فیض کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہوگی

کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے، سنتے تھے سحر ہوگی

کب جان لہو ہوگی، کب اشک گہر ہوگا
کس دن تری شنوائی اے دیدۂ تر ہوگی

کب مہکے گی فصلِ گل، کب بہکے گا میخانہ
کب صبحِ سخن ہوگی، کب شامِ نظر ہوگی

واعظ ہے نہ زاہد ہے، ناصح ہے نہ قاتل ہے
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہوگی

کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامتِ جانانہ
کب حشر معیّن ہے تجھ کو تو خبر ہوگی

فیض احمد فیض
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top