کبھی دل میں ٹیسسیں اٹھائے خموشی ۔احمدکمال حشمی

عندلیب

محفلین
کبھی دل میں ٹیسیں اٹھائے خموشی
کبھی ایسا ہے دل کو بھائے خموشی

کبھی کچھ نہ کہہ کر بھی کہتی ہے سب کچھ
پسند آتی ہے یہ ادائے خموشی

ہر اک لفظ بے معنی لگنے لگے گا
کبھی غور سے سن صدائے خموشی

خموشی بہت خوبصورت ہے لیکن
ترے لب پہ ہو تو نہ بھائے خموشی

بھری بزم میں یوں نہ خاموش بیٹھو
فسانہ کہیں بن نہ جائے خموشی

ستم گر ! بلا خوف مشقِ ستم کر
ستم سہہ کے سب چپ ہیں ، ہائے خموشی

یہ ہے بے حسی ، مصلحت ہے کہ ڈر ہے
بتا ! کیا ہے آخر بنائے خموشی

لبوں پر تبسم بھی باقی نہیں ہے
المیہ ہے ، یہ انتہائے خموشی
 
Top