کانپتے ہاتھوں سے تلوار اٹھانے والے - ماجد دیوبندی

حسنیٰ خان

محفلین
کانپتے ہاتھوں سے تلوار اٹھانے والے
تیرے اجداد تھے تاریخ بنانے والے

خون مجبوروں کا ہر گام بھانے والے
کیا کہیں گے تجھے آخر یہ زمانے والے

زندہ رہنا ہے تو پھر خود کو مٹانا سیکھو
گھٹ کے مرتے ہیں سدا جان بچانے والے

کشتیاں ہم نے جلا دی ہیں بھروسے پہ تیرے
اب نہیں ہم یہاں سے لوٹ کے جانے والے

کوئ کہہ دے یہ ذرا وقت کے شیطانوں سے
خاک ہوجاتے ہیں سورج کو بجھانے والے

ہاتھ اپنے بھی گنواں بیٹھیں گے اک دن ماجد
سجدہ گاہوں کے تقدس کو مٹانے والے
 
Top