کبھی انسان بندر تھا!

سُنا تم نے بھی یہ ہوگا



کبھی انسان بندر تھا!






گُذرتے وقت نے گو اس کی



ذرا ہیئت بدل دی ہے



مگر ہیں عادتیں وہ ہی



وہ ہی فطرت ابھی تک ہے



جو خود کو عقلِ کُل سمجھے



عقل سے پیدل سواری ہے



بجائے ڈگڈگی کو جو



وہی اس کا مداری ہے



کسی کی شہہ دلانے پر



یہ جھگڑے پر اُترآئے



کرے پتلون کو گیلا



کوئی گر بندوق چلوائے



دماغ آسمان پر ہے



قلابازی زمیں پرہے



نہ کوئی اس کی مرضی ہے



نہ کوئی اس کی منشاء ہے



سمجھنا ہے اشاروں کو



اسے تماشہ کرنا ہے



جو قصہ تھا کبھی پہلے



وہی قصہ ابھی تک ہے






سُنا تم نے بھی یہ ہوگا



کبھی انسان بندر تھا!



مُجھے لگتا ہے اب تک ہے!






ندیم جاوید عُثمانی
 

پپو

محفلین
یہ تو پتہ نہیں بندر تھا یا نہیں لیکن آج کا انسان بندروں سے بڑھا ہوا ہے اپنی حرکتوں کی وجہ سے
 
Top