم کے ٹکڑے ہوا کی طرح لہریً لے رہے تھے۔

عزت کی بہت سی قسمیں ہیں گھونگھٹ ، تھپڑ، گندم

عزت کا سب سے چھوٹا اور سب سے بڑا حوالہ عورت ہے۔ ---

گھر سے لے کرفٹ پاتھ تک کچھ بھی ہمارا نہیں عزت ہمارے گزارے کی بات ہے۔۔۔۔ " بازار میں کبھی کبھی ایک چیخ ابھرتی تھی، لیکن پھر ایک ہنسی کی قبر میں اتر جاتی تھی۔

اور کبھی کبھی ہر آواز پر ایک سناٹا طاری ہو جاتا تھا۔ ۔ ۔ یہی سناٹء کا عالم تھا کہ سارا کی نظم کے کتنے ہی ٹکڑے میرے کانوں سے تک لگے۔

عزت کے نیزے سے ہمیں داغا جاتا ہے
عزت کی کنی ہماری زبان سے شروع ہوتی ہے
کوئی رات ہمارا نمک چکھ لے
تو ایک زندگی ہمیں بے ذائقہ روٹی کہا جاتا ہے

تم ڈر میں بچے جنتی ہو اس لئے آج تمہاری کوئی نسل نہیں تم جسم کے ایک بند سے پکاری جاتی ہو
تمہاری حیثیت میں تو چال رکھ دی گئی ہے
ایک خوبصورت چال
جھوٹی مسکراہٹ تمہارے لبوں پر تراش دی گئی ہے
تم صدیوں سے نہیں ہنسیں
تم صدیوں سے نہیں روئیں
کیا ماں ایسی ہوتی ہے کہ مقبرے کی سجاوٹ کہلوائے
تمہارا نمک کیا ہوا !

عورت تو کبھی شہید نہیں ہوئی
تم کون سی نماز پڑھ رہی ہو

تمہارے بچے آج تم سے ضد نہیں کرتے
تم سے زنا کرتے ہیں
تم کس کنبہ کی ماں ہو؟
زنا بالجبر کی؟

قید کی۔
بیٹوں کے بئے ہوئے جسم کی؟
اور اینٹوں میں چنی ہوئی بیٹیوں کی؟

بازاروں میں تمہاری بیٹیاں
اپنے لہو سے بھوک گوندھتی ہیں اور
اپنا گوشت کھاتی ہیں
اس مینا بازار سے جس سے ایک بھولی لڑکی نے ایک دن عزت کے نام پر شادی کا جوڑا اور ایک گھونگھٹ خریدا تھا سارا نے بعد میں مجھے اس لڑکی کی داستان لکھی۔ داستان لکھنے تک وہ بھولی لڑکی کچھ بچوں کی مان بن چکی تھی۔ سارا کی ماں بھی۔
ماں کے روٹی پکانے کی آواز سے میرے جسم میں بھوک شامل ہوتی گئی۔ میں نے دھرتی پر دانے بھوننے کی لے سے چلنا سیکھا۔۔ اور آگ کا رنگ میرے لباس پر رہنے لگا۔۔۔
میں زمین کچھ یوں دیکھتی کہ شاید چونی یا اکنی پاؤں، تو میں املی کو چٹخارہ سکھلاؤں باپ کی ترنگ ایک دوسری عورت نکلی اور باپ کی تو بارات نکل گئی۔۔۔ حرج صرف اتنا ہوا کہ ماں کو اکثر پریشان پانے لگی۔ وہ پگلی سمجھتی تھی پنگھٹ پر رسی جل جاتی ہے حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا ۔ زندگی تو ایک راستہ ہے ایسا راستہ کہ ہر مسافر کی کی تھکن جانی جاتی ہے
لیکن شاید ایک بات بھول رہی ہوں کہ اس پنگھٹ پر میری ماں اور میرے باپ نے اکٹھے چلنے کا عہد کیا تھا۔ اور میری ماں گھر والوں کو بتائے بغیر چپکے سے اپنے رانجھے کے ساتھ ہوچلی تھی۔۔۔
اور اب رانجھا دوسری شادی کر چکا تھا۔
اس لئے ماں کئی بار ہمیں باری باری سے دیکھتی۔۔۔
میں خاموشی سے کہتی ..... ماں ' وہ تو قیدی تھا. تیرا اصلی رانجھا تو تیرے پاس ابھی آیا ہی نہیں .....
لیکن ماں کی ماں نے صرف رکنا سیکھا تھا،اس لیے بچوں کو اپنی بھوک میں شامل کرلیا تھا...
اب اکثر چولہے میں آگ چاٹنے کے لیے کچھ نَہ ملتا اور ہمارے گھر میں آگ پیاسی ہی ہوتی چلی گئی
میں آگ سے زیادہ ماں کے آنسو گنتی اور آنکھوں کو خاموش کرتی رہتی۔ سو وہ برتن بھی بکنے لگا جن پر میرے باپ کا نام کھدا ہوا تھا۔ جو پکتا، ماں بڑے پیار سے ہمیں پلاتی اور کبھی کبھار اس عورت کو کوستی رہتی جس کو میرے باپ نے ہمارے پر برتنوں پر لاگو کر دیا تھا۔
بڑا بھائی، جسے پہلوٹھی کی آنکھ کہتے ہیں، نویں میں پڑھ رہا تھا۔ کبھی کبھار پوسٹ مین منی آرڈر دے جاتا اور جب انتظار تلاشی لینے لگتا ، ماں سوچتی ہی رہتی۔۔ ایک دن ماں دو ہرے نقاب میں چھپی گھر سے اگلی اور پھول پرونے والوں کا دکھ لے کر آگئی۔
ہم سب بہن بھائی پھول پرویا کرتے ۔ میں پھول پروتے ہوئے سوچتی۔ پھول کی تنظیم میں سوئی شامل ہوتی ہے۔ اور میں جان گئی کہ پھول کئی رنگوں میں کیوں ہوتے ہیں اور ہر جذبے ضبط کی دھجی کیوں لگتی ہے۔ پھول پرونے سے بھی پیٹ کی آگ ٹھنڈی نہ ہوتی۔

