کبھی تیری آنکھوں میں آنسو نہ آئیں-----برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
-----------
فعولن فعولن فعولن فعولن
-------------
کبھی تیری آنکھوں میں آنسو نہ آئیں
میں کرتا ہوں دن رات رب سے دعائیں
-------------
محبّت سی محسوس ہوتی ہے تم سے
مجھے بھا گئی ہیں یہ تیری ادائیں
------------------
تری زلف چھو کر یہ آئی ہیں شائد
معطّر سی لگتی ہیں مجھ کو ہوائیں
----------------
بنا تیرے دل پر اداسی ہے چھائی
تجھے دل سے اپنے بُھلا ہی نہ پائیں
-------------
تری زلف ایسی ہے جیسے خدا نے
سجائی ہوں سر پر ترے کچھ گھٹائیں
-------------
لگا روگ ہم کو محبّت کا تیری
اسے ہم زمانے سے کیسے چھپائیں
------------
تمنّا ہے ارشد کی ایسا کرو تم
کبھی ہم سے روٹھو ، منانے کو آئیں
-------------
 

الف عین

لائبریرین
اس غزل میں بہت کم خامیاں ہیں
کبھی تیری آنکھوں میں آنسو نہ آئیں
میں کرتا ہوں دن رات رب سے دعائیں
------------- درست

محبّت سی محسوس ہوتی ہے تم سے
مجھے بھا گئی ہیں یہ تیری ادائیں
------------------ شتر گربہ، 'تمہاری ادائیں ' درست ہو گا، 'یہ' ویسے بھی بھرتی ہے
پہلا مصرع بلکہ پورا شعر بھی یوں بہتر ہو شاید
مجھے غالباً ہو گئی تم سے الفت
جو بھانے لگی ہیں تمہاری ادائیں

تری زلف چھو کر یہ آئی ہیں شائد
معطّر سی لگتی ہیں مجھ کو ہوائیں
---------------- درست

بنا تیرے دل پر اداسی ہے چھائی
تجھے دل سے اپنے بُھلا ہی نہ پائیں
------------- دو لخت ہے. رواں بھی نہیں، اسے نکال ہی دو

تری زلف ایسی ہے جیسے خدا نے
سجائی ہوں سر پر ترے کچھ گھٹائیں
------------- ایک زلف اور گھٹائیں؟ گھٹائیں سر پر سجانا مزاحیہ اظہار لگتا ہے

لگا روگ ہم کو محبّت کا تیری
اسے ہم زمانے سے کیسے چھپائیں
------------ درست مگر کوئی خاص بات نہیں

تمنّا ہے ارشد کی ایسا کرو تم
کبھی ہم سے روٹھو ، منانے کو آئیں
... ہم منانے کو آئیں کہنا چاہ رہے ہیں نا؟ 'ہم' کے بغیر مکمل نہیں ہوتی بات، یوں کہیں
تمنا ہے ارشد کی، یوں ہو کبھی، ہم
جو تم ہم سے روٹھو، منانے کو آئیں
 
الف عین
----------
تصحیح کے بعد دوبارا
--------------
کبھی تیری آنکھوں میں آنسو نہ آئیں
میں کرتا ہوں دن رات رب سے دعائیں
-------------
مجھے غالباً ہو گئی تم سے الفت
جو بھانے لگی ہیں تمہاری ادائیں
------------
تری زلف چھو کر یہ آئی ہیں شائد
معطّر سی لگتی ہیں مجھ کو ہوائیں
-------------
ہیں زلفیں تمہاری بہت خوبصورت
یہ لگتی ہیں جیسے ہوں کالی گھٹائیں
------------
مرض عشق کا مار ڈالے نہ ہم کو
اسے ہم زمانے سے کیسے چھپائیں
--------------
تمنا ہے ارشد کی، یوں ہو کبھی، ہم
جو تم ہم سے روٹھو، منانے کو آئیں
-----------
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بس اب یہ مصرع غلط ہے
کہیں مار ڈالے نہ روگِ محبّت
روگ ہندی لفظ ہے جس کے ساتھ اضافت نہیں آتی
مرض عشق کا مار ڈالے نہ ہم کو
کیا جا سکتا ہے
 
Top