ایک روز پڑوسن نے ماں سے کہا۔ کب تک چولہا نہیں دہکے گا۔؟ میں زکوۃ کے پیسے سارے محلے سے اکٹھے کر کے لائی ہوں۔۔ ماں نے بچوں کی طرف دیکھا تو چھوٹی بہن اچانک بولی۔ امی لے لو پیسے، میرا یونیفارم بن جائے گا۔ ۔ ۔ اور پھر سارے بچوں کی فرمائشیں ۔۔ میں جو چارپائی پر اوندھی لیٹی تھی ،دیکھا تو ماں کے ہاتھ میں نوٹ تھے اور وہ عورت جا چکی تھی۔ اب ماں روٹی پکانے کی تو ہم سب بچے چولہے کے ارد گرد بیٹھ گئے اور اپنی اپنی باری کا انتظار کرنے لگے


میں ماں سے ہمیشہ آدھی روٹی اور آخری رونی مانگتی. میں آگ کو غور سے دیکھتی۔ اچھا تو یہ بھی زرد رنگ کے پھول پرو رہی ہے۔ میں اکثر منہ ہی منہ میں دعا مانگتی ۔ اللہ کرے آج پھولوں والا نہ آئے۔ -- کیونکہ میری پوروں پر سوئی سے نشان پڑ جاتے تھے۔ دعا قبول ہوئی، پھول والا نہیں آیا۔ بہن بھائیوں کے چہروں پر زرد سرخ سفید اور لال رنگ کی ہنسی تھی اور ماں شاید ہمیں دیکھ کر اپنی راتیں یاد کر رہی تھی ۔۔۔۔
میں چوہے کی خواہش اوڑھے، چپکے چپکے چوں چوں کر رہی تھی اور بھوک کی تھوتھنی انسان سے چھپی پھر رہی تھی۔۔ میں نے دیوار سے اٹکی الماری کے پٹ کھولے اور سوکھے ٹکڑے دونوں مٹھیوں میں بھر لئے۔ کٹر کٹر کی آواز سے لحاف میں دبکے میرے بہن بھائی اپنی خاموش آواز سے باہر نکلے اور مجھے روٹی کی طرح دیکھنے لگے۔ میں سارے ٹکڑے اٹھا لائی اور انسان کے بل میں روٹی رکھ دی۔ - - - " مجھے لگا ..... زرد رنگ کے پھولوں کی حیرت اس حیرت سے ملتی جلتی تھی جس کا ذکر سارا نے میرے ساتھ اپنی ملاقات میں کیا تھا


میں ماں بننے کے بعد بھی کنواری ہی رہی
اب میری ماں بھی کنواری ہوئی.....


اس "تم" لفظ میں سارا جن سے مخاطب ہوئی ۔ ۔ ۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے عزت کے نام پر مینا بازار سے سارا کے لئے گھونگھٹ خریدے اور سارا نے سب گھونگھٹ اتار دیئے۔

سارا نے دیکھا کہ پورا مینا بازار حیرت میں آگیا۔ لیکن - - - - اس وقت سارا شاید یہ نہیں جانتی تھی کہ ایک دن اس کی نظموں کو پڑھتا ہوا وقت حیرت میں آجائے گا۔

شاعری کی تاریخ میں سارا کی نظمیں ایک کنواری ماں کی حیرتیں ہیں۔۔۔

 

نور وجدان

لائبریرین
چنگاریوں کا مقدر

سارا کا پہلا خط ہو مجھے 1980ء میں ملا ،اس پر 19 ستمبر کی تاریخ تھی لکھا تھا۔۔۔

امرتا باجی! میرے تمام سورج آپ کے۔

میرے پرندوں کی شام بھی چرالی گئی ہے۔ آج دکھ بھی روٹھ گیا ہے۔ کہتے ہیں، فیصلے کبھی فاصلوں کے سپردمت کرتا۔ میں نے تو فاصلہ آج تک نہیں دیکھا۔

یہ کیسی آوازیں ہیں۔ جیسے رات جلے کپڑوں میں گھوم رہی ہیں۔
جیسے قبر پہ کوئی آنکھ رکھ گیا ہو۔۔۔۔
میں دیوار کے قریب میلوں چلی اور انسانوں سے آزاد ہو گئی۔۔
میرا نام کوئی نہیں جانتا ۔ ۔ ۔
دشمن اتنے وسیع کیوں ہو گئے

میں عورت ...... اپنے چاند میں آسمان کا پیوند کیوں لگاؤں

سنگ میل نے کس کا انتظار کیا




عورت رات میں رچ گئی ہے امرتا باجی!
آخر خدا اپنے من میں کیوں نہیں رہتا؟
آگ پورے بدن کو چھو گئی ہے
سنگ میل، میلوں چلتا ہے اور ساکت ہے۔۔
میں اپنی آگ میں ایک چاند رکھتی ہوں
اور ننگی آنکھ سے مرد کماتی ہوں
لیکن میری رات مجھ سے پہلے جاگ گئی ہے
میں آسمان بیچ کر چاند نہیں کماتی ...


.خط ہاتھ میں پکڑا رہ گیا۔ خط اردو میں تھا اور میں آسانی سے پڑھ نہیں پا رہی تھی اس لئے امروز کی مدد سے پڑھ رہی تھی۔ ۔ ۔ میں نے خط پر ہاتھ رکھ دیا ، امروز سے کہا۔ ٹھہرو اور نہیں۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ لڑکی۔ ۔ ۔ جو کہہ رہی تھی ” میں آسمان بیچ کر چاند نہیں کمائی"۔ ۔ ۔ میری رگوں میں اترنے لگی۔

یوں لگا۔ - - - آسمان فروشوں کی اس دنیا میں یہ سارا نام کی لڑکی کہاں سے آگئی؟

آگئی ہے تو اس دنیا میں کیسے جئے گی؟ چاہا اسے دل میں چھپا لوں۔۔

امروز نے آہستہ سے میرے ہاتھ کو سرکا دیا اور خط پڑھنے لگے۔

قدم قدم پر گھونگھٹ کی فرمائش ہے۔ لیکن میرے نزدیک شرم ایک اندھیرا ہے۔ "

یاد آیا - - - سارا کی ایک نظم میں ٹھیک ایسی اندھیرے کی تفصیل ہے۔ "شرم کیا ہوتی ہے عورت! شرم مَر ی ہوئی غیرت ہوتی ہے۔"

امروز خط پڑھ رہے تھے۔...... جسم کے علاوہ میں شعر بھی کہتی ہوں۔ شہوت میں مرے ہوئے لوگ مجھے داد دیتے ہیں تو میرے گناہ جل اٹھتے ہیں۔

دھوپ میں آگ لگی، کپڑے کہاں سکھاؤں، چنگاریوں کے مقدر میں آگ ضرور لگتی ہے۔۔
امرتا باجی! دل بہت اداس ہے سو آپ سے بات کرلی۔ آج کل میرے پاس دیواریں ہیں اور وقت ہے۔ ہم نے تو آپ کی محبت میں کنارے گنوا دئیے اور سمندر کی حامی بھرلی۔

موسم کی قید میں میرا لباس کیوں رہے! میں صدیوں کی ماں ہوں۔ میری رات میں داغ صرف چاند کا ہے

آنکھیں مجھے کیوں ناپتی ہیں؟ کیا انسان کے جسم میں ہی سارے راز رہ گئے؟

دعا زہر ہو جائے تو خداوند کے یہاں بیٹا ہوتا ہے، اور میرے دکھ پر خداوند نے کہا کہ میں تنہا ہوں

مٹی بولی لگاتی ہے موسم کی
.. سچ ہے کائنات کے خاتمے پر جو چیز رہ جائے گی، وہ صرف وقت ہوگا۔


میں اپنے رب کا خیال ہوں، اور مری ہوئی ہوں۔۔۔۔"

میں نے تڑپ کے خط کو ایک طرف رکھ دیا۔ اور جس طرح تڑپ کر اپنے کو کہا کرتی ہوں۔ - -

"آؤ امرتا۔ میرے پاس آؤ" - - - -
اس طرح کہا - - - - -
"آؤ سارا ۔ میرے پاس آؤ۔

اس وقت سارا کی ایک نظم کاغذ سے اتر کر میرے ذہن میں سلگنے لگی---

ابھی عورت نے صرف رونا سیکھا ہے
ابھی پیڑوں نے پھولوں کی مکاری ہی سیکھی ہے۔
ابھی کناروں نے صرف سمندروں کو لوٹنا ہی سیکھا ہے۔ عورت اپنے آنسوؤں سے وضو کر لیتی ہے۔
میرے لفظوں نے کبھی وضو نہیں کیا۔
اور رات خدا نے مجھے سلام کیا۔


اور اس وقت میرے منہ سے نکلا ---- دیکھو سارا! آج خدا سے مل کر میں تمہیں سلام کہتی ہوں۔


 
Top